دوبئی میں چند روز کی حاضری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

رمضان المبارک کے بعد چند روز کے لیے دوبئی جانے کا اتفاق ہوا اور دوبئی کے علاوہ متحدہ عرب امارات کی دیگر امارات شارجہ‘ عجمان‘ راس الخیمۃ اور الفجیرہ میں بھی مختلف دینی وعلمی مراکز دیکھنے اور سرکردہ حضرات واحباب سے ملاقات وگفتگو کا موقع ملا۔ ہمارے پرانے دوستوں حافظ بشیر احمد چیمہ آف گکھڑ اور جناب محمد فاروق شیخ آف گوجرانوالہ نے میزبانی کی اور ان کے ساتھ مولانا مفتی عبد الرحمن اورچودھری رشید احمد چیمہ نے بھی بہت سے مقامات میں رفاقت سے نوازا۔

دوبئی کے بارے میں سنتے آ رہے تھے کہ بیروت کے بعد مغربی ثقافت کے بہت سے مظاہر نے وہاں کا رخ کر لیا ہے اور جوکچھ خانہ جنگی اور تباہی سے قبل بیروت میں ہوتا تھا وہ سب کچھ اب دوبئی میں ہونے لگا ہے۔ بعض اہم مراکز میں جا کر فی الواقع یہی تاثر ملا اور مختلف حضرات سے جس قسم کی کہانیاں سننے کو ملیں ان سے اندازہ ہوا کہ دوبئی ابھی پوری طرح بیروت بنا تو نہیں لیکن حالات کا رخ اسی جانب ہے اور عشرت وتعیش کی جو سہولتیں دوبئی کے بڑے ہوٹلوں اور تجارتی مراکز میں دی جانے لگی ہیں ان کی رفتار یہی رہی تو آج کے دوبئی کا بیس سال قبل کے بیروت سے شاید کچھ زیادہ فرق باقی نہ رہے مگر یہ سوچتے ہی ذہن کا رخ ادھر مڑ گیا کہ مشرق وسطی کا پیرس بننے کے بعد بیروت پر جو گزری ہے اور اسے مغربی کلچر کی آزادانہ نمائندگی کرنے کی جو سزا ملی ہے ‘ دوبئی کے ارباب حل وعقد کی نگاہوں سے یقیناًوہ اوجھل نہیں ہوگی اور انہوں نے اپنے اس خطہ کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور سوچ رکھا ہوگا۔ خدا کرے کہ ہمارا یہ حسن ظن صحیح ثابت ہو اور بیروت کے عروج وزوال کی شاہراہ پر تیزی سے دوڑتے چلے جانے والے دوبئی کی بریکوں پر اس کے بہی خواہوں کا کنٹرول قائم رہے۔

البتہ تصویر کے دوسرے رخ کے طور پر دوبئی میں اچھے مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔ مساجد میں نمازیوں کی رونق دیکھی‘ دینی درسگاہوں میں بچوں کو قرآن کریم اور ضروریات دین کی تعلیم حاصل کرتے دیکھا اور دعوت وارشاد کے حوالہ سے مختلف اداروں کی سرگرمیاں سننے میں آئیں جس سے خوشی ہوئی کہ ابھی توازن زیادہ نہیں بگڑا اور خیرکا پہلو اپنی کشش ایک حد تک باقی رکھے ہوئے ہے۔

سب سے زیادہ خوشی مرکز جمعۃ الماجد للثقافۃ والتراث میں جا کر ہوئی جو دوبئی کے ایک عرب شیخ اور تاجر الشیخ جمعۃ الماجد نے ذاتی خرچ سے قائم کر رکھا ہے اور ۸۷ء سے مسلسل مصروف کار ہے۔ اس مرکز میں مختلف علوم وفنون پر تین لاکھ کتابیں ذخیرہ کی گئی ہیں‘ مخطوطات ونوادر کو جمع اور محفوظ کرنے کا اہتمام ہے جس کے تحت چھ ہزار اصل مخطوطات‘ دس ہزار مخطوطات کے فوٹو اور پچاس ہزار مخطوطات کے مائیکرو فلم محفوظ کر لیے گئے ہیں۔ مرکز کے ساتھ کلیۃ الدراسات الاسلامیۃ کے نام سے تعلیمی ادارہ اور جمعیۃ بیت الخیر کے عنوان سے رفاہی ادارہ کام کر رہا ہے۔ مرکز میں ایک سو سے زائد افراد پر مشتمل عملہ کام کرتا ہے جس میں ایک بڑی تعداد مختلف علوم وفنون کے متخصصین کی ہے اور آفاق الثقافۃ والتراث کے عنوان سے ایک ضخیم اور وقیع سہ ماہی علمی مجلہ بھی شائع ہوتا ہے۔ اس مرکز میں زیادہ وقت گزارنے کی حسرت ہی رہی اور مرکز دیکھنے کے بعد سے دل مسلسل الشیخ جمعۃ الماجد حفظہ اللہ تعالی کے لیے دعاگو ہے کہ اللہ رب العزت ان کی ان علمی ودینی خدمات کو قبول فرمائیں اور عالم اسلام کے دیگر اصحاب خیر کو بھی ان کے اس ذوق کا حصہ دار بنا دیں۔ آمین یا رب العالمین

جامعہ فاروقیہ کراچی کے شہید اساتذہ

کراچی میں اہل دین ایک بار پھر دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں اور اس بار نشانہ جامعہ فاروقیہ فیصل کالونی کراچی کے مظلوم اساتذہ بنے ہیں‘ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جامعہ فاروقیہ ملک کے معروف اور مرکزی علمی اداروں میں سے ہے جس کے مہتمم وفاق المدارس العربیۃ پاکستان کے سربراہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب مدظلہ ہیں اور اس طرح ایک بار پھر اہل حق کے ایک بڑے مرکز کو دہشت گردوں نے ہدف بنایا ہے۔

یہ اساتذہ تو تعلیم وتدریس کی دنیا کے لوگ تھے جن کا ان ہنگاموں سے کوئی عملی واسطہ نہیں تھا جو فرقہ واریت یا دہشت گردی کا باعث بنتے ہیں یا انہیں اس کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ان مظلوم اساتذہ اور ان کے دیگر شہید رفقا کا اس کے سوا کوئی قصور نہیں تھا کہ وہ ایک دینی وعلمی مرکز سے وابستہ تھے اور خاموشی کے ساتھ قرآن وسنت اور دیگر دینی علوم سے نئی نسل کو آراستہ کر رہے تھے۔ ان کو نشانہ بنا کر دہشت گردوں کو اس سے زیادہ کیا حاصل ہوا ہوگا کہ ان کے مخالفانہ جذبات کو وقتی طور پر تسکین مل گئی ہوگی اور اس کارکردگی پر انہیں کہیں سے شاباش حاصل ہو گئی ہوگی لیکن انہیں اس کا اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی اس مذموم حرکت اور وحشیانہ کارروائی سے علم وتقوی کا وجود چھلنی کر دیا ہے۔

یہ لمحہ فکریہ ہے ملک کے ارباب فکر ودانش کے لیے اور اس بات کی دعوت فکر ہے کہ وہ علماء کرام اور دینی کارکنوں کے اس قتل عام کو روکنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس کے حقیقی اسباب وعوامل کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی روک تھام کے لیے کوئی مثبت اور موثر حکمت عملی اختیار کریں۔

اللہ تعالی جامعہ فاروقیہ کراچی کے ان مظلوم شہدا کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور ان کے پس ماندگان اور متوسلین کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں‘ آمین یا رب العالمین۔

(فروری ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter