اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات

ادارہ

اسلام آباد (خبر نگار) اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر شیر محمد زمان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جمعہ کی چھٹی کو ختم کرنے کا غلط فیصلہ واپس لیا جائے۔ مقام حیرت ہے کہ جمعۃ الوداع کی تعطیل قیام پاکستان سے لے کر میاں نواز شریف کے دوسرے دور اقتدار تک ہوتی رہی مگر حکومت نے اس زیادتی کی تلافی بھی ضروری نہیں سمجھی۔ انہوں نے یہ بات اسلامی نظریاتی کونسل کے ۱۴۱ ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ۴ جولائی ۱۹۷۷ء کے بعد نافذ ہونے والے قوانین کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ضابطہ دیوانی اور ضابطہ فوجداری کے حالیہ مفصل شق وار جائزہ کے باوجود کونسل قرآن وسنت اور اسلامی تاریخی کی روشنی میں سچے اور فوری انصاف کی فراہمی اور اسلامی قوانین کے ثمرات کو ممکن الحصول بنانے کے لیے ضابطہ مرتب کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہاپاکستان میں نافذ ہونے والے قوانین حدود وقصاص ودیت پر مختلف حلقوں کے اعتراضات اور مبینہ بد عنوانیوں اور خواتین سے مبینہ امتیازی سلوک کی شکایات پر ایک کمیٹی ان کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کونسل کے اخراجات ۹۷۔۱۹۹۶ء کی نسبت ایک تہائی رہ گئے لہذا پری آڈٹ کا وہی نظام کونسل میں رائج ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر شیر محمد زمان نے کہا کہ کونسل کی سفارشات کے عملی نفاذ کے لیے ایک لائحہ عمل وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کونسل پہلے بھی یہ پیش کش کر چکی ہے کہ آئندہ قانون سازی میں قرآن وسنت سے متعارض کوئی عنصر شامل نہ کرنے کو یقینی بنانے کے لیے آرٹیکل (۱) ۲۲۷ کے تحت یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ ہر بل مقننہ کے سامنے پیش ہوتے ہی متعلقہ مجلس قائمہ کے ساتھ ساتھ کونسل کو بھی بھجوا دیا جائے تاکہ اسلامی نقطہ نظر سے اس کے بارے میں کونسل کی رائے بھی ایوان کے سامنے آ جائے۔ لیکن ہماری اس تجویز پر باضابطہ توجہ نہیں دی گئی اگرچہ بعض بل کونسل کو بھجوائے گئے۔ مثلا انفساخ نکاح مسلمانان ایکٹ کا ترمیمی بل ۱۹۹۹ء، انسانی اعضاء کے عطیہ وپیوند کاری کے مجوزہ آرڈیننس ۲۰۰۰ء کا مسودہ بھی حال ہی میں کونسل کی رائے معلوم کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ ان تجاویز کو پذیرائی بخشی جائے تو قوانین کی اسلامی تشکیل کے عمل میں خاصی سہولت اور تیزی پیدا ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک مختلف علوم وفنون کے نصاب کو اسلامی تعلیمات وفلسفہ حیات اور پچھلی چودہ صدیوں میں مسلم مفکرین کی فکر سے روشناس کرانے کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔ کونسل نے اپنے مخصوص دائرہ کار کی ترجیحات کے پیش نظر تدریس قانون کے سہ سالہ نصاب کی اسلامی تشکیل پر بھرپور توجہ دی ہے۔ پاکستان میں قانون کی تمام درسگاہوں کے فلسفہ ومقاصد میں ایسے انقلاب کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ۲۴ پرچوں کے مفصل نصاب پر مشتمل ہمارا تجویز کردہ سہ سالہ نصاب برائے لاء کالجز فوری طور پر نافذ کیا جائے۔ یہ صورت حال ہرگز قابل قبول نہیں کہ ہمارے لاء کالجز سے ایسے قانون دان فارغ ہو کر نکلیں جو عربی زبان کی شد بد بھی نہ رکھتے ہوں اور اسلامی قوانین سے نابلد ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ معاشرتی سطح پر خواتین کے حقوق کا تحفظ ہماری ترجیحات میں سرفہرست ہونا چاہئے اور ہمیں اپنے پورے وسائل بروئے کار لا کر اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ اسلام نے ہماری خواتین کو جو حقوق عطا کیے ہیں انہیں غصب کرنے کے تمام راستے مسدود کر دیے جائیں۔ اسلام کسی بھی معاملے میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا اور قتل کو قتل تصور کرتا ہے اگرچہ اسلامی آداب معاشرت ،احترام والدین، حیا داری وعزت نفس کی قدریں بھی ہمارا سرمایہ حیات ہیں۔ سوشل ورک، بالخصوص خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو اگر صحیح معنوں میں خلوص نیت کے ساتھ کسی طرح کے مفاد، لالچ یا کسی طرح کی بیرونی تحریک یا دباؤ کے بغیر خواتین کے حقوق کی بحالی مقصود ہے تو ان اداروں میں کام کرنے والی خواتین خود کو اسلامی حقوق کی بحالی کے لیے وقف کر دیں۔

سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی کی سربراہی میں قائم ہونے والی ٹاسک فورس پچھلے سات آٹھ مہینوں سے امتناع ربا آرڈیننس کے مسودہ کی تیاری اور اس کے عملی مضمرات پر نہایت احتیاط، فکری گہرائی اور جزئیاتی تفاصیل کے ساتھ غور کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوانین وضوابط سے یہ نظام وجود میں نہیں آئے گا۔ ہم سب کو اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے دائرہ کار میں دیانت وامانت کا وہ مفہوم سختی کے ساتھ اپنانا ہوگا جو ہمارے سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کی مبارک تعلیمات پر مشتمل ہے۔ اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ حکومتی اقدامات سے بھی یہ واضح ہو نا چاہئے کہ ہم اجتماعی طور پر اس سفر کا آغاز کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومت نے بیرون ملک متوطن پاکستانیوں کے پاکستان میں فارن ایکس چینج اکاؤنٹ منجمد کر کے اصول دیانت کی خلاف ورزی کے ساتھ ان کے اعتماد کو ناقابل تلافی صدمہ پہنچایا۔ موجودہ حکومت بہرحال اس حکومت کی جانشین اور اس کی ذمہ داریوں کی وارث ہے لہذا ہمیں کسی تحفظ یا ہچکچاہٹ کے بغیر اس دھاندلی پر غیر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں سے غیر مشروط معافی مانگنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی اور پاکستانی ثقافت کے احیا اور اس کی ترویج وسرپرستی کے حوالے سے ہمارے ذرائع ابلاغ برابر ایک منفی کردار ادا کر رہے ہیں اور سرکاری الیکٹرانک میڈیا اس کردار میں پیش پیش ہے۔ خود انحصاری کے نام پر، غیر ملکی ٹی وی چینلز سے مقابلہ کی آڑ میں لباس، چال ڈھال، رہن سہن، گفتگواور معاشرتی رویوں کے ایسے ماڈل ٹیلی ویژن پر ڈراموں، کلچرل شوز، موسیقی کے پروگراموں اور سب سے بڑھ کر اشتہارات کے ذریعہ سے پیش کیے جا رہے ہیں جو ہماری اخلاقی اقدار اور معاشرتی آداب کے تقدس کو تہس نہس کرنے کے ساتھ ان منفی رویوں کو دلکشی کے ساتھ پیش کر کے گمراہی، احساس محرومی اور جرائم کے ارتکاب کی آبیاری کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی اصلاح بالخصوص سرکاری ذرائع ابلاغ کی اصلاح ایک ایسا پروگرام ہے جو کسی بھاری بجٹ کا متقاضی نہیں۔ اس کے لیے صرف سوچ درست کرنے اور عزم صمیم کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا بلاشبہ اسلام میں ہفتہ میں ایک دن کی لازمی چھٹی کا کوئی تصور نہیں مگر ہفتہ وار چھٹی کے لیے دن کا تعین ناگزیر ہو تو اسلامی ریاست میں جمعہ کو فیصلہ کن ترجیح حاصل ہے۔ بہرکیف قومی یکجہتی اور مسلم معاشرہ کے شعار کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ جمعہ کی چھٹی کو ختم کرنے کا غلط فیصلہ واپس لیا جائے۔

(مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی، ۱۰ جنوری ۲۰۰۱ء)

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(فروری ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter