بسنت منانے والے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ جب موسم سرما رخصت ہوتا ہے اور بہا ر کی آمد آمد ہوتی ہے تو یہ تہوار منایا جاتا ہے جبکہ تاریخی حقائق اس کے خلاف ہیں۔
سکھ مورخ ڈاکٹر بی ایس نجار نے اپنی کتاب پنجاب میں آخری مغل دور حکومت میں لکھا ہے کہ ۱۷۰۷ء تا ۱۷۵۹ء زکریاخان پنجاب کا گورنر تھا۔ حقیقت رائے سیالکوٹ کے ایک کھتری باکھ مل پوری کا بیٹا تھا۔ اس نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ اس جرم پر حقیقت رائے کو قاضی وقت نے موت کی سزا دی۔ اس واقعہ سے غیر مسلم آبادی کو شدید دھچکا لگا اور بڑے بڑے ہندو مہاشے اور سرکردہ لوگ زکریا خان گورنر کے پاس گئے کہ حقیقت رائے کی سزا ئے موت معاف کر دی جائے لیکن زکریا خان نے ان کی سفارش ماننے سے انکار کر دیا اور ۱۷۴۷ء میں اسے موت کی سزا دے دی گئی۔
ہندوؤں کے نزدیک حقیقت رائے نے ہندو دھرم کے لیے قربانی دی۔ اس لیے انہوں نے پیلی (بسنتی) پگڑیاں اور ان کی عورتوں نے پیلی ساڑھیاں پہنیں اور اس کی مڑھی پر پیلا رنگ بکھیر دیا۔ بعد میں ایک ہندو کالو رام نے اس مڑھی پر ایک مندر تعمیر کروایا۔ جس دن حقیقت رائے کو موت کی سزا دی گئی اس دن کو پیلے رنگ کی نسبت سے بسنت کا نام دیا گیا۔ اس دن ملحقہ میدان میں پتنگ بازی بھی ہوئی اور حقیقت رائے کی یاد تازہ رکھنے کے لیے یہ بسنت ہندو تہوار کے طور پر ہر سال منانے کا سلسلہ قائم ہوا جو بھارت میں تو معمولی انداز میں منایا جاتا ہے اور یہاں بڑی دھوم دھام سے پتنگ بازی اور دیگر ہر قسم کی لغویات اور بے ہودگی کا مظاہرہ کئی کئی دن تک شب وروز کیا جاتا ہے جس میں ہمارے ذرائع ابلاغ بھرپور رنگینی اور فحاشی کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
حقیقت رائے کی یہ مڑھی کوٹ خواجہ سعید (کھوجے شاہ / گھوڑے شاہ) لاہور میں ہے۔ اب یہ جگہ باغبان پورہ میں باوے دی مڑھی کے نام سے مشہور ہے اور اسی علاقہ کے قبرستان میں موجود ہے۔ ہندو سکھ زائرین بسنت کے موقع پر اب تک باوے دی مڑھی پر حاضری دیتے اور منتیں مانتے ہیں۔ شاید ان میں بسنت منانے والے مسلمان بھی ہوں۔ اس لیے بسنت موسمی تہوار نہیں ہے بلکہ ہندو اسے یادگار حقیقت رائے کے طور پرمناتے ہیں اور یہ خالصتا ہندوانہ تہوار ہے لیکن مسلمانوں کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ ایک گستاخ رسول کی یاد میں منائے جانے والے تہوار پر لاکھوں روپیہ لٹا کر اور جانی نقصان اٹھا کر وہ ہر سال اس منحوس رسم کی آبیاری کرتے ہیں۔