اسوۂ نبویؐ کی جامعیت

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

دیگر انبیاء کرام علیہم السلام میں سے ہر ایک کی زندگی خاص خاص اوصاف میں نمونہ اور اسوہ تھی، مگر سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اعلیٰ و ارفع زندگی تمام اوصاف و اصناف میں ایک جامع زندگی ہے۔ آپؐ کی سیرت مکمل اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ ایک مکمل ضابطۂ حیات اور دستور ہے۔ اس کے بعد اصولی طور پر کسی اور چیز کی سرے سے کوئی حاجت ہی باقی نہیں رہ جاتی اور نہ کسی اور نظام اور قانون کی ضرورت ہی محسوس ہو سکتی ہے ؎

سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

اگر آپ بادشاہ اور سربراہِ مملکت ہیں تو شاہِ عرب اور فرماں روائے عالم کی زندگی آپ کے لیے نمونہ ہے۔ اگر آپ فقیر و محتاج ہیں تو کمبلی والے کی زندگی آپ کے لیے اسوۂ حسنہ ہے جنہوں نے کبھی دقل (ردی قسم کی کھجوریں) بھی پیٹ بھر کر نہ کھائیں، اور جن کے چولہے میں بسا اوقات دو دو ماہ تک آگ نہیں جلائی جاتی تھی۔ اگر آپ سپہ سالار اور فاتحِ مُلک ہیں تو بدر و حنین کے سپہ سالار اور فاتحِ مکہ کی زندگی آپ کے لیے بہترین سبق ہے، جس نے عفو و کرم کے دریا بہا دیے تھے اور ’’لا تثریب علیکم الیوم‘‘ کا خوش آئند اعلان فرما کر تمام مجرموں کو آنِ واحد میں معافی کا پروانہ دے کر بخش دیا تھا۔ اگر آپ قیدی ہیں تو شعبِ ابی طالب کے زندانی کی حیات آپ کے لیے درسِ عبرت ہے۔ اگر آپ تارکِ دنیا ہیں تو غارِ حرا کے گوشہ نشین کی خلوت آپ کے لیے قابلِ تقلیدِ عمل ہے۔ اگر آپ چرواہے ہیں تو مقامِ اجیاد میں آپ کو چند قراریط (ٹکوں) پر اہلِ مکہ کی بکریاں چراتے دیکھ کر تسکینِ قلب حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ معمار ہیں تو مسجدِ نبویؐ کے معمار کو دیکھ کر ان کی اقتدا کر کے خوشی محسوس کر سکتے ہیں۔ اگر آپ مزدور ہیں تو خندق کے موقع پر اس بزرگ ہستی کو پھاوڑا لے کر مزدوروں کی صف میں دیکھ کر، اور مسجد نبویؐ کے لیے بھاری بھر کم وزنی پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے ہوئے دیکھ کر قلبی راحت حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ مجرد ہیں تو اس پچیس سالہ نوجوان کی پاکدامن اور عفت مآب زندگی کی پیروی کر کے سرورِ قلب حاصل کر سکتے ہیں جس کو کبھی کسی بدترین دشمن نے بھی داغدار نہیں کیا اور نہ کبھی اس کی جرأت کی ہے۔ اگر عیال دار ہیں تو آپ متعدد ازواجِ مطہرات کے شوہر کو ’’انا خیرکم لاھلی‘‘ فرماتے ہوئے سن کر جذبۂ اتباع پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر آپ یتیم ہیں تو حضرت آمنہؓ کے لعل کو یتیمانہ زندگی بسر کرتے دیکھ کر آپؐ کی پیروی اور تاسی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ ماں باپ کے اکیلے بیٹے ہیں اور بہنوں اور بھائیوں کے تعاون و تناصر سے محروم ہیں تو حضرت عبد اللہؒ کے اکلوتے بیٹے کو دیکھ کر اشک شوئی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ باپ ہیں تو حضرت زینبؓ، رقیہؓ، ام کلثومؓ، قاسمؓ اور ابراہیمؓ کے شفیق و مہربان باپ کو ملاحظہ کر کے پدرانہ شفقت پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ تاجر ہیں تو حضرت خدیجہؓ کے تجارتی کاروبار میں آپ کو دیانتدارانہ سعی کرتے ہوئے معائنہ کر سکتے ہیں۔ اگر آپ عابد شب خیز ہیں تو اسوۂ حسنہ کے مالک کے متورم قدموں کو دیکھ کر اور ’’افلا یکون عبداً شکورا‘‘ فرماتے ہوئے آپؐ کی اطاعت کا ذریعۂ قُربِ خداوندی اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر آپ مسافر ہیں تو خیبر و تبوک وغیرہ کے مسافر کے حالات پڑھ کر طمانیت قلب کا وافر سامان مہیا کر سکتے ہیں۔ اگر آپ امام اور قاضی ہیں تو مسجدِ نبوی کے بلند رتبہ امام اور فصلِ خصومات کے بے باک اور منصفِ مدنی کو بلا امتیاز قریب و بعید اور بغیر تفریقِ قوی و ضعیف فیصلہ صادر فرماتے ہوئے مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اور اگر آپ قوم کے خطیب ہیں تو خطیبِ اعظم کو منبر پر جلوہ افروز ہو کر بلیغ اور مؤثر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے غافل قوم کو ’’انا نذیر العریان‘‘ فرما کر بیدار کرتے ہوئے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

الغرض زندگی کا کوئی قابلِ قدر اور مستحقِ توجہ پہلو اور گوشہ ایسا باقی نہیں رہ جاتا جس میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی معصوم اور قابلِ اقتدا زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ، عمدہ ترین اسوہ، اور اعلیٰ ترین معیار نہ بنتی ہو۔

سیرت و تاریخ

(ستمبر ۲۰۰۰ء)

ستمبر ۲۰۰۰ء

جلد ۱۱ ۔ شمارہ ۹

تلاش

Flag Counter