دینی مدارس کو درپیش چیلنجز کے موضوع پر ایک اہم سیمینار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اسلام آباد نے ۳ اگست ۲۰۰۰ء کو ’’دینی مدارس اور درپیش چیلنجز‘‘ کے عنوان سے ایک مجلس مذاکرہ کا اہتمام کیا جس میں ملک کے منتخب ارباب علم و دانش نے شرکت کی اور دینی مدارس کے حوالہ سے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا۔ مجلس مذاکرہ کی تین نشستیں ہوئیں۔ پہلی نشست کی صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ایس ایم زمان، دوسری نشست کی صدارت قومی اسمبلی کے سابق رکن مولانا گوہر رحمان اور تیسری نشست کی صدارت نیشنل سکیورٹی کونسل کے رکن ڈاکٹر محمود احمد غازی نے کی۔ مجلس مذاکرہ کی کارروائی مجموعی طور پر تقریباً سات گھنٹے جاری رہی اور اس میں مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کرنے والوں میں پروفیسر خورشید احمد، مولانا عبد المالک خان، ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی، ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی، پروفیسر افتخار احمد بھٹہ، ڈاکٹر محمد میاں صدیقی، مولانا محمد صدیق ہزاروی، مولانا محمد حنیف جالندھری، سید ریاض حسین نقوی، جناب خالد رحمان، ڈاکٹر ممتاز احمد اور مولانا سید معروف شاہ شیرازی بطور خاص قابل ذکر ہیں جبکہ ڈاکٹر خالد علوی اور پروفیسر یاسین ظفر کے مضامین پڑھ کر سنائے گئے۔ دیگر شرکاء میں ڈربن یونیورسٹی (جنوبی افریقہ) کے شعبہ اسلامیات کے سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سید سلمان ندوی نمایاں تھے جوتحریک پاکستان کے عظیم راہنما حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کے فرزند ہیں۔

مجلس مذاکرہ میں راقم الحروف کو بھی اظہار خیال کی دعوت دی گئی اور میں نے ’’دینی نظام تعلیم: اصلاح احوال کی ضرورت اور حکمت عملی‘‘ کے عنوان سے اپنی گزارشات تحریری صورت میں پیش کیں جو قارئین اسی کالم میں ملاحظہ کر چکے ہیں۔ ان معروضات کو کم و بیش سب شرکاء نے پسند کیا اور پروفیسر خورشید احمد نے اعلان کیا کہ ان گزارشات کو مجلس مذاکرہ کی مجموعی سفارشات کی حیثیت دی جا رہی ہے۔

مجلس مذاکرہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے مقررین نے جن خیالات کا اظہار کیا ان میں معاشرہ میں دینی تعلیم کو باقی رکھنے اور اسلامی علوم و روایات کے تحفظ میں دینی مدارس کے کردار کا اعتراف نمایاں تھا، اور دینی مدارس کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے بھی سب حضرات کے جذبات یکساں تھے۔ البتہ آزادانہ کردار اور خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے دینی مدارس کے نظام و نصاب میں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق اصلاح و ترمیم کی ضرورت کی طرف اکثر حضرات نے توجہ دلائی اور دینی مدارس کے وفاقوں پر زور دیا کہ وہ اس ضرورت کا احساس کریں اور دینی مدارس کے معاشرتی کردار کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے بہی خواہ اور مخلص حلقوں کی طرف سے پیش کی جانے والی سفارشات و تجاویز کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں۔

بعض اربابِ دانش نے اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی کہ ملک کے نظام کو چلانے اور صالح رجال کار فراہم کرنے کے لیے دینی مدارس پر جو زور دیا جا رہا ہے اس کی اصل ذمہ داری تو ریاستی نظام تعلیم پر عائد ہوتی ہے۔ جبکہ نصف صدی گزر جانے کے باوجود ریاستی نظام تعلیم میں کوئی بامقصد تبدیلی سامنے نہیں آئی اور ملک کے ریاستی نظام تعلیم کے ارباب حل و عقد سرے سے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کر رہے۔ بلکہ اگر ملک کے مروجہ ریاستی نظام تعلیم میں اسلامی مقاصد اور ضروریات کو شامل کرنے کی طرف کسی جانب سے توجہ دلائی جاتی ہے تو اسے یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین جناب ڈاکٹر ایس ایم زمان کا یہ انکشاف بطور خاص قابل توجہ ہے کہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل لاء گریجویٹس کے لیے ایل ایل بی کے نصاب میں اسلامی قوانین کے اضافہ کے ساتھ نصاب کا دورانیہ دو سال کی بجائے تین سال کر دینے کی تجویز پیش کی، مگر ان سفارشات کا جائزہ لینے والی کمیٹی نے جس میں متعدد لاء کالجز کے پرنسپل حضرات بھی شامل تھے کورس کا دورانیہ دو سال سے تین سال کرنے کی تجویز تو منظور کر لی مگر اسلامی قوانین کے جس نصاب کو اس میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی تھی اس کا بمشکل پانچ فیصد حصہ کورس میں شامل کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک کے مروجہ نظام تعلیم کو اسلامی مقاصد و ضروریات کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اس نظام تعلیم کے کار پردازان کی دلچسپی کا عالم کیا ہے۔

چنانچہ اسی بنیاد پر مولانا گوہر رحمان نے زور دے کر یہ بات کہی کہ دینی مدارس کے نصاب میں ضروری اصلاحات سے ہمیں انکار نہیں اور ہم بتدریج ایسا کر بھی رہے ہیں لیکن اس سے بات نہیں بنے گی اور ملک کے سیاسی، انتظامی، عدالتی اور عسکری شعبوں کو دینی لحاظ سے تربیت یافتہ افراد کار مہیا کرنے کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔ بلکہ اس کے لیے ملک کے ریاستی نظام تعلیم میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور سرکاری نصاب تعلیم کو مکمل طور پر تبدیل کر کے اسے قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنا ضروری ہے کیونکہ یہ ذمہ داری بنیادی طور پر اسی نظام کی ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس نظام میں تبدیلی کی طرف تو کوئی توجہ نہیں دے رہا اور دینی مدارس کے نظام و نصاب میں تبدیلی کے لیے چاروں طرف سے شور مچایا جا رہا ہے۔

بعض مقررین نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ دینی مدارس کے طلبہ اور عصری کالجز کے طلبہ میں اجنبیت کو دور کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اس نوعیت کے پروگراموں کا اہتمام ہونا چاہیے کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ عصری کالجوں میں جا کر جدید علوم کی تعلیم حاصل کر سکیں، اور کالجوں کے فاضل نوجوانوں کو دینی مدارس میں جا کر درس نظامی کا کوئی مختصر کورس کرنے کی سہولت حاصل ہو۔ اس کے علاوہ طلبہ کے وفود کے باہمی تبادلہ، تعلیمی اداروں کے دوروں اور مشترکہ مجالس کے اہتمام کے ذریعے بھی اس سلسلہ میں مؤثر پیش رفت ہو سکتی ہے۔

مجلس مذاکرہ میں دینی مدارس کے دائرہ میں وسعت اور پھیلاؤ کا ذکر کیا گیا کہ مختلف اطراف سے مخالفت کے باوجود دینی مدارس کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور طلبہ و طالبات کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ ایک مقرر نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ریاستی نظام تعلیم اپنے مقاصد کے حوالہ سے ناکام ہو چکا ہے کیونکہ لاکھوں ڈگری یافتہ افراد بے روزگاری کا شکار ہیں اس لیے اب نوجوان ادھر سے مایوس ہو کر دینی تعلیم کی طرف آرہے ہیں تاکہ اگر دنیا کا فائدہ نہ ہو تو کم از کم دین تو ہاتھ میں رہے۔ انہوں نے کہا کہ خود ان کی زیرنگرانی ایک ہائی اسکول سے گزشتہ سال بیس طالبات نے میٹرک پاس کیا جن میں سے صرف پانچ طالبات کالج میں گئی ہیں جبکہ باقی پندرہ طالبات نے مزید تعلیم کے لیے دینی مدارس کو ترجیح دی ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کی مجلس مذاکرہ میں پاکستان میں دینی مدارس کی تعداد کے بارے میں ایک سروے رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ وفاقی وزارت تعلیم کی سروے مہم کے نتیجہ میں جو معلومات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق ملک میں دینی مدارس کی تعداد اس وقت چھ ہزار سے زیادہ ہے جن میں مجموعی طور پر ساڑھے دس لاکھ کے قریب طلبہ اور طالبات قرآن و سنت، فقہ اسلامی اور دیگر اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، دینی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے، بیرونی ممالک کے اٹھائیس ہزار کے قریب طلبہ ان مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جبکہ اساتذہ کی تعداد تیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔سروے رپورٹ کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ محکمہ تعلیم کی طرف سے ان مدارس کی امداد کے لیے جو رقم مختص کی جاتی ہے اس کا آغاز ایک لاکھ روپے سالانہ سے ہوا تھا اور اب یہ پندرہ لاکھ روپے سالانہ تک پہنچی ہے۔ اس سلسلہ میں یہ دلچسپ واقعہ بھی بتایا گیا کہ جس دور میں سید فخر امام صاحب وزیرتعلیم تھے دینی مدارس کی امداد کے لیے محکمہ تعلیم کی طرف سے دس لاکھ روپے کی منظوری دی گئی اور وزارت کے افسران کے ایک اجلاس میں وفاقی وزیرتعلیم کی طرف سے افسران پر زور دیا گیا کہ رقم کی تقسیم میں مدارس کے معیار اور کوالٹی کا لحاظ رکھا جائے۔ اس پر اجلاس میں موجود وزارت تعلیم کے ایک افسر نے وزیر تعلیم موصوف سے گزارش کی کہ جناب والا اس وقت دینی مدارس میں طلبہ کی جتنی تعداد تعلیم حاصل کر رہی ہے اس کے حساب سے محکمہ تعلیم کی عطا کردہ دس لاکھ روپے کی اس رقم کو تقسیم کیا جائے تو فی طالب علم پچیس پیسے سالانہ بنتے ہیں۔ وزیرتعلیم نے اس کا کوئی جواب نہ دیا مگر ان کا یہ اصرار قائم رہا کہ رقم تقسیم کرتے ہوئے مدارس کے معیار اور کوالٹی کا بہرحال لحاظ رکھا جائے۔

مجلس مذاکرہ میں امریکہ کی ہیمپٹن یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر ممتاز احمد بھی شریک تھے جو جنوبی ایشیا کے دینی مدارس کے بارے میں سروے کر رہے ہیں اور حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کر کے واپس آئے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں بنگلہ دیش کے دینی مدارس کے بارے میں اپنی سروے رپورٹ کا خلاصہ پیش کر کے شرکائے محفل کو چونکا دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں دینی تعلیم دینے والے مدارس کی تعداد اس وقت اٹھارہ ہزار سے زائد ہے جن میں ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ طلبہ اور طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں ساڑھے چھ ہزار مدارس وہ ہیں جو عوامی چندہ سے چلتے ہیں، ان مدارس کی تعداد بھی کم و بیش اتنی ہی ہے جنہیں حکومت کی طرف سے امداد دی جاتی ہے جو مختلف مدارج میں اخراجات کے اسی فیصد تک بھی جا پہنچتی ہے، جبکہ کچھ دینی مدارس ایسے ہیں جو صرف حکومت کے خرچہ پر قائم ہیں۔ اور اس سال بنگلہ دیش کی حکومت نے اپنے بجٹ میں دینی مدارس کے لیے جو رقم مخصوص کی ہے اس کی تعداد پانچ ارب ٹکہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمان کی حکومت نے ان دینی مدارس کو بند کرنے کا پروگرام بنایا تھا، ان مدارس پر الزام تھا کہ انہوں نے پاکستان کی حمایت کی ہے اور ان سے فارغ ہونے والے علماء بنگلہ قومیت کی بجائے اسلام کی بات کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا جس نے رپورٹ میں یہ سفارش کی کہ ان مدارس کو بند کر دیا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مجیب حکومت نے ایک عوامی سروے کا بھی اہتمام کیا جس کی رپورٹ حیران کن تھی کیونکہ اس کے مطابق ملک کے نوے فیصد عوام نے جن میں جدید پڑھے لکھے حضرات کی اکثریت تھی دینی مدارس کو بند کر دینے کی تجویز کی سختی کے ساتھ مخالفت کی تھی اور حکومت سے کہا تھا کہ وہ دینی مدارس کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہ کرے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد نے بتایا کہ اس سلسلہ میں بنگلہ دیش کے عوامی حلقوں میں یہ روایت بھی مشہور ہے کہ اسی دوران ایک روز مولانا عبد الحمید بھاشانی نے شیخ مجیب الرحمان کی گاڑی کو ایک سڑک پر جاتے ہوئے راستہ میں رکوا کر ان سے کہا کہ آپ کی بہت سی باتیں برداشت کرتا رہا ہوں اور اب بھی کر رہا ہوں مگر دینی مدارس بند کرنے کی بات برداشت نہیں کروں گا اور اگر اس سلسلہ میں کوئی قدم اٹھایا گیا تو اس کی مزاحمت کے لیے میں خود میدان میں آؤں گا۔ چنانچہ شیخ مجیب الرحمان نے دینی مدارس پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ ترک کر دیا اور بنگلہ دیش میں دینی مدارس پوری آزادی اور پہلے سے زیادہ وسعت کے ساتھ دینی خدمات میں مصروف ہیں۔

اس موقع پر پروفیسر خورشید احمد نے ترکی کے تجربہ کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ ترکی میں اتاترک کے دور میں دینی مدارس کو بالکل بند کر دیا گیا تھا اور دینی تعلیم ہر سطح پر ممنوع قرار دے دی گئی تھی جو کم و بیش پینتیس سال تک مسلسل ممنوع رہی۔ جبکہ ساٹھ کی دہائی میں وزیر اعظم عدنان میندریس شہیدؒ نے یہ پابندی اٹھا کر ابتدائی اور ثانوی سطح پر دینی تعلیم کی اجازت دے دی جس کے بعد دینی مدارس قائم ہوئے اور ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان سول اور فوج کے مختلف محکموں میں جانے لگے جس کا نتیجہ عظیم فکری اور ذہنی انقلاب کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے کہ ترکی میں اسلامی بیداری کی لہر نے پوری قومی زندگی کا احاطہ کر لیا ہے اور اسی سے پریشان ہو کر سیکولر فوج نے اب پھر ترکی کے مدارس میں قرآن و سنت کی تعلیم کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔ لیکن دینی تعلیم کا پہلا دور اپنا اثر دکھا چکا ہے اور ترکی میں اب اسلامی بیداری کو دبانا ممکن نہیں رہا۔

مجلس مذاکرہ کے اختتامی خطاب میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے رکن ڈاکٹر محمود احمد غازی نے بتایا کہ حکومت دینی مدارس کی آزادی اور خود مختاری پر یقین رکھتی ہے اور اس کا اس میں کسی قسم کی مداخلت کا پروگرام نہیں ہے۔ البتہ وہ دینی مدارس کے نظام و نصاب میں اس قسم کی ترمیم و اصلاح ضرور چاہتی ہے کہ دینی مدارس کے فضلاء آج کے دور کے تقاضوں کو سمجھیں اور ان سے ہم آہنگ ہو کر آج کے عالمی تناظر میں اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت کا فریضە سرانجام دے سکیں۔ انہوں نے کہ اکہ حکومت دینی مدارس کے نظام میں کسی قسم کا دخل دیے بغیر دینی تعلیم کا ایک مستقل بورڈ قائم کرنے اور تعلیمی کونسل تشکیل دینے کا پروگرام بنا رہی ہے جس کے ساتھ رضاکارانہ طور پر منسلک ہونے کی دینی مدارس کو دعوت دی جائے گی۔ اور اس کے ساتھ ہی حکومت بڑے شہروں میں ماڈل دارالعلوم قائم کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے جس کے لیے نصاب ترتیب دیا جا چکا ہے اور بہت جلد اس سلسلہ میں عملی پیش رفت کی جا رہی ہے۔

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(ستمبر ۲۰۰۰ء)

ستمبر ۲۰۰۰ء

جلد ۱۱ ۔ شمارہ ۹

تلاش

Flag Counter