مسجد کا احترام اور اس کے آداب

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ مشرکینِ مکہ نے عبادت کے کئی خودساختہ طریقے ایجاد کر رکھے تھے جو بذاتِ خود آدابِ مسجد کے خلاف تھے۔ مثلاً ان کے دل میں شیطان نے یہ بات ڈال دی تھی کہ جن کپڑوں میں ہم گناہ کرتے ہیں، ان کپڑوں کے ساتھ ہم بیت اللہ جیسے پاک مقام کا طواف کیسے کر سکتے ہیں؟ چنانچہ جن لوگوں کو قریشِ مکہ اپنے کپڑے عاریتاً دے دیتے تھے وہ ان کپڑوں کے ساتھ طواف کر لیتے تھے، اور باقی حاجیوں کی غالب اکثریت اپنے کپڑوں میں طواف کرنے کی بجائے بالکل برہنہ طواف کرنے کو ترجیح دیتی تھی۔ چنانچہ مرد دن کے وقت بیت اللہ کا طواف کرتے اور عورتیں رات کے وقت۔ وہ بدبخت اس شنیع فعل کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے کہتے تھے کہ ہم اس کے حکم سے ایسا کرتے ہیں۔ حالانکہ گزشتہ سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان گزر چکا ہے ان اللہ لا یامر بالفحشاء یعنی اللہ تعالیٰ تو اس بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔ ایسے عمل کو اللہ تعالیٰ یا شریعت کی طرف منسوب کرنا تو بہت بڑی زیادتی کی بات ہے۔

آدابِ مسجد

مفسرینِ کرام یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب خود حضور علیہ السلام یا آپ کا کوئی صحابیؓ بیت اللہ شریف کے پاس نماز کے لیے  کھڑا ہوتا تو مشرک لوگ دخل اندازی کے لیے سیٹی بجانا شروع کر دیتے تھے جو کہ نہایت ہی بے ادبی اور گستاخی کی بات تھی۔ مسجدوں کے آداب کے متعلق سورۃ نور میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے فی بیوت اذن اللہ ان ترفع ویذکر فیھا اسمہ اللہ تعالیٰ نے تو مساجد کو اللہ کا نام بلند رکھنے اور ان میں اس کا ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ مگر یہ لوگ وہاں سیٹی بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کو وہاں پر عبادت سے روک سکیں۔

جب بیت اللہ شریف کی عمارت حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کے ہاتھوں تکمیل کو پہنچی تو اللہ نے اپنے دونوں انبیاء سے وعدہ لیا ان طھرا بیتی للطائفین والعاکفین والرکع السجود (البقرہ) وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں، اور رکوع سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں گے۔ اس حکم میں ظاہری طہارت بھی آتی ہے کہ اللہ کا گھر ظاہری نجاست سے بالکل پاک صاف ہو، اور باطنی طہارت بھی کہ وہاں پر کفر، شرک، بے ادبی اور گستاخی کی کوئی بات نہ ہو۔ حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ اپنے گھر میں بھی جو جگہ نماز کے لیے متعین کی جائے وہ بھی مسجد کا حکم رکھتی ہے اور اس کو بھی پاک صاف رکھنا ضروری ہے۔ 

صحاح ستہ میں یہ حدیث موجود ہے کہ ایک شخص نے مسجد کے صحن میں پیشاب کر دیا، حضور علیہ السلام کے صحابہؓ اسے مارنے کے لیے دوڑے مگر آپ نے اس پر زیادتی کرنے سے منع فرمایا۔ پھر اس شخص کو اپنے پاس بلا کر بات سمجھائی کہ اللہ کے گھر اس لیے نہیں ہوتے کہ یہاں گندگی پھینکی جائے، یہ مقام تو اللہ کی عبادت، نماز اور ذکر کے لیے ہوتے ہیں۔ آپ نے بڑی نرمی سے سمجھایا پھر مسجد کو صاف کرایا۔

غرضیکہ مسجد میں تالیاں بجانا، سیٹی مارنا، دوڑنا، گندگی پھیلانا، سب آداب کے خلاف ہیں۔ اسی طرح پتنگ اڑانا، لڑائی جھگڑا کرنا، سامان بیچنا اور گمشدگی کا اعلان کرنا بھی خلافِ ادب ہے۔ حتٰی کہ مسجد میں ہتھیار برہنہ کرنے اور حدود جاری کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ مسجد کا ادب اور خاص طور پر بیت اللہ شریف کا ادب ہمیشہ ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے۔

اللہ نے فرمایا کہ مشرکین کی نماز یہ ہے کہ بیت اللہ کے نزدیک سیٹی اور تالیاں بجائیں۔ حضرت سعید ابن جبیرؓ فرماتے ہیں کہ تصدیہ سے مراد وہ آواز ہے جو ہاتھ پاؤں مارنے سے پیدا ہوتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے تالیاں بجانے سے منع فرمایا ہے۔ اور صد کا معنی روکنا بھی ہوتا ہے۔ ۶ھ میں مشرکینِ مکہ نے عمرہ کے لیے آنے والے مسلمانوں کو مکہ سے باہر ہی روک دیا تھا اور شہر میں داخل نہیں ہونے دیا تھا۔ اسی طرح مکاء کا معنی منہ میں انگلی ڈال کر آواز نکالنا یا بنی بنائی سیٹی بجانا ہے۔ مکاء اس پرندے کو بھی کہتے ہیں جو سیٹی کی سی آواز نکالتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین نے اسباب تو ایسے جمع کر رکھے ہیں کہ یہ فوری سزا کے مستحق ہیں مگر دو وجوہات سے ان پر عذاب رکا ہوا ہے: جب تک حضور علیہ السلام مکے میں موجود رہے اور جب تک مشرکین استغفار کرتے رہے ان کی سزا رکی رہی۔ پھر جب حضور علیہ السلام ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو صرف ڈیڑھ سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے مقام پر ان پر عذاب نازل فرمایا اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے انہیں ذلیل و خوار کیا۔ کفار کے ستر سرکردہ آدمی قتل ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے جنہیں فدیہ لے کر چھوڑا گیا۔ اللہ نے فرمایا فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون اب سزا کا مزا چکھو جو کہ تمہارے کفر کا بدلہ ہے۔


دین و حکمت

(ستمبر ۲۰۰۰ء)

ستمبر ۲۰۰۰ء

جلد ۱۱ ۔ شمارہ ۹

تلاش

Flag Counter