دیرپا ترقی، فطرت کے ساتھ ساتھ

شہزادہ چارلس

گزشتہ ۴۰ برس سے بی بی سی اپنے ڈائریکٹر ریٹھ (ـJohn Reith) کی یاد میں اہم موضوعات پر ریٹھ لیکچر کا اہتمام کر رہی ہے۔ اس سال دیرپا ترقی (Sustained Development)  کے موضوع پر چھ خطبے دیے گئے۔ پانچ نامور سائنسدانوں کے بعد آخری خطبہ پرنس چارلس نے دیا، اس کی اہمیت کے پیش نظر ہم اس کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)


دنیا بھر میں لاکھوں سننے والوں کی مانند میں بھی ’’دیرپا ترقی‘‘ کے بارے میں پانچ انتہائی ممتاز مقررین کی امیدوں، خدشات اور خیالات سے مستفید ہوا ہوں۔ یہ سب خیالات ان مقررین نے اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں پیش کیے ہیں۔ پانچوں تقاریر انتہائی خیال انگیز اور سوچ و فکر کی دنیا کے لیے چیلنج کا درجہ رکھتی ہیں۔ کسی نے زیربحث موضوع کے ایک پہلو پر زیادہ زور دیا اور کسی نے دوسرے پر، تاہم ان کے مابین کئی ایک امور پر اتفاقِ رائے بھی موجود ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دیرپا ترقی، بلند مقاصد کی خاطر ذاتی مفاد کا معاملہ ہے۔ دو مقررین نے تو اظہار خیال کے دوران اس اصطلاح کو استعمال کیا، جب کہ میں نہیں سمجھتا کہ بقیہ تین کو اس سے کوئی اختلاف تھا، خود میں بھی اس خیال کے ساتھ متفق ہوں۔

ذاتی مفاد ہم سب کے اندر ایک طاقتور جذبے اور محرک کے طور پر کارفرما رہتا ہے۔ اگر ہم کسی طرح اپنے آپ کو اس بات پر قائل کر لیں کہ دیرپا ترقی ہمارے اپنے مفاد میں ہے تو ہم اس کے حصول کی جانب پہلا اہم قدم اٹھا لیں گے۔ لیکن ذاتی مفاد کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ باہم متقابل صورتوں میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ سب صحیح منزل کی جانب لے جانے والی بھی ہوں، نہ ان سب میں یہ امکان پایا جاتا ہے کہ آنے والی کئی نسلوں کی کئی جہتوں پر مشتمل ضروریات اور تقاضوں سے پوری طرح عہدہ برآ ہو سکیں۔ لہٰذا مجھے یقین ہے کہ دیرپا ترقی کی طویل شاہراہ پر گامزن رہنے کے لیے ہمیں جن مشکلات کا سامنا ہے، ان سے صحیح معنوں میں نمٹنے کے جذبے کو اپنے اندر بیدار کرنے کے لیے کسی تاخیر کے بغیر زیادہ گہرائی میں اتر کر ایک اخلاقی نصب العین کو اختیار کرنا ہو گا۔ اگرچہ اس دور میں انسانی زندگی کی روحانی جہتوں کے بارے میں بات کرنا فیشن کے بہت زیادہ خلاف ہو گیا ہے، لیکن آج میں یہی کرنا چاہتا ہوں۔

یہ تصور کہ بنی نوع انسان اور خالقِ کائنات کے مابین روزِ اول سے ایک مقدس عہد چلا آ رہا ہے، جس کے تحت ہم انسانوں کو روئے ارض پر قیادت کے مقام پر فائز کیا گیا ہے، تاریخ کے ہر دور میں بیش تر مذاہب اور روحانی افکار کا اہم باب رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی، جن کے عقائد میں خالق کا کوئی وجود نہیں ملتا، اخلاقی اور روحانی بنیادوں پر یہی موقف اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ تو تھوڑے عرصے کی بات ہے کہ سائنسی عقلیات کے دھارے نے اس رہنما اصول کو اٹھا کر دور پھینک دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمیں دیرپا ترقی واقعی حاصل کرنا ہے تو پہلے عالمِ فطرت کے ساتھ، اور ایک دوسرے کے ساتھ معاملات میں روحانیت کے احساس کی بازیافت کرنا ہو گی، اور اس کی اہمیت کو دوبارہ تسلیم کرنا ہو گا۔ اگر ہم ان باتوں کو ضعیف الاعتقادی پر مبنی، یا خلافِ عقل قرار دینے کی روش پر قائم رہیں گے، اور اپنے لیے مقدس نہیں جانیں گے، تو پھر اس کائنات کی ہمارے لیے اس سے زیادہ کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ حیاتِ انسانی کے لیے امکانی طور پر دیرپا اور تباہ کن نتائج سے بھرپور ایک بہت بڑی تجربہ گاہ ہے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ روحانیت کے صحیح ادراک سے ہمیں یہ تسلیم کرنے میں مدد ملے گی کہ عالمِ فطرت کے اندر پایا جانے والا حسنِ توازن، نظم، اور ہم آہنگی، سب مل کر ہمارے عزائم کو ان حدود سے آشنا کرتے ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے دیرپا ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہا جا سکتا ہے۔ چند معاملات ایسے ہیں جن میں سائنسی عقلیات کی سطح پر بھی حدود و فطرت سے آگاہ ہوا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر

  • ہم جانتے ہیں کہ دامنِ کوہ پر یکدم بہت زیادہ بھیڑوں کو گھاس چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دینا، آخر کار بھیڑوں اور دامنِ کوہ میں سے کسی ایک یا دونوں کے لیے معکوس نتائج کا باعث ہو سکتا ہے۔
  • یا جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جراثیم کش اور اینٹی بائیوٹک ادویات کی کثرتِ استعمال سے قوتِ مدافعت کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
  • اب تو ہمیں کرہ ارض کی فضاؤں میں ضرورت سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کے مکمل اور ہولناک نتائج کا شعور بھی حاصل ہونا شروع ہو گیا ہے۔

تاہم وہ اقدامات جو حدودِ فطرت کی پامالی سے جنم لینے والے نقصانات کے تدارک کے لیے کیے جا رہے ہیں، دیرپا نتائج کے حصول کے لیے ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔ اس کے باوجود ابھی تک بہت سے حلقے یہ رائے رکھتے ہیں کہ چونکہ پودوں اور جانوروں میں مصنوعی طریقوں کے ساتھ حیاتیاتی تبدیلیاں لانے کے نقصانات ٹھوس سائنسی سطح پر سامنے نہیں آئے لہٰذا ایسے کاموں کو جاری رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

اس طرح کے اور ایسے ہی امکانی طور پر دیگر نقصان دہ حالات میں محتاط روش اختیار کرنے کو بے پناہ عوامی حمایت حاصل ہے، لیکن حکومتی سطح پر مخالفت کا سامنا ہے۔ شاید اس لیے کہ ایسے کسی امکان کو تسلیم کر لینا کمزوری کی علامت اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی خواہش تصور کیا جائے گا۔ اس کے برعکس مجھے اس بات کا یقین ہے کہ بظاہر یہ ہماری داخلی قوت اور عقل و بصیرت کا مظہر ہو گا۔

بظاہر اس امر کی سائنسی شہادت کے باوجود کہ ہم اپنے ماحولیات کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ہم صورتحال کی اصلاح کے لیے کچھ زیادہ نہیں کر رہے، لیکن جب ہمارے پاس ایسی کوئی شہادت بھی نہ ہو تو ظاہر ہے خطرات کی موجودگی کے باوجود ہم سے کچھ نہ ہو پائے گا۔ اس طرزعمل کی ایک وجہ یہ غالب رجحان بھی ہے جو حیاتِ انسانی سمیت پورے عالمِ فطرت کو ایک میکانکی عمل سے زیادہ کا درجہ نہیں دیتا ہے۔ اگرچہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں فطری الٰہیات کے ماہرین مثلاً تھامس مارگن نے عالمِ فطرت کے کامل اتحاد، نظم، بصیرت اور ڈیزائن کی جانب توجہ دلائی تھی، لیکن برٹرینڈرسل جیسے سائنسدانوں نے اس پورے تصور ہی کو نامعقول کہہ کر مسترد کر دیا۔ رسل نے لکھا:

’’میرے خیال میں یہ کائنات منتشر اجزا کا مجموعہ ہے جن میں بغیر کسی تسلسل، ہم آہنگی یا نظم کے اتھل پتھل جاری ہے۔‘‘

سر جولین ہکسلے نے Creation - A Modern Synthesis میں لکھا ہے:

’’جدید سائنس کو نظریۂ تخلیق یا خدائی رہنمائی کو مسترد کر دینا چاہیے۔‘‘

لیکن آخر کیوں؟ جیسا کہ برسٹل یونیورسٹی کے پروفیسر ایلن لٹن نے تحریر کیا ہے:

’’نظریۂ ارتقاء انسانی ذہن کا وضع کردہ وہ تصور ہے جس میں کرہ ارض پر زندگی کے وجود میں آنے اور تسلسل کے ساتھ قائم رہنے کے عمل کی توجیہ کسی خالق کے بغیر پیش کی گئی ہے۔‘‘

کائنات میں کسی رہنما ہستی کو تسلیم کرنے سے ہمارا انکار یا اس میں کوتاہی کی وجہ سے عالمِ فطرت ہمارے لیے ایسا نظام ہو گیا ہے جس میں سہولت کی خاطر تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں، یا ایک ایسی جھنجھٹ ہے جس سے بچنے کے لیے تدابیر کی جائیں، اور جس میں رونما ہونے والے واقعات کا رخ ٹیکنالوجی اور انسانی علم کی مدد سے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال لیں۔

فرٹز شمچر نے اس نقطۂ نظر میں پنہاں خطرات کا ادراک کر کے ہی یہ کہا تھا کہ:

’’سائنس دو طرح کی ہے: ایک تصرفات کی سائنس اور دوسری فہم و آگہی کی سائنس۔‘‘

ٹیکنالوجی کے اس عہد میں ہم اس حقیقت کو بڑی آسانی کے ساتھ فراموش کر چکے ہیں کہ بنی نوع انسان عالمِ فطرت کا حصہ ہے نہ کہ اس سے الگ کوئی چیز۔ اسی لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ہم جو کچھ بھی کریں وہ جوہرِ فطرت (Gain of Nature) کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہو۔ جیسا کہ ماہر اقتصادیات ہرمن ڈلی نے نشاندہی کی ہے کہ عالمِ فطرت ہی وہ ماحول ہے جو معیشت کو حدود میں رکھتا ہے، اسے برقرار رکھتا ہے اور اس کی ضروریات پورا کرتا ہے، نہ کہ اس کے مخالف۔

ان میں سے آپ کے نزدیک کون سی دلیل غالب رہے گی؟ ایک زندہ واحد دنیا، یا ایسی دنیا جو منتشر اجزا سے محض اتفاقاً وجود میں آ گئی ہے، اور اسی وجہ سے ترقی کے نام پر اس کا رخ جدھر چاہے موڑ دیا جائے تو وہ جائز ہو گا۔ میرے نزدیک اس سوال پر دیرپا ترقی کا حقیقی انحصار ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم ازسرنو اپنے اندر عالمِ فطرت کے لیے احترام کے جذبات پیدا کریں، قطع نظر اس سے کہ یہ ہمیں فائدہ مند نظر آتا ہے یا نہیں۔ فلپ شیراڈ کے الفاظ میں

’’ہمیں خدا، انسان اور کائنات کے درمیان باہمی تعلق کے بارے میں زیادہ آگاہ ہونا چاہیے۔‘‘

سب سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہمیں اس دانائی اور حکمت کا پورا احترام و لحاظ کرنا چاہیے جو عالمِ فطرت کے سارے نظام کے پس پردہ کارفرما ہے اور جو لاکھوں سال کے تجربات کی بھٹی میں کندن بنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم فطرت کے عمل کو سمجھنے کے لیے سائنس کا استعمال احتیاط سے کریں، نہ یہ کہ فطرت ہی کو بدل کر رکھ دیں، جیسا کہ جنیاتی انجینئری کے ذریعے حیاتیاتی ارتقا کے عمل کو ایک نیا روپ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ نظریہ کہ کائنات کے مختلف اجزا ضبط و توازن کے ایک پیچیدہ نظام کے ذریعے منسلک ہیں، بڑی آسانی سے یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ اب یہ غیر متعلقہ بات ہے۔ خواہ اس نظام میں بگاڑ پیدا کر کے ہم خود کو خطرے میں ڈالتے ہوں۔ چنانچہ اس عہد میں جب ہمیں یہ سبق دیا جاتا ہے کہ سائنس کے پاس ہر چیز کا جواب موجود ہے، تو جوہرِ فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چلنے کا بھلا کیا امکان ہے؟ جوہرِ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کی ایک مثال میں سمجھتا ہوں یہ ہے کہ جنیاتی انجینئری کے ذریعے فصلوں کو ترقی دینے کے لیے جو سرمایہ لگایا جا رہا ہے، اگر اس کا معمولی سا حصہ بھی زراعت کے اس روایتی نظام کو سمجھنے اور اسے مفید بنانے پر صرف کیا جائے جو آج تک وقت کی اہم تر آزمائش پر پورا اترتا ہے، تو کہیں زیادہ بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ اس بات کی تو بہت زیادہ شہادتیں سامنے آ چکی ہیں کہ متنوع فصلوں کی کاشت میں زیادہ علم اور کم کیمیائی مرکبات کے استعمال سے کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب حقیقی طور پر قابل عمل طریقے ہیں، اگرچہ یہ ان طریقوں سے دور ہیں جو اس کلچر پر مبنی ہیں جس میں بڑے پیمانے پر تجارتی استحصال کو روا رکھا جا رہا ہے۔

ہمارے ممتاز ترین سائنس دانوں کو اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ہماری دنیا میں بہت کچھ ہے جو ہم ابھی نہیں جانتے۔ ہمیں ایسی بہت سی مخلوقات کے بارے میں بھی علم نہیں جو اسی کائنات میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ جیسا کہ برطانیہ کے شاہی ماہر فلکیات سر مارٹن ریس کا کہنا ہے کہ:

’’اشیا کی پیچیدگی، نہ کہ ان کا سائز، انہیں سمجھنے میں مشکلات پیدا کرتی ہے۔‘‘

انہوں نے یہ بات ایسی مثال سے سمجھائی ہے جسے صرف ایک ماہر فلکیات ہی پیش کر سکتا ہے۔ سر مارٹن کا کہنا ہے کہ:

’’ایک تتلی سے آگہی حاصل کرنا نظامِ کائنات کو سمجھنے سے زیادہ بڑا حوصلہ شکن علمی چیلنج ہے۔‘‘

دوسرے سائنس دانوں نے، مثلاً ریچل کارسن نے بڑی وضاحت سے ہمیں یاد دلایا:

’’ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ گھاس کا ایک پتا کس طرح بنائیں؟‘‘

جب کہ سینٹ ماتھیو نے یہ اپنی بصیرت کی بنا پر کہا تھا:

’’سلیمان بھی اپنی تمام تر جاہ و حشمت کے ساتھ میدانوں میں کھلنے والے گل سوسن کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔‘‘

جب اتنی نامعلوم باتوں کا سامنا ہو تو نظامِ فطرت میں اپنے مقام کے بارے میں عجز، تحیر اور رعب کا احساس نہ ہونا مشکل ہے۔ یہ احساس قلبِ انسانی کی اس دانش سے جنم لیتا ہے جو ہم کو بعض وقت ۔۔۔ بتاتی ہے کہ ہم زندگی کے اسرار میں گرفتار ہیں، اور ضروری نہیں کہ ہر سوال کا جواب پا لیں۔ پھر شاید اس کی ضرورت بھی نہیں کہ ہر سوال کا جواب ہمیں لازماً ملے۔ قبل اس کے کہ ہم تعین کریں کہ خاص خاص حالات میں ہمیں کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟

اس حقیقت کو سترہویں صدی میں بلیس پاسکل نے یوں بیان کیا تھا:

’’یہ انسانی قلب ہے جو وجودِ خداوندی سے آشنائی کے تجربے سے گزرتا ہے نہ کہ عقل‘‘۔

تو کیا آپ کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم میں سے ہر ایک کے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں وہ وجدانی آگہی پائی جاتی ہے جس سے، اگر ہم اسے اجازت دیں، یہ قابلِ اعتماد رہنمائی ملے گی کہ ہماری سرگرمیاں کرہ ارض اور ضروریاتِ حیات کے طویل المیعاد مفاد میں ہیں یا نہیں؟ یہ آگہی، یہ قلب کی دانش، چاہے پتوں کی سرسراہٹ کی طرح دور دراز سر کی مدھم یاد سے زیادہ نہ ہو، لیکن ہمیں یہ یاد دلانے کے لیے کافی ہے کہ ہماری یہ زمین بڑی منفرد ہے اور اس کی دیکھ بھال ہمارا فرض ہے۔ دانش، ہمدردی اور رحم دلی ایسے اوصاف ہیں جن کا تجرباتی دنیا میں کوئی مقام نہیں۔ تاہم روایتی بصیرت یہ سوال ضرور اٹھاتی ہے۔ کیا ان اوصاف کو اپنائے بغیر ہم واقعی انسان ہیں؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔ سقراط سے جب دانش کی تعریف کرنے کو کہا گیا تو اس نے اپنا نتیجۂ فکر یہ پیش کیا:

’’جب آپ کو اس بات کی معرفت حاصل ہو جائے کہ آپ کچھ نہیں جانتے۔‘‘

میرے یہ کہنے کا کہ دیرپا ترقی کے حصول کے لیے ہمیں دل سے اٹھنے والی عقلِ سلیم کی جانب زیادہ متوجہ ہونا چاہیے، یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سائنسی تحقیق سے حاصل ہونے والی معلومات ہمارے لیے بنیادی اہمیت نہیں رکھتیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ میرے نزدیک تو ضرورت اس بات کی ہے کہ قلب سے اٹھنے والی فطری بصیرت اور سائنسی تجزیے پر مبنی عقلی بصیرت میں توازن پیدا کیا جائے۔ ان دونوں میں سے اگر ایک کو نظرانداز کر کے محض دوسری پر انحصار کیا گیا تو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ لہٰذا اپنے قلب و ذہن اور فطرت کے وجدانی اور عقلی، دونوں حصوں کو یکجا کر کے ہی اس مقدس عہد کا حق ادا کر سکیں گے جو خالقِ کائنات یا رب (Sustainer) نے (جیسا کہ عہدِ قدیم میں خالق کو کہا جاتا تھا) ہمیں ودیعت کیا ہے۔ جیسا کہ گرو ہارلم برنڈٹ لینڈ نے ہمیں توجہ دلائی کہ دیرپا ترقی کا تعلق محض عالمِ فطرت کے ساتھ نہیں بلکہ انسانوں کے ساتھ بھی ہے۔ اس اصول کا اطلاق ہر طرح صورتحال پر ہوتا ہے، خواہ ہم ان لاتعداد لوگوں پر نظر دوڑائیں جنہیں مناسب غذا اور صاف پانی میسر نہیں، یا وہ جو غربت زدہ ہیں اور بے روزگاری کا شکار ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ عالمگیریت اپنے جلو میں فوائد لے کر آئی ہے لیکن خطرات بھی لائی ہے۔ سر جان براؤن نے اپنے ’’نظریہ مربوط معیشت‘‘ یعنی ایسی معیشت جو اس سماجی اور ماحولیاتی حوالے کو تسلیم کرتی ہے جس کے اندر وہ روبہ عمل ہوتی ہے۔۔۔میں جس انکسار اور انسانیت کا اظہار کیا ہے، اس کے باوجود، یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ غریب ترین اور کمزور ترین عناصر ترقی سے نہ صرف بہت کم فائدہ اٹھائیں گے بلکہ اس سے بھی بدتر صورت حال سے دوچار ہو جائیں گے۔ یعنی اپنے روزگار اور کلچر دونوں سے محروم ہو جائیں گے۔

لہٰذا اگر ہم دیرپا ترقی کے بارے میں واقعی سنجیدہ ہیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آگے کی جانب بڑھنے کے لیے قدم اٹھائیں تو تاریخ کے سبق اہم ہو جاتے ہیں۔ بلاشبہ ایک ایسے عہد میں جب اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت تک کسی بھی شے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی جب تک اس پر ’’ماڈرن‘‘ ہونے کی مہر نہ لگی ہو، ماضی کے سبق کا تذکرہ کرنا بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ کیا یہ سبق ایک ایسے عہد میں سیکھے اور سکھائے جا سکتے ہیں جب علم کا اس طرح کا ذخیرہ منتقل کرنا ’’ترقی‘‘ کی راہ میں اکثر رکاوٹ گردانا جاتا ہے؟

اس میں شک نہیں کہ ہماری آنے والی نسلوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم میں ہمارے حاشیہ خیال سے بھی زیادہ مہارت حاصل ہو جائے گی۔ لیکن کیا ان کے اندر وہ بصیرت اور ضبطِ نفس بھی پیدا ہو گا جو اس مہارت کو، ہماری کامیابیوں اور ناکامیوں سے سبق حاصل کر کے، حکمت کے ساتھ استعمال کرنے کے لیے ضروری ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ نسلیں اس وقت تک اس سے محروم رہیں گی جب تک زیادہ کوشش کے ساتھ تعلیم کے لیے وہ نقطۂ نظر وضع نہیں کر لیا جاتا جس میں وجدان اور تعقل کا توازن پایا جاتا ہو۔ اس کے بغیر دیرپا ترقی کا خواب پریشان ہو کر رہ جائے گا۔ یہ محض ایسا بے معنی کھوکھلا منتر ہو جائے گا جسے مریضانہ طور پر بار بار پڑھا جائے تاکہ ہم اپنی حالت بہتر محسوس کریں۔

یقیناً ہماری سب سے بڑی ضرورت لوگوں کو تعلیم دینے میں ایسے توازن کو پیدا کرنا ہے جس میں ماضی کی عملی اور وجدانی بصیرت کو آج کی ٹیکنالوجی اور علوم کے ساتھ اس طرح ہم آہنگ کر دیا جائے کہ ایسی تعلیم کو حاصل کرنے والا انسان مرئی اور غیر مرئی دونوں دنیاؤں کے شعور سے فیضیاب ہو جائے، اور اس کی آگہی پورے کون و مکان کو اپنے احاطہ علم میں لینے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہو۔

مستقبل میں ہمیں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو اس حقیقت سے آشنا ہوں کہ

  • دیرپا ترقی محض ٹیکنالوجی کے مناسب اطلاق کا نام نہیں ہے۔
  • نہ اس چیز کا نام دیرپا ترقی ہے کہ انسانوں کا نقشہ بدل کر رکھ دیا جائے۔
  • اور نہ اس کو ترقی کہا جا سکتا ہے کہ حیاتیاتی انجینئری کے ذریعے عالمِ فطرت کو عالمگیر صنعتی ضروریات کے تحت بدلا جائے۔
  • بلکہ کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم عالمِ فطرت کے ساتھ دوبارہ منسلک ہو جائیں اور اس کی دیکھ بھال کا وہ گہرا فہم حاصل کریں جس کا طویل المیعاد بنیادوں پر ہمارا قائدانہ کردار تقاضا کرتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اپنے وسیع تر ماحول کو تباہی سے بچانے کے لیے ہمیں سیکولرازم اور روایتی مذہب کے درمیان تخریبی شگاف پر پل تعمیر کرنا ہو گا۔ اور اس کے لیے مادی اور روحانی دنیاؤں کی ایسی وحدت اور نظم کو دوبارہ دریافت کرنا ہو گا جیسا مربوط طب کی نامیاتی زراعت میں یا کسی عمارت کی تعمیر میں ہوتا ہے۔ میں وہ دن نہیں دیکھنا چاہتا جب ہمارے پوتے پوتیاں اور نواسے اٹھ کر ہم سے یہ سوال کریں کہ ہم نے اپنے قلوب کی بصیرت اور عقلی تجزیے کی دانش کی آواز کو کیوں نہیں سنا؟ ہم نے زندگی کے تنوع اور روایتی انسانی آبادیوں کے تحفظ پر زیادہ توجہ کیوں نہ دی؟ یا خلق کی رہنمائی کے حوالے سے اپنے کردار کے بارے میں زیادہ کھل کر کیوں نہیں سوچا؟ حیاتِ انسانی کے بارے میں محتاط رویے کو اختیار کرنے یا اس کے اندر توازن حاصل کرنے کا کوئی شوقیہ متبادل نہیں۔ اگر دیرپا ترقی کا حصول مقصود ہے تو واحد راہِ عمل یہی ہے۔

(بہ شکریہ ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور)




تھامس مورگن Thomas Morgan

سر جولین ہکسلے Sir Julian Huxley

فرٹز شمچر Firtz Schamacher

ہرمن ڈلی Herman Daly

فلپ شیراڈ Philip Sherrad

مارٹن ریس Martin Rees

ریچل کارسن Rachel Carson

سینٹ ماتھیو Saint Matthew

بلیس پاسکل Blaise Pascal

گرو ہارلم برنڈٹ لینڈ Gro Harlem Brundtland

سر جان براؤن Sir John brown


مشاہدات و تاثرات

(ستمبر ۲۰۰۰ء)

ستمبر ۲۰۰۰ء

جلد ۱۱ ۔ شمارہ ۹

تلاش

Flag Counter