پانی کا متوقع عالمی بحران اور استعماری منصوبے

منو بھائی

یہ عالمی بینک کی پیشین گوئی نہیں دعوٰی ہے کہ آئندہ عالمگیر جنگ پانی کے تنازع پر ہو گی اور اگر خدانخواستہ اس میں ایٹمی اسلحہ استعمال ہوا تو یہ آخری انسانی جنگ بھی ثابت ہو سکتی ہے کہ جس کو یاد رکھنے والا بھی کوئی نہیں بچے گا۔

میرے فرخ سہیل گوئندی جیسے مہربانوں اور ای میلوں اور ویب سائٹوں کے سراغ رسانوں کے فراہم کردہ حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ کرہ ارض نہایت تیزی سے زندگی کے سب سے بڑے وسیلے یعنی تازہ پانی سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ مگر یہ پانی پیاسے انسانوں اور جانداروں کی پیاس نہیں بجھا رہا۔ انسانی مصیبتوں پر پلنے والے عالمی سرمایہ داری نظام کی بھوک مٹانے کے کام آ رہا ہے، اور ساتھ ہی بھوک بھڑکانے کا سامان بھی پیدا کر رہا ہے۔ اس نظام کی کوکھ سے جنم لینے والی ملٹی نیشنل کارپوریشنیں یہ سوچ سوچ کر خوش ہو رہی ہیں کہ وہ وقت کچھ زیادہ دور نہیں ہو گا جب پینے کا پانی تیل سے بھی زیادہ قیمتی ہو جائے گا۔ اور دریاؤں، جھیلوں، ندیوں اور نالوں کی نج کاری ہو جائے گی اور انہیں محض ملٹی نیشنل کمپنیاں ہی خرید سکیں گی۔ اور پھر ضرورتمند ملکوں کے ہاتھ منہ مانگے داموں فروخت کریں گی اور لوگ دو گھونٹ پانی کے عوض اپنا سب کچھ لٹانے پر تیار ہوں گے۔ چنانچہ انہوں نے ابھی سے اس کی تیاریاں شروع کر دی ہیں جن کا آگے چل کر ذکر آئے گا۔

یہ مفروضہ بالکل غلط ہے کہ دنیا میں پانی کے بے پناہ وسائل موجود ہیں۔ درحقیقت دنیا بھر کے آبی وسائل کا ایک فیصد حصے کا نصف تازہ پانی ہے جو انسانی استعمال میں آ سکتا ہے۔ باقی پانی سمندروں کی تحویل میں، قطبین کے برف زاروں کے قبضے میں، اور کوہستانی گلیشیروں کی قید میں ہے۔ استعمال شدہ پانی کی تجدید اور حیاتِ نو صرف بارشوں کی مرہونِ منت ہے۔ مگر پانی کے استعمال کی رفتار اس کی تجدید کی رفتار سے کہیں زیادہ ہے۔ خاص طور پر پانی کے صنعتی استعمال کے بعد اس کے استعمال میں ہر بیس سال کے بعد دوگنا اضافہ ہو رہا ہے جو انسانی آبادی میں اضافے کی رفتار سے دوچند ہے۔

تازہ ترین معلومات کے مطابق اس زمین پر موجود نوے فیصد تازہ پانی گلوبل انڈسٹری، ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ، کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور زرعی صنعتوں کے لیے زیادہ سے زیادہ خام مال فراہم کرنے والی مشینی کاشت میں استعمال ہو رہا ہے، اور صرف ۱۰ فیصد تازہ پانی انسانی استعمال میں آ رہا ہے۔ دنیا کے چھ ارب انسانوں میں سے ایک ارب بدنصیبوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ ۶۵ فیصد تازہ پانی صرف مشینی کاشت پی جاتی ہے جو چھوٹی، خودکفیل، روایتی زراعت کے مقابلے میں تین گنا زیادہ پانی استعمال کرتی ہے۔ ۲۵ فیصد تازہ پانی ہائی ٹیک اور کمپیوٹر انڈسٹری میں استعمال ہوتا ہے، کیونکہ سلیکان چپس کی تیاری میں بے پناہ صاف پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جتنا تازہ پانی سلیکان چپس کو پلایا جاتا ہے اتنا اس کرہ ارض پر بسنے والے چھ ارب انسانوں کو نہیں ملتا۔

کچھ عرصہ پہلے یہی باتیں بائیں بازو کے دانشوروں کے قلم سے نکل کر سامراجی حلقوں کو تکلیف پہنچاتی تھیں مگر اب وہی باتیں خود سامراجی یونیورسٹیوں کے پروفیسر لکھ رہے ہیں کہ جو صنعتی کثافت گلوبل وارمنگ کی صورت میں دنیا میں تباہی مچا رہی ہے وہی ہوسِ زر کرہ ارض کا پانی بھی نچوڑ رہی ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ پانی کو صنعتی جنس بنانے والے صنعتی ممالک آئندہ ۲۵ سالوں میں پانی کے  صنعتی استعمال میں دوگنا اضافہ کر دیں گے، جبکہ دنیا کی دو تہائی آبادی پیاس کی شدت سے تڑپ رہی ہو گی۔ اور اقوامِ غالب کی ملٹی نیشنل کارپوریشنیں دنیا بھر کے آبی وسائل کو کمرشلائز کرنے کے لیے ان پر قبضہ کر چکی ہوں گی، اور انسانی مصائب کے ذریعے کھربوں ڈالر کمانے کا سوچ رہی ہوں گی۔ جیسے کہ انہوں نے تیل کے بحران کے دنوں میں تیل استعمال کرنے کے علاوہ اس کی کمائی کو بھی استعمال کی اور اب بھی کر رہی ہیں۔

امریکی کمپیوٹر ٹیکنالوجی محض سستی لیبر کی تلاش میں ہندوستان اور دیگر ایشیائی ملکوں کا رخ کر رہی ہے تاکہ اپنے منافعوں کی شرح برقرار رکھ سکے۔ اب اس کی کارپوریشنیں ایشیا کی ہائی ٹیک انڈسٹریز اور سلیکان ویلی کو پانی فراہم کرنے کا ٹھیکہ لینے کا پروگرام بھی بنا رہی ہیں، کہ جیسے اور جہاں سے بھی کچھ نچوڑا جا سکتا ہے نچوڑ لیا جائے۔ 

چنانچہ بہت جلد چشم زمانہ کو یہ منظر دیکھنے کو ملے گا کہ شمالی امریکہ کی جھیلوں کا پانی بحر الکاہل سے ایک بہت بڑے سپر ٹینک کی صورت میں گزر رہا ہو گا اور اس کے پیچھے ایک بہت بڑے غبارے میں جھیلوں کا پانی بھرا ہوا ہو گا، جو ایشیا میں سلیکان چپس کی تیاری میں استعمال ہونے جا رہا ہو گا، اور اس قدر مہنگا ہو گا کہ کمپیوٹر فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور خرید کر نہیں پی سکیں گے اور اپنے خشک ہوتے ہوئے جوہڑوں سے رجوع کریں گے۔ یہ باتیں مضحکہ خیز لگتی ہیں نا! مگر ان باتوں سے عالمی سرمایہ داری نظام کی ہوس زر جھلکتی ہے اور بتاتی ہے کہ اس نظام کے یہی ادارے اس کی موت کو اور زیادہ قریب لا رہے ہیں۔

امریکنائزیشن عرف گلوبلائزیشن کے خلاف میرے بعض کالم پڑھ کر بائیں بازو کے اکثر سابق انقلابی اور حال ’’این جی او آئز‘‘ دوست یہ پھبتی کستے ہیں کہ اس میدانِ عرفات میں شیطان کو کنکریاں مارنے والے تم تنہا رہ گئے ہو۔ مگر میرے خیال میں میرے ان انقلابی دوستوں نے ماسکو اور بیجنگ کو قبلہ بنا کر جو حماقت فرمائی تھی ویسی ہی غلطی انہوں نے یہ کی ہے کہ انقلابی سے اصلاحی بننے کے لیے بہت ہی غلط وقت چنا ہے۔ کیونکہ جیسے ایک خاص حد عبور کر جانے والے گناہ گاروں کے لیے توبہ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں، ویسے ہی تباہی کے کنارے پہنچ جانے والوں کے لیے اصلاح کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔ اور مغربی سامراجی نظام بھی اب وہاں پہنچ چکا ہے، اور ثبوت اس کا یہ ہے کہ ہماری این جی اوز کے ڈونرز مغربی صنعتی ملکوں کے اپنے دانشوروں نے بھی وہی کچھ کہنا اور لکھنا شروع کر دیا ہے جو ساٹھ کی دہائی میں بائیں بازو کے دانشور لکھ کر زیرعتاب آ جاتے تھے۔

یہ میں نہیں کہہ رہا خود مغربی دانشور کہہ رہے ہیں کہ مغربی صنعتی ملکوں نے گلوبلائزیشن کی آڑ میں دنیا بھر کی منڈیوں پر قبضہ جمانے کے لیے اپنی پیداواری قوت کو حد سے زیادہ بڑھاتے ہوئے کرہ ارض کو جس ظالمانہ طریقے سے کاربن ڈآئی آکسائیڈ میں لپیٹ کر گلوبل وارمنگ کے جہنم میں دھکیل دیا ہے، اور پھر مشینی کاشت، مصنوعی کھاد، کیڑے مار دوائیوں کے زہر سے گرم زرعی ملکوں کی زرخیز زمینوں کو جس بے دردی سے بانجھ بنایا، اسی ہوسناک طریقے سے پینے کے صاف اور تازہ پانی کو صنعتی استعمال میں لا کر کرہ ارض پر زندگی اور ہریالی کے مستقبل کو اور بھی زیادہ تاریک کر دیا ہے۔

دائیں بازو کے مغربی دانشور اور پروفیسر حضرات اب یہ بھی لکھتے ہیں کہ گزشتہ صدی میں دریاؤں کے بند باندھنے، ڈیم تعمیر کرنے اور نہریں کھودنے کے ذریعے پانی کے قدرتی وسائل کو بری طرح متاثر کیا گیا ہے۔ اور اب ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ، گلوبل انڈسٹریز اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں تازہ پانی کے بے دریغ استعمال نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ سرمایہ داری نظام اور سامراجیت کے اتصال سے پیدا ہونے والی اور گلوبلائزیشن کے گہوارے میں پلنے والی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے آئندہ ارادے عالمی سطح پر آبی وسائل پر قبضہ کرنے، ان کی اجارہ داریاں قائم کرنے، انہیں کرشلائز کرنے، اور ایک ملک کا پانی دوسرے ملکوں میں بیچنے اور اس کے ذریعے کھربوں ڈالر کمانے کے ہیں، اور ان کے ان ارادوں پر عملدرآمد بھی شروع ہو چکا ہے۔ اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن WTO جو کہ UNO جیسا امریکہ کا بغل بچہ ہے، پانی جیسی قدرتی نعمت کو صنعتی ملکوں کی دولت میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کرتے ہوئے پانی کو صنعتی اور تجارتی جنس قرار دے چکا ہے۔ چنانچہ اب اگر پاکستان کی حکومت چاہے تو غیر ملکی قرضے ادا کرنے کے لیے ’’نیسلے‘‘ کے ہاتھ دریائے سندھ بھی فروخت کر سکتی ہے۔ کس کے بعد ’’واپڈا‘‘ کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ذوالفقار علی خان کو کالاباغ ڈیم کے لیے پانی مذکورہ ملٹی نیشنل کارپوریشن سے خریدنا پڑے گا، یا پھر بارانِ رحمت کی امید میں آسمان کی طرف دیکھنا پڑے گا۔ وہ بھی اس صورت میں کہ کسی ملٹی نیشنل کارپوریشن نے بادلوں کا سودا نہ کر لیا ہو، اور بادلوں کو حرکت میں لانے والی ہواؤں پر اجارہ داری قائم نہ کر لی ہو۔ اندیشہ ہے کہ اس وقت تک کوئی کارپوریشن سورج کی دھوپ پر بھی قبضہ کر چکی ہو گی۔ چنانچہ پوری دنیا بھٹہ مزدوروں سے لے کر ’’پاسکو‘‘ تک اور وزارتِ خوراک و زراعت سے واپڈا تک سب آسمانوں کی بجائے ان کارپوریشنوں کا منہ دیکھنے پر مجبور ہو گی، جن کے بارے میں قرآن پاک میں آیا ہے کہ وہ زمین پر خدا بن بیٹھے اور اپنے انجام کو آواز دی۔

اوپر بتایا جا چکا ہے کہ دنیا بھر کے موجودہ آبی وسائل کے ایک فیصد حصے کا آدھا پانی انسانی استعمال کے قابل ہے۔ اس نصف فیصد صاف پانی اور تازہ پانی میں سے نوے فیصد دنیا کی بڑی صنعتوں اور مشینی کاشت میں استعمال ہوتا ہے، اور صرف دس فیصد دنیا کے پانچ ارب انسانوں کے کام آتا ہے، جبکہ ایک ارب لوگوں کو پینے کا صاف پانی نصیب نہیں ہوتا۔ اس وقت سپرپاور کے اپنے پانی کی صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کے دریاؤں کا صرف دو فیصد پانی وہاں کے ۶۳۷۵ ڈیموں سے باہر رہ گیا ہے۔ سعودی عرب میں پینے کا جو پانی رہ گیا ہے وہ صرف پچاس سالوں کے لیے ہے۔ ۴۰۱۰ ڈیموں کے ملک ہندوستان میں لوگوں کو پینے کا پانی ان کی ۲۵ فیصد کمائی خرچ کرنے کے عوض ملتا ہے۔ اس وقت جنگل کی آگ کی زد میں آئے ہوئے امریکہ کی پچاس فیصد جھیلیں خشک ہو چکی ہیں۔ میکسیکو کے دریاؤں کا سارا پانی مشینی کاشت اور صنعتی پیاس بجھاتا ہے، اور بچے کوکاکولا اور پیپسی پر گزارہ کرتے ہیں۔ زیرزمین پانی کے بہت زیادہ خارج ہو جانے کی وجہ سے بنکاک کا شہر زمین میں دھنس رہا ہے۔ انگلستان کے دریاؤں کی گہرائی ایک تہائی رہ گئی ہے۔

مغرب کے دائیں بازو کے دانشور تو یہی کہہ سکتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ تسلیم کرو کہ پانی تمام مخلوق کی زندگی ہے۔ کرہ ارض کے تمام قدرتی وسائل اس پر بسنے والوں کی مشترکہ ملکیت ہے۔ قدرت کی نعمتوں کو دولت کمانے والی جنس نہیں بنایا جا سکتا۔ پانی، ہوا، بادل، دھوپ، چاندنی پر کسی کی اجارہ داری قائم نہیں ہو سکتی۔ منڈی کی معیشت سے زیادہ اہم ضرورت کی معیشت ہے، مگر مغربی دانشور یہ نہیں بتا سکتے کہ ان کے ان مطالبات پر کون غور کرے گا اور ان سے یہ بھی کوئی نہیں پوچھے گا کہ کیا یہی وہ باتیں نہیں تھیں جو کارل مارکس نے پچھلی صدی کے ایسے ہی موسم میں کہی تھیں اور ان پر عملدرآمد کا طریقہ بھی بتایا تھا کہ لوگوں کے مطالبات بھیک کی صورت میں نہیں مانے جاتے۔

(بہ شکریہ جنگ)


حالات و مشاہدات

(ستمبر ۲۰۰۰ء)

ستمبر ۲۰۰۰ء

جلد ۱۱ ۔ شمارہ ۹

تلاش

Flag Counter