پاکستان کے لیے سیکولرازم کی حمایت کرتے ہوئے ایئرمارشل اصغر خان نے حالیہ اخباری بیان میں فرمایا ہے کہ پاکستان کے نام سے اسلام کو نکال دینا چاہیے تاکہ یہاں پر مکمل سیکولر معاشرہ قائم ہو سکے۔ واضح رہے کہ ماضی میں صدر ایوب خان نے بھی یہی ارادہ کیا تھا لیکن پھر ۱۹۶۵ء کی جنگ شروع کرتے ہوئے آپ کو کلمہ طیبہ کا ہی سہارا لینا پڑا تھا۔ چنانچہ حال ہی میں نوائے وقت کے ایک فاضل کالم نگار نے لکھا ہے کہ بنیادی طور پر اصغر خان بھی اسلام پسند ہیں اور اسی لیے آپ نے بھٹو کی ترغیب کے باوجود صرف اس لیے پیپلز پارٹی میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا کہ پارٹی کے بنیادی اصولوں میں سوشلزم کو اسلام پر فوقیت دی گئی تھی۔
ہم نے اصغر خان کی استقلال پارٹی میں تقریباً دس سالہ شمولیت کے دوران مشاہدہ کیا ہے کہ جناب اصغر خان بڑی خوبیوں کے مالک ہیں، اور آپ کی بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ دوسرے کا نقطۂ نظر بڑے صبر و تحمل سے سنتے ہیں اور بلکہ بعض اوقات قبول بھی کر لیتے ہیں، اور دوسری طرف اپنا نقطۂ نظر صاف صاف بیان کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ سیاست اقتدار تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے، اس لیے آج کل اکثر سیاستدان مقصد کے حصول کے لیے اپنے نقطۂ نظر میں خاص لچک رکھتے ہیں۔ بہت سارے واقعات میں سے صرف دو مثالیں قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کی جاتی ہیں:
جنرل ضیاء الحق کے کئی ایک فرضی میں سے ایک کی تیاری کے لیے یہاں ہماری ہمسائیگی میں رفیع بٹ کے گجرات ہاؤس میں تحریک استقلال کی انتخابی میٹنگ کے دوران ایئر مارشل کی ہدایت پر محمود علی قصوری نے بھٹو والے آخری الیکشن کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام پسندوں کے مقابلہ میں اسلام مخالف ووٹ بہت زیادہ تھے۔ اس پر اصغر خان نے فرمایا کہ اس سے صاف ظاہر ہے کہ الیکشن جیتنے کے لیے ہمیں سیکولرازم سے کام لینا ہو گا۔ بلکہ اس طرح ہمیں سارے اقلیتی ووٹ بھی مل جائیں گے۔ واضح رہے کہ اس زمانہ میں بھٹو نے مخلوط انتخاب رائج کر رکھا تھا۔ بہرحال کچھ مندوبین نے بیان کیا کہ اقلیتی ووٹ تو پیپلز پارٹی کے سکہ بند ووٹ ہیں اس لیے ہمیں ان سے زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ اسی دوران سیکولرازم کے حق میں نئی پارٹی لائن سے ناراض ہو کر علامہ احسان الٰہی ظہیر نے استقلال پارٹی کا ساتھ چھوڑ دیا۔ چند دنوں بعد پارٹی کے بانی سیکرٹری جنرل رضوی سے کرنل تصدق کے گھر میں ملاقات ہوئی تو آپ نے تجویز پیش کی کہ نئی پارٹی لائن کے خلاف اسلام پسند فارورڈ بلاک قائم کیا جائے۔ میں نے کہا کہ ہمیں فوجی ڈسپلن نے سکھایا ہے کہ کمانڈر سے اختلاف کی صورت میں بغاوت کی بجائے استعفٰی دے دینا چاہیے، لیکن ہم نے استعفٰی دیا تو پارٹی پر سیکولر گروپ مکمل قبضہ کر لے گا، اس لیے بہتر ہو گا کہ ہم لوگ پارٹی کے اندر رہتے ہوئے لادینیت کا مقابلہ کریں۔
دوسرا واقعہ یوں ہوا کہ جب روس کو افغانستان میں زبردست ناکامیوں کا سامنا تھا تو پاکستان میں جہادِ افغانستان کی حمایت کم کرنے کے لیے روس کو پاکستانی سیاستدانوں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ وہ لوگ اصغر خان کو کابل لے گئے۔ واپس آنے پر آپ نے پریس کانفرنس بلائی۔ راقم اور نوجوان صحافی ظفر حجازی پہلی صف میں بیٹھے تھے۔ اپنے خطاب میں ایئر مارشل نے فرمایا کہ کابل میں بالکل امن و امان ہے، وہاں افغانستان میں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ میں نے خود کابل کی جامع مسجد میں نہایت سکون سے نمازِ جمعہ ادا کی ہے، اور یہ صرف حکومتِ پاکستان ہے جس نے یہاں پاکستان کے اخباروں میں جعلی جنگی جنون برپا کر رکھا ہے۔ اس پر ایک یورپی صحافی نے پوچھا کہ ایئرمارشل اگر آپ کا کہنا صحیح ہے تو پھر پچاس لاکھ افغان مہاجرین آپ نے کیوں پاکستانی کیمپوں میں قید کر رکھے ہیں۔ اصغر خان نے اس کا جواب نہیں دیا۔
بہرحال اب ۱۲ اکتوبر کے انقلاب کے بعد کے کچھ حالات و واقعات کی وجہ سے بعض حلقوں کو دوبارہ امید ہو گئی ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں اب وہ سیکولرازم کے راستہ سے امریکہ کو خوش کر کے اقتدار تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہاں پر ہم کسی کی نیت پر شک نہیں کرتے، اس لیے کہ سیکولرازم کے حامی حلقوں کا خیال ہے کہ اس طرح ہم ملک کو مالی ترقی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔
یہاں پر ہمارا بنیادی اختلاف یہ ہے کہ پاکستان کے مطالبہ میں اسلامی معاشرہ قائم کرنے کی آرزو کی گئی تھی، اور اسلامی معاشرہ میں زندگی کی دوسری آسائشیں بھی حاصل ہو جائیں، جیسا کہ ماضی میں ہوا، تو یہ اللہ کی مزید نعمت ہو گی۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک صحابیؓ نے مکان میں روشندان بناتے ہوئے عرض کیا کہ اس کا مقصد مکان کو روشنی اور ہوا مہیا کرنا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم یوں کہتے کہ اذان سننے کے لیے روشندان رکھ رہا ہوں تو اس نیت کا تمہیں ثواب مل جاتا، اور ہوا اور روشنی تو رک نہیں سکتی تھی پھر بھی مہیا رہتی۔
یہاں پر بعض لوگ قائد اعظم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر میں اقلیتوں کو تحفظ دینے والے حصہ سے ثابت کرتے ہیں کہ قائد اعظم بھی سیکولرازم کے حامی تھے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بعض لوگ علامہ اقبال کے سارے کلام کے سیاق و سباق بلکہ علامہ کی ساری زندگی کو ایک طرف رکھ کر ان کے ’’خوشہ گندم‘‘ والے شعر سے ثابت کرتے ہیں کہ علامہ اقبال اصل میں کمیونسٹ تھے۔ راقم نے تحریک پاکستان کے اہم ترین آخری تین سال دلی میں گزارے ہیں۔ مسلم لیگ کے چوٹی کے لیڈروں کو قریب سے دیکھا ہے۔ قائد اعظم سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ہمیں اس میں ذرا برابر بھی شک نہیں کہ تحریکِ پاکستان کا مقصد پاکستان میں دنیا بھر کی رہنمائی کے لیے ایک مثالی اسلامی معاشرہ قائم کرنا تھا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ایک مختصر سا واقعہ بیان کرتا ہوں۔
میجر ڈاکٹر محمود احمد دلی میں شیر شاہ روڈ آفیسرز میس میں میرے ہمسایہ تھے۔ آپ علی گڑھ میں فلسفہ پڑھا رہے تھے، وہیں سے فوج کے ایجوکیشن محکمہ میں بھرتی ہو گئے۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی اور بیروت یونیورسٹیوں میں فلسفہ کے پروفیسر رہے۔ آپ اسلام کے شیدائی اور صوفی منش تھے۔ ایک روز فرمایا، قاضی! آپ کے مسلم لیگ ہائی کمان کے ساتھ روابط ہیں، میں یقین کرنا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ والے واقعی پاکستان میں اسلامی معاشرہ قائم کریں گے۔ میں ان کو سوجان سنگھ پارک میں ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کے پاس لے گیا۔ الطاف حسین نے بتایا کہ قائد اعظم تواتر سے یہی فرما رہے ہیں کہ پاکستان میں قرآن و سنت پر مبنی معاشرہ قائم کیا جائے گا، مگر میجر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر پاکستان نہ بنا تو کیا پنڈت نہرو آپ کے لیے ہندوستان میں شریعت نافذ کر دے گا۔ ارے یار پاکستان بننے تو دو۔ کچھ کمی کاہلی دیکھی تو تم خود وہاں اسلام نافذ کر لینا۔ یعنی پاکستان کے ہر شہری کا فرض ہو گا کہ وہاں ایسی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرے جو پاکستان کے بنیادی مقاصد کی تکمیل میں مخلص ہو۔
سیکولرازم کے حامیوں سے ہمارا دوسرا اختلاف یہ ہے کہ ہمارے نزدیک مذہبی وابستگی ترقی کی راہ میں ہرگز رکاوٹ نہیں بنتی۔ اسرائیل کی مثال ہم ایک سابقہ مضمون میں دے چکے ہیں۔ آج ہم امریکہ کی ایک مثال دیں گے۔
۱۹۵۵ء میں امریکہ قیام کے دوران ہم نے ایک امریکی دوست سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ کا امریکہ تو مادی ترقی کی معراج پر ہے جبکہ آپ کی ہمسائیگی میں چند ہی قدم دور گرینڈی دریا کے اس پار میکسیکو پاکستان سے بھی زیادہ پسماندہ ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ جنوبی امریکہ کا کیتھولک مذہب ان کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ میں نے حیرت سے جواب دیا کہ فرانس بھی تو کیتھولک ہے مگر امریکہ کے برابر ترقی یافتہ ہے، جبکہ اس کی ہمسائیگی میں کیتھولک ہسپانیہ میکسیکو ہی کی طرح پسماندہ ہے۔ تو امریکی دوست سوچ میں پڑ گیا اور بولا واقعی یہ مذہبی وابستگی نہیں بلکہ کاہلی اور اخلاقی پستی ہے جو معاشرہ کو پسماندہ رکھتی ہے۔
اب ہم قارئین کی دلچسپی کے لیے نہ صرف برصغیر میں بلکہ عالمِ اسلام میں مادی ترقی کے نام پر سیکولرازم کی دراندازی کا جائزہ لیتے ہیں۔
زمانہ حال میں سب سے پہلے حضرت خواجہ حسن نظامیؒ کا ۱۹۱۱ء کا سفرنامہ شام و حجاز میں سیکولرازم کی دراندازی کا دلچسپ پس منظر بیان کرتا ہے۔ خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ بیت المقدس میں ان کو شیخِ حرم ابراہیم حسن اور دوسرے عرب زعماء نے بڑے دکھ کے ساتھ بتایا کہ ہم عرب لوگ سلطان عبد الحمید ثانی سے بے پناہ محبت کرتے تھے کیونکہ سلطان اتحاد بین المسلمین کا حامی تھا، اور بالخصوص فلسطین میں یورپی اور یہودی اثر و رسوخ کا شدید مخالف تھا، اور اس لیے اسلام دشمنوں نے نوجوان ترک افسروں سے بغاوت کرا کے ۲۸ اپریل ۱۹۰۹ء میں سلطان کو معزول کر کے ملک بدر کرا دیا۔ واضح رہے کہ اس بغاوت کے بعد نوجوان باغی افسروں کے لیے Young Turks کی اصطلاح کو انگریزی زبان میں شامل کر دیا گیا۔
بہرحال شیخِ حرم نے سلطان کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے بتایا کہ سلطان نے شام و حجاز ریلوے کا منصوبہ بنایا تو بغیر قرضہ لیے محض عالمِ اسلام کی امداد اور حجاز ریلوے اسمپ جاری کر کے منصوبہ مکمل کر لیا۔ اور اس طرح ستمبر ۱۹۰۰ء میں شروع کر کے ۱۹۰۸ء مدینہ منورہ تک ریلوے سروس جاری کر دی۔ اور خود خواجہ حسن نظامی نے ۱۹۱۱ء میں اس ریلوے پر مدینہ منورہ تک سفر کیا۔ بعد میں ینگ ترکس کی پارٹی انجمن اتحاد و ترقی، جو کہ ترک نسل پرستی اور سیکولرازم کی داعی تھی، نے نئی پارلیمنٹ قائم کی جس کو عرب زعماء عربوں کی مخالف سمجھتے تھے۔ چنانچہ اس دوران ۱۰ جولائی ۱۹۱۱ء کو القدس میں انجمن اتحاد و ترقی کا اجلاس بلایا گیا جس کا مقصد غلط فہمیاں دور کر کے ترکوں اور عربوں کے درمیان صلح کرانا تھا۔ خواجہ حسن نظامی کو بھی خاص آبزرور کے طور پر شامل کیا گیا۔ وہاں استنبول سے ۳۰۰ مندوبین آئے لیکن ان میں سے چند ایک مسلمانوں کو چھوڑ کر سب نصرانی اور یہودی تھے، اس لیے عرب نمائندوں نے شمولیت سے انکار کر دیا۔ جس کی وجہ سے اجلاس کو ملتوی کرنا پڑا اور اس طرح ترکوں اور عربوں میں مزید ناراضگی پیدا ہوئی۔
بہرحال یہ تو تھے ۱۹۱۱ء کے حالات و واقعات جبکہ ترکی میں سیکولرازم کا پودا نیا نیا کاشت ہوا تھا۔ اسی دوران ۱۹۱۴ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو فرانس اور برطانیہ نے شام و فلسطین پر حملہ کر دیا اور اس طرح سیکولرازم کو برگ و بار نکالنے کا موقع فراہم ہو گیا۔
اس کے بعد ایک دوسری دلچسپ اور عجیب کہانی شروع ہوتی ہے، وہ اس طرح کہ ۱۹۷۳ء میں میرے پاس ایک کیپٹن ریٹائرڈ الطاف حسین ملازمت کی تلاش میں آئے اور اپنی قابلیت اور تجربہ کے ثبوت میں اپنا کتابچہ ’’اسلام اور جاسوسی نظام‘‘ پیش کیا۔ یہ کتابچہ اس وقت میرے سامنے ہے، پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس کا نام ’’اسلام کے خلاف جاسوسی نظام‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ مؤلف نے بتایا کہ پہلی جنگِ عظیم میں وہ ۶ النسر رسالہ میں سپاہی بھرتی تھا، وہیں سے انٹیلی جنس ٹریننگ کے بعد جاسوسی کے کام پر مامور ہوا، اور اس کا دعوٰی ہے کہ فرانس کے گاؤں Fritville میں اس نے مشہورِ عالم جاسوس عورت ماتاہری کو گرفتار کرایا۔ بعد میں ان کی یونٹ کے کپتان بارلے اور کپتان لارنس جو کہ عربی زبان اور کلچر کے ماہر تھے، شام و حجاز میں جاسوسی اور تخریب کاری پر مامور ہوئے، تو پنجابی مسلمانوں کا جو فوجی دستہ ان کو دیا گیا اس میں مؤلف بھی شامل تھا اور اس طرح اس نے لارنس کے سارے آپریشنز میں حصہ لیا۔ واضح رہے کہ یہ کیپٹن لارنس بعد میں کرنل لارنس آف عریبیا مشہور ہوا۔
مؤلف کا بیان ہے کہ لارنس نے اپنے فوجی دستہ اور ینگ ترکس کی انجمن اتحاد و ترقی کے ستائے ہوئے عربوں کو ساتھ ملا کر حجاز ریلوے کو تخریب کاری کے ذریعے سے جگہ جگہ سے ناکارہ بنا دیا تھا۔ اسی دوران دیہات میں بدوؤں کے درمیان لارنس کو کئی اسلامی ناموں سے شیخ المشائخ اور ایک بڑی روحانی ہستی کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ بہرحال لارنس نے حجاز ریلوے کو تباہ کر کے سلطان عبد الحمید ثانی کی دس سالہ محنتِ شاقہ کو خاک میں ملا دیا اور پھر آج تک یہ ریلوے سروس بحال نہیں کی جا سکی۔
مؤلف کا بیان ہے کہ کیپٹن بارلے کو سفارتکاری کے ذریعے عرب زعماء کو ترکوں کے خلاف بغاوت پر اکسانے کا کام دیا گیا تھا۔ چنانچہ جب ۱۹۱۴ء میں حکومتِ برطانیہ کے دباؤ کے باوجود شریفِ مکہ نے انگریزوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تو یہ کام کیپٹن بارلے کے سپرد ہوا۔ ۱۹۱۶ء میں کیپٹن بارلے کی قیادت میں لارنس کے دستہ کے دو مسلمان صوبیداروں کے وفد نے بھاری رقم اور عراق سے شام تک سارے عرب علاقہ کی بادشاہی کی تحریری ضمانت پر شریفِ مکہ سے ترکوں کے خلاف بغاوت کرا دی۔ چنانچہ لارنس کے دستوں نے شریفِ مکہ کے بدوؤں کو لے کر مدینہ منورہ پر حملہ کر دیا لیکن ترک گریژن کمانڈر سے منہ کی کھائی اور اس طرح اختتامِ جنگ تک مدینہ منورہ کفار کے ناپاک قدموں سے محفوظ رہا۔ دوسری طرف مدینہ منورہ میں ناکامی کے بعد شریف کے بدوؤں اور کرنل لارنس کے ۳۲ عدد پنجابی مسلمان مشین گن دستہ نے، جن میں مؤلف بھی شامل تھا، مکہ مکرمہ پر حملہ کر کے شہر پر قبضہ کر لیا۔
یہاں پر راقم نے مؤلف سے پوچھا کہ یہ کہاں تک سچ ہے کہ اس آپریشن میں پنجابی مسلمان فوجیوں نے کعبۃ اللہ پر گولیاں چلائی تھیں؟ تو مؤلف نے بتایا کہ یہ غلط ہے، البتہ کعبۃ اللہ کے اطراف شہر میں فائرنگ ہوتی رہی۔ مجھے اس بیان پر شک نہیں ہوا کیونکہ مؤلف تو میرے سامنے تندرست و توانا بیٹھا تھا جبکہ شریف مکہ کے خاندان کو اس بے حرمتی پر اللہ تعالیٰ نے عبرتناک سزا دی۔ وہ خود تو سعودیوں سے شکست کھا کر جلاوطنی کی موت قبرص میں مرا، ایک بیٹا عراق میں حادثہ کا شکار ہوا، دوسرے کو بغداد ہی میں عبد الکریم قاسم نے خاندان سمیت قتل کیا، اور تیسرا اردن کا شاہ عبد اللہ بیت المقدس میں قتل ہوا۔ اب اس شریفِ مکہ کی باقیات میں صرف نوجوان عبد اللہ بچا ہے جو آج کل اردن کا بادشاہ ہے۔
بہرحال مؤلف کا بیان ہے کہ اس کے بعد کرنل لارنس نے پیر کرم شاہ کے نام سے افغانستان میں شاہ امان اللہ کے خلاف بغاوت کرائی۔ جبکہ آفیشل ریکارڈ کے مطابق جنگ کے بعد شہرت سے تنگ آ کر کرنل لارنس کی درخواست پر اسے کراچی میں ایئرفورس میں Ross کے نام سے سپاہی بھرتی کر لیا گیا۔ بعد میں وہ Shaw کے ذومعنی نام سے کراچی ہی میں آرمی میں شامل ہو گیا جس کی وجہ سے آج کل پاکستان کے اخباروں میں آیا ہے کہ نیلام گھر والے طارق عزیز کے مطابق کرنل لارنس نے شاہ کے نام سے نیڈوز ہوٹل لاہور کے مالک کی بیٹی مس نیڈو سے شادی کی تھی جس سے فاروق عبد اللہ پیدا ہوا۔ مس نیڈو بعد میں سری نگر میں اکبر جہاں کے نام سے شیخ عبد اللہ کی بیوی بنی، اور حال ہی میں سری نگر میں ۸۴ سال کی عمر میں فوت ہوئی۔ تاریخی لحاظ سے نیڈو عرف اکبر جہاں کی شادی کرنل لارنس سے ممکن ہے، کیونکہ کرنل ایڈورڈ تھامس لارنس عرف Shaw یا شاہ ۱۹۳۵ء میں کراچی موٹر سائیکل حادثہ میں مرا۔ اس وقت اس کی عمر ۴۷ سال اور مس نیڈو کی عمر ۱۹ سال تھی۔ دوسری طرف علم الانساب کے ماہرین کی رائے میں فاروق عبد اللہ کی شکل شیخ عبد اللہ سے بالکل نہیں ملتی، جبکہ وہ کرنل لارنس کی صحیح کاربن کاپی یا ماڈرن اصطلاح میں ہوبہو ’’کلون‘‘ لگتا ہے۔
اب ہم ترکی میں سیکولر راج کی ’’برکتوں‘‘ کی طرف آتے ہیں۔ جنگِ عظیم میں ترکوں کی شکست کی وجہ سے خلافتِ اسلامیہ خطرہ میں پڑ گئی تو برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت کو بچانے کے لیے ایک ہمہ گیر تحریک شروع کی جس کی عام مقبولیت کو دیکھ کر اسلام دشمن ہندو لیڈر مسٹر گاندھی، پنڈت مدن موہن مالویہ، اور بدنام زمانہ سوامی شردھانند بھی خلافت موومنٹ میں شامل ہو گئے۔ دوسری طرف جب تحریک اپنے عروج پر پہنچی تو اچانک ہی مصطفٰی کمال نے خلیفہ عبد المجید کو معزول کرتے ہوئے خلافتِ اسلامیہ کو ختم کر دیا اور اس کی جگہ سیکولر حکومت قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ہم ان ’’اصلاحات‘‘ کا مختصر سا ذکر کریں گے جن کو مصطفٰی کمال نے سیکولرازم کے نام سے ترکی میں نافذ کیا اور جن کو یہاں پاکستان میں ایوب خان، بھٹو اور اب اصغر خان نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ یہ عجیب اتفاق ہے کہ سیکولرازم نافذ کرنے کے لیے مصطفٰی کمال نے جو سیاسی پارٹی قائم کی تھی اس کا نام بھی پیپلز پارٹی (خلق فرقہ سی) ہی رکھا تھا۔ اب ہم ان ’’اصلاحات کو نمبروار بیان کرتے ہیں:
- ترکی قوم کی ترقی کے لیے یورپی تہذیب اپنائی جائے۔
- نئے جمہوری آئین میں جہاں اسلام کو ترکی کا سرکاری مذہب قرار دیا ہے اس سے یہ شق اب خارج کر دی گئی۔
- دینی مدرسے بند کر دیے گئے۔
- عام سکولوں میں مذہبی تعلیم کی ممانعت کر دی۔
- اسلامی قوانین منسوخ کر کے نئے رومن طرز کے قوانین نافذ کر دیے۔
- عورتوں کے لیے اسلامی پردہ کی ممانعت کر دی گئی۔
- حکومت کے لیے لازمی کر دیا کہ عورتوں مردوں کے مشترکہ کلبوں اور اجتماعات کی ترغیب دے۔
- سب لوگوں کو یورپی لباس پہننے اور سر ننگا رکھنے کی ہدایت کر دی گئی۔
- فیض ٹوپی (نوابزادہ نصر اللہ والی) پہننا ممنوع قرار دیا۔
- بزرگوں کے مزاروں پر حاضری ممنوع قرار دی۔
- تکیوں اور صوفیانہ حلقوں کو بند کر کے پیری مریدی کو ممنوع قرار دیا۔
- کسی نماز، تہوار، عید وغیرہ قومی رسم پر مخصوص لباس پہننا ممنوع قرار دیا۔
- ہجری کیلنڈر منسوخ کر کے اکیلے عیسوی کیلنڈر کو نافذ کیا۔
- جمعہ کی بجائے اتوار کی چھٹی رائج کی۔
- قرآن مجید، اذان، نماز صرف ترکی زبان میں پڑھنے کا حکم دیا۔
- تاریخِ اسلام میں ترکوں کے مقام کو کم کرنے کے لیے ترکی قوم کی نئی تاریخ لکھنے کا حکم دیا، اور ہدایت دی کہ سلطان عثمان سے شروع کرنے کی بجائے قدیم زمانہ سے شروع کر کے عثمانی دور کی اہمیت کو کم کیا جائے۔
- قومی ترقی کے لیے بیرونی قرضہ کو لازمی اور بے ضرر قرار دیا۔
- رسم الخط کو عربی سے رومن حروف میں نافذ کر دیا۔
تمام بین الاقوامی مبصرین متفق ہیں کہ مصطفٰی کمال کی نام نہاد اصلاحات میں سب سے زیادہ نقصان رسم الخط کی تبدیلی نے دیا کیونکہ اس طرح ساری قوم کو اپنے تاریخی اور کلچرل ورثہ سے محروم کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ ایوب خان بھی رسم الخط کو رومن حروف میں تبدیل کرنے کے لیے بڑی سنجیدگی سے سوچ رہے تھے لیکن ان کی حکومت زیادہ دیر وفا نہ کر سکی۔ قارئین کو علم ہو گا کہ ان نام نہاد اصلاحات کے نتیجہ میں مصطفٰی کمال نے حج پر پابندی لگا دی تھی جو کہ بعد میں عدنان میندرس کی حکومت کے دوران اٹھائی گئی۔ استنبول میں چند ایک مسجدوں کو چھوڑ کر باقی سب پر تالہ بندی کر دی تھی۔ اور سب سے بڑی جامعہ آیا صوفیہ کو اور بزرگوں کے اہم مزاروں کو، جن میں قونیہ شریف میں حضرت مولانا رومؒ اور ان کے مرشد شمس تبریزؒ کے مزار بھی شامل تھے، ان کو عجائب گھر بنا دیا تھا۔ اور یہ تمام نام نہاد سیکولرازم کی اصلاحات قومی ترقی کے نام پر نافذ کی گئی تھیں۔
آج کل بے نظیر اور اصغر خان بھی قومی ترقی ہی کے نام پر پاکستان میں سیکولرازم نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ جاپان اور چین کے علاوہ مشرقی ایشیا کے بہت سارے ممالک نے اپنی زبان، کلچر اور تاریخ کو سینے سے لگائے ہوئے بھی ترقی کے میدان میں یورپ کو جا لیا ہے۔ تو پھر ہم ذرا غور سے دیکھتے ہیں کہ ۱۹۲۴ء میں خلافتِ اسلامیہ کو ختم کرنے کے بعد مصطفٰی کمال کے سیکولرازم نے ترکی کو کیا ترقی دی ہے۔
راقم کو ۱۹۶۹ء میں ترکی کا تفصیلی دورہ کرنے کا موقع ملا جبکہ سیکولرازم انقلاب کی تقریباً نصف صدی گزر چکی تھی۔ مجھے وہاں کوئی قابل ذکر ترقی نظر نہیں آئی۔ کوئی قابل ذکر صنعتی شہر یا کوئی بڑا انڈسٹریل کمپلیکس نظر نہیں آیا۔ بڑی بڑی گرینڈ ٹرنک سڑکیں بھی Dirt Road یعنی کچی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا کہ روس ۱۹۱۷ء کے انقلاب کے صرف پچیس سال بعد اتنا ترقی کر چکا تھا کہ اس نے اپنے ہی ملک میں تیار کردہ جہازوں، ٹینکوں اور توپوں سے جرمنی جیسے سپر صنعتی ملک کو عبرتناک شکست دی تھی۔ البتہ جس بات نے مجھے بہت متاثر کیا وہ ترکوں کی ہم پاکستانیوں سے بے پناہ محبت و عقیدت تھی۔ سرحد شام پر پہلی چوکی اور بستی کا نام اتفاق سے ریحانہ تھا جو کہ صدر ایوب خان کے آبائی گاؤں کا نام بھی ہے۔ کسٹم حکام نے پاکستانی پاسپورٹ دیکھتے ہی ہمیں بغیر چیکنگ جانے دیا۔ دیہات، شہر اور بازار جہاں بھی ہم گئے لوگ بڑی محبت سے پیش آئے۔ وجہ یہ ہے کہ پہلی جنگ عظیم میں حملہ آور برطانوی فوج کے بہت سارے ہندوستانی مسلمان فوجی بھاگ کر ترکوں سے مل گئے تھے اور کئی ایک دہلی میں بھی گئے ہیں۔ پھر برصغیر کے مسلمانوں نے ترکی کو امدادی چندہ دیا، میڈیکل مشن بھیجے اور آخر میں خلافتِ اسلامیہ کے تحفظ کے لیے ہمہ گیر تحریک چلائی۔ تو ان سب کی وجہ سے ترک عوام پاکستانیوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔
اور حقیقت یہ ہے کہ مصطفٰی کمال کا سیکولرازم ترکوں کے دل سے اسلام کے لیے محبت مٹا نہیں سکا اور اب بھی سیکولرازم صرف حکومتی ایوانوں میں پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں ایک خاتون ممبر اسمبلی کو سر ڈھانپنے کے جرم پر اسمبلی سے نکال دیا گیا تھا۔ اور پھر چند ماہ بی بی سی نے بتایا کہ ترکی فوج میں اسلامی نظریہ کی بیخ کنی پروگرام کے تحت ۵۹ افسروں کو محض صوم و صلاۃ کا پابند ہونے کے جرم میں فوج سے نکال دیا گیا۔ واضح رہے کہ ترک عوام کے دل ہمیشہ کی طرح اب بھی اسلام کے لیے دھڑکتے ہیں اور اسی لیے ترک عوام مصطفٰی کمال سے ایک گونہ نفرت محسوس کرتے ہیں۔ مثلاً ایک گاؤں کے دیہہ خدا نے ہمیں بتایا کہ مصطفٰی کمال نے بس یہی کمال کیا کہ ہماری عورتوں کو بے پردہ و نیم لباس کر دیا۔ اتاترک کے مزار پر ٹورسٹ گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ یہ مسلمان نہیں تھا اس لیے اسے کعبہ رو نہیں دفنایا گیا۔ واللہ اعلم، کیونکہ ہمیں وہاں سمتوں کا ادراک نہیں تھا۔
قونیہ شریف میں حضرت مولانا رومؒ کے مزار کا عجائب گھر ابھی کھلا نہیں تھا اس لیے ہم وقتی طور پر سامنے ٹورسٹ آفس چلے گئے۔ مینیجر کی کرسی کے سامنے اتاترک کی تصویر آویزاں تھی جیسے ہمارے ہاں دفتروں میں قائد اعظم کی تصویر سجانے کا رواج ہے۔ مینیجر بطور خاص ہمیں تصویر کے قریب لے گیا اور کہا ’’ہذا کافر‘‘ یعنی یہ شخص کافر تھا۔ ہم نے ۱۹۶۹ء میں جو کچھ دیکھا وہ من و عن قارئین کے سامنے پیش کر دیا ہے، اگر کسی نے بعد کے دور میں ترکی کا مختلف روپ دیکھا ہو تو اپنے تاثرات قارئین کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مصطفٰی کمال کا سیکولرازم ترک عوام کے دلوں سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے محبت نہیں نکال سکا، اور دوسری طرف اپنے ملک میں کوئی نمایاں مادی ترقی بھی نہیں لا سکا۔ ۱۹۶۹ء میں بلکہ اب بھی پاکستان کی طرح لاکھوں کی تعداد میں مزدور برآمد کر کے روٹی پانی چلا رہا ہے۔ یورپی تہذیب و تمدن کو اپنانے کی کوشش کے باوجود یورپی اقوام یا حالیہ یورپی یونین میں ترکی کے لیے برابری کی سطح پر قبولیت حاصل نہیں کی جا سکی۔ دوسری طرف خلافتِ اسلامیہ کو ختم کر کے ترکی نے عالمِ اسلام میں اپنی مرکزیت اور لیڈرشپ کو خود ہی کھو دیا، بلکہ پوری ملتِ اسلامیہ کو ایک محترم و مکرم مرکز سے محروم کر کے اتنا بے اثر کر دیا ہے کہ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی ہونے کے باوجود آج مسلمان اقوامِ متحدہ میں ایک سکیورٹی کونسل سیٹ نہیں حاصل کر سکتے ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
(بہ شکریہ نوائے وقت)