اقوامِ متحدہ کی تاریخ پر ایک نظر

مولانا سخی داد خوستی

اقوامِ متحدہ کا اصلی نام جو امریکہ کے سابق صدر روز ویلٹ نے تجویز کیا تھا اور متفقہ طور پر منظور ہوا تھا ’’یونائیٹڈ نیشنز آرگنائزیشن‘‘ ہے جسے مختصراً ’’یو این او‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور لفظ ’’اقوامِ متحدہ‘‘ جو اردو میں مشہو ہوا ہے اس کا ترجمہ ہے، جیسا کہ عربی میں اممِ متحدہ اور پشتو میں مللِ متحدہ سے اس کی تعبیر کی جاتی ہے۔ پہلی جنگِ عظیم (۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ء) کے بعد ’’لیگ آف نیشنز‘‘ قائم کی گئی۔ اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ آئندہ اقوامِ عالم کو آپس میں جنگی تصادم سے روکا جائے تاکہ پھر جانی و مالی نقصان نہ ہونے پائے۔ گویا لیگ آف نیشنز، اقوامِ متحدہ کی ابتدائی شکل تھی۔ یہ ادارہ دوسری جنگِ عظیم (۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۵ء) کو نہ روک سکا اس لیے یہ ادارہ اپنی موت آپ مر گیا۔

پھر ۱۹۴۱ء میں جبکہ جنگِ عظیم دوم اپنے عروج پر تھی اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم چرچل اور امریکی صدر روز ویلٹ بحرِ اوقیانوس میں کہیں مل بیٹھے، انہوں نے ایک منشور پر رضامندی کا اظہار کیا جس کو منشور اوقیانوس کا نام دیا گیا۔ اس منشور کا مرکزی نقطہ ایسے نظام کا قیام تھا جو دنیا میں  جنگ کو روک سکے اور بین الاقوامی امن کو یقینی بنا سکے۔ پھر انہی دو لیڈروں کی دعوت پر ۱۶ جمادی الاولیٰ ۱۳۶۴ھ بمطابق ۲۵ اپریل ۱۹۴۵ء امریکہ کے ایک شہر سان فرانسسکو میں پچاس ملکوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں اقوامِ متحدہ کی بنیاد رکھی گئی اور اسی منشورِ اوقیانوس میں چند ترامیم و اضافات کر کے اسے اقوامِ متحدہ کا منشور قرار دیا جسے آج یو این او کے چارٹر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس چارٹر پر پچاس ملکوں نے ۱۵ رجب ۱۳۶۴ھ بمطابق ۲۶ جون ۱۹۴۵ء کو دستخط کیے، مگر حکومتوں نے ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۵ء سے اسے باضابطہ شکل دی اور اس ادارے نے باقاعدہ کام کا آغاز اسی تاریخ سے کیا۔ اس لیے ہر سال ۲۴ اکتوبر کا دن ’’یومِ اقوامِ متحدہ‘‘ کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔

جب پہلی جنگِ عظیم میں بے شمار جانیں ضائع ہوئیں، پھر اکیس سال کے وقفے کے بعد دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی اور اس میں بھی لاکھوں انسان اور بے حساب اموال اور اثاثے تباہ ہو گئے، تو آئندہ نسلِ انسانی کو ایسی ہولناک جانی و مالی تباہ کاریوں سے بچانے، پوری دنیا میں امن و آشتی کی فضا پیدا کرنے، ملکوں کے درمیان رشتوں کو فروغ دینے، اور بین الاقوامی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی مسائل کو حل کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ وجود میں آئی۔

ابتداء میں اقوامِ متحدہ کی سرکاری زبانیں صرف پانچ رکھی گئیں۔ انگریزی، فرانسیسی، چینی، روسی اور ہسپانوی۔ (یاد رہے کہ ہسپانوی زبان ریاستہائے متحدہ امریکہ کی دوسری بڑی زبان ہے)۔ انتیس سال تک اقوامِ متحدہ کی سرکاری زبانیں یہی پانچ رہیں۔ پھر ۱۹۷۳ء میں پاکستان سمیت ۳۵ ملکوں نے ایک قرارداد پیش کی کہ عربی کو اقوامِ متحدہ کی چھٹی سرکاری زبان قرار دیا جائے، اور اقوامِ متحدہ کی ایک کمیٹی نے بھی یہ سفارش پیش کی تو اس کے بعد بڑی مشکل سے عربی بھی یو این او کی سرکاری زبانوں میں شامل کر لی گئی۔ مگر عربی چونکہ اسلامی زبان ہے اس لیے اب بھی وہ چھٹے نمبر پر ہے۔ دفتری کاروائی صرف انگریزی اور ہسپانوی میں ہوتی ہے۔

چارٹر کی رو سے اقوامِ متحدہ کے بنیادی مقاصد کا لبِ لباب یہ ہے:

(الف) نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانا۔

(ب) بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام اور فروغ کے لیے اجتماعی تدابیر اختیار کرنا۔

(ج) بنی نوع انسان کے حقوق اور خودمختاری کے اصولوں کا احترام کرتے ہوئے قوموں کے مابین دوستانہ تعلقات استوار کرنا۔

(د) بین الاقوامی اشتراکِ عمل کی بدولت دنیا سے جہالت، غربت اور بیماری کو دور کرنا۔

(ھ) نسل، رنگ اور مذہب کی بنا پر تفریق کو ختم کر کے انسانیت کی بنا پر اجتماعیت پیدا کرنا۔

(و) اقوامِ متحدہ کو ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت سے روکنا۔

(ز) بین الاقوامی قوانین مرتب کر کے قوموں کے باہمی تنازعات انہی قوانین کے ذریعہ حل کرنا۔

اقوامِ متحدہ کے منشور میں اس تنظیم کے مقاصد، بنیادی اصول، تنظیمی ڈھانچہ اور طریق کار کی وضاحت کی گئی ہے۔ پھر مقاصد میں بڑا مقصد انسانی حقوق کا حصول اور تحفظ ہے، اس لیے انسانی حقوق کا الگ چارٹر مرتب کر کے ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو جاری کیا گیا جس کا اردو ترجمہ ماہنامہ ’’نوائے قانون‘‘ اسلام آباد نے دسمبر ۱۹۹۴ء کے شمارے میں  شائع کیا ہے۔ انسانی حقوق کا چارٹر تیس دفعات پر مشتمل ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مندرجہ ذیل چھ اہم ادارے ہیں:

(۱) جنرل اسمبلی

یہ اقوامِ متحدہ کا سب سے بڑا ادارہ ہے، تمام ممبر ممالک اس کے رکن ہوتے ہیں اور ہر ممبر ملک پانچ نمائندے بھیج سکتا ہے، لیکن اسے صرف ایک ووٹ دینے کا حق ہوتا ہے۔ اس کا باقاعدہ اجلاس ستمبر میں ہوتا ہے۔ اس ادارے میں ہر مسئلے پر بحث ہو سکتی ہے جو چارٹر کے دائرۂ اختیار میں ہو۔

(۲) سلامتی کونسل

یہ ادارہ پندرہ ارکان پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں پانچ ممالک مستقل ممبر ہیں یعنی امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین۔ اور دس ممالک غیر مستقل ممبران ہیں جن کا انتخاب دو سال کے لیے جنرل اسمبلی کرتی ہے۔ سلامتی کونسل کا اجلاس کسی وقت بھی طلب کیا جا سکتا ہے۔ اس کا صدر انگریزی حروفِ تہجی کے اعتبار سے ہر ماہ مقرر کیا جاتا ہے تاکہ تمام ممبران کو سلامتی کونسل کی صدارت کا موقع مل سکے۔

(۳) سیکرٹریٹ

اس کا سربراہ سیکرٹری جنرل ہوتا ہے جس کا تقرر سلامتی کونسل کی سفارش پر جنرل اسمبلی کرتی ہے۔ سیکرٹریٹ مندرجہ ذیل دفاتر پر مشتمل ہوتا ہے:

  • سیکرٹری جنرل کا دفتر
  • خصوصی سیاسی معاملات کے انڈر سیکرٹریوں کے دفاتر
  • قانونی امور کا دفتر
  • کنٹرولر کا دفتر
  • کانفرنس سروس کا دفتر
  • جنرل سروسوں کا دفتر
  • سیاسی اور تحفظاتی امور کا محکمہ
  • اقتصادی اور سماجی امور کا محکمہ
  • تولیتی اور غیر خودمختار علاقوں کا محکمہ
  • اطلاعاتِ عامہ کا محکمہ

(۴) اقتصادی و معاشرتی کونسل

اس کے اراکین کی تعداد ۵۴ ہے جنہیں جنرل اسمبلی ۳ سال کے لیے منتخب کرتی ہے۔ مگر اس ترتیب سے کہ ہر سال ایک تہائی حصہ ممبران کی میعاد رکنیت ختم ہوتی ہے۔ ان کی جگہ جنرل اسمبلی نئے ارکان کا انتخاب کرتی ہے۔

(۵) تولیتی کانفرنس

یہ ان علاقوں کے انتظام کی نگرانی کرتی ہے جن کو ممبر ممالک نے اپنی تولیت یا نگرانی میں لے رکھا ہے، اور تولیتی علاقوں کا انتظام چلانے والے ممالک اس کونسل کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ تولیتی کونسل کے ارکان تین قسم کے ہوتے ہیں:

  • اول، سلامتی کونسل کے مستقل ممبران۔
  • دوم، جنرل اسمبلی کی طرف سے تین سال کے لیے منتخب شدہ ممبران۔
  • سوم، وہ ممالک جو تولیتی علاقوں کا انتظام چلا رہے ہیں۔

(۶) عالمی عدالتِ انصاف

یہ ادارہ پندرہ ججوں پر مشتمل ہوتا ہے جو سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی ۹ سال کے لیے منتخب کرتی ہیں، اور ایک ملک سے ایک وقت میں ایک سے زیادہ جج نہیں بن سکتے۔

ان چھ اہم اداروں کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے تیس ادارے اور ہیں جن میں چھ بہت مشہور ہیں، وہ یہ ہیں:

  • بچوں کا عالمی فنڈ (یونیسیف)۔
  • تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارہ (یونیسکو)۔
  • عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او)۔
  • ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او)۔
  • اقوامِ متحدہ کی کمشنری برائے مہاجرین (یونسر)۔
  • عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک

اقوامِ متحدہ کے اداروں کے صدر دفاتر کہاں ہیں؟

اقوامِ متحدہ ’’عالمی عدالتِ انصاف‘‘ کے سوا باقی تمام بنیادی اہم اداروں کے صدر دفاتر نیویارک (امریکہ) میں ہیں، صرف عالمی عدالتِ انصاف کا صدر دفتر ہیگ (ہالینڈ) میں ہے۔

اور مخصوص اداروں میں سے بھی تین اداروں یعنی (۱) یونیسف، (۲) اقوامِ متحدہ دارالحکومت ترقیاتی فنڈ، اور (۳) اقوام متحدہ کا ادارہ برائے تربیت و تحقیق کے صدر دفاتر نیویارک میں ہیں۔

اور پانچ اداروں کے صدر دفاتر امریکہ کے شہر واشنگٹن میں ہیں: (۱) بین الاقوامی ترقیاتی انجمن (۲) عالمی تنظیمِ تجارت (۳) بین الاقوامی مالیاتی کمیشن (۴) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (۵) عالمی بینک۔

اور مخصوص اداروں کے چودہ صدر دفاتر جنیوا (سویٹزرلینڈ) میں ہیں: (۱) بین الاقوامی ادارہ محنت (۲) عالمی ادارہ صحت (۳) اقوامِ متحدہ کی ہائی کمشنری برائے مہاجرین (۴) تنظیمِ ورثہ دانش (۵) عالمی مواصلاتی یونین (۶) بین الاقوامی مواصلاتی تجارتی یونین (۷) عالمی ادارہ موسمیات (۸) تجارت و محاصلات کا بین الاقوامی ادارہ (۹) اقوامِ متحدہ کا کمیشن برائے تجارتی قانون (۱۰) انسانی آباد کاری برائے بہتر رہائش (۱۱) بین الاقوامی یونین برائے تحفظِ قدرتی وسائل (۱۲) اقوامِ متحدہ فنڈ برائے آبادیاتی سرگرمیاں (۱۳) اقوامِ متحدہ ترقیاتی پروگرام (۱۴) اقوامِ متحدہ کا تباہی سے بچاؤ کا ادارہ۔

اور عالمی ڈاک یونین کا صدر دفتر سویٹزرلینڈ ہی کے شہر برن میں ہے۔ اور عالمی ادارہ خوراک و بین الاقوامی فنڈ برائے زرعی ترقیات کے صدر دفاتر روم (اٹلی) میں ہیں۔ اور اقوام متحدہ کا بین الاقوامی ادارہ و اقوامِ متحدہ کا صنعتی ترقیاتی ادارہ کے صدر دفاتر ویانا (آسٹریا) میں ہیں، اور ایک ایک ادارے کے صدر دفتر مندرجہ ذیل ملکوں میں ہیں: جاپان کے شہر ٹوکیو میں اقوامِ متحدہ کی یونیورسٹی، کینیا میں اقوامِ متحدہ کا ماحولیاتی پروگرام، اور کینیڈا کے شہر مونٹریال میں عالمی ادارہ شہری ہوا بازی، فرانس کے شہر پیرس میں یونیسکو، اور برطانیہ کے شہر لندن میں بین الحکومتی بحری مشاورتی کونسل۔

یاد رہے کہ مذکورہ ممالک یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، جاپان، اٹلی، سویٹزرلینڈ، ہالینڈ، آسٹریا، کینیڈا وغیرہ سب غیر مسلم ممالک ہیں، اور صورتحال یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے اداروں میں سے کسی ایک ادارے کا صدر دفتر کسی مسلم ملک میں نہیں ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مرکزی عہدہ داران اکثر و بیشتر یہودی ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس تنظیم کے دس اہم اداروں میں ان کے اہم ترین عہدوں پر ۷۳ یہودی فائز ہیں۔ صرف نیویارک کے دفتر میں بائیس شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں۔ یعنی یونیسکو کے ۹ شعبوں میں اور آئی ایل او کے ۳ شعبوں میں اور ایف اے او کے ۱۰ شعبوں کی سربراہی یہودیوں کے پاس ہے۔ نیز واشنگٹن کے دفاتر میں ۱۷ شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں، ۶ عالمی بینک کے اور ۱۱ آئی ایم ایف میں۔ اور یہ سترہ عہدہ داران وہ لوگ ہیں جن کا تعلق یہودیوں کی عالمی تنظیم سے ہے۔

یہ ہے اقوامِ متحدہ کی ماہیت اور اس کا تعارفی خاکہ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی اقوامِ متحدہ، اقوامِ عالم کا ایک مشترکہ ادارہ ہے یا عالمی استعمار اور غیرمسلم قوتوں کے لیے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سازشوں کی ایک کمین گاہ؟ اس کا جائزہ لینے کے لیے ایک مستقل مضمون کی ضرورت ہے۔ البتہ سرِدست یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اقوامِ متحدہ کی بنیاد رکھنے والی کانفرنس میں پچاس ملکوں میں سے صرف چار مسلمان ملک شریک تھے یعنی سعودی عرب، شام، مصر اور لبنان۔ باقی سب غیر مسلم ممالک تھے۔ ترکی اور ایران بھی اگرچہ اس تاسیسی کانفرنس میں شریک ہوئے تھے مگر ترکی واضح طور پر سیکولر ملک تھا اور ایران بھی ملتِ اسلامیہ کے اجتماعی دھارے سے کٹا ہوا ہونے کی وجہ سے ملتِ اسلامیہ کی نمائندگی نہیں کر رہا تھا۔

اس پس منظر میں اقوامِ متحدہ نے گزشتہ نصف صدی میں مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں کیا طرزِ عمل اختیار کیا؟ اس کی کچھ تفصیل آئندہ ایک الگ مضمون کی شکل میں پیش کی جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔


عالم اسلام اور مغرب

(جون ۲۰۰۰ء)

جون ۲۰۰۰ء

جلد ۱۱ ۔ شمارہ ۶

تلاش

Flag Counter