تنزانیہ کے سابق صدر اور حکمران پارٹی کے موجودہ سربراہ جولیس نریرے کا خاندان جب دارالسلام میں رابطہ عالم اسلامی کے نمائندے شیخ مصطفیٰ عباس کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوا تب یہ خبر جہاں عالم اسلام کے لیے ایک حیرت انگیز مژدہ عظیم تھی، وہیں عیسائی دنیا کے لیے بہت ہی المناک اور مایوس کن تھی۔ کیونکہ نریرے کی اسلام دشمنی اور مسلم بیزاری کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ نریرے وہ سخت گیر اور متعصب عیسائی رہا ہے جس نے اپنے دور اقتدار میں مسلمانوں پر بے تحاشا مظالم ڈھائے، گویا وہ جدید دور کا فرعون صفت حکمران تھا۔
تنزانیہ براعظم افریقہ میں ایک غالب مسلم اکثریت والا ملک ہے جس کی مجموعی آبادی کا ۷۸ فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جبکہ بمشکل ۲۰ فیصد آبادی عیسائیوں کی ہوگی۔ باقی غیر مسلم جنگلی قبائلی ہیں جن کا کوئی معلوم مذہب نہیں ہوتا۔ ۷۸ فیصد مسلم اکثریتی آبادی والے اس ملک میں نریرے نے نام نہاد سوشلزم کی آڑ میں انتہائی متعصب اور ظالم عیسائی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ اپنے دور اقتدار میں اس نے مسلم اکثریت کو ختم کرنے اور عیسائی اکثریت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی جس میں اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دارالسلام کا نام بدل کر ایک سیکولر نام رکھنے کی کوشش کی گئی جس پر مسلمانوں کے شدید احتجاج اور غیر معمولی ردعمل کی وجہ سے مجبورًا اپنا ارادہ ترک کرنا پڑا اور دارالحکومت کے لیے نیا شہر بسانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ دارالسلام سے صرف دس کلو میٹر دور تنزانیہ کے نئے دارالحکومت کی تعمیر شروع کی گئی۔ تنزانیہ کے دارالحکومت کو جو ایک خوبصورت شہر ہے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا کیونکہ دارالسلام کی نوے فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے اور سو فیصد کاروبار بھی مسلمانوں ہی کے پاس ہے۔ اس وقت شہر میں صفائی وغیرہ کا کوئی معقول انتظام نہیں، سڑکوں پر جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں اور شہر کی بڑی بڑی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی حالت میں ہیں جن کی مرمت وغیرہ کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ الغرض نریرے نے مسلمانوں کی دل آزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
نریرے وہ شخص ہے جس نے تنزانیہ کے مسلمانوں کے ساتھ پڑوسی مسلم ممالک کے حکمرانوں اور مسلمانوں کو بھی چین کا سانس لینے نہیں دیا۔ چنانچہ اس نے یوگنڈا کے عیدی امین کی حکومت کا تختہ الٹ کر وہاں ایک نیم پادری جنرل اجوئے کو اقتدار پر بٹھایا اور یوگنڈا کے مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کرایا جس کے نتیجے میں کمپالا اور دیگر شہروں سے مسلمان پڑوسی ملکوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں مسلمان نقل وطن کر کے پڑوسی ملکوں میں جا کر پناہ گزین ہوئے۔ ایشیائی مسلمانوں کی اکثریت جو کاروبار پر چھائی ہوئی تھی وہ انتہائی بے چارگی کے عالم میں جان بچا کر یوگنڈا سے نکل گئی اور خالی ہاتھ اپنے اپنے وطن کو روانہ ہوئی۔ تنزانیہ کی فوج نے جو فاتح بن کر یوگنڈا میں داخل ہوئی تھی بڑی بے دردی کے ساتھ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے بیش قیمت اثاثے اپنی فوجی گاڑیوں میں بھر بھر کر اپنے ساتھ لے گئے۔
یہ نریرے ہی تھا جس نے زنجبار کی آزاد و خودمختار عرب سلطنت کو ختم کر کے اسے زبردستی تنزانیہ کی سوشلسٹ یونین میں شامل کیا اور سوشلسٹ اصلاحات کے نام پر زنجبار سے عرب اور مسلم تشخص کو ختم کرنے کی مذموم کوشش کی۔ زنجبار میں ۱۹۶۳ء سے قبل سرکاری زبان عربی تھی اور ذریعہ تعلیم بھی عربی ہی تھا۔ سب سے پہلے اس نے سرکاری دفاتر اور اسکولوں سے عربی زبان کو ختم کیا۔ سواحلی زبان جس کا رسم الخط عربی تھا اسے عربی کے بجائے انگریزی رسم الخط میں تبدیل کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سواحلی زبان پر عربی کا اثر بہت زیادہ ہے، اس کے ستر فیصد الفاظ عربی کے ہیں۔ خصوصاً گنتی مکمل طور پر عربی ہی ہے، انداز گفتگو بھی عربی ہی ہے۔ اگر کوئی شخص عربی سے اچھی طرح واقف نہ ہو تو اندازہ نہ کر پائے گا کہ دو شخص باہم عربی میں گفتگو کر رہے ہیں یا سواحلی میں۔ مسلم خواتین کے لیے برقع کے استعمال کو قانوناً جرم قرار دیا اور عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کی شادی کی سرپرستی سرکاری سطح پر کی۔
یوگنڈا سے عیدی امین کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس نے کمپالا میں پادریوں کی ایک عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ آئندہ دس سالوں میں تنزانیہ سے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل کر ہی دم لوں گا۔ چنانچہ اس نے عالمی کلیساؤں کی مدد سے اپنے اس دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی تھیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔
نریرے کے قبول اسلام کی تفصیلات بیان کرنے سے قبل اس کے قبول اسلام کے ان حالات کو بیان کرنے سے ہمارا مقصد واضح کرنا تھا کہ دنیا یہ دیکھ لے کہ عیسائی حضرات غیر عیسائی لوگوں بالخصوص اسلام اور مسلمانوں کے حق میں کس قدر متعصب اور ظالم ہوا کرتے ہیں۔ جبکہ دنیا بھر میں وہ اور ان کے پادری حضرات اپنی امن پسندی اور انصاف کا ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہیں اور دیگر غیر مسلم حضرات انہیں اپنا مسیحا سمجھ کر ان کی باتوں میں آکر مسلمانوں کے ساتھ دشمنانہ رویہ اپنا لیا کرتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہود و ہنود کی نفرت کی طرح عیسائیوں کی نفرت اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے اور اس کی نمایاں مثالیں برطانیہ، فرانس، روس، اور جرمنی سے آنے والی خبروں میں دکھائی دیتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ جدید نظاموں کے خوبصورت نام پر قائم ہونے والی حکومتوں کے نام پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے عوام یہ نہیں سمجھ پاتے کہ پس پردہ عیسائیت ہی کارفرما ہے۔
خیر اب ہم آگے مسٹر نریرے کے قبول اسلام کی حیرت انگیز تفصیلات سے آگاہ کریں گے جسے پڑھ کر ایسا ہی محسوس ہوا جیسے یہ جدید دور کا ایک معجزہ ہے کہ کسی جدید فرعون نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ عین اس وقت جب کہ وہ تنزانیہ میں عیسائیت کے لیے سرگرداں تھا اور عیسائی مشنریوں کی ہر ممکن مدد کر رہا تھا، اس کے بچے اسلام کے گہرے مطالعے میں مصروف تھے اور بتدریج اسلام کی طرف مائل ہو رہے تھے۔ اس کے بچے امریکہ اور کینیڈا کے مختلف کالجوں میں زیر تعلیم تھے کہ اسی دوران اسلام کی دعوت سے متاثر ہوئے۔ سب سے پہلے نریرے کی بہو مسلمان ہوئی پھر یکے بعد دیگرے تین بیٹے اور دونوں بیٹیاں بھی مسلمان ہوگئیں۔ نریرے کے بچوں کا قبول اسلام کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا بلکہ عیسائی دنیا کے لیے ایک بہت بڑا دھماکہ تھا۔ یہودی اور عیسائی پریس نے مکمل طور پر ان خبروں کا بائیکاٹ کیا کیونکہ ماضی میں بھی یہودی پریس کا یہی رویہ رہا ہے۔ اگر کسی قابل ذکر شخصیت نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو اسے کوئی اہمیت نہیں دی گئی اور قطعاً نظر انداز کر دیا گیا اور اگر کہیں دنیا کے کسی دور دراز گوشے میں بھی غیر معروف دو چار اشخاص نے عیسائیت قبول کی تو اسے دنیا بھر میں اخبارات کی زینت بنایا گیا۔ اس سلسلے میں مسلم پریس نے بھی بالکل خاموشی اختیار کر لی۔ ہاں تحریکات اسلامی سے تعلق رکھنے والے بعض جریدوں نے اپنے طور پر تحقیقات کر کے اس خبر کو عام کیا۔
نریرے کے بچوں کے قبول اسلام کے بعد دارالسلام اور دیگر اہم شہروں میں تہلکہ سا مچ گیا تھا اور کافی دنوں تک اس کا چرچا رہا۔ لیکن باقاعدہ طور پر ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے اس کی تشہیر کو روکنے کی پوری پوری کوشش کی گئی۔ لہٰذا عوام الناس اسے افواہ سے زیادہ کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ باقاعدہ طور پر اس وقت عام لوگوں کو اس پر یقین نہ آیا جب تک خود نریرے کے بچوں نے دارالسلام میں عیسائیت کے خلاف جہاد نہ چھیڑ دیا۔ چنانچہ انہوں نے عیسائیت کے خلاف ایک بڑے مناظرے کا انعقاد کیا اور براعظم افریقہ کے تمام پادریوں کو چیلنج کیا اور وسیع پیمانے پر اس کی تشہیر کی۔ سواحلی زبان میں بڑے بڑے پوسٹر دیواروں اور اہم سرکاری دفاتر کے دروازوں پر آویزاں کیے گئے۔ مناظرے کی تاریخ سے تقریباً ایک ماہ پہلے ہی مساجد اور چرچوں کے دروازے پر کھڑے ہو کر مسلم نوجوانوں نے اس مناظرے سے متعلق پمفلٹس تقسیم کیے۔
تنزانیہ کی سرزمین پر یکایک عیسائیت کے خلاف مسلمانوں کی یہ زبردست یلغار عوام الناس کے لیے انتہائی حیران کن اور بالکل خلاف توقع تھی۔ کیونکہ نریرے کی سخت گیر ڈکٹیٹرشپ اور عیسائیت نواز پالیسی کی موجودگی میں اتنی بڑی جسارت ’’ہماری جیل میں سرنگ‘‘ کے مترادف بات تھی۔ لہٰذا ان سرگرمیوں کی وجہ سے مسلمان دانشور طبقہ بھی حیرت و استعجاب کا شکار تھا کیونکہ مناظرے سے ایک دو روز قبل تک کسی کو پتہ نہیں تھا کہ عیسائیت کے خلاف اس اچانک اٹھنے والی زبردست تحریک کے پیچھے خود جناب صدر مملکت کے صاحبزادگان کارفرما ہیں۔
تنزانیہ کی تاریخ میں یہ بالکل پہلا موقع تھا جب مسلمانوں نے عیسائی مشنریوں کو کھلے عام للکارا تھا۔ چنانچہ عام لوگوں میں اس عظیم مناظراتی اجتماع میں شرکت سے دلچسپی پیدا ہوئی اور پورے تنزانیہ میں اس کا چرچا ہونے لگا۔ لوگ اس میں شرکت کی تیاری کرنے لگے۔ بلکہ شیخ احمد دیدات کے تین تربیت یافتہ شاگردوں کے نام تھے جو اہل تنزانیہ کے لیے بالکل غیر معروف اور نئے تھے۔ ان تینوں مبلغین نے شیخ احمد دیدات سے ڈربن جنوبی افریقہ میں رہ کر تربیت حاصل کی تھی اور بائبل کے مختلف اور متضاد نسخوں کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ نریرے کے بچوں کا ان سے بڑا گہرا دوستانہ تھا لہٰذا یہ نوجوان مبلغین بھی آپس میں ملتے تو تنزانیہ میں اسلام کی تبلیغ اور عیسائی مشنریوں کے مقابلے کے لیے صلاح مشورہ کرتے۔ آخر انہوں نے یہ طے کیا کہ اس مناظرے کا اہتمام کھلے میدان میں کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کو دیکھ سکیں اور خود فیصلہ کریں کہ حق کس کے ہاتھ میں ہے اور برسر باطل کون ہے۔
حسب مشورہ اور پروگرام دارالسلام کے سب سے وسیع و عریض اور خوبصورت میدان جمہوری پارک میں یہ مناظرہ شروع ہو کر دو دن تک چلا۔ درمیان میں نمازوں اور کھانے پینے وغیرہ کے لیے وقفہ ہوتا تھا۔ یہ دیکھ کر حاضرین کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ نریرے کے تینوں لڑکے مسلم مبلغین کے دوش بدوش بیٹھے اور ان کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ تینوں مبلغین کے نام درج ذیل ہیں:
(۱) غریباں شیخ موسیٰ فونڈی
(۲) شیخ احمد کامیمبا
(۳) شیخ محمد متانا
ان تینوں میں غریباں شیخ موسیٰ فونڈی سب سے زیادہ چاق و چوبند اور حاضر دماغ و حاضر جواب ہیں۔ مشرقی افریقہ کے مبلغین کے سربراہ بھی یہی ہیں، ان کی تبلیغی کوششوں کی وجہ سے عیسائی پادریوں کی نیند حرام ہو چکی ہے کیونکہ یہ تینوں مبلغین بالکل نوجوان اور صحت مند ہیں، ان کی عمریں بالترتیب تیس، بتیس اور پینتیس سال کی ہیں۔ شیخ احمد دیدات کے یہ تینوں تلامذہ اصل افریقی باشندے ہیں اور مقامی سواحلی زبان کے ماہر اور اچھے ادیب ہیں۔ یہ حضرات مناظرہ بھی سواحلی زبان ہی میں کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ تینوں مبلغین پورے مشرقی افریقہ کے پادریوں کے لیے ایک چیلنج بنے ہوئے ہیں۔
اس مناظرے میں شیخ موسیٰ فونڈی کے ساتھیوں کے مقابلے میں دو پادریوں اور راہبہ نے حصہ لیا۔ مسلم مبلغین کے انداز بیان اور طرز تخاطب سے سامعین بخوبی سمجھ رہے تھے کہ فاتح کون اور مفتوح کون؟ حق کس کے ساتھ اور برسر باطل کون۔ مقابلے میں شیخ اور ان کے ساتھیوں کا انداز دلچسپ اور جارحانہ تھا جبکہ عیسائی حضرات کو معذرت خواہانہ اور مدافعانہ پوزیشن لینی پڑی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شرکا کی تعداد تقریباً ستر ہزار سے بھی زائد تھی۔ تیسرے دن ۱۵ فروری کی شام کو جب مناظرہ اختتام کو پہنچا تو تین سو لوگوں نے اجتماعی طور پر اسلام قبول کیا اور پوری فضا اللہ اکبر کی صدا سے گونج اٹھی۔
اسلام اور مسلمانوں کے متعلق اچانک اس نرم پالیسی کے اختیار کرنے کی وجہ سے نریرے کے تعلق سے عیسائی حیران و پریشان تھے کہ اس سخت گیر پالیسی میں یکایک یہ غیر معمولی تبدیلی کیسے آگئی کہ اس قسم کے پروگراموں کی اجازت مل گئی اور خود مسلمان بھی حیران تھے۔ دراصل نریرے کو جب معلوم ہوا کہ خود اس کے بچے اسلام قبول کرنے والے ہیں تو وہ بھی اسلام میں دلچسپی لینے لگا۔ اسی وقت اس نے عہدۂ صدارت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا اور عہدۂ صدارت کے لیے تنزانیہ کے سب سے معروف مسلم رہنما شیخ علی حسن مونٹے کو نامزد بھی کیا۔ صدارت کے لیے علی حسن مونٹے کی نامزدگی سے ہی لوگوں کو معلوم ہوا کہ نریرے کی پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے اور مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں اس نے اپنی روش تبدیل کر دی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ کی گئی ناانصافیوں اور مظالم کی تلافی کے لیے اس نے شیخ علی حسن مونٹے جیسے عالم فاضل شخص کو صدر نامزد کیا ہے۔