اکیسویں صدی اور اسلام

ڈاکٹر مراد ہوف مین

(الجزائر اور مراکش میں جرمنی کے سابق سفیر نامور نومسلم جرمن دانشور ڈاکٹر مراد ہوف مین نے گزشتہ دنوں انسٹیٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے زیراہتمام کراچی میں ’’اکیسویں صدی اور اسلام کے پھیلاؤ کے امکانات‘‘ کے حوالے سے ایک لیکچر دیا جس کا ترجمہ اور تلخیص جناب ذوالقرنین اور جناب امجد عباسی نے کیا ہے۔ اسے ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)


بنی نوع انسان کی تاریخ کا کوئی بھی معروضی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کو لامحالہ ان سوالات سے سابقہ پیش آتا ہے:

  • میں کہاں سے آیا ہوں؟
  • میں یہاں کیوں موجود ہوں؟
  • مجھے یہاں سے آگے کہاں جانا ہے؟

یہ ناگزیر سوالات ہم میں سے ہر کسی کو فلسفی بنا دیتے ہیں، خواہ ہمیں اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔ مذہب ان بنیادی سوالات کا جواب دیتا ہے۔ قدیم دور میں تاؤمت، ہندومت اور بدھ مت نے، اور اس کے بعد یہودیت، عیسائیت اور اسلام نے ان سوالات کے جوابات دیے اور انسانی تاریخ کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کیا۔

نظریات کی صدی

۱۸ویں صدی کے بعد ہم ایک ایسے دور میں داخل ہوئے جسے آئیڈیالوجیکل کہا جا سکتا ہے۔ یہ عقلیت اور جدیدیت کے تصورات کا دور تھا۔ ایک ایسے دور میں مذہب کا تصور عوامی شعور سے محو ہو گیا اور عملاً نظریات نے مذہب کی جگہ لے لی۔ سیکولر نظریوں نے، جن کا مذہب سے کوئی رشتہ نہیں تھا، خود مذاہب کی شکل و صورت اختیار کر لی۔

مارکس، اینگلز اور لینن کے ہاتھوں تشکیل پانے والی مارکس ازم کی آئیڈیالوجی وہ آئیڈیالوجی سمجھی جا سکتی ہے جس نے پہلی بار یہ شکل اختیار کی۔ مارکس ازم نے مذہب کی طرح اپنے پیروکاروں کو مکمل طور پر اپنے سانچے میں ڈھالنے اور کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور ان سے اخلاقی طور پر اس کا پابند رہنے کا تقاضا کیا۔

اٹلی، جرمنی، اسپین، پرتگال اور یونان میں فسطائیت کی مختلف شاخوں نے اسی اشتراکی ویژن میں نسل پرستی پر مبنی شاؤنزم کی تیز خوراک بھی شامل کر دی تاکہ اس کی مدد سے یہودیوں جیسی نسل کے لوگوں اور مشرقی یورپ کی سلاف نسل کے خلاف شرمناک جرائم کا جواز پیدا کیا جا سکے اور لوگوں کو متحرک کیا جا سکے۔ ہر موقع پر مذہب موجود رہا۔ ’’میری جدوجہد‘‘ جرمنی میں مقدس دستاویز اور ہٹلر کی شخصیت نجات دہندہ قرار پائی۔ ہٹلر کے بارے میں یہ خیال راسخ کیا گیا کہ وہ ملک کو ایک خوشحال دور میں لے جائے گا اور یہ ایمپائر ۱۰۰۰ سال تک قائم رہے گی۔ یہاں بھی نازی پارٹی کا وجود چرچ کی مانند موجود تھا، اور اسی کو یہ بتانے کا اختیار حاصل تھا کہ کیا حق ہے اور کیا باطل۔ اور ایس ایس فوجی دستوں کو مذہبی تنظیموں کے اسلوب میں منظم کیا گیا تھا۔

مارکس ازم اور فاشزم کے ردعمل میں دوسرے نظریات پوری قوت کے ساتھ ابھرے۔ میری مراد مغربی لبرل ازم سے ہے، جس میں سرمایہ داری (کیپٹل ازم) اور فرانسیسی طرز کا فاشزم شامل ہیں، جس کی رو سے اجتماعی زندگی سے مذہب کی جڑ کاٹنا ضروری ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد عرب دنیا میں نیشنلزم، لبرلزم، فاشزم اور سوشلزم غرض یہ کہ تمام مغربی نظریات کو آزمایا گیا لیکن سب بری طرح ناکام ہو گئے۔

اس پس منظر میں بیسویں صدی کو نظریات کی صدی (Ideological Century) کہا جا سکتا ہے۔

اسلام، ایک نظریہ حیات

اب ہم اپنی توجہ اس مشترک عنصر پر مرکوز کرنا چاہیں گے جو ۱۹ویں صدی اور ۲۰ویں صدی کے تمام نظریات کی پہچان ہے۔ یہ سب نظریات مادیت پر مبنی تھے، ان کا مطمح نظر سیکولر تھا، اور ان کی بصیرت وحی و الہام سے خالی تھی۔ یہی سبب ہے کہ ان میں سے کوئی نظریہ بھی بنیادی انسانی سوالات کا جواب نہ دے سکا، یعنی انسان کہاں سے آیا، کیوں آیا، اور کس طرف جا رہا ہے؟

عقلیت پسندی کے دور میں اور اس کے بعد، جلد بعد، عمانویل کانٹ، آگسٹے کومٹے اور فریڈرک ہیگل جیسے فلسفیوں کا خیال تھا کہ انسان مذہب سے آزادی حاصل کرنے کے بعد تنہا اپنی عقلی صلاحیتوں کی مدد سے اپنی دنیا کا آقا بن سکتا ہے۔ عقلیت پسندی بالآخر انسان کو خوشحال، پُراَمن اور انسانیت دوست دنیا کی ضمانت دیتی ہے۔

اب ہم زیادہ بہتر جانتے ہیں اور اس پر حیران نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جدیدیت صرف عقل کے ذریعے انسان کی تخریبی جبلتوں پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ مذہب کو ترک کر کے جنت ارضی کی بجائے ہمیں ناقابلِ یقین حد تک وحشیانہ عالمی جنگوں، کیمیائی اور ایٹمی جنگی اسلحہ، قتل و غارت اور نسلی صفائی جیسے مصائب اور تباہیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمیں اس پر کوئی حیرانی نہیں، اس لیے کہ بدیہی طور پر صرف مذاہب ہی انسان کو اس بلند سطح تک لے جا سکتے ہیں جہاں سے وہ نسلی جبلتوں، شہوانی جذبات اور انا پرستی پر قابو پا سکے۔ جب خدا کو بادشاہت کے مقام سے اتار کر خود انسان ہر چیز کا معیار بن بیٹھا تو تمام قوانین اس کی صوابدید پر منحصر ٹھہرے۔ اس عمل میں الوہی قانون کا نظریہ رد کر دیا گیا لیکن سب کو ایک کھونٹے سے باندھ کر رکھنے والے ’’فطری قانون‘‘ کو تلاش کرنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔

ذہانت سے زندگی کا مشاہدہ کرنے والے مغربی افراد ایک نسل قبل اس تلخ نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر انسان مذہب کی بازیافت نہ کر سکا تو بنی نوع انسان نہ صرف اپنے آپ کو تباہ کر لے گی بلکہ اپنے ساتھ کرہ ارض کو بھی لے ڈوبے گی۔

  • ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ بیل نے اپنی تصنیف ’’سرمایہ داری کے ثقافتی تضادات‘‘ میں اس بات کی تلقین کی ہے کہ اخلاقیات کی تعمیرِ نو کے لیے کسی نہ کسی طرح کا مذہب اپنانا ضروری ہے، خواہ اسے خود ہی کیوں نہ ایجاد کرنا پڑے۔
  • امریکہ کے ایک سابق سفارتکار ولیم آفلس نے پیشگوئی کی ہے کہ مغربی دنیا ایک بار پھر کمیونزم کی طرح مسمار ہو گی، اس لیے کہ یہ اعلیٰ بصیرت سے محروم ہے۔

دونوں اہلِ دانش نے اس بدیہی حقیقت کو دریافت کر لیا ہے کہ کوئی انسانی تہذیب کبھی روحانیت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکی۔

اس پس منظر میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ ۲۰ویں صدی کے ساتویں عشرے سے اسلام غیر متوقع لیکن نمایاں طور پر عالمی منظر پر ابھر رہا ہے۔ ایک ایسے مذہب سے کوئی توقع نہیں کی جا سکتی تھی جس پر شیخ سرہندی، شاہ ولی اللہ، اور محمد بن عبد الوہاب جیسی شخصیتوں کے باوجود ۴۰۰ برس سے جمود کی حالت طاری رہی ہو، اور جس کے تمام ماننے والوں کو یورپی اقوام نے اپنی نوآبادیات میں شامل کر لیا ہو۔

مغربی مستشرقین کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، وہ تو اسلام کا مطالعہ ایسے کر رہے تھے جیسے ماہرینِ حیوانات ان انواع کا مطالعہ کرتے ہیں جن کا وجود تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ اسلام ان کے لیے تاریخ کے ایک دلچسپ موضوع سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ میکس ہینگ نے ۱۹۰۱ء میں جرمن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھا:

’’بظاہر اسلام کا سیاسی کردار ختم ہو چکا۔‘‘

ہر شخص کا یہی خیال تھا، کوئی یہ نہیں سمجھتا تھا کہ الافغانی اور محمد عبدہ اسلامی احیا کا پیغام لائیں گے۔ کوئی شخص یہ پیشگوئی نہیں کر سکتا تھا کہ علامہ محمد اقبال، حسن البنا، سید قطب، یا ابو الاعلیٰ مودودی اور محمد اسد جیسے لوگ دعوتِ اسلامی کو مشرق و مغرب میں پھیلانے کا ذریعہ بن جائیں گے۔ حیرت ہے کہ آج آئس لینڈ سے نیوزی لینڈ اور کوریا سے کولمبیا تک دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جس میں سرگرم و فعال مسلمان موجود نہ ہوں۔ ۱۰۰ سال پہلے جو تعداد کے اعتبار سے دنیا کا ساتواں حصہ تھے، اب ان کی تعداد دنیا کی آبادی کا ۲۰ فیصد ہے۔ اب لندن، پیرس، روم، ویانا، لزبن، زغرب، نیویارک اور لاس اینجلس جیسے شہروں میں نمائندہ مساجد قائم ہیں۔ مزدور کارکنوں کی نقل مکانی اور مغربی یونیورسٹیوں کی دلکشی کی بدولت لاکھوں مسلمان یورپ اور امریکہ میں سرگرمِ عمل ہیں۔ ہر کہیں اسلام دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروہ بنتا جا رہا ہے۔ آج کوئی اخبار یا ٹی وی چینل ایسا نہیں جس میں اسلامی موضوعات شامل نہ ہوں۔ اور صرف حال ہی میں یہ ممکن ہوا ہے کہ تمام یورپی زبانوں میں کلاسیکل اسلامی لٹریچر دستیاب ہے۔ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کا سب سے زیادہ ترجمہ کیا جا رہا ہے اور زمین پر جس کی تلاوت سب سے زیادہ کی جاتی ہے۔

چونکہ یہ سب کچھ ۲۰ویں نظریاتی صدی میں ہوا ہے، اس لیے بعض اسلامی تحریکیں بنیادی طور پر سیاسی مقاصد کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ صرف مایوسی کے باعث تشدد کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے اسلام کا حوالہ بھی اکثر ایک آئیڈیالوجی کے طور پر دیا جاتا ہے۔ یہ بات اس لحاظ سے تو درست ہے کہ اسلام بھی دنیا کے امور چلانے کے لیے تصورات کا ایک مجموعہ پیش کرتا ہے، لیکن ہمیں اپنے عقیدے کا حوالہ ایک آئیڈیالوجی کے طور پر دینے سے گریز کرنا چاہیے، اس لیے کہ اصطلاح سے سیاست اور ایسے دنیاوی تصور کا گمان ہوتا ہے جس میں آخرت شامل نہیں۔

مذہب کا مستقبل

صورتحال کچھ بھی ہو، یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ تیسرے ہزاریے کے آغاز پر صرف دو نقطہ ہائے نظریاتی رہ گئے ہیں جو مغرب کے انسان کے دل و دماغ کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ یعنی جدیدیت کے بعد سیکولرازم اور اسلام۔ ان کے علاوہ کوئی تیسرا متبادل نظر نہیں آتا۔ اگرچہ مغربی دانشوروں میں خال خال ایسے افراد بھی ہیں جو بدھ مت میں کشش محسوس کرتے ہیں مگر وہ شاید کسی دوسرے جنم میں موقع ملنے کا انتظار کریں گے۔

لہٰذا اب نہایت اہم سوال یہ ہے کہ مستقبل کس کا ہو گا؟ علاوہ ازیں کوئی نتیجہ نکالنے سے پہلے اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہو گا  کہ کیا ۲۱ویں صدی مذہبی ہو گی یا نہیں؟

موجودہ دور میں بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ مذاہب معاشرے سے خارج ہو رہے ہیں۔ اور یہ کیفیت امریکہ سے زیادہ یورپ میں پائی جاتی ہے۔ لوگ گروہ در گروہ مسیحی چرچوں کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ یہ چرچ بھی ہمارے عہد کی روح فیشنوں کے مطابق یکے بعد دیگر مصالحتیں کرتے چلے جا رہے ہیں۔ لہٰذا ہم جنس پرستوں کے پادری پیدا ہو چکے ہیں، لوگ جب اور جیسے چاہیں اسقاطِ حمل کی اجازت لے سکتے  ہیں، خواتین بشپ بھی ہیں، اور روزہ رکھنے کی عملاً کوئی مدت مقرر نہیں۔ یقین کیجئے کہ اس طرح چرچ تیزی سے منحرف ہو رہے ہیں۔  چنانچہ اب یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ مسیحیت پر ایمان رکھنے والوں کی اکثریت (حتٰی کہ بعض پروٹسٹنٹ پادری بھی) مسیحؑ کی الوہیت اور موت کے بعد دوبارہ بعثت میں یقین نہیں رکھتی۔

بہرحال یہ صورتحال کی مکمل تصویر نہیں، ابھی تک نجی رویوں کا تابع، بے قاعدہ مذہب ادھر ادھر پھیلا ہوا ہے۔ مذہب مسلّمہ چرچوں سے ہٹ کر اپنے وجود کے لیے نئے سہارے تلاش کر رہا ہے۔ آپ مغربی دنیا کی کسی بک شاپ میں چلے جائیے، آپ دیکھیں گے کہ مذہب کے مقابلے میں اسرار و رموز اور طلسمات پر مشتمل کتب کا سیکشن کہیں بڑا ہو گا۔ لوگ آج بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہے؟ وہ ہر قسم کے رازوں کو جاننا اور خوشی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ بنیادی طور پر انہی مذہبی خواہشوں نے تمام صنعتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا ہے۔ لوگ کسی بھی چیز کا تجربہ کرنے کے لیے  آمادہ ہیں۔ خواہ وہ دشمن پرستی ہو یا جنتر منتر، شیطان پرستی ہو یا ہندو گرو۔

میری تشخیص یہ ہے کہ یہ لوگ جن کی اکثریت نئی نسلوں سے تعلق رکھتی ہے، عبوری طور پر مذہب کے لیے سرگرداں ہیں۔ بے معنویت اور روحانیت سے خالی زندگی سے ان کا دل اچاٹ ہو چکا ہے اور وہ اس حقیقت کی تلاش میں ہیں کہ کیا واقعی کوئی دنیا ایسی ہے جس میں ’’ہر چیز چلی جاتی ہے‘‘۔ ان کی پرورش پابندیوں سے آزاد ماحول میں ہوئی ہے اور ان کے دلوں میں قیادت، حقیقی اقدار اور حق و باطل کے قابلِ اعتماد معیارات کو پا لینے کی شدید خواہش موجزن ہے۔ مختصر یہ کہ ان لوگوں میں بے پناہ مذہبی امکانات موجود ہیں جو اکیسویں صدی کو مذہبی دور میں بدل سکتے ہیں۔

چنانچہ سوال یہ ہے کہ کیا ماضی کی نسبت آج عیسائیت کے مقابلے میں اسلام کو بہتر متبادل تصور کیا جائے گا یا نہیں؟ اور کیا اس وقت رائج نجی نوعیت کے مذہب کے مقابلے میں اجتماعی عبادت کو ترجیح دی جائے گی یا نہیں؟

جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ یورپ میں مسیحیت ناقابلِ اصلاح ہے۔ اسی طرح مجھے یقین ہے کہ اہلِ مغرب ایک نیا مصنوعی مذہب بنانے کے لیے بھی اپنی کوششوں کو یکجا نہیں کر سکتے۔ ایسا مذہب چل نہیں سکے گا، اس لیے کہ مذہب کے لیے ایک ایسی ہستی کا تصور ناگزیر ہے جو شک و شبے سے بالا ہو۔ صرف وحی و الہام پر ہی مذہب کی تعمیر ممکن ہے۔ 

جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے، میں زیادہ پُر امید ہوں۔ نوجوان نسل آپس کے تعلقات کو عزیز رکھتی ہے اور بڑھاپے میں تنہائی اور مجرد زندگی کے تصور کے بارے میں بہت فکرمند ہے۔ فی الواقع یہ نوجوانوں کے لیے ایک اہم اثاثہ ہے کہ اسلام اپنے ساتھ خاندان، امت اور اخوت کے تصورات لاتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں مغربی مسیحیوں کے درمیان اپنے ہمسائے سے محبت کے تصور کے مقابلے میں اخوت کا رشتہ کہیں زیادہ حقیقی طور پر قائم ہے۔ اگر مغربی معاشروں کی جذباتی سردمہری ایک حقیقت ہے تو اسلامی امہ کی محبت اور گرمجوشی ہم عصر مغربی بچوں کی ایک بنیادی ضرورت پورا کر سکتی ہے۔

  • کمپیوٹر دور کی دروں بیں فطرت،
  • جنسی لحاظ سے مشتعل ماحول،
  • اور مغربی زندگی میں مقابلے کی وحشیانہ دوڑ جو اسکول سے ملازمت اور ملازمت سے جنسی تعلقات تک جاری رہتی ہے،
  • اور زیادہ سے زیادہ کے حصول کی تگ و دو

نے ایک ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے جس میں ہر عام امریکی کم از کم ایک بار نفسیاتی معالج سے مشورے پر مجبور ہے۔ ایسے لوگ اس بدیہی حقیقت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ مسلمانوں کی اکثریت اپنی ذات سے مطمئن ہے، نفسیاتی بوجھ سے بے نیاز اور عجلت پسند نہیں۔ مختصر یہ کہ وہ اپنے اللہ کی رضا پر راضی اور اپنے ماحول اور اپنی ذات سے مطمئن لوگ ہیں۔

ان تمام اسباب کی بنا پر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ بہت سے لوگ جو اپنی روز مرہ زندگی کی بھاگ دوڑ سے تنگ آ چکے ہیں، اسلام کے بارے میں زیادہ جاننے کی جانب مائل ہوں گے۔

اسلام کے امکانات

(۱) اس سوال کا جواب کہ کیا لوگ اسلام کو دریافت کر سکیں گے یا نہیں؟ اس بات پر منحصر ہے کہ مسلمان اسلام کو درست طور پر پیش کرتے ہیں یا اس کی غلط ترجمانی کرنے لگتے ہیں۔ سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی جنہیں چاہتا ہے سیدھی راہ پر چلاتا ہے۔ سان فرانسسکو کے جیفرے لینگ کی طرح بہت سے نومسلم صرف قرآن کریم پڑھ کر مسلمانوں کے حلقے میں شامل ہو گئے، حالانکہ اس سے قبل ان کا مسلمانوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا، لیکن بحیثیت مجموعی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو داعی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

(۲) پہلے میں اس بات پر بحث کرنا چاہوں گا کہ مسلمانوں کو اشاعتِ اسلام کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ اس تجویز کو اس ایک جملے میں سمیٹا جا سکتا ہے کہ

’’اسلام کو مغربی معاشرے اور تہذیب کی صحتمندی کے لیے ایک اہم علاج کے طور پر پیش کیجئے، ان امراض کے مداوا کے طور پر جو مغرب کو ہلاک کرنے والے ہیں۔‘‘

میں سمجھتا ہوں کہ پورے ادعا اور فعال انداز میں دعوت پیش کرنے کی ضرورت ہے، معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ دعوت کا انداز ایسا نہیں ہونا چاہیے جیسے کوئی چیز طلب کی جا رہی ہو، بلکہ ایسا ہونا چاہیے جو کسی کو کچھ پیش کرتے وقت اختیار کیا جاتا ہے۔ اور دینے کے لیے ان باتوں کے علاوہ، جن کا ذکر میں قبل ازیں کر چکا ہوں، ہمارے پاس بہت کچھ ہے:

(الف)

مسلمانوں کا تصورِ الٰہ، بے مثل خدائے واحد کا تصور، جو بیک وقت ہر کہیں موجود ہے لیکن سب سے ماورا ہے، جسے حدودِ زمان و مکان میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔ وہ واحد ہستی جو مطلق وجود رکھتی ہے، اللہ کا یہ وہ واحد تصور ہے جو جدید تعلیم یافتہ انسان کو مطمئن کر سکتا ہے۔ توحید یعنی ہر قسم کی آلائش سے پاک یہ تصور کہ اللہ ایک ہے، ہمارا بڑا اثاثہ ہے۔

(ب) دنیا کی کوئی تہذیب خاندان کا ڈھانچہ ٹوٹ جانے کے بعد دیر تک زندہ نہیں رہ سکتی۔ موجودہ دور میں بالفعل خاندان شدید حملے کی زد میں ہے۔ اور ریاست بھی اس میں شامل ہے جو رشتہ ازدواج کے بغیر تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ہر ممکن کام کر رہی ہے۔ طلاق کی شرح خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں آدھے گھر مجرد افراد چلا رہے ہیں، جن میں وہ عورتیں بھی شامل ہیں جو بچہ تو چاہتی ہیں، شوہر نہیں۔ بچوں کی ایک بڑی تعداد باپ کے بغیر پرورش پا رہی ہے۔ بہت سے بچے کس قدر عدمِ توازن کا شکار ہیں، اس کا اندازہ تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحان سے کیا جا سکتا ہے۔ ان کے دل میں بزرگوں اور خاندان کا احترام اتنا کم ہو چکا ہے کہ اب امریکہ میں ناپسندیدہ والدین سے نجات کے لیے بچے قانونی دعوٰی بھی کر سکتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ مسلمان خاندان گلوبلائزیشن اور اقتصادی مجبوریوں اور ٹیلی ویژن کے زیر اثر شدید دباؤ میں ہیں۔ تاہم عمومی طور پر مسلمان خاندان مضبوط تانے بانے میں منسلک ہیں اور عام مغربی گھرانوں کے مقابلے میں زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو اپنے اس اثاثے کا تحفظ کرنا چاہیے۔

(ج) مغربی معاشرے کو اپنے وجود میں دوسرا بڑا خطرہ ہر قسم کی منشیات سے درپیش ہے۔ جن میں سگریٹ، کوکین، ایل ایس ڈی اور دوسری نشہ آور ادویہ شامل ہیں۔ بلکہ ٹی وی اور انٹرنیٹ کو بھی ان میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ کسی مبالغے کے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نشہ مغربی معاشرے کے پورے وجود میں سرایت کر چکا ہے۔ بڑے صدمے کی بات ہے کہ  لوگ جام، گولی اور خاص سگریٹ کے بغیر جی نہیں سکتے۔ ایسے لوگ بالفعل شرک کی ایک جدید قسم پر عمل پیرا ہیں۔ وہ خدا کے سوا کسی دوسری چیز کے غلام بن چکے ہیں۔ اور اگر کہیں انہیں روزے کے قواعد کی پابندی کرنی پڑے تو یہ بات اور واضح ہو جائے گی، وہ ایسا نہیں کر سکیں گے اس لیے کہ وہ اپنے وجود کے مالک نہیں رہے۔ 

مسلمان اس امر پر فخر کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے وجود میں سنجیدہ فطرت ہیں۔ وہ ہر لمحے مستعد اور چوکس رہتے ہیں اور کبھی مخمور نہیں ہوتے۔ نہ نشے کے زیراثر مہلک حادثات کے قصوروار ہوتے ہیں۔ شاید ہی کوئی دوسری بات اتنی صراحت کے ساتھ یہ ثابت کر سکے گی کہ اسلام ایک متبادل طرزِ حیات ہے جو مغرب کو حالتِ نیم خوابیدگی میں تباہی سے بچا سکتا ہے۔

(د) تمام مغربی معاشروں کو اپنے اندر مختلف قسم کے گروہی تعصبات، نسل پرستی، شاؤنزم اور دوسرے مذاہب کے خلاف امتیازی سلوک جیسے خطرات لاحق ہیں۔ ان کی غلامی کی تاریخ کا آج بھی امریکہ میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ماضی قریب تک جتنی جنگیں یورپ اور امریکہ میں لڑی گئیں وہ اسی قسم کے تعصبات کی وجہ سے برپا ہوئیں۔

اس پس منظر میں جب ذمہ دار مغربیوں کو معلوم ہو گا کہ اسلام نظری اور عملی دونوں اعتبار سے ایک ایسا مذہب ہے جس نے رنگ و نسل کے بجائے تقویٰ کو معیار بنا کر، ہر انسان کو امت میں قبول کر کے، اور خلوصِ دل سے دوسرے مذاہب کو برداشت کر کے، نسل پرستی اور کثیر المقاصد معاشرے کا مسئلہ حل کر دیا ہے تو وہ اسے جنتِ گم گشتہ خیال کریں گے۔ جب میلکم ایکس کو معلوم ہوا کہ امت میں سب نسلیں شامل ہو سکتی ہیں تو اس کے لیے یہ ایک بڑا انکشاف تھا۔

آئیے ہم اس قدر کو عملی زندگی کا حصہ بناتے ہوئے اپنی صفوں میں رنگ، نسل، زبان اور اسی طرح کے دوسرے امتیازات کو مٹا ڈالیں اور اس سے بہترین فائدہ اٹھائیں۔ امریکہ کے لاکھوں افریقی النسل لوگوں نے اسلام قبول کیا کہ حضرت بلالؓ سیاہ فام تھے۔ دوسرے لاکھوں لوگوں کو بھی انہی مقاصد کے تحت کیوں نہ ان کی پیروی پر آمادہ کیا جائے؟ بین المذاہب رواداری کا منشور بھی اسی طرح مساوی افادیت کا حامل ہے جسے سورہ المائدہ کی آیت ۴۸ اور سورہ البقرہ کی آیت ۲۵۶ میں بیان کیا گیا۔ یہ بنیادی رواداری جس پر عالمی مسیحی اتحاد کی تحریک سے پہلے ۱۴ سو برس تک عمل کیا گیا، مغربی لوگوں کی نظر میں اس قدر غیر معمولی ہے کہ وہ اس کی تحسین کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

ہماری جانب سے اس بات کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے کہ ترکوں کی حکمرانی کے دور میں ۵۰۰ برس تک یونان آرتھوڈکس رہا، لیکن سوال یہ ہے کہ ۸۰۰ برس تک اسپین میں بسنے والے مسلمان کہاں گئے؟

(ہ) نوجوان نسل اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتی ہے اور اپنی آزادی برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ وہ وراثت میں ملنے والی پیشوائی، پادریوں کی مذہبی رسوم، پراسرار عقائد، اور ہر اس چیز سے نفرت کرتے ہیں جو انہیں چرچ کے ادوار کی یاد دلاتی ہے۔ ایسے لوگ اس وقت خوشگوار حیرت میں گم ہو جاتے ہیں جب انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام چرچ، پوپ، رسوم، تجسیمِ خداوندی، تثلیث، صلیب پر نجات، اور ورثے میں ملنے والے گناہوں جیسے پریشان کن تصورات کو تسلیم نہیں کرتا۔ جب انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان سے زیادہ پابندیوں سے آزاد اہلِ ایمان کوئی اور نہیں تو وہ حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ وہ کوئی درمیانی وسیلہ قبول نہیں کرتے، خواہ وہ پادریوں اور سینٹ کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو۔ وہ اپنی عبادات میں مکمل انفرادی حیثیت میں اللہ کے روبرو پیش ہوتے ہیں۔ وہ یقیناً اس خبر سے بھی بہت متاثر ہوں گے کہ ہر مسلمان اپنے مرتبے سے قطع نظر امام کے فرائض انجام دینے کا اہل ہے۔

(د) شاید آپ کو یہ بات سن کر حیرانی ہو کہ جنسی معاملات میں مسلمانوں کا ضابطہ آج کل بہت سے نوجوانوں کو مثبت طور پر متاثر کرتا ہے جو ’’اقدار کی قدامت پسندی‘‘ کے جدید نظریے کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں۔ متعدد مغربی خواتین جو گلیوں بازاروں میں سامانِ جنس کے طور پر مردوں کا نشانہ بننے کو توہین آمیز سمجھتی ہیں، ان مسلمان عورتوں کی مداح ہیں جن کا لباس اور رکھ رکھاؤ واضح اشارہ دیتا ہے کہ وہ کوئی ارزاں جنس نہیں ہیں۔ فحش لٹریچر اور فلموں، فیشن شو، حسن کے مقابلوں، اور عریاں جنسی اشتہارات سے عورت کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ اس صورتحال میں آزادئ نسواں کی حامی بہت سی مغربی عورتیں بھی اب سمجھنے لگی ہیں کہ ان کی مسلمان بہنیں بھی اسی مقصد یعنی عورت کے وقار کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں اور وہ یہ کام زیادہ کامیابی سے انجام دے رہی ہیں۔

اسقاطِ حمل کے بارے میں مسلمانوں کے اس موقف کو، کہ اس کی اجازت صرف اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب ماں کی زندگی خطرے میں ہو، ’’حامئ حیات‘‘ حلقوں میں بڑی عزت کا مقام دیا جاتا ہے۔ یہ حلقے اس امر پر نالاں ہیں کہ کیتھولک بشپ بھی ہر طرح کی وجوہ کی بنیاد پر اسقاطِ حمل کی اجازت دینے لگے ہیں۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام بچے کی زندگی کے حق میں واضح موقف کا حامل ہے۔

مغرب کی خاموش اکثریت ہم جنس پرستی کے خلاف بھی مسلمانوں کے موقف کا احترام کرتی ہے۔ یہ خاموش اکثریت مغرب کی نئی پالیسی کی مذمت کرتی ہے، جس کے تحت ایک ہی جنس کے افراد کے درمیان تعلقات کو ایک طرزِ زندگی سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے۔ مغرب کے بہت سے دانشوروں کو خدشہ ہے کہ عوامی سطح پر ہم جنس پرستی کا مرتبہ بڑھانا، جس میں ہم جنسوں کی شادیاں بھی شامل ہیں، انحطاط اور زوالِ تہذیب کی علامت ہے۔ یہ لوگ اس بات پر شرم محسوس کرتے ہیں کہ سان فرانسسکو میں شہر کے دو حصے ہم جنس پرستوں پر مشتمل ہیں۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ ایسے لوگ مسلم رویے کو پسند کرتے ہیں جس کے تحت بظاہر ’’پیدائشی‘‘ ہم جنس پرستوں کو قابلِ رحم سمجھا جاتا ہے، جبکہ ہم جنس پرستی کو زندگی کا معمول تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا ہے۔

مغرب میں بیک وقت دو انتہائی رویے نظر آتے ہیں: ایک جانب جنس سے مکمل اجتناب ہے تو دوسری جانب بے لگام جنسی آزادی۔ اس لیے مغرب کے صاحبِ نظر لوگ مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے متاثر ہیں جو جنسی جبلت کی حقیقت اور آدمی کی ضروریات کے بارے میں زیادہ متوازن اور باوقار ہے۔ اسلام شادی کے تقدس کو عیسائیت کی رسمی سطح پر نہیں لے جاتا، بلکہ عقلِ سلیم کے مطابق یہ سمجھتا ہے کہ یہ معاہدہ غیر مستقل بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسلام فریقین کے درمیان متاہلِ زندگی کو عبادت قرار دیتا ہے۔

(ز) اقتصادیات کے میدان میں بھی اسلام  کو باعثِ رحمت سمجھا جا سکتا ہے۔ پہلی نظر میں ربا کی ممانعت بے معنی اور ناقابلِ عمل لگتی ہے۔ لیکن بغور دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممانعت نجی کاروبار کو، جس پر سرمایہ داری کی عمارت تعمیر کی گئی ہے، تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔ جب سرمایہ بیشتر نقصان سے محفوظ کاروبار میں صرف کیا جانے لگتا ہے تو اسلام نفع و نقصان کی بنیاد پر کاروبار پر زور دیتا ہے اور سرمائے کے جمود کو توڑنے کی  کوشش کرتا ہے۔

(ح) اسلام کے چند اور پہلو بھی مغربی لوگوں کے لیے کشش رکھتے ہیں جن میں صحت کے اعتبار سے رمضان کے روزے بھی شامل ہیں۔

لیکن آخری تجزیے میں یہ عوامل مغرب اور مشرق کے درمیان سب سے زیادہ اہم اختلاف کی صورت میں سمٹ جاتے ہیں۔ یعنی زندگی کی کوالٹی، جس کے بارے میں مقدار اور معیار کے اعتبار سے دونوں کے رویے مختلف ہیں۔ مغرب واضح طور پر مقداری پہلو کو اس حد تک عزیز رکھتا ہے کہ جب تک کسی چیز کی مقدار یا اس کے شمار کا تعین نہ کیا جا سکے، وہ اس کے نزدیک کسی قدر و قیمت کی حامل نہیں۔ فی الحقیقت مغرب میں ان اقدار سے انکار کا رجحان عام ہے جن کی مادی مقدار (مادی پہلو) کا تعین نہیں کیا جا سکتا، اور وہ صرف روحانی سچائیاں ہیں۔

اسلامی دنیا سمیت مشرق نئی نئی اشیائے صرف کے استعمال سے حاصل ہونے والی خوشیوں کی طرف راغب ہے، جو گلوبلائزیشن کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ رہی ہیں۔ لیکن آج بھی اس خطے میں زندگی کی کوالٹی کے پہلوؤں کو مقداری پہلو کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اسلام زندگی کی کوالٹی کو جس میں سکونِ قلب، فرصت، غور و فکر، دوست داری اور مہمان نوازی شامل ہیں، خصوصی اہمیت دیتا ہے۔ یہ حقیقت مغرب کے بہت سے لوگوں کے لیے باعثِ توجہ ہونی چاہیے جو احمقانہ مادیت سے خوفزدہ ہیں۔

راہ کی رکاوٹیں

جیسا کہ ہم نے دیکھا، اسلام کو متعدد وجوہ کی بنا پر مغرب کی بیشتر کمزوریوں کے لیے تریاق سمجھا جا سکتا ہے، اور سمجھا جانا چاہیے۔ چنانچہ اسلام ۲۱ویں صدی کی رہنما آئیڈیالوجی بن سکتا ہے۔ لیکن بعض عوامل ایسے بھی ہیں جو مخالف سمت میں کام کر رہے ہیں۔

(۱) مسلمان ابھی تک کسی جگہ ایک حقیقی مسلم معاشی نظام قائم نہیں کر سکے۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق جیسے فیصلہ کن مسائل پر بھی مسلمانوں کی پوزیشن ابھی تک ابہام کا شکار ہے، اور ان کے تعلیمی نظام کئی پہلوؤں سے اب تک دورِ وسطٰی سے تعلق رکھتے ہیں۔

(۲) علاوہ ازیں، اکثر مسلمانوں کا طرزِ عمل دعوت و تبلیغ کی کوششوں کو بے اثر کر دیتا ہے۔ مغرب میں آ کر بسنے والے بہت سے مسلمان خصوصاً جو اَن پڑھ ہیں، اپنے عقیدے کو پیش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ نتیجتاً وہ کم تر درجے کی بستیوں (Ghettos) میں نسلی گروہوں کی صورت میں رہنے لگتے ہیں۔ اپنے وطن کی ثقافت، اس کی خوراک، لباس، موسیقی، معاشرتی رسوم و رواج اور زبان کے تحفظ کے لیے وہ اپنے قومی تصورات اور رسم و رواج کے مجموعے کو اسلام کے طور پر پیش کرنے لگتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر ان تارکینِ وطن کی اصل دلچسپی اپنے آبائی ملک سے ہوتی ہے جہاں وہ جلد سے جلد لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ جرمنی میں آباد ایک ترک، جو ترکی میں اسلام کا احیا چاہتا ہے، بلاشبہ مہمان ملک میں دعوت کے کاموں کے لیے کسی کام کا نہیں رہتا۔

جہاں تک ان چند لوگوں کا تعلق ہے جو مغرب میں اشاعتِ اسلام کی کوشش کر رہے ہیں، وہ اسے اتنا بے لچک، قانونی اور فقہی بنا ڈالتے ہیں کہ مغربی لوگ روحانیت کے عدمِ وجود سے چونک اٹھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ظاہری شکل و صورت کو اصل پر فوقیت دی گئی ہے، اور اکثر فروعی مسائل کو بنیادی اور مرکزی موضوعات کے برابر اہمیت دی جاتی ہے۔ ان وجوہ کی بنا پر مہمان مسلم کارکن اپنے مغربی پڑوسیوں پر مذہب کے حوالے سے بہت کم اثرانداز ہوتے ہیں۔

(۳) اس کے علاوہ ایک اور بڑا عامل جو اسلام کو غالب آنے سے روکتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان با آسانی حقائق سے منہ موڑنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ ایک بیمار آدمی کو نہ صرف یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ بیمار ہے، بلکہ اسے تجویز کردہ گولی میز پر رکھ دینے کے بجائے اسے نگلنا بھی چاہیے۔ بصیرت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ عمل کی متبادل نہیں بن سکتی۔ جرمنی کے ایک صدر کے بقول ہمارا مسئلہ علم کا نہیں، اطلاق کا ہے۔

قرآن میں ان قدیم اقوام کی کہانیاں بکثرت بیان کی گئی ہیں جنہوں نے نوشتۂ دیوار پڑھنے سے انکار کر دیا اور تنبیہات پر کان نہ دھرا، حتٰی کہ ان کی تہذیب المناک انجام کو پہنچ گئی۔ عین ممکن ہے کہ ہم عصر مغربی دنیا بھی تباہی تک پہنچنے سے قبل اپنا راستہ تبدیل کرنے اور اسلامی طرزِ زندگی اختیار کرنے کا حوصلہ اور عزم پیدا نہ کر سکے۔ اگر ایسا ہوا تو حال ہی میں کمیونزم پر فتح پانے کے بعد مغرب پر بھی خودفراموشی کی ایک ایسی کیفیت طاری ہو جائے گی جس کا انجام ہلاکت کے سوا کچھ نہیں۔ مغربی دنیا اپنے اندرونی تضادات کا شکار ہے اور ان تضادات میں سب سے زیادہ مہلک یہ ہے کہ انسان کو دیوتا بنا لیا گیا ہے۔ ہلاکت مغرب کا ناگزیر انجام ہے۔ اگر مغربی دنیا اس انجام سے بچنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ ازسرِنو وجودِ باری تعالیٰ کی مقدس اور الہامی حقیقت کو تسلیم کرے اور قرآنی اقدار اور احکامِ الٰہی کے مطابق، جنہیں اللہ کے آخری نبیؐ کی سنت سے مستحکم کر دیا گیا ہے، زندگی بسر کرنا شروع کر دے، واللہ اعلم۔


اسلام اور عصر حاضر

(جون ۲۰۰۰ء)

جون ۲۰۰۰ء

جلد ۱۱ ۔ شمارہ ۶

تلاش

Flag Counter