حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور جہادِ آزادی

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ۶ ذوالقعدہ ۱۲۴۴ھ سوموار کے دن چاشت کے وقت قصبہ گنگوہ ضلع سہارنپور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حضرت مولانا ہدایت احمد صاحبؒ ۳۵ ویں پشت پر سیدنا حضرت ابو ایوب خالد بن زید انصاری الخزرجیؓ سے جا ملتے ہیں۔ آپ کے والد ماجد نے بہ عمر پینتیس سال ۱۲۵۲ھ میں گورکھپور میں انتقال فرمایا۔ اس وقت قطبِ عالم حضرت مولانا رشید احمد صاحب علیہ الرحمہ کی عمر صرف سات سال کی تھی۔ مولانا کے دو حقیقی بھائی تھے۔ ایک بڑے، حضرت مولانا عنایت احمد صاحبؒ جو فارسی کی ابتدائی کتابوں میں مولانا کے استاد بھی تھے، اور دوسرے چھوٹے سید احمد جو نو سال کی عمر میں انتقال کر گئے، اور دو بہنیں تھیں۔ ایک حقیقی مسماۃ فصیحاً اور دوسری سوتیلی جن کا نام امۃ الحق تھا۔

حضرت مولانا علیہ الرحمہ کا ایک لڑکا ولادت کے بعد چند ایام ہی کی عمر میں فوت ہو گیا تھا، اور دوسرا صاحبزادہ مولانا حکیم مسعود احمد صاحبؒ ۱۴ جمادی الثانی ۱۲۷۸ھ کو پیدا ہوا، اور ایک لڑکی بنام ام ہانی تین چار سال کی عمر میں انتقال کر گئیں، اور دوسری صاحبزادی صفیہ خاتون تھیں جو حافظ محمد یعقوب صاحبؒ کی والدہ تھیں۔

مولانا نے نو عمری ہی میں فارسی کی کتابیں کرنال میں اپنے ماموں حضرت مولانا محمد تقی صاحبؒ سے پڑھیں جو فارسی کے قابل ترین استاد تھے۔ علم فارسی سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو عربی کا شوق ہوا۔ آپ نے ابتدائی صرف و نحو کی کتابیں حضرت مولانا محمد بخش صاحب رامپوریؒ سے پڑھیں۔ استاد کی ترغیب سے آپ نے بہ عمر سترہ سال ۱۲۶۱ھ میں دہلی کا سفر کیا اور حضرت مولانا قاضی احمد الدین صاحب جہلمیؒ سے تعلیم شروع کی۔ قاسم العلوم و الخیرات حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ سے، جو دہلی میں اجمیری دروازہ کے قریب صدر مدرس تھے، تعلیم شروع کی۔ اور پھر دونوں حجۃ الاسلام حضرت نانوتویؒ اور قطب الارشاد حضرت گنگوہیؒ ہم سبق ہو گئے اور بہت تھوڑے عرصہ میں کتابیں ختم کر لیں اور حفظ قرآن پاک کی نعمتِ عظمٰی سے بہرہ ور ہوئے۔ آپ کا نکاح خدیجہ خاتون علیہا الرحمہ سے ہوا۔ حضرت مولانا حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ کے ہاتھ پر سلاسل اربعہ میں بیعت کی۔

ظالم برطانیہ کے خلاف جب رمضان المبارک ۱۲۷۳ھ، مئی ۱۸۵۷ء میں ہندوستان میں تحریکِ آزادی شروع ہوئی تو اس جہاد میں (جس کو کم بخت مورخ غدر لکھنے سے نہیں چوکتے) حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی، حضرت مولانا نانوتوی، حضرت مولانا گنگوہی اور حضرت حافظ محمد ضامن صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم نے بھرپور حصہ لیا۔ موخر الذکر تو جہادِ شاملی میں شہید ہو گئے۔ اس جہاد کی پرزور تحریک کئی وجوہ کی بنا پر ناکام ہو گئی اور سابق تینوں حضرات کے خلاف حکومتِ برطانیہ نے وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور گرفتار کرنے والوں کے لیے صلہ اور انعام تجویز کیا۔ اس لیے طالبِ دنیا لوگ ان کی تلاش میں ساعی اور ان کو گرفتار کروانے کی تگ و دو میں سرگرداں رہے۔ حضرت حاجی صاحبؒ اپنے مرید صادق جناب راؤ عبد اللہ خان صاحبؒ کے اصطبل اسپاں میں پنجاماسہ ضلع انبالہ میں روپوش ہو گئے۔ کسی بدبخت مخبر نے حکومت کو خبر کر دی اور سرکاری عملہ آ پہنچا اور راؤ صاحبؒ سے گھوڑوں کی دیکھ بھال کے بہانہ سے پورے اصطبل کا محاصرہ کر کے تلاشی لی مگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت مولانا کو ان کی نگاہ سے اوجھل رکھا اور وہ خائب و خاسر ہو کر بے نیل مرام واپس چلے گئے۔

لیکن برطانیہ ظالم کی آتشِ انتقام اس سے کب ٹھنڈی ہو سکتی تھی۔ مولانا گنگوہیؒ کا تعاقب اور تلاش بدستور جاری رہی۔ مولانا ظالموں کی نگاہوں سے بچ کر رامپور پہنچے اور حضرت حکیم ضیاء الدین صاحبؒ کے مکان میں ٹھہرے اور وہیں سے ۱۲۷۶ھ کے شروع میں گرفتار کیے گئے اور سہارنپور کے جیل خانہ میں پہنچا کر جنگی پہرہ کی نگرانی میں دے دیے گئے۔ تین چار دن آپ کو کال کوٹھڑی میں اور پھر پندرہ دن جیل خانہ کے حوالات میں مقید رکھا گیا۔ اس کے بعد پیدل ہی براستہ دیوبند مظفر نگر کے جیل خانہ میں منتقل کر دیا گیا اور تقریباً چھ ماہ وہاں رہے۔

بالآخر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے باعزت رہائی نصیب ہوئی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ظالم برطانیہ کے قدم مضبوط ہو چکے تھے اور کوئی خطرہ باقی نہ رہا تھا اس لیے مسلمانوں کی ایک مقتدر شخصیت کو رہا کر کے ہی ملکی شورش کو ختم کرنا مناسب سمجھا گیا۔ اور مولانا گنگوہیؒ، مولوی ابو النصر علیہ الرحمہ اور ان کے والد مولوی عبد الغنی صاحب علیہ الرحمہ متعلقین و احباب کی معیت میں گنگوہ پہنچے اور گنگوہ میں ۱۳۱۴ھ تک ایک کم پچاس سال تک برہما، سندھ، بنگال، پنجاب، مدراس، دکن، برار اور افغانستان وغیرہ اطراف و اکناف کے طلبہ دین آپ سے مستفید ہوتے رہے۔

۱۲۸۰ھ میں اللہ تعالیٰ نے حج کی سعادت نصیب فرمائی اور یہ حجِ فرض تھا۔ دوسرا حج ۱۲۹۴ھ میں نصیب ہوا جو حجِ بدل تھا اور تیسرا حج ۱۲۹۹ھ میں کیا، یہ بھی حجِ بدل تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو صالح اولاد سے بھی نوازا اور بے شمار دینی خدمات آپ سے لیں اور لاتعداد تلامذہ، خلفاء اور اولاد کے صدقہ جاریہ کے علاوہ فتاوٰی رشیدیہ، اوثق العرای، ہدایہ الشیعہ، سبیل الرشاد، امداد السلوک، القطوف الدانیہ، زبدۃ المناسک، لطائف رشیدیہ، رسالہ تراویح، رسالہ وقف، فتوٰی ظہر احتیاطی، فتوٰی میلاد، ہدایت المعتدی، رسالہ خطوط وغیرہ، علمی ذخیرہ چھوڑ کر ۱۳۲۳ھ میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را


شخصیات

(جون ۲۰۰۰ء)

جون ۲۰۰۰ء

جلد ۱۱ ۔ شمارہ ۶

تلاش

Flag Counter