عالمی منظر نامہ

ادارہ

خواتین کے بارے میں اقوامِ متحدہ کا ’’فرمانِ مقدس‘‘

مغربی دنیا میں عورت کے حق میں پہلا آئینی قدم ۱۸۸۲ء میں اٹھایا گی اور یہ فرمان جاری کیا گیا کہ عورتیں اپنی مزدوری کی رقم اپنے پاس رکھ سکتی ہیں۔

اس کے بعد اقوامِ متحدہ کی سرکردگی میں ۱۹۷۵ء میں میکسیکو، ۱۹۸۰ء میں کوپن ہیگن، ۱۹۹۰ء میں نیروبی، اور ۱۹۹۵ء میں بیجنگ میں گیارہ روزہ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ۱۸۹ ممالک کے پانچ ہزار چار سو مندوبین اور ۴۰ ہزار خواتین پر مشتمل غیر سرکاری مندوبین نے شرکت کی۔

اب ۵ جون سے بیجنگ پلس فائیو کے نام سے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس ہو رہا ہے جو ۹ جون تک جاری رہے گا۔ اس اجلاس کا عنوان یہ رکھا گیا ہے:

’’خواتین ۲۰۰۰ء: ۲۱ویں صدی کے لیے جنسی مساوات، ترقی اور امن‘‘۔

اس اجلاس میں ڈیڑھ ہزار مندوبین سرکاری طور پر اور ۲۰ سے ۲۵ ہزار خواتین غیر سرکاری طور پر شرکت کر رہی ہیں۔ اس اجلاس کے ایجنڈے کو ’’فرمانِ مقدس‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس فرمانِ مقدس کے ذریعے عورت کے حقوق کے نام پر معاشرے میں اختلاطِ مرد و زن، جنسی انارکی، خاندانی نظام کی تباہی کو عام کیا جائے گا، اور اس کانفرنس میں عورت کی معاشرے میں ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیت کے بجائے محض اسے شمعِ محفل بنا کر رکھ دینے کے قانونی تحفظ کے ساتھ ساتھ جو معاملات خصوصاً زیرِ غور رہیں گے وہ درج ذیل ہیں:

  1. جنس، نسل، مذہب، عقیدہ، جسمانی معذوری، عمر، یا جنسی رجحان کی بنیاد پر امتیاز کی ممانعت کرنے اور ختم کرنے کے لیے قوانین تیار کرنا اور نافذ کرنا (H-120)۔
  2. وہ قوانین جو ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیتے ہیں، ان کا جائزہ لینا اور انہیں منسوخ کرنا (J-102)۔
  3. خواتین پیداواری اور تولیدی، دونوں سرگرمیوں میں مصروف ہیں، اس لیے انہیں ہر گھریلو کام اور تولیدی کام، دونوں کا معاوضہ ملنا چاہیے تاکہ دنیا سے غربت ختم ہو سکے (J101)۔
  4. طوائفوں کو جنسی کارکن کا خطاب دینا اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے دنیا کو اپنے احکامات سے مجبور کرنا۔
  5. گھریلو ذمہ داریوں کا شماریاتی تجزیہ ناممکن ہونے کی بنا پر خواتین پر نامناسب بوجھ پڑنے کی وجہ سے جو عدمِ توازن ہے، اس کے لیے قانون سازی کرنے کی کوشش کرنا (J-103)۔
  6. گھریلو کام کرنے سے انکار کرنے پر ابھارنا۔
  7. ازدواجی عصمت دری کے لیے عائلی عدالتیں قائم کرنا۔
  8. عائلی تشدد اور جنسی بدسلوکی جیسے مجرمانہ معاملات کے لیے قانون سازی کرنا (M-56 C-103)۔
  9. قومی سطح پر قانونی اور انتظامی اصلاحات کے ذریعے عورتوں کو معاشی وسائل، جائیداد اور حقوقِ وراثت ایسے تمام معاملات میں مردوں کے مساوی حقوق دینا۔
  10. عورتوں کو زنا اور اسقاطِ حمل کا قانونی حق دینا۔
  11. خواتین کے خلاف ہر طرح کا امتیازی سلوک ختم کرنا (D-102)۔
  12. خواتین کے سلسلے میں تمام موجودہ اور مستقبل کی قانون سازی کا جائزہ لینا تاکہ اس کنونشن سے مطابقت اور مکمل تعمیل کو یقینی بنایا جائے (E-102)۔

نیویارک میں اس کانفرنس میں جو بھی منظور کیا جائے گا وہ بین الاقوامی قانون کی حیثیت اختیار کر لے گا، اور اقوامِ متحدہ کے ممبر ممالک کی ذمہ داری ہو گی کہ ان سفارشات پر عملدرآمد کریں۔ تاہم ہنوز یہ بات منظرِ عام پر نہیں آئی کہ جو ممالک ان احکامات کو نہیں مانیں گے ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جائے گا۔

(روزنامہ انصاف لاہور ۔ ۸ جون ۲۰۰۰ء)

پاکستان دستخط نہیں کرے گا

لاہور (خبر نگار خصوصی) وفاقی حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ حکومتِ پاکستان اقوامِ متحدہ کی کسی ایسی دستاویز پر دستخط نہیں کرے گی جو اسلام کے منافی ہو۔ یہ بات ڈپٹی اٹارنی جنرل شیر زمان خان نے عورتوں کی جنسی آزادی کے حوالے سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پیش کردہ قرارداد پر پاکستان کو دستخط کرنے سے روکنے کے لیے دائر درخواست میں بتائی۔

یہ درخواست ورلڈ مسلم جیورسٹس پاکستان کے چیئرمین محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ نے دائر کی تھی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان جنرل اسمبلی کی قرارداد کی ہر اس آئٹم کی مخالفت کرے گا جو اسلام کے منافی ہو گی۔ جنرل اسمبلی کا اجلاس جس معاملہ پر غور کر رہا ہے پاکستان اس کی مخالفت کرے گا اور اس مقصد کے لیے وفد کو بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھیجا جائے گا۔ عدالت نے وفاقی حکومت کے جواب کے بعد درخواست نبٹا دی۔

(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۹ جون ۲۰۰۰ء)

کوسووو میں مسلمانوں اور سربوں کی جھڑپیں

کوسووو (اے این این) کوسووو میں سربوں اور مسلمانوں کے درمیان دوبارہ جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں۔ تازہ جھڑپوں میں آٹھ افراد شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کوسووو کے قصبے قارچ نیشہ میں مسلمانوں اور سربوں کے درمیان جھڑپوں میں شدت پیدا ہو گئی ہے۔ تازہ جھڑپیں قصبے کے ایک بازار میں دستی بموں کے دھماکے کے بعد شروع ہوئیں۔

علاوہ ازیں ایک سال قبل سرب فوج کے کوسووو سے انخلا کے باوجود علاقے میں اب تک امن قائم نہیں ہو سکا۔ سرب باشندوں اور مسلمانوں میں منقسم شہر مترویشیا میں جھڑپیں ابھی بھی جاری ہیں۔ مسلمان مطالبہ کر رہے ہیں کہ سرب باشندے اس علاقے کو خالی کر کے اپنے علاقے میں واپس چلے جائیں۔

(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۸ جون ۲۰۰۰ء)

بھارتی مسلمان اور سکیورٹی فورسز

گوربائی (اے ایف پی) آسام کے سینئر مسلمان وزیر عبد المحیب مجمعدار نے کہا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو سکیورٹی فورسز پاکستانی جاسوس ہونے کے الزام میں ہراساں کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا، آسام میں جس کی بھی ڈاڑھی ہو اور سر پر ٹوپی ہو اسے آئی ایس آئی کا مخبر سمجھ لیا جاتا ہے۔ انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پوری مسلمان برادری کو پولیس نے کٹہرے میں کھڑا کر رکھا ہے، ان کی تذلیل کی جاتی ہے اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے حقوق کے لیے لڑنا ہو گا۔

(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۸ جون ۲۰۰۰ء)

کراچی میں مسیحی مشنریوں کی سرگرمیاں

کراچی (خبری ذرائع) عیسائی مشنریوں نے شہر کے متمول علاقوں کو ہدف بنا کر مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی زبردست مہم شروع کر دی ہے۔ انگریزی خواندہ ایک مرد اور ایک عورت پر مشتمل گروپس بڑے پیمانے پر گلشن اقبال، کلفٹن جیسے علاقوں میں گھر گھر دستک دے کر اخلاقیات کے فروغ کے نام پر عیسائیت کی دعوت دے رہے ہیں اور یہ سلسلہ عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہے۔

تفصیلات کے مطابق واچ ٹاور ’’بائبل اینڈ ڈسٹرکٹ سوسائٹی نیویارک‘‘ نے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں عیسائی نظریات کو فروغ دینے کے لیے مشنریز کا جال بچھا دیا ہے اور اس کام کا سب سے بڑا اور مؤثر ذریعہ Awake نامی سہ ماہی جریدہ ہے جو دنیا کی ۸۲ زبانوں میں دو کروڑ سے زائد تعداد میں شائع ہو رہا ہے۔ اس رسالے کی مفت تقسیم کے لیے مرد و خواتین گھر گھر پہنچتے ہیں اور انگریزی زبان اور متاثر کرنے کے لیے دیگر ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اخلاقیات، انسانیت، حقوق، روشنی، اچھائی جیسے الفاظ کا استعمال کر کے پس پردہ عیسائیت کی تبلیغ کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ یوحنا ۱۷ : ۳ میں جابجا حضرت عیسٰی علیہ السلام کی فرضی تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں۔

(ہفت روزہ ضربِ مومن کراچی ۔ ۱۵ جون ۲۰۰۰ء)

اقوامِ متحدہ میں قادیانیوں کی درخواست

نیویارک (نمائندہ خصوصی) قادیانی اسلام اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں اور مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ متحرک رہتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار پاکستان مسلم لیگ علماء مشائخ ونگ کے صدر پیر آف بھیرہ شریف سید امین الحسنات شاہ نے مسلم لیگ یو ایس اے کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیے گئے ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے احمدیہ ایسوسی ایشن آف لندن کی طرف سے پاکستان کے خلاف اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی میں دائر کردہ اپیل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اپیل میں بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ پاکستان میں قادیانیوں کو سرکاری ملازمت نہیں ملتی، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ پر پابندی ہے، اور ایک دوسرے کو سلام کہنے کی اجازت نہیں، اور دنیا میں بسنے والے ۴ کروڑ قادیانیوں پر ظلم ہو رہا ہے، قادیانی جیلوں میں سڑ رہے ہیں، لہٰذا مغربی ممالک، اقوامِ متحدہ اور امریکہ خصوصی طور پر اس کا نوٹس لے۔

پیر امین الحسنات شاہ نے کہا کہ یہ سراسر جھوٹا پراپیگنڈا ہے، ہر کوئی جانتا ہے کہ قادیانی ہمیشہ پاکستانی حکومتوں میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ ان پر کوئی پابندی نہیں۔

مسلم لیگ یو ایس اے کی جانب سے احمدیہ ایسوسی ایشن کی مذکورہ اپیل کی خبر کی کاپیاں حاضرینِ جلسہ میں تقسیم کی گئیں۔ آخر میں پنجاب اسمبلی کے سابق رکن سہیل ضیاء بٹ، مسلم لیگ کے صدر آغا افضل اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۴ جون ۲۰۰۰ء)

فلپائن میں مجاہدین کے خلاف کاروائی

منیلا (این این آئی) فلپائن میں سرکاری فوج نے مسلم عسکریت پسندوں کے ایک ٹھکانے پر حملہ کر کے گیارہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا۔ سرکاری فوج کے ترجمان کرنل ہمیوجینس نے یہاں اپنے ایک بیان میں کہا کہ سرکاری فوج نے گزشتہ روز موگودینو نامی صوبے میں کونابانو کے شہر میں مسلم عسکریت پسندوں کے ایک ٹھکانے پر اچانک دھاوا بول دیا۔ ترجمان کے مطابق کیمپ عثمان نامی ٹھکانے پر حملے میں گیارہ عسکریت پسند ہلاک ہو گئے جبکہ فوج نے کیمپ پر قبضہ کر لیا۔ ترجمان کے مطابق مسلم عسکریت پسندوں کے خلاف اس وقت تک مسلح کاروائی جاری رہے گی جب تک ملک میں متوازی حکومت کا نام نشان نہیں مٹ جاتا۔

(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۵ جون ۲۰۰۰ء)

احمد شاہ مسعود کے لیے روسی حمایت

ماسکو (پی پی آئی) روس کی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری سرگئی ایوانوف نے کہا ہے کہ طالبان کے خلاف لڑائی میں روس کھل کر احمد شاہ مسعود کی حمایت کرے گا۔ روسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق انہوں نے کہا کہ وہ مسعود کی افواج کو اسلحے کی فراہمی کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ روس چاہتا ہے کہ افغانستان سے طالبان کی یلغار کو روکنے کے لیے ایک مضبوط فوج تشکیل دی جائے جو طالبان کی انتہاپسندی کو وسطِ ایشیائی ریاستوں کرغیستان اور ازبکستان تک پہنچنے سے روکا جا سکے۔

(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۴ جون ۲۰۰۰ء)

پاکستان سے سودی نظام کے خاتمہ کی نوید

کراچی (نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت سودی نظام کے خاتمے کے لیے مرحلہ وار پیشرفت جاری ہے، کئی غیر اسلامی قوانین کو کالعدم قرار دے کر ان کی جگہ اسلامی قوانین نافذ کر دیے گئے ہیں، اور ۳۱ دسمبر ۲۰۰۰ء کو ایک آرڈیننس کے ذریعے غیر سودی نظام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ 

یہ باتیں ممتاز اسکالر اور قومی سلامتی کونسل کے رکن ڈاکٹر محمود احمد غازی نے فاران کلب انٹرنیشنل کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتائیں، جس سے کلب کے بانی و نگرانِ اعلیٰ عبد الرحمان چھاپرا، صدر شیخ غلام احمد، شمس الدین خالد اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

ڈاکٹر محمود غازی نے اپنے خطاب میں کہا کہ مخلوط انتخابات کا طریقہ رائج کرنے سے ان ممالک میں مسلم تحریکوں کے موقف کو نقصان پہنچے گا جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ پاکستانی پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں نے نفاذِ اسلام کی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ پاکستانی دستور کے تحت اسلام سے متصادم کوئی قانون نہیں بن سکتا، لیکن یہ المیہ ہے کہ غیر اسلامی قوانین کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔

پوری اسلامی دنیا پاکستان کو اپنا وطن سمجھتی ہے اور اس کی فوج سے محبت کرتی ہے کیونکہ یہ نظریۂ اسلامی کی علمبردار ہے، فجی جیسے جزائر سمیت دنیائے اسلام کے ہر گوشے میں پاکستانی افواج سے مسلمانوں کی عقیدت و محبت کا یہ عالم ہے کہ لوگوں نے اپنے گھروں میں پاکستانی جنرلوں اور میجر عزیز بھٹی جیسے شہید فوجیوں کی تصاویر آویزاں کر رکھی ہیں۔

ڈاکٹر غازی نے کہا کہ قیامِ پاکستان سے قبل ہی قراردادِ پاکستان میں ریاست کے آئینی و قانونی تصورات کا تعین کر دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سودی نظام کے خاتمہ کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پہلے مرحلے میں کام مکمل ہو گیا ہے جس کے تحت کئی غیر اسلامی قوانین کو کالعدم قرار دے کر ان کی جگہ اسلامی قوانین نافذ کر دیے گئے ہیں، جبکہ دوسرے مرحلے پر کام جاری ہے اور ۳۰ جون تک یہ کام مکمل ہو جائے گا، جبکہ تیسرا مرحلہ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۰ء تک پورا ہو گا اور ایک قانون کے ذریعے پورے بینکنگ نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق کر دیا جائے گا۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان اسلامی دنیا کا بیس کیمپ ہو گا، اس لیے پوری دنیا کی نگاہیں پاکستان پر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام کے عدلِ اجتماعی نظام کے قیام میں ناکامی کے ذمہ دار صحافی، فوجی، اہلِ علم، دانشور اور سیاستدانوں سمیت بحیثیت مجموعی پوری قوم ہے۔ این این آئی کے مطابق محمود احمد غازی نے کہا ہے کہ حکومتی سطح پر اگر شریعت کے خلاف کوئی بات ہوئی تو میں اس کے خلاف آواز اٹھاؤں گا۔

انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ کشمیر میں جہاد فرض ہے کیونکہ مسلمانوں کے لیے حکم ہے کہ جب دشمن اس کے کسی علاقے پر قبضہ کر لے تو جہاد فرض ہو جاتا ہے، اور حکم ہے کہ جہاد کے لیے بیٹا اس سلسلے میں باپ کا حکم تسلیم نہ کرے، شوہر روکے تو بیوی اس کی اطاعت نہ کرے، اور غلام آقا کا حکم نہ مانے۔

(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۵ جون ۲۰۰۰ء)

چیچنیا کی امن تجاویز مسترد

ماسکو (ا ف پ) روس نے چیچن لیڈروں کی امریکہ کو پیش کی گئی امن تجاویز کو یکسر مسترد کر دیا اور کہا کہ روس صرف علیحدگی پسندوں کے ہتھیار ڈالنے کی صورت میں امن کا قیام تسلیم کرے گا۔ صدر ویما ریمرپوئن کے ترجمان سرجیو سیرز مسیکی نے بتایا کہ ہم ان تجاویز سے متفق نہیں ہیں اور یہ بے سود کوشش ہے اور ہم صرف یہ چاہیں گے کہ علیحدگی پسند ہتھیار ڈال دیں۔

اتاطاس نیوز ایجنسی کے مطابق چیچن وزیر خارجہ الیاس افمادوف نے دو صفحات پر مشتمل امن تجاویز واشنگٹن کو پیش کی تھیں اور فوری سیزفائر اور مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ تجاویز وزیرخارجہ میڈیلین البرائیٹ کو دورۂ مشرقِ وسطٰی کے دوران پیش کی گئی تھیں۔

(روزنامہ اوصاف اسلام آباد ۔ ۷ جون ۲۰۰۰ء)

عالمی سربراہوں کا سب سے بڑا اجتماع

اقوامِ متحدہ (اے پی) اس سال ستمبر میں منعقد ہونے والا اقوامِ متحدہ کا میلینیم سربراہی اجلاس عالمی راہنماؤں کا سب سے بڑا اجتماع ہو گا۔ ۶ سے ۸ ستمبر تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں اقوامِ متحدہ کے تمام ۱۸۸ رکن ممالک کے سربراہوں کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے، جس میں ۲۱ویں صدی کی دنیا اور اقوامِ متحدہ کو درپیش بڑے چیلنجوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ترجمان فیڈافرد نے کہا کہ اجلاس میں شرکت کے لیے ۱۴۴ سربراہانِ مملکت، ۴۶ سربراہانِ حکومت، ۵ نائب صدر اور ولی عہد نے اظہار کیا ہے۔

(روزنامہ جنگ لاہور ۲ جون ۲۰۰۰ء)

انڈونیشیا میں مذہبی فسادات

جکارتہ (اے ایف پی) انڈونیشیا کے قصبہ یوسو میں مذہبی فسادات میں ۱۲۰ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ایک انڈونیشی ملٹری کمانڈر نے جمعرات کو بتایا کہ وہاں سے آنے والی رپورٹ کے مطابق ان فسادات میں سینکڑوں افراد زخمی ہو گئے۔ فسادات کے بعد پوسو میں ماکسار سے ایک بٹالین نیم فوجی دستے اور ۴ بکتر بند گاڑیاں بھیج دی گئی ہیں، جبکہ مزید ایک بٹالین فورس ۱۰ جون تک ۵ فوجی گاڑیوں کے ہمراہ پوسو پہنچ جائے گی۔ نئی فورس کے آتے ہی پوسو اور پالو کے درمیان زمینی راستہ دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۹ جون ۲۰۰۰ء)

ابوسیاف اور فلپائنی حکومت میں مذاکرات

جولو، فلپائن (اے ایف پی) فلپائن میں حکومت اور ۲۱ غیر ملکیوں کو یرغمال بنانے والے حریت پسند گروپ ابو سیاف میں دوبارہ مذاکرات شروع ہو گئے۔ بدھ کی صبح ۹ رکنی حکومتی وفد جزیرہ جولو پہنچا جہاں اس نے ابو سیاف گروپ کے رہنماؤں سے مذاکرات شروع کر دیے۔ آخری اطلاعات تک مذاکرات ابھی جاری تھے۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۸ جون ۲۰۰۰ء)

سعودی عرب اور انسانی حقوق

مکہ مکرمہ (نمائندہ خصوصی) سعودی عرب کسی بھی حالت میں شریعت پر کوئی سودے بازی نہیں کرے گا اور نہ اسے ترک کرے گا۔ اس عزم کا اظہار سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل نے برسلز میں یورپی یونین اور جی سی سی وزرائے خارجہ  کے مشترکہ اجلاس میں کیا۔

انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کے نمائندہ کو انسانی حقوق کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس موضوع پر اصولی اور منصفانہ موقف اختیار کرنا چاہیے تھا، سعودی عرب کے حقائق سے آنکھیں موند کر اور اس کے عدالتی اور سیاسی نظام سے ناواقفیت کے عکاس بیان دینا افسوسناک امر ہے۔

انہوں نے جی سی سی وزرائے خارجہ وفد کے سربراہ کی حیثیت سے کہا کہ سعودی عرب انسانی حقوق سے بڑھتی ہوئی دلچسپی کا خیرمقدم کرتا ہے کیونکہ ہمارا مذہب انسانی حقوق کے تحفظ پر زور دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اسلامی ہدایات کا مذاق اڑانے یا ان کی آفاقیت کو نظرانداز کرنے کی کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کرے گا۔

سعودی وزیرخارجہ نے کہا کہ تعجب انگیز امر یہ ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ ہمارے ہاں انسانی حقوق کے تعارف سے متعلق غیر سرکاری خودمختار قومی ادارہ اور وزیراعظم کے ماتحت سرکاری قومی ادارہ کی تشکیل کے لیے اقدامات کیے جا رہے تھے، انسانی حقوق کے عالمی فنڈز میں رضاکارانہ طور پر حصہ لیا جا رہا تھا، انسدادِ تشدد کے معاہدے میں شمولیت اختیار کر لی گئی تھی، ایسے حالات میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے من گھڑت الزامات کی مہم چلانا سمجھ سے بالاتر ہے۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۵ جون ۲۰۰۰ء)

دو لڑکوں کی شادی ۔ نکاح خواں گرفتار

شکارپور (نامہ نگار) شکارپور کے علاقہ گڑھی یاسین میں دو محبت کرنے والے لڑکوں نے آپس میں شادی کر لی۔ نکاح کی تقریب کے سلسلے میں باقاعدہ اہتمام کیا گیا۔ مولوی نے وکیل اور گواہوں کی موجودگی میں دونوں لڑکوں کا نکاح پڑھوایا۔ نکاح کی تقریب میں شریک مہمانوں میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔

تفصیلات کے مطابق ممتاز خان رائس مل گڑھی یاسین میں کام کرنے والے دو لڑکے اعجاز اور ببلو جمالی کی آپس میں محبت چلی آ رہی تھی۔ آخرکار دونوں نے اپنے دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد آپس میں شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس طرح مل کے مزدوروں نے دولہا اعجاز جھکر اور دلہن ببلو جمالی کی آپس میں شادی کے سلسلے میں رائس مل میں ایک تقریب کا اہتمام کر کے نکاح پڑھانے کے لیے مولوی غلام حیدر شیخ اور وکیل کریم ڈنو کو خاص طور پر بلایا۔

اگلے ہی دن دو لڑکوں کی آپس میں شادی کی اطلاع جیسے ہی پولیس کو ملی، پولیس نے فوری طور پر کاروائی کرتے ہوئے دو لڑکوں کا آپس میں نکاح پڑھانے والے مولوی غلام حیدر شیخ اور شادی کے وکیل کریم ڈنو کو گرفتار کر لیا۔ پولیس نے دولہا اور دلہن لڑکوں کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مارا مگر وہ دونوں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔ ۷ جون ۲۰۰۰ء)

سیکولر سٹیٹ اور دینی مدارس پر کنٹرول ۔ وزیر داخلہ کا نیا ایجنڈا

واشنگٹن (این این آئی) وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا ہے کہ پاکستان کو ترقی پسند، جدید اور متحمل مزاج سیکولر سٹیٹ ہونا چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ امریکی ایجنڈا نہیں بلکہ ہماری اپنی پالیسی ہے۔ حکومت واضح طور پر فیصلہ کر چکی ہے کہ ان ہزاروں مدارس کو کنٹرول کیا جائے گا جن میں سے بعض مغرب کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں اور بعض کشمیر، افغانستان، بوسنیا اور چیچنیا میں جہاد کے لیے نوجوان تیار کر رہے ہیں۔

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے نمائندہ جوڈتھ ملر کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق وزیر داخلہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان میں حکومت نے عسکریت پسندوں کا نیٹ ورک بتدریج ختم کرنے کے لیے مہم شروع کر دی ہے کیونکہ ان کے باعث پاکستان میں فرقہ واریت پھیل رہی ہے اور لوگوں کے ذہن زہرآلود کیے جا رہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اپیل پر افغانستان میں طالبان نے متعدد پاکستانی اور عرب ملک بدر کیے ہیں جو اپنی حکومتوں کو دہشت گردی کی سرگرمیوں میں مطلوب تھے۔ طالبان نے رشکاور میں کابل کے قریب ایک کیمپ کا بھی سراغ لگایا ہے جہاں عسکری تربیت دی جاتی تھی۔

وزیر داخلہ نے اس امر پر زور دیا کہ قومی سلامتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے لیے ایک اچھا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہم کسی کے ایجنڈے پر کام نہیں کر رہے۔ پاکستان کو ایک پروگریسو، جدید اور متحمل مزاج سیکولر سٹیٹ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام ایک رات میں نہیں ہو سکتا اور اس سے بہت سے لوگ اپ سیٹ ہوں گے۔ تاہم حکومت ان پر قابو پانے اور بتدریج رول بیک کرنے کا عزم کیے ہوئے ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان میں چار ہزار کے قریب دینی مدارس رجسٹرڈ ہیں۔ وہ ان دینی مدارس کے سربراہوں سے ملاقات کر کے ان پر زور دے چکے ہیں کہ وہ ان مدارس میں ریاضی اور کمپیوٹر کی تعلیم کو بھی اپنے نصاب میں شامل کریں۔ وہ صرف ایک قسم کے لوگ پیدا نہ کریں بلکہ متبادل شخصیات پیدا کریں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکہ نے وزیر داخلہ کے انٹرویو کے حوالے سے پاکستان کے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے تازہ ترین اقدامات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ اقدامات کامیاب ہوں گے، اور کہا ہے کہ ہمیں پاکستان کی حکومت سے اسی قسم کے اقدامات کی امید ہے۔

امریکی نائب وزیرخارجہ برائے جنوبی ایشیا کارل انڈرفرتھ نے وزیر داخلہ کے ایکشن پلان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس کا خیرمقدم کرتا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے امریکہ کو باقاعدہ طور پر ان اقدامات سے آگاہ نہیں کیا تاہم ہمیں پاکستان سے ایسی ہی امید ہے اور ہم اسی قسم کے اعلانات کے منتظر ہیں، امید ہے کہ پاکستان اس میں کامیاب ہو گا۔ ایک اور امریکی عہدیدار نے کہا کہ لگتا ہے پاکستان پہلے سے زیادہ اقدامات کر رہا ہے۔

(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۱۱ جون ۲۰۰۰ء)

وزارتِ داخلہ کی وضاحت

اسلام آباد (این این آئی) وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے ہرگز یہ نہیں کہا کہ پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ بنایا جائے، اخبار نے غلط بیانی کی ہے۔

اتوار کو جاری ہونے والے ایک بیان میں ترجمان نے نیویارک ٹائمز کے حوالے سے پاکستانی پریس میں شائع ہونے والے وزیر داخلہ کے انٹرویو کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نیویارک ٹائمز نے وزیر داخلہ اور انٹرویو کرنے والے کے خیالات کو خلط ملط کر دیا ہے جس سے قارئین کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔

ترجمان نے کہا کہ انٹرویو کے دوران وزیر داخلہ کے خیالات بالکل واضح اور ٹھوس تھے، انہوں نے پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے کا کوئی حوالہ نہیں دیا۔ ترجمان نے کہا کہ وزیر داخلہ متعدد مرتبہ واضح کر چکے ہیں کہ حکومت کا مقصد پاکستان کو ایک معتبر، جدید، پروگریسو اور متحمل مزاج سٹیٹ بنانا ہے۔ جہاں تک پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے کا تعلق ہے یہ معاملہ آزادی کے وقت ہی طے ہو گیا تھا کیونکہ پاکستان ایک مسلم ملک کی حیثیت سے ہی اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ لہٰذا اسلام ہی پاکستان کا سرکاری مذہب ہے اور پاکستان کے عوام اسلام کے سیاسی، معاشی اور اخلاقی قدروں اور سنہرے اصولوں سے مستفید ہوتے رہیں گے۔۔۔

(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۱۲ جون ۲۰۰۰ء)


اخبار و آثار

(جون ۲۰۰۰ء)

جون ۲۰۰۰ء

جلد ۱۱ ۔ شمارہ ۶

تلاش

Flag Counter