اسلام اور خواتین کے حقوق

مولانا محمد برہان الدین سنبھلی

دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے استاذ تفسیر حضرت مولانا برہان الدین سنبھلی نے یہ مقالہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں پڑھا جسے پندرہ روزہ ’’تعمیرِ حیات لکھنؤ‘‘ کے شکریہ کے ساتھ ’’کلمہ حق‘‘ کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)


قوانینِ اسلام میں عورتوں کو جو حقوق دیے گئے ہیں ان کی صحیح قدر و قیمت کا اندازہ اس وقت ہو سکے گا جب اسلام کے علاوہ دیگر مذہبی، ملکی، قومی قوانین سے آگہی ہو اور دونوں کے درمیان موازنہ کیا جائے۔ جیسا کہ روشنی کی صحیح قدر اسے ہی ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے جسے تاریکی سے واسطہ پڑا ہو۔ یا غذا کی افادیت کا اندازہ حقیقتاً وہی صحیح لگا سکتا ہے جو بھوک اور فاقہ کا شکار رہا ہو۔ اس لیے پہلے ہلکی سی جھلک غیر اسلامی نظام و قوانین کی دکھانا، نیز جاہلیت کے ان طریقوں کا ذکر کرنا مناسب لگتا ہے جو صنفِ نازک کے بارے میں دنیا بھر میں رائج تھے۔

رومن لاء

ہم یہاں سب سے پہلے رومن لاء کا مختصر جائزہ لیتے ہیں جسے عام طور پر قوانین کا جنم داتا اور انسانیت کا رکھوالا اور انصاف کا نمائندہ باور کیا اور کرایا جاتا ہے، اور جو عرصہ دراز تک سارے مغرب میں اور خاص طور پر یورپ میں دستوری حکمرانی کرتا رہا ہے۔ اس لاء میں کنبہ کے سربراہ کو کنبہ کے بقیہ افراد پر خواہ وہ بیوی ہو یا بہو، بیٹے بیٹی ہوں یا پوتے پوتی، فروخت کرنے، ہر طرح ایذائیں دینے حتٰی کہ قتل کرنے کا اختیار تھا۔ نیز بیوی کو ترکہ سے محروم رکھنے کا بھی اسے حق حاصل تھا۔ لڑکیاں حقِ ملک نہیں رکھتی تھیں اور اپنے باپ کے ترکہ سے بھی محروم ہوتی تھیں۔ دیکھئے المراۃ بین الفقہ و القانون ص ۱۵، ۱۶ ۔ طبقہ رابعہ ڈاکٹر مصطفٰی سباعی۔ الترکہ والمیراث فی الاسلام ص ۴۰ تا ۵۴ از ڈاکٹر محمد یوسف مصری (المطبعہ المعرفہ)۔

یونانی قانون

یونانی قانون میں مورث کی حیثیت معمولی سامان کی سی تھی جس کی بازار میں آزادانہ خرید و فروخت ہوتی۔ اسے نہ شہری حقوق حاصل تھے نہ آزادی۔ میراث بھی نہیں دی جاتی تھی۔ اسے ناپاک سمجھا جاتا تھا۔ پوری زندگی وہ کسی نہ کسی مرد کے شکنجہ میں گرفتار رہتی۔ شادی سے قبل سرپرست کے اور شادی کے بعد شوہر کے پنجہ استبداد میں رہتی۔ نہ اپنے مال میں تصرف کا حق رکھتی تھی نہ جان میں۔ باپ اپنی بیٹی کو فروخت کرتا تھا اور ہونے والا شوہر اسے خریدتا تھا۔ اس کے بعد اسے (شوہر کو) پورا اختیار ہوتا تھا کہ اسے چاہے اپنی زوجیت میں رکھے یا کسی اور کو سونپ دے۔ (مدیٰ حریت الزوجین ص ۲۷ از ڈاکٹر عبد الرحمٰن صابونی۔ نیز المراۃ بین الفقہ والقانون ص ۱۳)

مسیحی مذہب

مسیحی مذہب جسے دنیا کے مہذب ترین کہلانے والے ملکوں میں سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہے، اس کا حال اور اس کا ریکارڈ تو عورت کے بارے میں سب سے گیا گزرا ہے۔ اس بارے میں غیر عیسائیوں نے نہیں بلکہ خود عیسائیوں نے جو تفصیلات بتائی ہیں وہ عبرت کے لیے کافی ہیں۔ مثلاً ایک عیسائی انگریز فلسفی ہربرٹ سپنسر کہتا ہے، گیارہویں اور پندرہویں صدی (بعثتِ محمدیؐ کے کوئی آٹھ سو سال بعد تک) انگلستان میں عام طور پر بیویاں فروخت کی جاتی تھیں۔ عیسائی مذہبی عدالتوں نے ایک قانون کو رواج دیا جس میں شوہر کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کسی دوسرے کو جتنی مدت کے لیے چاہے عاریتاً بھی دے سکتا ہے۔ ان سب سے زیادہ شرمناک رواج یہ تھا (جسے ایک طرح سے قانون کا سا درجہ حاصل تھا) کسی کسان کی نئی نویلی دلہن کو مذہبی پیشوا یا حاکم کو چوبیس گھنٹے تک اپنے تصرف میں رکھنے اور اس کے جسم سے لطف اندوز ہونے کا حق حاصل تھا (المراۃ بین الفقہ والقانون ص ۲۱۱)۔ اور تو اور سولہویں صدی ۱۵۶۷ء میں بعثتِ نبویؐ سے تقریباً ایک ہزار سال بعد اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ نے یہ قانون پاس کیا تھا کہ عورت کو کسی بھی چیز پر ملکیت کا حق حاصل نہیں ہو گا۔ اور ان سب سے زیادہ تعجب خیز انگلستان کی پارلیمنٹ نے قانون پاس کیا جس میں عورت کے لیے انجیل پڑھنا حرام قرار دیا (المراۃ بین الفقہ والقانون ص ۲۱۱)۔

اس کا تذکرہ کرنے کے بعد ڈاکٹر سباعی صاحب نے بجا طور پر تقابل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں قرآن کو یکجا کر کے ایک مصحف تیار کیا تو وہ حضرت حفصہؓ کے پاس محفوظ کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ وہ خاتون تھیں۔

سب سے بڑھ کر عجیب تر یہ انکشاف ہے کہ ۱۸۰۵ء تک انگلستانی قانون کی رو سے شوہر بیوی کو فروخت کرنے کا پورا اختیار رکھتا، اور اس کی قیمت بھی جو قانوناً مقرر کی گئی تھی وہ اتنی حقیر تھی کہ اس کا ذکر باعثِ شرم ہے یعنی صرف چھ پنس (تقریباً آج کے دو روپیہ ہندوستانی) (المراۃ بین الفقہ والقانون ص ۲۱)

اس کے ساتھ ایک اور مسیحی یورپی ملک فرانس میں ایک کانفرنس کا حال یا روئیداد دل پر پتھر رکھ کر اور سن لیجئے جس میں اس بات پر بحث و مباحثہ ہوا کہ عورت انسان ہے یا کوئی اور جانور؟ اگرچہ آخر میں طے یہ پایا کہ انسان ہے۔ (معارف القرآن ج ۱ ص ۵۴۹ از مفتی محمد شفیع صاحبؒ)

علاوہ ازیں مسیحی مذہب قانون کی رو سے عورت ترکہ سے بہرصورت محروم رہتی تھی بلکہ اکثر اولاد میں بھی صرف بڑا لڑکا ہی استحقاق (ترکہ پانے کا) رکھتا تھا۔

یہودی مذہب

موجودہ یہودی مذہب (جو ظاہر ہے کہ محرف شکل میں ہے) میں عورتیں ترکہ کا استحقاق قطعاً نہیں رکھتی تھیں۔ چاہے بیوی ہو، بیٹی ہو یا ماں، بہن۔ البتہ بڑا لڑکا چھوٹے کے مقابلہ میں دوہرا حصہ اپنے باپ کے ترکہ میں سے پاتا۔ (الترکہ والمیراث ص ۴۱، ۴۲)

ہندو دھرم

ہم سب سے پہلے ’’انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجئن اینڈ ایتھکس‘‘ کے حوالہ سے ہندومت میں عورت کے حقوق وغیرہ کے بارے میں جو ملتا ہے اس کا مختصر تذکرہ کرتے ہیں۔ بعد ازاں خود ہندوؤں کی معتبر کتابوں سے اس موضوع پر تفصیلات پیش کریں گے۔ یہاں یہ بتانا بے محل نہ ہو گا کہ مذکورہ کتاب (اخلاق و مذہب کی انسائیکلو پیڈیا) دنیا بھر میں معتبر تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کا مقالہ نگار لکھتا ہے: سمرتی (ہندو مذہب کی معتبر کتاب) میں آٹھ قسم کی شادیوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ان میں ایک قسم کا نام ’’اسورا‘‘ ہے، یہ طریقہ جنگجو اور پچھلی ذات کے لوگوں میں رائج تھا جس میں عورت کو خریدا جاتا تھا۔ اسی طرح (نکاح کی) ایک قسم کا نام راکشش ہے جس میں عورت پر زبردستی قبضہ کر لیا جاتا تھا۔ (انسائیکلوپیڈیا ج ۸ ص ۴۵۱، ۴۵۲)

اب ہندو مذہب کی مشہور کتاب ’’منو سمرتی‘‘ (اردو ترجمہ شائع کردہ بھائی تارا چند چھمبریک سیلر لاہوری گیٹ لاہور) سے براہ راست کچھ دفعات نقل کرتے ہیں جس سے ہندو مذہب میں رشتہ ازدواج اور عورت کی حیثیت سے متعلق حقائق سامنے آتے ہیں۔

منو سمرتی ادھیائے ۹ سلسلہ ۲: رات دن عورت کو پتی کے ذریعہ بے اختیار رکھنا چاہیے۔

منو سمرتی ادھیائے ۹ سلسلہ ۵۸: اگر اولاد نہ ہو تو اپنے خاندان سے اجازت لے کر مالک (شوہر عام طور پر۔شوہر کے لیے ’’مالک‘‘ کا استعمال ملتا ہے، اس سے بھی عورت اور شوہر کی حیثیت کا پتہ لگانا آسان ہو جاتا ہے) خاندان کے رشتہ دار یا دیور سے اولاد پیدا کرے۔

منو سمرتی ادھیائے ۹ سلسلہ ۱۱۹: چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی زوجہ سے بیٹا پیدا کرے تو اس بیٹے کے ساتھ چاچا لوگ برابر تقسیم حصہ کریں۔

ہندو مذہب میں شادی (دواہ) کے علاوہ بھی ایک اور عقد جائز تسلیم کیا گیا جسے ’’نیوگ‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں شادی شدہ عورت سے بھی دوسرا شخص کچھ مدت کے لیے نکاح کر سکتا ہے۔ اس طریقے سے پیدا ہونے والی اولاد اصلی شوہر کی ہی سمجھی جاتی ہے، اور یہ دوسرے قسم کا نکاح (نیوگ) دس مردوں سے بھی ہو سکتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سوامی دیانند سرسوستی کے لیکچروں کا مجموعہ (اپدیشن منجری ص ۱۰۷ از سوامی دیانند سرسوتی، شائع کردہ سیکرٹری آریہ منڈل کیرانہ ضلع مظفر نگر)

واضح رہے کہ ایک مشہور یورپین مصنف جان ڈی مین نے ’’قانون رواج ہنود‘‘ نامی کتاب میں ’’نیوگ‘‘ کی یہ تعریف کی ہے: ’’دوسرے کی زوجہ سے بچہ جنانے کا عام رواج ’’نیوگ‘‘ کے نام سے موسوم تھا‘‘۔ (قانون رواج ہندو ج ۱۰ ص ۱۰۶ ترجمہ از مولوی اکبر علی بی اے آنرز شائع کردہ جامع عثمانیہ حیدرآباد ۱۹۴۱ء)

علاوہ ازیں ابھی چند سال پہلے ۱۹۹۶ء میں ایک رپورٹ ملک کے مشہور اخبارات میں شائع ہوئی جس میں بتایا گیا ہے: ’’ہندوستان سمیت کئی ملکوں میں ایک عورت کے ایک سے زائد شوہر ہونے کی رسم آج بھی موجود ہے‘‘۔ آگے چل کر کہا گیا ہے: ’’ہندوستان میں لداخ، ہماچل کے سرمور ضلع میں اونچی ذات والوں میں، اور اترپردیش کے دہرہ دون ضلع میں یہ رسم موجود ہے۔ لداخ کے کچھ فرقوں میں یہ رسم اس طرح موجود ہے کہ خاندان کے سبھی مردوں کی ایک ہی بیوی ہوتی ہے۔ خاندان کا بڑا بھائی کسی عورت سے شادی کرتا ہے اور بعد میں سبھی بھائی اس عورت کے ساتھ بیوی کے تعلقات قائم کرتے ہیں۔ یہ انکشافات مشہور ماہر سماجیات پروفیسر میش کمار راما نے ایک سروے کرنے کے بعد کیے ہیں جو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہماچل پردیش کے ضلع گزٹ کے مطابق یہ رسم خاص طور پر برہمنوں اور راجپوتوں میں اور کچھ نچلی ذاتوں میں پائی جاتی ہے۔ حال کے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ۹۸ شادیوں میں سے ۲.۴ فیصد کثیر شوہری تھیں۔ (قومی آواز لکھنؤ ۔ مورخہ ۱۱ جنوری ۱۹۹۶ء)

ہندو مذہب کے قانونِ وراثت میں عورتیں تو سب، اور بڑے بیٹے کے علاوہ بقیہ لڑکے بھی باپ کے ترکہ سے محروم ہوتے ہیں، جیسا کہ منو سمرتی میں ہے: ’’ماں باپ کی تمام دولت بڑا بیٹا ہی لیوے‘‘۔ (منو سمرتی، اردو ترجمہ ۱۸۱)

عرب کا زمانہ جاہلیت

قبل از اسلام عربوں میں عورت کی جو حالتِ زار تھی اس سے تو کم و بیش اکثر اہلِ علم واقف ہی ہیں کہ لڑکی پیدائش ہی سخت عار کی بات سمجھی جاتی تھی اور اس داغ کو مٹانے کے لیے اسے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا جس کا قرآن مجید میں بھی بڑے بلیغ انداز میں تذکرہ ہے۔ سورۃ النحل آیت ۵۸ میں ہے:

واذا بشر احدھم بالانثٰی ظل وجھہ مسودًا وھو کظیم یتوارٰی من القوم من سوء ما بشر بہ ایمسکہ علیٰ ھون ام یدسہ فی التراب۔

عورت کو، چاہے بالغ ہی ہو، اپنا نکاح خود کرنے کا اختیار نہیں تھا، بلکہ اس کا ولی جس سے چاہے اس کی مرضی کے بغیر بھی نکاح کر سکتا تھا۔ پھر بیوی کی حیثیت بالکل باندی کی سی تھی جو صرف شوہر کی جنسی خواہش بلکہ ہوس کا شکار بننے کے سوا اور کوئی حق نہیں رکھتی تھی۔ بیوہ ہو جاتی تو اس کے شوہر کے ورثاء اس کے ساتھ مرنے والے کے ترکہ کا سا معاملہ کرتے۔ یعنی چاہے اپنے پاس رکھتے یا دوسرے سے نکاح کرتے۔ اسے شوہر کے ترکہ میں سے کچھ بھی نہ دیتے کیونکہ ترکہ کا استحقاق رجولیت اور قوت پر تھا۔ اس بنا پر کم عمر لڑکے بھی ترکہ سے محروم رکھے جاتے تھے اور لڑکیاں تو سب ہی محروم رہتیں۔ ان باتوں کی تفصیل بکثرت کتبِ حدیث، تفسیر و فقہ میں ملتی ہیں۔ بالعموم بڑا لڑکا ہی ترکہ کا مستحق سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ اسی اصول کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب کا ترکہ صرف حضرت ابو طالب کو ملا (شرح مسلم نووی ج ۲ ص ۴۳۶)۔

اسلام نے خواتین کو کیا دیا؟

اب آئیے دیکھیں کہ اسلام میں عورت کا کیا مقام ہے اور اس کے لیے کیسی کیسی شرعی قوانین میں رعایتیں دی گئی ہیں۔

عورت کے بارے میں قرآن مجید کی سورہ نساء آیت ۱ میں انسانیت کی مساوات کا خلقکم من نفس واحدۃ وجعل منھا زوجھا کے الفاظ میں صاف اعلان کر دیا گیا کہ عورت اور مرد دونوں ایک ہی نفس سے پیدا شدہ ہیں، اس لیے دونوں ہم جنس ہیں۔ ایسا نہیں کہ عورت کسی اور جنس سے ہو (مثلاً حیوان ہو) اور مرد دوسری جنس سے، بلکہ دونوں ہی انسانیت کے رشتہ سے برابر ہیں۔ اسی طرح حدیثِ نبوی میں النساء شقائق الرجال ’’عورت مرد کی پسلی ہے‘‘ (احمد و ابوداؤد ص ۲۵ بحوالہ المراۃ ص ۲۵) فرما کر اس کی تصریح و توضیح فرما دی گئی۔ چنانچہ اسلام کے تمام احکام میں صنفی اور طبعی فرق کا لحاظ کرتے ہوئے دونوں کے لیے یکسانیت برتی گئی ہے، بلکہ اسلام کے تمام قوانین پر اگر گہری نظر ڈالی جائے تو عورت کو کچھ زیادہ رعایتیں دی گئی معلوم ہوتی ہیں۔ عرب میں (جیسا کہ اوپر گزرا) لڑکیوں کی پیدائش سخت عیب کی بات سمجھی جاتی تھی۔ اس کے بالمقابل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایات دیں، مثلاً فرمایا:

من بلی ھذہ البنات شیئا فاحسن الیھن کن سترا من النار (صحیح بخاری ج ۲ ص ۸۸۷) یعنی جو شخص لڑکیوں کی بہترین طریقہ پر سرپرستی کرے (تربیت دے) اور اچھا برتاؤ کرے گا وہ جہنم میں نہ جائے گا۔

ایک اور حدیث میں یوں فرمایا من کانت لہ ثلاث بنات او ثلاث اخوات او ابنتان او اختان فاحسن مجنھن واتقی اللہ فیھن فلہ الجنۃ (ترمذی ج ۲ ص ۱۳ و ۱۴ مکتبہ رشیدیہ دہلی)۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں من عال جاریتین دخلت انا وھو الجنۃ کھاتین اشاریا صبعیہ (ترمذی ص ۱۳) یعنی جو شخص دو تین بہنوں یا لڑکیوں کی بہترین طریقہ پر تربیت کرے اور کسی طرح کی زیادتی نہ کرے وہ جنت میں جائے گا اور اللہ کے رسولؐ سے اتنا قریب ہو گا جتنی ایک ہاتھ کی دو برابر کی انگلیاں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس شوق انگیز اندازِ بیان کے بعد بھلا کون سچا مسلمان ہو گا جو لڑکیوں اور بہنوں کی پرورش میں کوتاہی کرے اور دلچسپی نہ لے گا۔ ان ہدایات کا یہ اثر ہوا کہ غیر شادی شدہ لڑکیاں اسی خطہ عرب میں جہاں زندہ درگور کی جاتی تھیں ’’کریمہ‘‘ (یعنی خاتون معزز و محترم) کہلائی جانے لگیں۔ مزید یہ کہ اس صنف کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا اور بھی متعدد پیرایہ بیان میں حکم دیا۔

مثلاً قرآن مجید سورہ النساء آیت ۱۹ میں فرمایا عاشروھن بالمعروف ’’عورتوں کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی گزارو‘‘۔ اور حدیث میں فرمایا استو صوابا النساء خیرا ’’عورت کے ساتھ بہتر برتاؤ کرنے میں میری صلاح مانو‘‘۔ بلکہ اسی کے ساتھ یہ بھی ہدایت دی کہ عورتوں سے اگر کوئی تکلیف بھی پہنچے تو یہ خیال کر کے کہ ان میں بہت سی خوبیاں بھی ہیں، طُرح دے جاؤ۔ غور کیجئے کہ یہ اندازِ بیان کتنا مؤثر ہے۔ الفاظِ حدیث یہ ہیں: لا یفرک مومن مومنۃ ان کرہ منھا خلقا رضی منھا آخر (صحیح بحوالہ مشکوٰۃ ج ۲ ص ۲۸۰)۔ درحقیقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی مستفاد ہے قرآن مجید کی سورہ النساء آیت ۱۹ فان کرھتموھن فعسٰی ان تکرھوا شیئا ویجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا سے۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسولؐ نے فرمایا اکمل المومنین ایمانا احسنھم خلقا و خیارکم خیارکم لنسائھم ’’ایمانِ کامل اس شخص کا ہے جو خوش اخلاقی میں ممتاز ہو، اور تم سب سے اچھا وہ شخص ہے جو اپنی عورتوں کے لیے اچھا ہو‘‘۔

انہی آیات و احادیث کی بنیاد پر امام غزالیؒ نے کیا خوب بات فرمائی، لیس حسن الخلق معھا کف الاذٰی عنھا بل احتمال الاذٰی والحلم عند طیشھا وغضبھا (احیاء علوم الدین ج ۲ ص ۳۹)۔ مطلب یہ ہے کہ عورت کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کے حکم کا تقاضا صرف یہ نہیں ہے کہ مرد عورت کو اذیت نہ پہنچائے، بلکہ اس کے اندر یہ بھی داخل ہے کہ اگر عورت کی طرف سے کوئی تکلیف دہ بات پیش آئے تو اسے برداشت کرے۔ امام غزالیؒ نے یہ بھی لکھا ہے (اور احادیثِ صحیحہ میں یہ واقعہ موجود ہے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے بالکل قریب، جبکہ زبان مبارک پورا ساتھ نہیں دے رہی تھی، اس وقت جو چند اہم نصائح امت کو فرمائے ان میں عورت کے ساتھ بہتر برتاؤ کرنے اور اس بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنے کی بھی تھی (احیاء علوم الدین ص ۳۷ و ۳۸ ج ۲)۔

عورت کے اخراجات

عورت کے ساتھ بہتر برتاؤ کرنے، اس کے ساتھ عزت و احترام کا بلکہ دلجوئی کا معاملہ کرنے کا حکم اس کی صنفی نزاکت کے لحاظ و رعایت کی بنا پر ہی ہے۔ کیونکہ نازک چیز کی رعایت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں انہیں قواریر ’’آبگینہ‘‘ فرما کر ان کی نزاکت کا اعتراف آخری درجہ میں کیا گیا ہے۔ جیسے صحیح بخاری ج ۲ ص ۹۱۷ میں ہے رفقاً بالقواریر۔

اس بنیاد پر اسے کسبِ معاش کی مشقتوں سے بچایا گیا اور اس کا نفقہ کسی نہ کسی مرد کے ذمہ کر دیا گیا۔ شادی سے قبل والد پر، والد نہ ہونے یا اس کے اخراجات برداشت کرنے کے لائق نہ ہونے کی صورت میں حسبِ اصولِ وراثت دادا، چچا، بھائیوں وغیرہ پر۔ شادی کے بعد شوہر پر۔ شوہر سے علیحدگی کی شکل میں عدت کے درمیان کے تمام اخراجات شوہر کے ذمہ۔ شیر خوار بچہ کی موجودگی میں عدت کے بعد بھی، جب تک بچہ ماں کا دودھ پیتا رہے، اس کے نیز بچہ کے اخراجات بھی اس کے سابق شوہر پر ہی ہیں۔ عدت کے بعد (شیر خوار بچہ نہ ہونے کی صورت میں) اولاد پر۔ اولاد نہ ہو تو پھر شادی سے قبل کی طرح والد یا دیگر رشتہ داروں پر لازم ہوتے ہیں۔ جن پر اخراجات لازم ہیں وہ رضاکارانہ نہیں بلکہ ان پر واجب ہوتے ہیں۔

عورت کے اختیارات

اوپر کی تفصیلات سے اسلام میں عورت کے عزت و احترام نیز حقوق کا اندازہ کر لینا مشکل نہ رہا ہو گا۔ اس کے بعد اب ایک جھلک ہم اس کے اختیارات کی دکھاتے ہیں۔ عورت بالغ ہونے کے بعد (مرد ہی کی طرح) اپنے جان و مال، نکاح، مالی لین دین وغیرہ کے بارے میں قانونِ شریعت کے لحاظ سے پوری طرح مختار ہوتی ہے۔ اپنے مال کی پوری طرح مالک ہوتی ہے جس طرح کہ مرد، کہ جہاں چاہے اور جتنا چاہے خرچ کرے۔ (بس جس طرح مردوں کے لیے کچھ پابندیاں مثلاً فضول خرچی نہ کریں اور حرام جگہ پر خرچ نہ کریں اسی طرح عورت کے لیے بھی ہیں)۔ اس بات کے لیے حوالے پیش کرنے کی چنداں ضرورت معلوم نہیں ہوتی۔ علاوہ اس کے کہ ہر متعلقہ کتاب میں اس کی صراحت موجود ہے۔ عام طور پر یہ معروف حقیقت بھی ہے۔ سب سے نازک مسئلہ اس کے ازدواجی تعلق کا ہے، اس میں (کم سے کم فقہ حنفی میں، ظاہر ہے کہ وہ بھی شریعت ہی کی ترجمان ہے) بالغ عورت مختار ہے کہ جس سے نکاح کرنا چاہے کر سکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض شکلوں میں اولیاء کو اعتراض کا حق دیا گیا ہے اور اولیاء کی اجازت و سرپرستی میں ہونے والے نکاح کو پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ عورت از خود اولیاء کے بغیر نکاح کر لیتی ہے تو نکاح منعقد ہو جاتا ہے (اگرچہ پسندیدہ نہیں) (بدائع الصنائع ج ۲ ص ۲۴۱ ۔ طبعہ اولیٰ للعلامہ الکاسانیؒ ف ۵۸۷ھ)۔ اور اس کے لیے احادیثِ نبویہؐ سے استدلال کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے الا یم احق بنفسھا من ولیھا (ابوداود ج ۱ ص ۲۸۶ مطبع مجیدی کانپور)۔ مطلب یہ ہے کہ غیر شادی شدہ عورت اپنے نکاح کے بارے میں اپنے ولی سے زیادہ حقدار ہے (کہ جس سے چاہے نکاح کرے)۔ اس کی تائید اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ ایک کنواری (بالغ) لڑکی کا نکاح اس کے والد نے لڑکی کی مرضی کے بغیر کر دیا تھا تو اس لڑکی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس پر اسے اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ چاہے تو نکاح برقرار رکھے اور نہ چاہے تو نکاح ختم کر دے (ایضاً)۔ اور اس کے علاوہ آنحضرتؐ نے یہ بھی صاف صاف فرما دیا کہ لا تنکح الثیب حتٰی تستامر ولا البکر الا بذتھا (ابوداؤد ج ۱ ص ۲۸۵ مطبع مجیدی ۔ کانپور) مطلب یہ کہ شوہر رسیدہ عورت کی شادی اس کے صریح حکم کے بغیر نہ کی جائے۔ اور کنواری لڑکی کا بھی نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں قرآن مجید میں بھی اولیاء کو صاف طور پر اس سے منع کیا گیا ہے کہ وہ عورتوں کی پسند کے شخص سے انہیں اپنا نکاح کرنے میں رکاوٹ ڈالیں۔

عورت کا ترکہ میں شرعی استحقاق

گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ دنیا کے کسی بھی مذہب، ملک اور قوم نے عورت کو ترکہ کا مستحق نہیں قرار دیا ہے لیکن اسلام نے بالکل مرد ہی کی طرح عورت کو بھی ترکہ کا مستحق بنایا ہے۔ اور اس بارے میں عمر اور نمبر کا فرق بھی نہیں کیا (مثلاً پہلی ہی اولاد کو ترکہ ملتا، یا نرینہ کو ہی ملتا بقیہ کو نہ ملتا)۔ کیونکہ جب سبب استحقاق میں سب اولاد برابر ہے تو اس کی بنیاد پر ملنے والے حق میں فرق کیوں ہو۔

زمانہ جاہلیتِ قدیمہ میں عرب ہی نہیں، جاہلیتِ جدیدہ میں بھی ترقی یافتہ سمجھے جانے والی بہت سی یورپین اور دوسری قومیں بڑے لڑکے کو ہی ترکہ کا واحد مستحق قرار دیتی ہیں۔ حالانکہ عقلِ سلیم اور مزاجِ مستقیم کے لحاظ سے یہ بالکل الٹی منطق معلوم ہوتی ہے۔ یعنی اولاد کے درمیان اگر فرق کیا جانا ہی ناگزیر ہوتا تو معکوس ترتیب ہوتی کہ چھوٹوں سے چھوٹے کو ملتا۔ سچ کہا ہے، چھٹی صدی ہجری کے ایک مشہور مالکی عالم قاضی ابوبکر ابن العربی (ف ۵۴۳ھ) نے:

ان الورثۃ الصغار الضعاف کانوا احق بالمال من القوی فنکسوا الحکم وابطلوا الحکمۃ۔ (احکام القرآن لابن العربی ج ۱ ص ۱۲۶ ۔ الطبعۃ الاولیٰ مطبعۃ السعادۃ مصر)

’’یعنی کمزور اور کم عمر ورثہ تو قوی وارثوں کے مقابلہ میں مال کے زیادہ ضرورت مند و مستحق ہوتے ہیں، لیکن جاہلوں نے ترتیب الٹ کر رکھ دی تھی۔‘‘

بہرحال اسلام نے سب اولاد کو استحقاقِ ترکہ میں برابر قرار دیا ہے (یہ الگ بات ہے کہ مصالح کی بنا پر مقدار میں فرق کیا ہے)۔

اسلامی نظامِ وراثت کی بنیاد

جیسا کہ امام غزالیؒ (ف ۵۰۵ھ) نے بتایا ہے، نسب اور سبب پر ہے (الوجیز ص ۲۶۰ ۔ مطبوعہ ۱۳۱۷ھ مطبعہ الاداب)۔ اس نظام کی رو سے عورتوں میں ماں، بیٹی، بیوی، کسی حال میں ترکہ سے محروم نہیں رہ سکتیں۔ ان کے علاوہ بہت سی صورتوں میں پوتی، دادی، نانی، بہن (ان کی تینوں قسمیں حقیقی، علاتی، اخیاتی) بلکہ بعض صورتوں میں پھوپھی نواسی بھی ترکہ پانے کی مستحق ہوتی ہیں (تفصیلات کتب فرائض مثلاً سراجی میں دیکھی جائیں)۔

ایک سطحی اعتراض

اسلامی نظامِ وراثت پر بادی النظر میں ایک اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے بلکہ سطحی نظر رکھنے والوں نے پورے اسلامی نظام پر نظر نہ ہونے کی وجہ سے بعض نے کیا بھی ہے کہ عورت کو اکثر صورتوں میں (اگرچہ بعض صورتوں میں مثلاً بہن بھائی کو برابر ملتا ہے) مرد سے نصف حصہ ملتا ہے۔ حالانکہ قانون کے سب پہلوؤں پر نظر ہو تو اعتراض کی گنجائش نہ رہے۔ مثلاً حقیقت سامنے ہو کہ عورت پر اسلامی قانون کی رو سے کوئی خرچ، حتٰی کہ اپنا خرچ بھی نہیں ہے (تفصیل اوپر گزر چکی ہے)۔ اس لیے اسے جو کچھ ملتا ہے محض اس کی دلجوئی اور عزت افزائی کے لیے ملتا ہے۔ اکثر اس کے ’’بینک بیلنس‘‘ بڑھانے یا زیورات بنوانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس کے برخلاف مرد پر اکثر حالات میں نہ صرف اس کے اپنے بلکہ دیگر اقارب کے اخراجات کا بار بھی ہوتا ہے۔ اور بیوی، نیز لڑکیوں اور نابالغ لڑکوں کے بلکہ معذور بالغوں کے بھی اخراجات اس کے ذمہ ہوتے ہیں۔

علاوہ ازیں عورت نکاح کرتی ہے تو وہ اپنے شوہر سے مہر پانے کی، جو اکثر اوقات میں بڑی رقم ہوتی ہے، حقدار ہوتی ہے۔ اور مرد نکاح کرتا ہے تو اسے مہر ادا کرنا پڑتا ہے۔ اسے ایک مثال سے سمجھنا آسان ہو گا مثلاً ایک شخص کا انتقال ہوا، اس نے ترکہ میں تیس ہزار روپے اور صرف ایک لڑکا اور ایک لڑکی وارث چھوڑے۔ اب ازروئے قانونِ اسلامی لڑکے کو بیس ہزار روپیہ، لڑکی کو دس ہزار ملے۔ بعد ازاں دونوں نے شادیاں کیں۔ اور فرض کیجئے دونوں کا مہر دس دس ہزار روپے مقرر ہوا۔ اب صورتِ واقعہ یہ بنی کہ لڑکے کے پاس دس ہزار روپیہ مہر کے نکل گئے، اور لڑکی کے پاس دس ہزار (اس کے شوہر سے ملے ہوئے) آ گئے۔ اس طرح لڑکی کے پاس بیس ہزار ہو گئے، اور لڑکے کے پاس دس ہزار ہی رہ گئے، اور وہ بھی بیوی وغیرہ کے اخراجات میں جلد صرف ہو جائیں گے اور باقی نہ رہیں گے۔ اس کے بر خلاف لڑکی کے پاس بالعموم رکھے ہی رہیں گے۔

ان تمام پہلوؤں پر گہری نظر جس کی ہو گی وہ بھلا اس حکیمانہ قانون پر اعتراض کر سکے گا؟ بلکہ عجب نہیں کہ اس کے برعکس عورت کو زیادہ حصہ ملنے اور مرد کو کم ملنے کی شکایت کرنے لگے۔ لیکن مرد کو خداوند تعالیٰ کی طرف سے کسبِ معاش کی جو صلاحیتیں اور مواقع دیے گئے ہیں ان کے پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ شکایت بھی باقی نہ رہے گی۔


دین و حکمت

(جون ۲۰۰۰ء)

جون ۲۰۰۰ء

جلد ۱۱ ۔ شمارہ ۶

تلاش

Flag Counter