حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ

مولانا مشتاق احمد

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی

مخدوم العلماء حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کو آج نور اللہ مرقدہ لکھتے ہوئے دل خون کے آنسو رو رہا ہے، قلم لرز رہا ہے۔ حضرت کی پاکیزہ ادائیں، مومنانہ فراست، دلنشین فرمودات دل و دماغ میں امنڈتے چلے آ رہے ہیں۔ قادیانیت کے خلاف حضرت کی للکار سے باطل تھرا رہا ہے۔ مولانا لدھیانویؒ ایک بھرپور مجاہدانہ زندگی گزار کر اللہ جل شانہ کے حضور پہنچ گئے لیکن فتنہ قادیانیت کے خلاف جو عوامی شعور انہوں نے پیدا کیا وہ الحمد للہ برقرار ہی نہیں روز افزوں بھی ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور مختلف شعبوں میں گراں قدر خدمات انجام دے رہے تھے۔ انہوں نے اپنے بعد کام سنبھالنے کے لیے ایک ٹیم تیار کر دی ہے جو کہ ان شاء اللہ ان کے مشن کو آگے بڑھائے گی اور مولانا لدھیانوی کا نام زندہ رہے گا۔

لہرا چکی وہ برق مگر اس کی تاب سے
ذروں میں زندگی ہے غزل خواں اسی طرح

ردِ قادیانیت پر بلامبالغہ سینکڑوں نہیں ہزاروں علماء کرام نے قلم اٹھایا ہے۔ ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے مشکل اور علمی انداز اختیار کیا۔ وہ بھی تھے جن کا اندازِ تحریر دل نشین بھی تھا اور عوامی بھی، عام فہم بھی تھا اور علمی دلائل سے بھرپور بھی، منفرد بھی تھا اور الہامی بھی۔ حضرت مولانا لدھیانویؒ دوسری قسم کے علماء کرام سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت کے اندازِ تحریر کو مختصر طور پر سہل ممتنع کہا جا سکتا ہے۔ احقر کا حضرت سے تعارف ان کی تحریروں کے واسطہ سے ہوا۔ ان کی علمیت، ان کا دل نشین اور منفرد انداز احقر کو ان کا شیدائی بناتا چلا گیا۔ حضرت کے مضامین کا ایک مجموعہ ’’حسنِ یوسف‘‘ کے نام سے شائع ہوا جو کہ واقعی اس نام کا مستحق تھا۔ ان کے اس معنوی حسن نے ہر کہ و مہ کو اپنا گرویدہ کر رکھا تھا۔ احقر بھی ردِ قادیانیت کے شعبہ کا ایک طالب علم ہے اور حضرت ٹھہرے اس فن کے امام۔ ان سے استفادہ کی خاطر چند بار خط و کتابت ہوئی۔ حضرت نے بڑی فراخ دلی سے جوابات سے نوازا۔

ان سے شعبان ۱۴۲۰ھ میں چناب نگر میں براہ راست پہلی اور آخری ملاقات ہوئی۔ محترم مولانا اللہ وسایا صاحب نے تعارف کرایا کہ یہ مولانا منظور احمد چنیوٹی کے مدرسہ میں شعبہ ردِ قادیانیت کے استاذ ہیں اور آپ سے مولانا چنیوٹی کی کتاب پر تقریظ لکھوانے آئے ہیں۔ حضرت نے بے ساختہ اس ناکارہ کو اپنے سینہ سے لگا لیا، معانقہ فرمایا اور چند منٹ اسی کیفیت میں دعاؤں سے نوازتے رہے۔ احقر ان کی اپنے معاصرین کے متعلق صاف دلی، چھوٹوں سے حوصلہ افزائی، بزرگانہ شفقت سے بہت متاثر ہوا۔ اسی سفر میں حضرت کا طلباءِ ردِ قادیانیت کو اس سے مدلل خطاب بھی سننے کا موقع ملا جو کہ احقر کے لیے ان کی زندگی کا آخری خطاب تھا۔

خواب بن کر رہ گئی ہیں کیسی کیسی محفلیں
خیال بن کر رہ گئے ہیں کیسے کیسے آشنا

احقر کے خیال میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی نور اللہ مرقدہ میں علمی اعتبار سے دو خصوصیات ایسی تھیں جو کہ اپنے ہم عصروں سے انہیں ممتاز کرتی تھیں:

(۱) عصرِ حاضر میں اسلامی دنیا اور سامراجی طاقتوں کے تعلقات کے اتار چڑھاؤ پر ان کی گہری نظر تھی۔ دورِ حاضر کے تمام فتنوں سے بھی وہ بخوبی آگاہ تھے۔ ان فتنوں کے پس منظر، تہہ منظر اور پیش منظر کے موضوع پر مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ ان کی تحریریں اس دعوٰی کا واضح ثبوت ہیں۔

(۲) ردِ قادیانیت کے موضوع پر وہ تمام نزاکتوں سے آگاہ تھے۔ قادیانیوں کے جتنے داؤ پیچ وہ جانتے تھے، بہت کم علماء ان کی ہم سری کا دعوٰی کر سکتے ہیں۔ قادیانیت سے متعلقہ فنی باریکیوں پر ان کی گرفت نہایت مضبوط تھی۔ قادیانی دلائل کے جوابات بخدا کم از کم احقر کو تو الہامی معلوم ہوتے تھے۔ وہ مومنانہ بصیرت جو کہ ’’تحفہ قادیانیت‘‘ سے آشکارا ہے، محض کتابوں کے پڑھنے سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ محض الٰہی انعام تھا ان کی ذات پر۔ ان سے براہ راست استفادہ کا موقع نہ مل سکنے کے باوجود احقر ردِ قادیانیت کے حوالے سے ان کو اپنا استاذ سمجھتا ہے، ان کا جب بھی خیال آتا ہے دل سے بے اختیار دعائیں نکلتی ہیں۔ 

۱۸ مئی ۲۰۰۰ء کو بوقتِ ظہر حضرت کی شہادت کی خبر حواس پر بجلی بن کر گری۔ دل و دماغ کوئی بھی کام کرنے سے انکاری تھے۔ ایک سکتہ کی سی کیفیت طاری تھی جو کہ رات گئے تک برقرار رہی۔ بار بار یہ سوال ذہن میں گھومتا رہا کہ ملک و ملت کے اس بہی خواہ، اسلامی سرحدوں کے اس نظریاتی محافظ، جہادی تحریکوں کے اس سرپرست کا قصور کیا تھا؟ انہیں کس جرم کی سزا ملی ہے؟ ہماری حکومت اور خفیہ ایجنسیاں کہاں سو رہی ہیں؟ علماء کرام کے خون سے کب تک ہولی کھیلی جاتی رہے گی؟

مولانا لدھیانویؒ عاش سعیدا و مات شہیدا کا مصداق تھے۔

وہ حلم و تواضع اور وہ طرزِ خود فراموشی
خدا بخشے جگر کو لاکھ انسانوں کا انسان تھا


(جون ۲۰۰۰ء)

جون ۲۰۰۰ء

جلد ۱۱ ۔ شمارہ ۶

تلاش

Flag Counter