اقوامِ متحدہ کے مقاصد میں جو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ پوری دنیا میں جنگ روکنا اور امن آشتی کی فضا پیدا کرنا وغیرہ، یہ خوشنما عناوین صرف لوگوں کو ورغلانے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ درحقیقت بات یہ تھی کہ دوسری جنگِ عظیم میں چھ سال مسلسل بڑی طاقتیں اتحادی ممالک سمیت کرائے کے سپاہیوں اور تباہ کن اسلحہ کے ذریعے سے انسانیت کو بربادی کا پیغام دیتی رہیں، بالآخر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر قیامتِ صغرٰی برپا کر کے تصادم کو ختم کیا۔ اس کے بعد دوسری جنگِ عظیم کے فاتحین نے اپنی فرعونیت کو برقرار رکھنے اور پوزیشن کو مزید مضبوط کرنے کے لیے ایک تنظیم کی ضرورت محسوس کی تو اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے ’’اقوامِ متحدہ‘‘ کی تنظیم بنائی۔ اس وجہ سے انہوں نے ’’ویٹو پاور‘‘ کو اپنے لیے مخصوص کر لیا اور یومِ تاسیس سے امروز تک اقوامِ متحدہ کو اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کا قانون ہے کہ اس کے ارکان میں پانچ بڑی طاغوتی ممالک یعنی امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین سلامتی کونسل کے مستقل ممبر ہوں گے اور انہی کو ’’ویٹو پاور‘‘ کا حق حاصل ہو گا۔ ویٹو پاور کے معنی ہیں فیصلہ کن انکار کی قوت۔ یعنی ان ممالک میں سے اگر کوئی ملک کسی قرارداد کے خلاف ووٹ دے دے تو اسے منظور نہیں کیا جا سکتا۔ یا بالفاظ دیگر ویٹو پاور کا مقصد یہ ہے کہ اگر دنیا کی تمام اقوام مل کر کسی مسئلہ پر متفق ہو جائیں لیکن ان پانچ ملکوں میں سے ایک انکار کرے تو پوری دنیا کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ گویا یہ پانچ مستقل ممبر دنیا کے کلی طور پر حکمران ہیں، سب قومیں ان کی یرغمالی ہیں۔
ویٹوپاور کا حق اکثر اسلامی ممالک کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عالمِ اسلام کا کوئی مسئلہ اقوامِ متحدہ کے ذریعے حل نہیں ہوا ہے۔ بلکہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے سیاسی مسائل میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بھی پانچ بتوں کی عبادت کرتی تھی، افسوس کا مقام ہے کہ آج اسلامی ممالک نے بھی اقوامِ متحدہ کے پانچ غاصبوں کے ویٹو پاور کو تسلیم کر کے اللہ تعالیٰ کے سپرپاور ہونے کا عملی طور پر انکار کر دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان نے ۱۹۶۸ء میں ایٹم کے عدمِ پھیلاؤ کے عنوان سے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس کو این پی ٹی کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن ممالک نے ۱۹۶۸ء سے قبل ایٹمی قوت حاصل کی ہے صرف انہی کو ایٹمی قوت تسلیم کیا جائے گا۔ اس کے بعد یہ صلاحیت حاصل کرنے والے ممالک کو بطور ایٹمی قوت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس معاہدے میں، نیز ویٹوپاور کو صرف پانچ بڑی قوت والے ملکوں کو دینے میں کیا حکمت ہے اور اس کے جواز کی کیا دلیل ہے؟ تو اس سوال کے جواب دینے سے پانچ بڑی طاقتوں سمیت دنیا بھر کے طواغیت قاصر ہیں۔ سوائے اس کے کہ وہ طاقتور ہیں اور دنیا کے معاملات میں اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں ہیں، اگرچہ ان کی بات انتہائی غلط ہو۔ حالانکہ یہ معاہدہ جنگ روکنے کے بالکل منافی ہے کیونکہ یکطرفہ قوت ہی جنگ کی دعوت دینے کا ذریعہ ہے۔ مثلاً ماضی قریب میں امریکہ نے افغانستان پر کروز میزائل پھینکے تو افغانستان کے پاس بھی اگر ایسے بحری جہاز اور اس طرح کے میزائل ہوتے تو امریکہ ہرگز ایسا نہ کرتا، تو اس جارحیت کا سبب صرف مدمقابل کی کمزوری تھا۔ اس لیے جنگ روکنے کے لیے ہر ملک کے پاس ایٹمی قوت موجود ہونا ضروری ہے تاکہ قوت کے توازن کی وجہ سے تصادم نہ آجائے، جیسے کہ جنگِ عظیم دوم کے بعد بڑی قوتوں کے آپس میں براہ راست تصادم نہ آنے کی وجہ یہی ہے کہ ہر ایک کے پاس ایٹمی ہتھیار کے انبار ہیں۔
حقوقِ انسانی چارٹر اور اسلام
اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انسانی چارٹر اسلام کے نصوص کے صریح خلاف ہے۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں:
چارٹر دفعہ نمبر ۱: تمام انسان تکریم میں برابر ہیں۔
اسلام: قرآن مجید میں ہے: ترجمہ: ’’بے شک تم میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ اکرام کا مستحق وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے‘‘۔ تو معلوم ہوا کہ اسلام میں متقی اور غیر متقی تکریم میں برابر نہیں۔
چارٹر دفعہ نمبر ۴: غلامی اور غلامی کی تجارت اپنی تمام صورتوں میں ممنوع ہو گی۔
اسلام: غیر مسلم اقوام کے وہ افراد جو خالص اسلام دشمنی کی بنا پر مسلمانوں سے برسرپیکار ہوں اور معرکۂ جہاد میں پکڑے جائیں تو وہ ازروئے شریعت غلام ہیں، ان کی تجارت بالکل جائز ہے۔ اور ان غلاموں سے اسلام کے بے شمار مسائل و فضائل وابستہ ہیں جو قرآن و حدیث میں مفصل بیان ہوئے ہیں۔
چارٹر دفعہ نمبر ۵: کسی شخص کو تشدد اور ظلم کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا اور کسی شخص کے ساتھ غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک نہیں کیا جائے گا، یا ایسی سزا نہیں دی جائے گی۔
اسلام: چور کا ہاتھ اور ڈاکو کا ایک ہاتھ ایک پاؤں کاٹنا، شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنا، قتلِ عمد میں قاتل کو قصاصاً قتل کرنا، شرابی اور قاذف کو شریعت کی طرف سے متعین کوڑے لگانا، اور اس قسم کے دیگر حدود جو شریعت نے مقرر کیے ہیں ان سب کا نفاذ اسلامی حکومت پر ضروری ہے۔
چارٹر دفعہ نمبر ۱۶: پوری عمر کی مردوں اور عورتوں کو نسل، قومیت یا مذہب کی کسی تحدید کے بغیر باہم شادی کرنے اور خاندان کی بنیاد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ شادی، دورانِ شادی اور اس کی تنسیخ کے سلسلے میں وہ مساوی حقوق رکھتے ہیں۔
اسلام: مسلمان مرد کو صرف مسلمان عورت یا کتابی عورت سے شادی کرنا، اور مسلمان عورت کو صرف مسلمان مرد سے نکاح کرنا جائز ہے بس۔ نیز تنسیخِ نکاح، جس کو شریعت کی اصطلاح میں طلاق کہا جاتا ہے، کا حق صرف مرد کو حاصل ہے، عورت کو ہرگز حاصل نہیں۔
چارٹر دفعہ نمبر ۱۸: ہر شخص کو آزادئ خیال، آزادئ ضمیر اور آزادئ مذہب کا حق حاصل ہے۔
اسلام: اتنی آزاد خیالی اور آزادئ ضمیر ممنوع ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مقدس کتابوں اور اس کے پاک فرشتوں اور اس کے معصوم انبیاءؑ اور صحابہ کرامؓ کی توہین و تنقید تک بات پہنچے۔ نعوذ باللہ منہا۔ نیز مسلمان کو اسلام چھوڑ کر دوسرے مذہب کو اختیار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ خدانخواستہ اگر کوئی مسلمان مرتد ہو جائے اور سمجھانے پر بھی باز نہیں آتا تو فرمانِ نبویؐ کے مطابق اسے قتل کیا جائے گا۔
چارٹر دفعہ نمبر ۱۹: ہر شخص کو آزادئ رائے اور آزادئ اظہار کا حق حاصل ہے۔
اسلام: ایسی تقریر و تحریر قطعاً ممنوع ہے جس سے اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہوں اور امن و سکون غارت ہوتا ہو۔ نیز اسلامی ریاست میں غیر مسلم کو یہ اجازت نہیں کہ وہ مسلمانوں کو کفر کی دعوت دے کر مرتد بنائے۔
چارٹر دفعہ نمبر ۲۱ (۱): ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ براہِ راست یا آزادی سے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے ملک کی حکومت میں حصہ لے۔
اسلام: اسلامی ریاست میں غیر مسلم کو کلیدی عہدہ و منصب پر فائز کرنا جائز نہیں ہے۔۔۔
چارٹر دفعہ نمبر ۲۱ (۳): عوام کی مرضی حکومت کے اقتدار کی بنیاد ہو گی۔ یہ مرضی وقفے وقفے سے اور ایسے صحیح انتخابات کے ذریعے ظاہر کی جائے گی جو عالمگیر اور مساوی رائے دہندگی پر مبنی ہو۔
اسلام: اسلامی ریاست کی بنیاد مغرب سے درآمد شدہ جمہوریت پر رکھنا حرام ہے، بلکہ اس کی بنیاد امارت و شورائیت پر ہو گی جس میں عوام کالانعام کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں، اور نہ ہی اس میں کوئی متعین وقفہ ہے، بلکہ امیر کا انتخاب غیر متعین وقت کے لیے صائبِ رائے افراد کریں گے۔
چارٹر دفعہ نمبر ۲۵ (۲): ماں اور بچے کو خصوصی توجہ اور مدد کا حق حاصل ہے، تمام بچے خواہ شادی کے نتیجے میں پیدا ہوں یا بغیر شادی کے پیدا ہوں، یکساں سماجی تحفظ سے بہرہ ور ہونے کا حق رکھتے ہیں۔
اسلام: کسی عورت کو بغیر شادی کے بچے پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر کوئی عورت ایسا کرتی ہے تو اسے اسلامی حدود کے تحت سزا ملے گی، ایسی بدکار عورت کو اسلام کوئی تحفظ فراہم نہیں کرتا۔
چارٹر دفعہ نمبر ۲۷ (۱): ہر شخص کو آزادانہ طور پر معاشرے کی ثقافتی زندگی میں حصہ لینے، فنونِ لطیفہ (مصوری، رقاصی، موسیقی، سے حظ اٹھانے ۔۔۔۔) کا حق حاصل ہے۔
اسلام: اسلام میں مصوری، رقاصی اور موسیقی حرام ہونے کی وجہ سے ان سے حظ اٹھانے کا کوئی حق کسی کو حاصل نہیں، بلکہ یہ افعال قطعی ممنوع ہیں، کرنے والے تعزیر کے مستحق ہوں گے۔