ماضی اس بات پر گواہ ہے کہ آج سے نصف صدی قبل تک لڑکے لڑکیوں میں ’’کچھ ہو جانے‘‘ کا خوف انہیں اخلاقی بے راہ روی سے بہت دور رکھتا تھا۔ برائی کی آٹے میں نمک سے بھی کم شرح اگر تھی بھی تو انتہائی زیرزمین تھی۔ مگر بتدریج جوں جوں قوم کے قدم ’’ترقی‘‘ کی طرف بڑھتے گئے، قوم مغربی آقاؤں کے ’’فیض‘‘ سے فیضیاب ہوتی گئی۔ اور تعلیم و صحت کے لیے نہیں بلکہ تعلیم و صحت بذریعہ خاندانی منصوبہ بندی کی چھت پھاڑ امداد کاہن برسنا شروع ہوا۔ اسی تدریج کے ساتھ قوم اخلاقی زوال کے راستے کی راہی بنتی چلی گئی۔ اور آج پہلے ’’کچھ ہو نہ جائے‘‘ کو اس خاندانی منصوبہ بندی نے ’’کچھ نہ ہو گا‘‘ کے یقین میں بدل دیا۔ اس تبدیلی سے جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے اس پر قومی اخبارات سے بڑھ کر کس کی گواہی معتبر ہو سکتی ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کے ’’محفوظ طریقوں‘‘ نے قوم کے نوجوانوں میں بے راہ روی کو محلوں، گلی، کوچوں تک پھیلایا اور یوں ملک میں اخلاقی بے راہ روی کا سیلاب آ گیا۔ جس کے افراد پر انفرادی حیثیت میں اور معاشرہ پر اجتماعی حیثیت سے بدترین نتائج مرتب ہوئے۔ اس پر گواہی درکار ہو تو ہسپتالوں سے ہٹ کر چھوٹے ذاتی کلینکوں اور دائیوں کے خصوصی کیسوں کا محتاط سروے کر لیجئے، اس بھیانک تصویر کا شاید آپ نے کبھی تصور نہ کیا ہو گا۔ اسی پہلو سے ذرا ماہرین کی آرا پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے تاکہ آپ مذکورہ سطور کو ملاں کی دقیانوسیت کہہ کر رد نہ کر دیں۔ فطری بات ہے کہ جب ’’کچھ نہ ہونے‘‘ کا یقین ہو تو لذتیت کی جبلت بے قابو ہونے لگتی ہے۔ خصوصاً جب چاروں طرف بے ہودہ فحش لٹریچر اور ٹی وی چینل مصروفِ عمل ہوں۔
’’مانع حمل ذرائع کا علم، ہو سکتا ہے کہ شرح مناکحت کو بڑھا دے لیکن اس کے ساتھ ساتھ (یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ) یہ بیرونِ نکاح جنسی تعلق کے مواقع کو بھی عام کر دیتا ہے، جن کا عام چلن خود ہمارے اپنے زمانے میں شادی کے تنگ و تاریک مستقبل کا ایک اور مظہر سمجھا جاتا ہے۔‘‘
Dr. Westermark — Future of Marriage in the West
’’مرد کی زوجیت کا رخ اگر کلیتاً نفسانی خواہشات کی بندگی کی طرف پھر جائے اور اس کو قابو میں رکھنے کے لیے کوئی (اخلاقی) قوت ضابطہ نہ رہے تو اس سے جو حالت پیدا ہو گی وہ اپنی نجاست و دنائیت اور زہریلے نتائج میں ہر اس نقصان سے کہیں زیادہ ہو گی جو ’’بے حد و حساب بچے پیدا کرنے‘‘ سے رونما ہو سکتی ہے۔‘‘
(بحوالہ اسلام اور ضبطِ ولادت — Dr. Faster)
’’خاندانی منصوبہ بندی کے طور طریقوں نے دراصل ملک میں زنا کے محفوظ لائسنس جاری کیے ہیں۔ مگر اس کے باوجود کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر اور گندے نالوں سے ’’پھول‘‘ برآمد ہونے کی خبریں روز مرہ کا معمول ہیں۔ ان (مانع حمل ذرائع) کے سبب لذت پرستی بڑھ گئی ہے بلکہ یہ وبا کی طرح چہارسو پھیلتی نظر آتی ہے۔ بچوں کے درمیان جس غیر فطری (کیونکہ فطری وقفہ قدرت کا طے کردہ ہے) وقفے پر زور دے کر ’’خوشحال اور صحتمند گھرانے کی خوشخبری‘‘ اکثر دی جاتی ہے اس پر ان کے اپنے طبی ماہرین کی رائے کیا ہے؟ آپ بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔ یہ لوگ عمرانیات اور نفسیات کے شعبے میں برسہا برس تجربہ کی بنا پر یہ رائے رکھتے ہیں: ’’قریب العمر بچوں (بہن بھائیوں) کی کمی، منجملہ اور چیزوں کے، بچے کو مشکلات میں مبتلا کر دیتی ہے اور وہ چیخنے چلانے یا تخریبی نوعیت کے کام کرنے میں لگ جاتے ہیں۔‘‘
Arnold W. Green —The Middle Class Child and Neurosis
’’اگر بچوں کے درمیان عمر کا بہت فرق ہو تو بڑے بچے میں قریب العمر ساتھی نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی خلل تک واقع ہو جاتا ہے، بلکہ بعض ماہرین اس پر بھی متفق ہیں کہ بچے کا ذہنی ارتقا رک جاتا ہے۔‘‘
Dr. David M. Lavy — Maternal Over-Protection
اختصار کے نکتہ نظر سے ہم مذکورہ چار آرا پر اکتفا کرتے ہیں، اور یہ آرا بھی مغربی آقاؤں کی ہیں کہ ہمارے نزدیک بالعموم ’’سچ ہے ان کا فرمایا ہوا‘‘ معتبر ٹھہرتا ہے۔ ورنہ کیا یہ امرِ واقع نہیں ہے، جسے خود ہمارا قلب قبول کرتا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کا تعارف جوں جوں بڑھ رہا ہے توں توں ہماری سماجی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار دم توڑتی جا رہی ہیں۔ ہمہ جہت اقدار کا معیاری سرمایہ رکھنے والی ملتِ مسلمہ اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہی نہیں، ہر طرح کی اقدار سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
خاندانی منصوبہ بندی اور ملکی دفاع
خاندانی منصوبہ بندی کے داعی ’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ کی مالا جپتے نہیں تھکتے کہ اس ’’وِرد‘‘ پر انہیں مغربی آقاؤں نے لگایا ہے۔ عقل کے اندھے اس خیر خواہی کی تہہ میں چھپی بدخواہی کی تہہ تک نہیں پہنچتے، یا دانستہ پہنچنا نہیں چاہتے، انہیں خاندانی منصوبہ بندی کی ٹافی دینے والے اپنے لیے یہ رائے رکھتے ہیں:
’’آبادی میں عظیم اضافہ۔ ایسا اضافہ جو بے ضبط و بے لگام تھا۔ یورپ کو دنیا کی درجہ اول کی طاقت بنانے میں فیصل کن تھا۔ یورپ کی آبادی کے اس دھماکہ کے ساتھ پھٹ پڑنے ہی کا نتیجہ تھا کہ ملک میں نئی صنعتی معیشت کو چلانے کے لیے کارندے بھی مل گئے اور دوسری طرف یورپ سے باہر پھیل کر حکمرانی کرنے کے لیے فوج میسر آئی جس کے دائرہ میں دنیا کے رقبے کا نصف اور آبادی کا تہائی حصہ آ گیا۔‘‘
(بحوالہ اسلام اور ضبطِ ولادت، صفحہ ۱۱۷ — Population Explosion)
جنگ ایٹمی ہو یا کنوینشنل ہتھیاروں سے، نیوی اور ہوائی فوج کتنی ہی مؤثر کاروائی کرے، ہر کاروائی کو مؤثر اور مستحکم بنانے کا بنیادی کردار بری فوج ہی ادا کرتی ہے۔ اور یہ بات کس سے چھپی ہے کہ بری فوج کی عددی برتری ہر ملک کی بنیادی ضرورت ہے۔ اہلِ ایمان اس عددی برتری کی کمی دولتِ ایمان اور جذبۂ جہاد سے پوری کرتے ہیں، مگر جذبۂ جہاد اور ایمان کے تقاضوں میں یہ کہیں شامل نہیں ہے کہ ان کی بنیاد پر فوج کی تعداد لازماً کم رہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے خالق دو اہم باتوں کے سبب ہمیں ’’منصوبہ بندی کی محفوظ اور مہر لگی تصدیق شدہ‘‘ گولی کھلانے پر مصر ہیں کہ
- عالمِ اسلام میں صرف پاکستان ہے جس سے یہود و نصارٰی کے عالمی مفادات کو حقیقی خطرہ ہے۔ اور اس کی بڑھتی آبادی لمحہ لمحہ خطرے میں اضافہ کر رہی ہے۔ لہٰذا ہر قیمت پر ان کی آبادی کو بالخصوص، اور دیگر مسلم ممالک کی آبادی کو بالعموم روکنے کے لیے معاشی، سماجی، تعلیمی اور ثقافتی ذرائع استعمال کیے جائیں۔
- عالمِ اسلام قدرتی ذرائع سے مالامال ہے اور یہ زرعی، صنعتی اور معدنی وسائل ان ممالک کی آبادی سے چھین کر یورپ و امریکہ کی کفالت پر خرچ ہونے چاہئیں۔ لہٰذا ہر حربہ استعمال کر کے ان کی آبادی میں کمی کی جائے اور جو آبادی ابھی آبادی نہیں بنی، مستقبل کی آبادی ہے، اس کے سامنے خاندانی منصوبہ بندی کا بند باندھا جائے۔ جس سے آبادی بھی کم ہو گی اور فحاشی، بے حیائی بھی جیتے جی خاتمہ کر دے گی۔
مذکورہ بالا مقاصد کے حصول کے لیے یہ آقا
- مسلم ممالک میں اپنی ایجنسیوں کے ذریعے یو این او اور اس کے ذیلی اداروں کی چھتری تلے کاروائی کرتے ہوئے کبھی آیوڈین ملا نمک کھلانے مصر ہیں۔
- عراق کو زہرآلود گندم سپلائی کی جاتی ہے (اس کا انکشاف بھی امریکی اخبارات نے ہی کیا)۔
- زرعی ادویات کی بھرمار، جو دشمن کیڑوں کے ساتھ دوست کیڑے اور پرندے بھی ختم کر دیں، بلکہ بتدریج معیاری زمین کو بانجھ کر رہی ہیں۔ جو باغات اور سبزیوں پر سپرے ہو کر پھلوں اور سبزیوں کے ذریعے ’’سلو پائزن‘‘ بن کر انسان میں پیچیدہ بیماریوں کو جنم دیتی ہیں۔
- اپنے ممالک میں عرصہ دراز سے متروک ادویات ملٹی نیشنل کمپنیوں یا امپورٹرز کے ذریعے انسانی علاج کے لیے ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ ادویات جن کے اثراتِ بد پر زمانہ گواہ ہے، ’’گاڑی کی چابی‘‘ کے ساتھ مشروط ہو کر مریضوں کے حلق تک پہنچتی ہیں۔ کیا یہ امرِ واقع نہیں کہ افراد سے قوم بنتی ہے، اور بیمار افراد سے بیمار قوم ہی تشکیل پا سکتی ہے۔ اور بیمار قوم کے افراد نہ اپنا دفاع کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور نہ قومی سطح پر وطن کا۔ بیمار جسم کے اندر طاقتور ایمان اور جذبۂ جہاد ٹھکانہ کرے تو آخر کس بنیاد پر؟ یہی کچھ ہم سے اقوامِ غرب چھین لینے کی فکر میں شب و روز کوشاں ہیں۔
گزشتہ دنوں ملک کے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر نے ٹی وی پر خاندانی منصوبہ بندی کی وکالت کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ ملک کی آبادی بہت ہو چکی، اب پیدائش روک دینی چاہیے۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب کو اخبار کے ذریعے اور ذاتی طور پر بھی خط لکھ کر سوال کیا کہ ایٹم چلانے کے بعد پابندی کا بم بھی اگر چلا لیں گے اور نتیجتاً ملک کی افواج میں بتدریج بھرتی ختم ہوتی جائے گی تو پھر ایٹم چلانے کے لیے آپ نے کس ملک کو ٹھیکہ دینے کا فیصلہ کیا ہے؟ ابھی تک موصوف کی طرف سے جواب موصول نہیں ہوا۔ آبادی نہ ہو گی تو دفاع کے لیے ٹھیکہ ناگزیر ہو گا۔
خاندانی منصوبہ بندی سرے سے معاشی خوشحالی کا مسئلہ نہیں ہے۔ فلپائن میں ہر گھرانے میں اوسطاً دس بارہ بچے ہیں، وہاں تو آج تک قحط نہیں پڑا۔ ہمیں فلپینیوں کے ساتھ برسوں اکٹھے رہنے کا بھی موقع ملا ہے، ہم نے ان کے چہروں پر محنت کی عظمت اور اطمینان ہی دیکھا۔ کسی ایک کے منہ سے ہائے وائے نہیں سنی، بلکہ ان کا کہنا تو یہ ہے کہ گھر میں دس بچے یکدم تو نہیں آگئے۔ جو پہلے پیدا ہوئے انہوں نے پہلے کمانا شروع کر کے والدین کا ہاتھ بٹایا۔ پھر چھوٹے بڑے بنتے گئے، کماتے گئے اور بیس سال بعد جب سب کی آمدنی آنے لگی تو خوشحالی نے ہمارے گھر میں ڈیرے ڈال دیے۔
ہمیں الٹ پٹی پڑھائی جا رہی ہے اور ہم عقل و شعور کو زحمت دیے بغیر گردن ہلائے جا رہے ہیں۔ ہم نے جان بوجھ کر — ہلانا نہیں لکھا، ورنہ ہماری وفاداری کا ثبوت ہے تو اس سے بھی بڑھ کر ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔