ضلعی حکومتوں کا عالمی استعماری منصوبہ

علی محمد رضوی

اس مضمون میں ہم گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کے استعماری منصوبوں کو اس طرح سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ پاکستانی ریاست کو تباہ کرنے کی استعماری کوششیں ہم پر واضح ہو سکیں۔ آخر میں ہم استعمار کے ان منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے چند تجاویز بھی پیش کریں گے۔

استعمار کا منصوبہ کیا ہے؟

اکیسویں صدی کا مغربی استعمار چاہتا ہے کہ قومی ریاستیں کمزور ہوں۔ قومی ریاست کو کمزور کرنا استعمار کے معاشی اور دفاعی استحکام کے لیے ضروری ہے۔ یہ حکمتِ عملی بیسویں صدی کی استعماری حکمتِ عملی سے مختلف ہے۔ بیسویں صدی میں استعمار نے تیسری دنیا میں مضبوط ریاستوں کے قیام کو برداشت ضرور کیا تھا، آج استعمار مضبوط قومی ریاستوں کو برداشت نہیں کر سکتا:

  • اس کی معاشی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کے لیے سرمایہ کا بلا روک ٹوک بہاؤ آج انتہائی اہم ہو چکا ہے۔ مضبوط ریاست سرمایہ کے اس بہاؤ پر روک ٹوک عائد کر سکتی ہے۔ اس قسم کی پابندیاں سرمایہ داری نظام کی بلند و بالا عمارت کو انتہائی آسانی کے ساتھ زمین بوس کر سکتی ہے۔
  • اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ آج مغربی ممالک میں نوجوانوں کی تعداد انتہائی کم ہو چکی ہے۔ آج مغربی آدرشوں کے لیے جان دینے والا کوئی نہیں رہا ہے۔ ایسے میں مغرب لمبی زمینی جنگیں لڑنے کے لیے نا اہل ہوتا جا رہا ہے۔ مضبوط قومی ریاستوں کا وجود مغرب کے لیے دفاعی خطرہ بن چکا ہے۔

ان ہی دو وجوہات کی بنیاد پر آج کا استعمار مضبوط قومی ریاستوں سے خائف ہے اور انہیں کمزور کرنا چاہتا ہے۔ موجودہ دور میں کسی بھی ریاست کی قوت کے دو سرچشمے ہوتے ہیں: (۱) اعلیٰ سیاست (۲) ادنٰی سیاست۔

  1. اعلٰی سیاست (High Politics): اعلیٰ سیاست سے مراد ہے ریاست کا اندرونی و بیرونی معاملات، تعلقات کی ہر سطح پر مکمل کنٹرول ہے۔ دراصل سیاست علیا کا مطلب کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی اور دفاعی پالیسی ہے۔ کوئی بھی ریاست اسی حد تک قوی یا کمزور ہوتی ہے جس حد تک وہ اپنی خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی اور دفاعی پالیسی کو مشکّل کرنے، چلانے اور ان کو عملی جامہ پہنانے میں آزاد ہوتی ہے۔
  2. ادنیٰ سیاست (Low Politics) پر ریاست کا مکمل کنٹرول: سیاستِ ادنیٰ میں وہ تمام خدمات شامل ہیں جو تمام جدید ریاستیں کچھ عرصہ قبل تک اپنے عوام کو فراہم کرنا اپنے مقصدِ وجود کا حصہ سمجھتی تھیں۔ ان خدمات میں بجلی و پانی کی فراہمی سے لے کر سڑکوں کی تعمیر تک تمام خدمات شامل ہیں۔ ریاست ان خدمات کی فراہمی منافع کے حصول کے لیے اور مارکیٹ کے نقطۂ نظر سے نہیں کرتی ہے بلکہ اس کو بنیادی ذمہ داری اور بنیادی خدمت سمجھ کر بجا لاتی ہے۔ کسی بھی ریاست کو (موجودہ دور میں) اپنے عوام پر کنٹرول اور ان کی تابعداری اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب تک وہ یہ خدمات اپنے عوام کو فراہم کرتی رہتی ہے۔ اگر کسی ریاست سے یہ بنیادی خدمات فراہم کرنے کی ذمہ داری چھین لی جائے تو اس ریاست کا اپنے عوام پر کنٹرول اور ان کی تابعداری کا حصول ناممکن ہو جائے گا۔

موجودہ ریاست کی طاقت اور کمزوری کے جو دو بنیادی اصول ہم نے اوپر بیان کیے ہیں ان کا تعلق ریاست کے وظائف سے ہے۔ اب اگر ساختی اور ہیئتی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو موجودہ دور میں وہی ریاستیں مضبوط اور طاقتور ریاستیں ہوں گی جو جغرافیائی لحاظ سے وسیع ہوں، آبادی کے اعتبار سے گنجان اور پھلتی پھولتی ہوں۔ آبادی کے لحاظ سے اور جغرافیائی لحاظ سے چھوٹے ممالک موجودہ دور میں کمزور ممالک ہوں گے اور وہ بیرونی معاشی اور دفاعی مخالفین کے آگے بے بس ہوں گے۔

مندرجہ بالا تمہید کے نتیجہ میں اب ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ استعمار کے ان منصوبوں کو کوئی نام دے سکیں۔ استعمار کے مندرجہ ذیل تین منصوبے ہیں: (۱) گلوبلائزیشن (۲) لوکلائزیشن (۳) شہری حکومتوں کا قیام۔

(۱) گلوبلائزیشن کیا ہے؟

گلوبلائزیشن کا مقصد یہ ہے کہ مرکزی ریاست سیاستِ علیا (High Politics) سے دستبردار ہو جائے۔ مثلاً اگر پاکستان کے تناظر میں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو گلوبلائزیشن کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ پاکستانی ریاست خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی اور دفاعی پالیسی کی تشکیل کے اپنے حق سے دستبردار ہو جائے اور ان ذمہ داریوں کو امریکی استعمار اور اس کی گماشتہ آلہ کار تنظیموں، منصوبوں اور معاہدوں مثلاً ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او، سی ٹی بی ٹی وغیرہ کو منتقل کر دے۔ ظاہر ہے کہ خارجہ پالیسی، معاشی پالیسی اور دفاعی پالیسی کی تشکیل کے وظائف استعمار کو منتقل کر دینے کے بعد پاکستانی ریاست ایک مجبور، لاچار اور لاغر بے بس ریاست رہ جائے گی، جو استعمار کے کسی بھی منصوبہ کی مخالفت کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔ پاکستان انہی معنوں میں استعمار کی باج گزار اور محتاج ریاست بن جائے گی جن معنوں میں آج خلیج کی ریاستیں استعمار کی باج گزار اور محتاج ریاستیں بن چکی ہیں۔

(۲) لوکلائزیشن کیا ہے؟

لوکلائزیشن کا مطلب یہ ہے کہ مرکزی ریاست خدمات کی فراہمی کے عمل سے دستبردار ہو جائے اور اس کی ذمہ داری ضلعی اور تحصیل کی سطح کی مقامی حکومتوں کو منتقل کر دی جائے۔ ان مقامی حکومتوں کو چلانے کی ذمہ داری محض منتخب نمائندوں کی نہ ہو، بلکہ ورلڈ بینک کی ڈیویلپمنٹ رپورٹ برائے ۲۰۰۰ء کے مطابق اس میں پرائیویٹ سیکٹر، این جی اوز اور سول سوسائٹی کے دوسرے عناصر (مثلاً سیکولر مفکرین، مدبرین اور ماہرین حضرات) کو بھی شامل ہونا چاہیے۔ اسی لیے جنرل مشرف کے پروگرام میں عورتوں اور غیر مسلموں کے لیے مخصوص نشستیں اتنی بڑی تعداد میں رکھی گئی ہیں۔

دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ مقامی حکومتیں ان خدمات کو بطور خدمت کے انجام نہ دیں بلکہ منافع کے حصول کے لیے دیں۔ مقامی حکومتیں منافع کے حصول کے لیے کمپنیاں بن جائیں جن کا مقصد:

  • شہریوں کو بنیادی سہولتیں نفع نقصان کے اصول سے بالاتر ہو کر دینا نہ ہو، بلکہ زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہو۔
  • مقامی حکومتیں اپنے شیئر اور بانڈ دوسری کمپنیوں کی طرح مارکیٹ میں بیچنے کے لیے پیش کریں گی۔
  • خدمات کے سارے نظام کو پرائیویٹائز کیا جائے گا اور اس کے بڑے خریدار ملٹی نیشنل کمپنیاں ہوں گی۔ اس کی مثال جکارتہ میں ہمارے سامنے آئی ہے جہاں فراہمئ آب کا سارا نظام ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے خریدا ہوا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اختیارات مرکزی حکومت سے فی الواقع مقامی ضلعی حکومتوں کو منتقل نہیں ہوتے ہیں، بلکہ اصل اختیارات ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اور بین الاقوامی بینکوں کو منتقل ہوتے ہیں۔

انہی معنوں میں ہم کہتے ہیں کہ گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، کیونکہ دونوں اعمال کے ذریعے اصل اختیارات مرکزی ریاست سے استعمار کو منتقل ہوتے ہیں۔

(۳) شہری حکومتوں کا قیام

گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کا حتمی ہدف سنگاپور اور ہانگ کانگ کے طرز کی شہری حکومتوں کا قیام ہے۔ سنگاپور، ہانگ کانگ، پاناما، مکاؤ، کوسٹاریکا جیسے علاقے شہری ریاستوں/حکومتوں کی حقیقت واضح کرتے ہیں۔ یہ تمام شہری مقامی حکومتیں عالمی سرمایہ داری کی تابع مہمل ہوتی ہیں۔ اور اعلیٰ سیاست یعنی خارجہ پالیسی، دفاعی پالیسی، اور عمومی معاشی پالیسی کے مسائل سے ان حکومتوں کے قیام کے ساتھ ہی ان کی ریاستوں اور ان کے شہریوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی ہے۔ یہ شہری ریاستیں، حکومتیں کم اور منافع کے حصول میں تگ و دو کرنے والی کمپنیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ اور ان کے شہری، شہری کم اور خریدار زیادہ ہوتے ہیں۔ کراچی، لاہور، حیدرآباد، پشاور کو مضبوط پاکستان کا دل و جگر نہیں ہونا چاہیے جو جہادِ کشمیر، جہادِ افغانستان اور استعمار کے خلاف جدوجہد کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکیں، بلکہ ان کو ایسی کمپنیوں کا روپ دھارنا چاہیے جو سرمایہ داری کے شیطانی کھیل کا ایک حصہ ہوں۔

شہری حکومتوں کے قیام کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ملکوں کو توڑا جائے، بلکہ اختیارات عالمی اداروں اور مقامی سطح پر اس طرح منتقل کیے جائیں کہ مرکزی ریاست صرف نام کی ریاست رہ جائے گی جس کا واحد مقصد عالمی اداروں کی پالیسیوں کا نفاذ رہ جائے گا۔

طریقہ کار

گلوبلائزیشن، لوکلائزیشن، اور شہری حکومتوں کے قیام کے اس استعماری منصوبے کو سمجھنے کے بعد اب موقع ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے کیا ذرائع ہیں۔ ذیل میں ہم مختصراً ان عملی اقدامات کو ترتیب وار بیان کریں گے جو استعمار اور اس کے ذیلی ادارے ہماری ریاستوں کو کمزور کرنے کے لیے ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں:

  • استعمار اور اس کے گماشتے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کے یہ استعماری منصوبے اس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتے جب تک حرص و حسد ہمارے معاشرے میں قابلِ قبول نہ بن جائیں۔ حرص و حسد کو عام کرنے کا سب سے اہم ذریعہ حقوقِ انسانی ہیں۔ حقوقِ انسانی کے ذریعے ان اجتماعی اداروں، صف بندیوں اور برادریوں کو منتشر کیا جاتا ہے جو روایتی طور پر ہمارے معاشروں میں حرص و حسد کے فروغ میں حائل رہی ہیں، اور جو ہمارے معاشروں میں قربانی، ایثار اور وفا کا سرچشمہ ہے۔ خاندان کے تباہ ہونے کے نتیجہ میں ہر فرد معاشرہ میں یکا و تنہا رہ جاتا ہے، ایسا شخص حرص و حسد کے جال میں با آسانی پھنس جاتا ہے۔ ایسے افراد کے لیے سرمایہ کا بندہ بن جانا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ استعمار ہمارے معاشروں میں ایسے ہی افراد کی تشکیل کے لیے کوشاں ہے۔ اس سلسلہ میں استعمار کی پروردہ این جی اوز خاص کردار ادا کر رہی ہیں۔
  • خاندانی نظام کو تباہ کرنے کا سب سے اہم ہتھیار حقوقِ نسواں کی تحریک ہے۔ عورتوں کو حرص و حسد کا بندہ بنائے بغیر اور انہیں گھر سے نکالے بغیر استعمار کے لیے ناممکن ہے کہ ہمارے معاشرے میں سرمایہ اور استعمار کی بالادستی قائم کر سکے۔ حقوقِ نسواں کی تمام تحریکیں ہمارے معاشرے اور ثقافت کو تباہ کرنے کی تحریکیں ہیں۔ حقوقِ نسواں کی تمام تحریکیں ہمارے معاشرے میں محبت، ایثار و وفا کو ختم کر کے حرص و حسد کو عام کرنے کی تحریکیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ استعمار کی گماشتہ این جی اوز کو حقوقِ نسواں کی سب سے زیادہ فکر ہے۔ جنرل مشرف کی موجودہ حکومت اس معاملے میں استعمار کی کھلی حلیف ہے۔ اس نے آزادئ نسواں کی حامی استعمار کی گماشتہ خواتین کو اپنی سکیورٹی کونسل اور کابینہ میں شامل کیا ہے اور پیش آمدہ بلدیاتی انتخابات میں کثیر تعداد میں خواتین کی نشستیں مخصوص کی ہیں۔ خواتین کو بازار و سیاست کی رونق بنا کر ہمارے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کی جا رہی ہیں اور ہمیں استعمار کے لیے نوالۂ تر بنایا جا رہا ہے۔ عورتوں کو سرمایہ کا غلام بنانے کے لیے اہم ترین پروگرام فیملی پلاننگ اور عورتوں کی معاشرتی ترقی کے پروگرام ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ عورت ماں بننے سے انکار کر دے اور بازار میں عام اجناس کی طرح اس کی بولی لگائی جائے تاکہ سرمایہ داری پاکستانی معاشرے میں اپنے اثرات گہرے کر سکے۔
  • دفاعی اور خارجہ پالیسی کے محاذ پر استعمار کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان اپنا نیو کلیئر پروگرام ترک کر دے۔ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے پاک علاقہ (Nuclear Free Zone) بنا دیا جائے۔ دفاعی اخراجات میں ہر سال مسلسل کمی کی جائے۔ جنرل مشرف نے ہندوستان کے دفاعی بجٹ میں تیس فیصد اضافہ کے مقابلے میں پاکستانی بجٹ میں کٹوتی کی ہے۔ فنانشل ٹائمز کے نامہ نگاروں کے مطابق جنرل صاحب نے دفاعی بجٹ میں سے سات ارب روپیہ کاٹ کر اپنی غربت مٹاؤ مہم کے لیے مختص کر دیا ہے۔ یہ سب کچھ دراصل آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ایجنڈے کے عین مطابق ہے جس کا مقصد ریاست و معاشرت کی ہیئت کو تبدیل کرنا ہے۔
  • چونکہ امریکہ علاقہ میں چینی بالادستی کو کم کرنے کے لیے بھارت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے، اس لیے استعمار پاکستان کی حکومت پر مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ کشمیر کے جہاد سے دستبردار ہو جائے اور علاقہ میں بھارت کی بالادستی قبول کر لے۔
  • اس طرح امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان جہادِ افغانستان اور کسی قسم کی جہادی سرگرمیوں کی اعانت میں ملوث نہ ہو۔ ’’دہشت گردی‘‘ کے خاتمے کے لیے امریکی کوششوں سے معاونت کرے۔ جہادی تحریکوں پر پابندی لگائی جائے۔ مساجد و مدارس سے جہاد کا درس ختم کر کے سرکاری اسلام کا پرچار کیا جائے جو امریکہ کے لیے قابلِ قبول ہو۔
  • پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کرنے اور اسے استعمار کا باج گزار بنانے کے لیے اسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی معاشی پالیسیوں کو اپنانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس معاشی پالیسی کے اہم نکات یہ ہیں کہ ① آزاد مارکیٹ اور آزاد تجارت کے اصولوں کو قبول کر لیا جائے، ② ملکی اثاثوں کو کوڑیوں کے دامن فروخت کر دیا (اس کا نام پرائیویٹائزیشن ہے)، ③ معاشی پالیسی پر سے حکومت کا کنٹرول ختم کر دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی بینک کی آزاد معیشت کی پالیسیاں کسی بھی ملک کی معیشت کی تباہی کا سامان ہیں۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے دسیوں ممالک میں ان پالیسیوں پر عمل کیا گیا اور اس کے ذریعے پھلتی پھولتی معیشتوں کو تباہ کر دیا گیا۔ عالمی بینک کی ان پالیسیوں پر عمل کرتے رہنے کا واحد مطلب معاشی خودکشی کا ارتکاب ہو گا جس کا واحد نتیجہ پاکستانی معیشت اور پاکستانی ریاست کی تباہی کی صورت میں منتج ہو گا۔
  • شہری قوتوں کو مرکزی ریاست کے مقابلے میں کھڑا کر کے مرکزی ریاست کو کمزور کرنا۔ خدمات کی فراہمی کے سارے نظام کو مرکزی حکومت سے لے کر مقامی شہری حکومتوں کو سونپ دینا۔
  • ڈبلیو ٹی او کے قوانین قبول کر کے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو یہ حق دینا کہ وہ اندرونی ذرائعِ وسائلِ خدمات (Domestic Services Resources) کا بلاروک ٹوک استعمال کر سکیں۔
  • ماحولیاتی قوانین کے نفاذ کے نام پر پانی، بجلی اور دوسری خدمات کا نظام ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سپرد کر دیا جائے۔ مقامی حکومتیں سرمایہ داری اور استعمار کی آلۂ کار بن جائیں۔
  • لوگوں کو سرمایہ داری کا حلقہ بگوش بنانے کے لیے ’’غربت مکاؤ پروگرام نما‘‘ فلاحی ادارے بنائے جائیں۔
  • گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کے نام پر ریاست کی مرکزی شکست و ریخت کے اس سارے عمل کو ایک نئے آئین کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جائے جس کو بدلنے کا اختیار کسی کو حاصل نہ ہو۔

ہماری مرکزی ریاست کو کمزور کرنے کے یہ تازہ منصوبے کوئی نئے منصوبے نہیں ہیں۔ انیسویں صدی میں انگریز نے بالکل اسی طرز پر پہلے ہماری مرکزی ریاست کو کمزور اور بالآخر تباہ کیا تھا۔ انیسویں صدی کے نوابوں اور راجاؤں کی پالیسیوں اور جواڑوں کو مغل سلطنت کے مقابلے میں لا کھڑا کیا گیا تھا اور اس طرح انتظامی اختیارات مرکزی ریاست سے ان راجوڑوں اور ریاستوں کو منتقل ہونے لگے تھے۔ اسی طرح انگریز نے مرکزی ریاست کی اعلیٰ سیاست یعنی خارجہ پالیسی، دفاعی پالیسی، اور معاشی پالیسی کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ ان دونوں ذرائع سے اختیارات اصل میں انگریز کو ہی منتقل ہو رہے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مرکزی ریاست سے اختیار چھین کر نوابوں کو با اختیار بنانے کی حکمتِ عملی کے ذریعے اصل اختیارات ریاست کو منتقل نہیں ہوئے بلکہ استعمار کو منتقل ہوئے ہیں۔ 

اسی طرح آج پاکستانی ریاست سے اختیار چھین کر مقامی سطح پر منتقل کرنے سے مقامی حکومتیں مضبوط نہیں ہوں گی بلکہ یہ اختیارات اصل میں استعمار کو منتقل ہوں گے۔ جس کی بنا پر پاکستان کی ریاست استعمار کی مخالفت کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔

ایک مضبوط پاکستان کیوں؟

ہم لوکلائزیشن اور گلوبلائزیشن کے نام پر پاکستانی ریاست کو تباہ کرنے کے ان استعماری منصوبوں کو یکسر طور پر رد کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کو ایک مضبوط جہادی اور اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں جو

  • جہادِ افغانستان کی پشتیبان ہو،
  • کشمیر میں جہاد کی حمایت کرتی ہو،
  • استعمار کی ہر چال کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

اس لیے کہ پاکستانی کوئی قوم نہیں ہے بلکہ پاکستان ملتِ اسلامیہ کا ہراول دستہ ہے۔ پاکستان کو قومی ریاست بنانا اور پاکستانیوں کو قوم بنانا پاکستان کی تباہی کا سامان ہے۔ گلوبلائزیشن، لوکلائزیشن، شہری حکومتوں کا قیام وغیرہ سیکولرازم کا جدید مظہر ہیں۔ جبکہ پاکستان اور سیکولرازم دو متضاد عمل ہیں جن کے ملاپ کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کو ایک سیکولر قومی ریاست بنانے کی تمام کوششیں پاکستان کو تباہ کرنے اور استعمار کی طفیلی ریاست بنانے کا ذریعہ ہیں۔ اسرائیلی رہنما بن گوریان نے فلسطین کو نہیں، عربوں کو نہیں، بلکہ پاکستان کو اسرائیل کا دشمن نمبر ایک قرار دیا تھا۔ استعمار کے دل میں جس طرح پاکستان کھٹکتا ہے کوئی اور ملک نہیں کھٹکتا۔ کیونکہ پاکستان یہود و ہنود کی راہ میں حائل ایک مضبوط چٹان ہے۔

پاکستانی ریاست کو تباہ کرنے کے ان استعماری عزائم کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک عوامی تحریک (جس کی رہنمائی متحدہ اسلامی قیادت کرے) جلد از جلد برپا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس قیادت کا معاشی لائحہ عمل ان اصولوں پر مشتمل ہو:

  • غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی سے فوری انکار کر دیا جائے۔
  • ایک جہادی معیشت کا قیام جس کی بنیادی حکمتِ عملی دفاعی پیداوار کے لیے مجموعی پیداوار میں اضافہ کو بنیاد کے طور پر استعمال کرنا ہو۔
  • تمام مالی اداروں کو اسلامی و جہادی اصولوں کے ماتحت کرنا،
  • آزاد زرعی پالیسی کا خاتمہ،
  • سرمایہ کی گردش پر کڑی نگرانی کا قیام،
  • غذائی اجناس کی پیداوار میں جلد از جلد خود کفالت۔

ریاستی لائحۂ عمل

  • بلدیاتی انتخابات کا متفقہ اور شرح صدر کے ساتھ بائیکاٹ ہو۔
  • جمہوری اداروں اور جمہوری عمل سے براءت کا اعلان ہو۔
  • اسلامی انقلاب کی عوامی سطح پر پیش بندی اور پیش رفت ہو۔

سماجی لائحۂ عمل

  • مسجد و مدرسہ کو عوامی سطح پر فعال بنایا جائے۔
  • مسجد کی تھانہ پر بالادستی کو قائم کیا جائے۔
  • حکومتی عملداری سے آزاد متفقہ دارالافتاء کا قیام

۔۔۔


عالم اسلام اور مغرب

(جولائی ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter