۵ تا ۹ جولائی نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے نمائندوں کے ذریعے یہودیوں کا ایک خوفناک شیطانی منصوبہ پیش کیا گیا۔ جس میں دنیا کے مختلف ممالک کے ہم خیال شیطانی دماغ مل کر بیٹھے اور خواتین ۲۰۰۰ء اکیسویں صدی میں صنعتی مساوات، امن اور ترقی کے نام پر چند فیصلے کیے گئے جن کو یو این او کے پلیٹ فارم کے ذریعے ممبر ممالک میں نافذ کیا جانا تھا۔ اس طرح یہ خواتین کے سلسلے میں گویا پانچویں عالمی کانفرنس تھی۔
خواتین کے بارے میں عالمی کانفرنسیں
اس سے قبل حقوقِ نسواں کے نام پر خواتین کی چار عالمی کانفرنسیں منعقد ہو چکی ہیں:
- پہلی بین الاقوامی کانفرنس ۱۹۷۵ء میکسیکو میں
- دوسری بین الاقوامی کانفرنس ۱۹۸۰ میں کوپن ہیگن میں
- تیسری بین الاقوامی کانفرنس ۱۹۸۵ء میں نیروبی میں
- چوتھی عالمی کانفرنس ۱۹۹۵ء میں بیجنگ میں
بیجنگ کانفرنس میں خواتین کی ترقی اور صنفی مساوات کے سلسلے میں ایک بارہ نکاتی ایجنڈا طے کیا گیا تھا، یہ نکات درج ذیل ہیں: (۱) غربت (۲) تعلیم (۳) حفظانِ صحت (۴) عورتوں پر تشدد (۵) مسلح تصادم (۶) معاشی عدمِ مساوات (۷) مختلف اداروں میں مرد و عورت کی نمائندگی کا تناسب ۳۳ فیصد تک (۸) عورت کے انسانی حقوق (۹) مواصلاتی نظام خصوصاً ذرائع ابلاغ (۱۰) ماحول اور قدرتی وسائل (۱۱) چھوٹی بچی (۱۲) اختیارات اور فیصلہ سازی۔ اس طرح سادہ الفاظ میں ان کانفرنسوں کا اصل مقصد ان کے خیال میں ایسا عالمی نظام متعارف کروانا تھا جس میں عورتوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔
خواتین کی پانچویں عالمی کانفرنس جولائی ۲۰۰۰ء
بیجنگ میں طے کردہ بارہ نکاتی ایجنڈا رکن ممالک کو عملدرآمد کے لیے دیا گیا تھا۔ چنانچہ اس ایجنڈے پر کہاں تک عمل ہو سکا؟ اسی کا جائزہ لینے کے لیے اب ۵ جولائی سے ۹ جولائی تک بیجنگ کانفرنس کے پانچ سال بعد یہ نیویارک والی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس لیے اس کا نام بیجنگ پلس ۵ قرار دیا گیا کہ یہ بیجنگ کانفرنس کے پانچ سال بعد ہو رہی تھی۔ اس کانفرنس کا اصل عنوان تھا: ’’۲۰۰۰ء کی خواتین اور اکیسویں صدی میں صنفی مساوات، امن اور ترقی‘‘۔
Women 2000: gender equality, development and peace for the twenty-first century
اس کانفرنس میں اقوامِ متحدہ کے ممبر ممالک جہاں سرکاری طور پر شامل ہوئے وہیں این جی اوز کے کثیر تعداد میں وفود بھی شامل ہوئے۔ اگرچہ بیجنگ کانفرنس کے شرکاء اور مندوبین کی تعداد اس کانفرنس کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی، مگر یہ کانفرنس بہت زیادہ اہمیت کی حامل اس لحاظ سے تھی کہ اس میں بیجنگ کانفرنس کے دوران طے کیے گئے بارہ نکاتی ایجنڈوں کی توثیق اقوامِ متحدہ کی طرف سے ہو کر اسے تمام ممبر ممالک پر حکماً نافذ کرنے کا پروگرام تھا۔ اور اس کی خلاف ورزی پر اقوامِ عالم ’’مجرم ملک‘‘ کے خلاف ایکشن لینے کی مجاز قرار دی گئی تھیں۔
کانفرنس کے درپردہ مضمرات
(۱) امریکہ اپنے نیو ورلڈ کو مستحکم کرنے کی غرض سے اپنے ممکنہ حریف اسلام کے کردار کو ختم کرنا چاہتا ہے۔
(۲) اپنی عالمی نیشنل کمپنیوں کو مضبوط بنانے اور اس کے استحکام دینے کے لیے مغرب کو ہر جگہ سستی لیبر اور خام مال چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جنسی آزادی والا معاشرہ پیدا کر کے مرد و عورت کی تمیز کے بغیر ان کو ہر جگہ کم داموں پر لیبر، سو فیصد مزدور اور تربیت یافتہ افرادی قوت میسر آجائے، ساتھ ہی مزاحمت کرنے والی دینی قوت بھی غیر مؤثر ہو کر رہ جائے۔
اس کانفرنس کے لیے تیاریاں
بیجنگ پلس فائیو کانفرنس نیویارک کی تیاریاں تو بیجنگ کانفرنس کے فوراً بعد ہی سے شروع ہو گئی تھیں مگر یہ ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۰ء میں پورے عروج کو پہنچ گئی تھیں۔ اس کے لیے دنیا کے مختلف علاقوں میں وقتاً فوقتاً علاقائی کانفرنسیں منعقد ہوتی رہیں۔ ان میں پہلے تیاری کانفرنس Prep-Com تو ۱۵ مارچ سے ۱۹ مارچ ۱۹۹۹ء میں نیویارک ہی میں منعقد ہوئی۔ پھر نیویارک میں ایک اور کانفرنس ۲۷ فروری سے ۱۷ مارچ تک دوبارہ منعقد ہوئی۔ اس کے علاوہ کھٹمنڈو، بنکاک و دیگر مقامات پر بھی علاقائی کانفرنسیں منعقد ہوتی رہی تھیں۔
اس کانفرنس میں خصوصی ایجنڈا یہ تھا: خاتونِ خانہ کی گھریلو ذمہ داریوں پر اور پھر اس کی تولیدی خدمات پر اس کو باقاعدہ معاوضہ دیا جائے۔ ازدواجی عصمت دری پر قانون سازی کی جائے اور فیملی کورٹس کے ذریعے مرد کو سزا دلوائی جائے۔ طوائف کو جنسی کارکن قرار دینا۔ ممبر ممالک میں جنسی تعلیم اور کنڈوم کے استعمال پر زور دینا۔ اسقاطِ حمل کو عورت کا حق قرار دینا۔ ہم جنس پرستی کا فروغ۔ چنانچہ اپنی تجویزوں کو رسمی طور پر پانچ دس منٹ کی نمائشی تقریروں کے بعد منظور کر لینے کا پروگرام تھا۔
شیطان بیجنگ کانفرنس سے لے کر اب تک اپنے منصوبہ پر عملدرآمد کے لیے مسلسل متحرک تھا مگر افسوس کہ مسلم ممالک میں اس آنے والے فتنہ کا بجا طور پر نوٹس نہ لیا گیا۔ قاہرہ کانفرنس ۱۹۹۴ء کے انعقاد کے بعد مصر میں نئے عالمی قوانین متعارف کرائے گئے۔ بعد ازاں مراکش اور دیگر مسلم ممالک میں بھی یجنگ ڈرافٹ کے نتیجے میں مین فیملی لاز میں تبدیلیاں لائی گئیں۔ مگر کسی جگہ کوئی قابل ذکر احتجاج دیکھنے میں نہ آیا۔ البتہ مراکش میں دو تین ماہ قبل جب فیملی لاز تبدیل کیے گئے تو وہاں کی دس لاکھ مسلم خواتین نے ان نئے قوانین کے خلاف باپردہ مظاہرہ کیا، اس طرح ایک نئی مثال قائم کی۔ اگر اسی قسم کے مظاہرے مختلف مسلم ممالک میں ہوئے ہوتے تو پھر اس موقع پر عالمِ اسلام متفقہ موقف اختیار کر کے ہم جنس پرستی کے شیطانی منصوبہ کا مؤثر سدباب کر سکتا تھا۔
پاکستان میں اس کانفرنس کی تیاری
چھ سال قبل قاہرہ میں ۱۹۹۴ء میں منعقد ہونے والی بہبود آبادی کانفرنس کے نتیجے میں پاکستان میں بہت سی این جی اوز (غیر سرکاری تنظیمیں) وجود میں آئیں۔ بیجنگ کانفرنس کے بعد ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ملک میں فیملی پلاننگ کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔ جگہ جگہ بہبود آبادی سنٹر کھل گئے۔ ستارہ اور چابی والی گولیاں (مانع حمل ادویات) ملک میں عام ہوئیں۔ ایڈز سے بچانے کے بہانے ملک میں ہم جنس پرستی کے بارے میں وسیع پراپیگنڈا کیا گیا۔ وطنِ عزیز میں بے حیائی و فحاشی کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک ذرائع ابلاغ، ٹی وی، ڈش، کیبل، انٹرنیٹ، فحش لٹریچر، ماڈلنگ، ویڈیو گیمز وغیرہ کے ذریعے فحاشی کے مظاہرے بہت زیادہ بڑھ گئے۔ اغوا، عصمت دری پھر گینگ ریپ اور گھروں سے دوشیزاؤں کے فرار کے واقعات میں معتد بہ اضافہ ہوا۔ اسی پس منظر میں ’’صائمہ ارشد لو میرج کیس‘‘ بھی منظر عام پر آیا، جس نے مغرب کی ثقافتی یلغار کو وطنِ عزیز میں اور فروغ دیا۔ پھر خواتین کے بینک اور پولیس اسٹیشن بھی قائم کیے گئے۔
۱۹۹۴ء میں حکومتِ پاکستان نے خواتین کی اصلاح و ترقی کے نام پر ایک ’’خواتین تحقیقاتی کمیشن‘‘ ترتیب دیا تھا۔ اس کے ممبران میں زیادہ تر این جی اوز کے نمائندے شامل تھے۔ خصوصاً ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر جیسے لوگ یہ رپورٹ تیار کر رہے تھے۔ ۱۹۹۷ء میں انہوں نے جو رپورٹ پیش کی تھی اس میں پاکستانی خواتین کے لیے بیجنگ کانفرنس والا ایجنڈا ہی پیش کر دیا۔ اس کے بعد ان خواتین نے غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے خلاف اس زور سے دہائی دی کہ موجودہ حکومت نے ۲۰ اپریل ۲۰۰۰ء کو ہونے والی انسانی حقوق کانفرنس میں ایسے قتل کو قتلِ عمد ٹھہرا کر اس کی سزا موت قرار دے دی۔
علاوہ ازیں موجودہ حکومت نے بلدیاتی انتخابات میں عورتوں کو ۵۰ فیصد نشستیں دینے کا اعلان کر کے اسی ایجنڈے پر عملدرآمد کیا۔
سرکاری سطح پر کانفرنس کے لیے جو پاکستانی وفد نیویارک گیا اس میں سماجی بہبود اور خواتین کی وزیر شاہین عتیق الرحمان، ڈاکٹر یاسمین راشد، زریں خالد، ثمینہ پیرزادہ اور ڈاکٹر رخسانہ شامل تھیں۔ وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال اس سرکاری وفد کی سربراہ تھیں۔ اس کے علاوہ کئی دانشور خواتین بطور مبصر بھی شامل ہوئیں۔ عاصمہ جہانگیر بھی کئی این جی اوز کے ہمراہ گئی ہوئی تھیں۔
اس طرح پاکستان میں بھی ان اقدامات کے نتیجے میں بہت کم ردعمل دیکھنے میں آیا۔ پھر پاکستانی این جی اوز نے پاکستان کی طرف سے ایک باقاعدہ رپورٹ یو این او کو درج کرائی جس میں نکتہ وار بیجنگ کانفرنس کے بارہ موضوعات پر پاکستان میں ہونے والی پیشرفت اور متعلقہ رکاوٹوں کا جائزہ پیش کیا گیا۔ انہوں نے یہ رپورٹ بھی دی کہ بے نظیر صاحبہ کے دورِ حکومت میں ان کا کام جاری رہا مگر نواز شریف حکومت کے دوران ترقی کے تمام معاملات جامد رہے۔
علماء کرام اور بہی خواہوں کا مسلمانوں اور خصوصاً مسلم حکمرانوں کو انتباہ
مسلم ورلڈ جیورسٹس ایسوسی ایشن کے صدر جناب اسماعیل قریشی نے لاہور ہائیکورٹ میں اس کانفرنس کے غیر شرعی اور غیر اسلامی نکات کے خلاف رٹ دائر کی۔ نیز انہوں نے زبیدہ جلال وفاقی وزیر تعلیم کی سربراہی میں وفد بھیجنے کی بھی مخالفت کی۔ جبکہ زبیدہ جلال کی مغرب نوازی کی بنا پر دوسری دینی جماعتیں بھی موصوفہ پر شدید تنقید کر رہی تھیں۔ آخر حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کو یقین دلایا کہ ہمارا وفد اسلام کے خلاف نکات کی اس کانفرنس میں مخالفت کرے گا۔ مگر وفد کی سربراہ محترمہ زبیدہ جلال ہی کو بنایا گیا۔
اسی طرح رابطہ العالم الاسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبد اللہ بن صالح العبید نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے نام بالعموم اور رائے عامہ کے نمائندوں کے نام بالخصوص ایک خط لکھا جس میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۵۴ویں اجلاس کی جانب توجہ دلائی جو ۵ تا ۹ جولائی نیویارک میں ہو رہا ہے۔ یہ خواتین کے بارے میں اس کا ۲۳واں سیشن ہو گا جس کے لیے ’’اکیسویں صدی میں خواتین کے لیے مساوات، ترقی اور امن‘‘ کا عنوان اختیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان سب خواتین کانفرنسوں کا مقصد خاندان کے ادارے کو ختم کرنا اور خواتین بلکہ نوجوان نسل میں اخلاقی بے راہ روی اور والدین سے بغاوت پیدا کرنا ہے۔ اللہ نے مسلمانوں کو نیک کاموں میں تعاون کرنے اور برے کاموں سے الگ رہنے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے نئے عالمی نظام کے منظم حملے کے خلاف سوچنا اور تدبیر کرنا تمام مسلم امہ کی ذمہ داری ہے۔ یہ حملہ صرف مسلم اقدار کے خاتمے کے خلاف سازش نہیں بلکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے پردے میں تمام انسانی رشتوں بلکہ خود انسان کی پہچان کو تبدیل کر دینے کے مترادف ہے۔
سابق صوبائی وزیر اطلاعات پیر بنیامین رضوی نے امریکہ میں ہونے والی اس کانفرنس کو اسلام کے خلاف شرمناک سازش قرار دیا جس میں ہم جنس پرستی کو جائز، اسقاطِ حمل کو فروغ اور طوائفوں کو جنسی کارکن قرار دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ این جی اوز کی نمائندہ وفاقی وزیر زبیدہ جلال کو حکومت فوراً واپس بلائے، نیز اس کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کرے۔ بلکہ انہوں نے اسلامی ممالک کے تمام سربراہوں سے بھی اپیل کی کہ وہ فوری طور پر اپنے نمائندے اس کانفرنس سے واپس بلا کر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیں۔
اور اسی طرح پاکستان کی تمام دینی جماعتوں نے بھی فرداً فرداً اس کانفرنس کو اپنے مذہب، ایمان اور اقدار کی تباہی کے یہودی منصوبے کے خلاف ڈٹ جانے کی تلقین کی۔
شدید تنقید کی وجہ
یہ ساری تنقید اس بنا پر تھی کہ یو این او کے نمائندے نے اہم نوٹس جاری کیا تھا: ’’یہ کانفرنس پہلی تمام پیشرفت کا جائزہ لے گی‘‘۔ بستی پلیٹ فارم فار ایکشن کے ۱۲ نہایت اہم نکات کا جائزہ لے کر انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ افسوس لوگوں پر ابھی تک روایتی جنسی شناخت طاری ہے، اور عورت کے خلاف جنس کی بنا پر امتیازی سلوک مرد و زن کی مساوات قائم کرنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ پھر حکومتوں نے بھی ایسے اقدامات پر توجہ نہ دی، نہ ہی انہوں نے اس امر پر زور دیا جس سے عورتوں کے تولیدی حقوق اور جنسی صحت کے متعلقہ حقوق پر عملدرآمد ممکن ہو سکے۔ اس لیے اب یو این او بین الاقوامی تنظیموں، مہذب معاشروں، سیاسی جماعتوں، ذرائع ابلاغ، نجی شعبہ، سب کو یکساں ذمہ دار قرار دیتی ہے کہ وہ ایسی عوامی بحث کا آغاز کریں اور باقاعدہ مہم چلائیں جس سے جنس سے متعلقہ امور پر کھلے عام بات چیت ہو، عمومی رویے زیربحث آئیں، نئے تصورات جنم لیں۔ اور جائزہ لیا جائے کہ مرد و عورت کی مساوات پر کس حد تک عمل ہو سکتا ہے۔ پھر شعبہ تعلیم میں کام کرنے والوں کو رسمی و غیر رسمی ذرائع اختیار کر کے یہ بیداری پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح بین الاقوامی تنظیموں آئی ایم ایف، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، گروپ آف سیون اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو جنس کی مساوات کو فیصلہ سازی کا اہم حصہ بنانا چاہیے۔
تجزیہ
خواتین کے اختیار و اقتدار میں اضافہ، ہر فورم پر ان کی پچاس فیصد نمائندگی، اسقاطِ حمل کا حق، تولیدی خدمات اور گھریلو خدمات پر معاوضہ طلب کرنا، ہم جنس پرستی کو قانونی جواز مہیا کرنا، اور مساواتِ مرد و زن کا نعرہ — کیا یہ سب بیسویں صدی کے پرفریب نعرے نہیں ہیں؟ عورت آخر کونسا اقتدار مانگ رہی ہے؟ کیا ماں کی حیثیت سے وہ معاشرے کا قومی ترین کردار نہیں ہے؟ کیا بیوی کی حیثیت سے وہ اپنے خاوند کی مشیر اور شریکِ سفر نہیں ہے۔ وہ تو گھر کی مالکہ ہے۔ بہن اور بیٹی کی محبت تو بڑے بڑے سنگدلوں کو پگھلا کر موم کر دیا کرتی ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ مسلمان خاتون طاقتور نہیں ہے، یا مرد برتر ہے اور عورت کم تر۔
یہ سارے مسائل مغربی معاشروں کے تو ہو سکتے ہیں، مگر دینِ اسلام تو بذاتِ خود محسنِ نسوانیت ہے۔ وہ تو ۱۴۰۰ برس قبل عورت کو بن مانگے اتنے بڑے حقوق عطا کر چکا ہے جس کے لیے مغربی عورت ابھی تک کشکولِ گدائی لیے ماری ماری پھر رہی ہے۔ مظاہروں، ہڑتالوں، جلوسوں، سیمیناروں اور کانفرنسوں کے ذریعے اپنے جائز حقوق مانگتے مانگتے بے راہ روی کی بگٹُٹ راہ پر نکل کھڑی ہوئی ہے۔ لہٰذا ہمارے ہاں کی خواتین کی حق تلفیوں اور ان کے حقوق سے بہرہ ور کرنے کی باتیں بہت دلسوزی سے جو کی جا رہی ہیں یہ دراصل اسلام کے خاندانی نظام اور اخلاقی اقدار کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر کفر کے نظام کو ان پر مسلط کرنے کی سازش ہے اور یہ باتیں کرنے والے بھی اہل ِمغرب کے ایجنٹ ہیں۔
دراصل کانفرنس کے محرکین کو عورت کے معاملات سے کوئی ہمدردی نہیں۔ اگر فی الواقع ایسا ہوتا تو کشمیر، فلسطین، چیچنیا، بوسنیا، کوسووو، اراکان اور دیگر خطوں میں ہونے والی خواتین کی جبری عصمت دری کے خلاف ضرور آواز بلند کی جاتی۔ اسی طرح خواتین کے اور بھی کئی حقیقی مسائل ہیں مگر وہ ان کے ایجنڈے پر نہیں تھے۔ ان کی توجہ تو صرف ان خرافات پر مبذول رہی جس سے خود خواتین بھی تباہ و برباد ہوں اور ساتھ معاشرہ بھی درہم برہم ہو کر رہ جائے۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ مغرب کی پریشان عورت اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں تلے پناہ ڈھونڈ رہی ہے، مگر خود مسلمان عورت کو اسی تباہی کی راہ پر جبراً اور حکماً ڈالا جا رہا ہے۔
خواتین کی تمام اداروں میں پچاس فیصد نمائندگی بھی اسی طرح ایک ناقابلِ عمل تجویز ہے۔ مثلاً اس حکم کے تحت جنرل پرویز مشرف صاحب نے بلدیاتی کونسل میں خواتین کی پچاس فیصد نمائندگی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کی عدمِ شرکت کی صورت میں یونین کونسل میں ان کی چاروں نشستیں خالی رکھی جائیں گی۔ دوسرے الفاظ میں یونین کونسل کے ۸ افراد کے بجائے صرف ۵ (مرد) افراد سے کام چلایا جائے گا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر عام قصبوں اور دیہات میں عورت کسی دفتر، بینک، ڈاکخانے، ریلوے آفس وغیرہ میں نظر نہیں آتی۔ پھر یونین کونسل کے ممبر کی ذمہ داریاں اس نوعیت کی ہوتی ہیں کہ عموماً عورت ان سے بخوبی عہدہ برآ نہیں ہو سکتی، اس سے ترقی کی رفتار بھی سست ہو گی، مگر ساتھ مخلوط معاشرت سے بہت سی نئی الجھنیں پیدا ہوں گی۔
مسلم ممالک کو تو چھوڑیے، خود مغربی ممالک کا کیا حال ہے؟ امریکہ کے پورے دور میں اب آ کر ایک خاتون میڈین البرائٹ وزیر خارجہ بن سکی ہے اب تک کوئی خاتون امریکی صدر نہیں بن سکی۔ امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں بھی عورتوں کا تناسب صرف ۲ فیصد ہے اور جرمن پارلیمنٹ میں صرف ۷ فیصد۔ برطانیہ میں تناسب صرف ۳ فیصد ہے۔ اس طرح انتہائی ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ معاشروں میں مجموعی طور پر عورت کی شرکت کی کثرت ہو گئی ہے مگر مغربی ممالک میں تو نقشہ اس سے بہت بدلا ہوا ہے۔ جب حقائق کی دنیا اس فریب کا پردہ چاک کر رہی ہے تو اس کو پھر زبردستی یو این او کے کفر پر مبنی یہودی نظام کو مسلم ممالک پر مسلط کرنا بہت بڑی گمراہی نہیں تو اور کیا ہے؟
خاتونِ خانہ کے گھریلو کاموں اور تولیدی خدمات پر محنت کا معاوضہ
یہ مطالبہ بھی انتہائی شرمناک ہے۔ عورت اپنے گھر کی مالکہ ہے تو مرد مشکل ترین کام کرتا ہے۔ یعنی باہر کے گرم سرد موسم کی تلخیاں اور صعوبتیں برداشت کر کے کما کر اپنی محنت مزدوری عورت کے ہاتھ پر لا کر رکھ دیا ہے کہ وہ اس کو اپنی صوابدید کے مطابق خرچ کرے، سرا نظم و نسق چلائے۔ کیا مرد اس کو اپنا مزدور سمجھ کر وہ رقم اس کے حوالے کرتا ہے؟ عورت اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے، ان کو جنم دیتی ہے تو اس کی اپنی نفسیات تسکین پاتی ہے۔ ہر عورت بچوں کے بغیر اپنے آپ کو غیر مکمل اور ادھوری سمجھتی ہے۔ اس کی مامتا کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ اس کے ہاں بچہ پیدا ہو، اس طرح اس کی ذات کی تکمیل ہو سکے۔ پھر اس کے بچے کو کوئی اور کیوں پالے؟ وہ اس کا لختِ جگر ہے، اس کا گوشت پوست ہے، بچے کی خوشی اس کی اپنی ماں کی خوشی ہے۔ بچے کی بیماری سے خود عورت پژمردہ اور مضمحل ہو جاتی ہے۔ آخر وہ اپنے بچے کو جنم دینے اور پرورش کرنے میں اور اس کی تعلیم و تربیت کرنے میں جو فرحت اور سچی خوشی محسوس کرتی ہے، دنیا کی کونسی چیز ان کا نعم البدل بن سکتی ہے؟ کیا آپ حقیقی والدہ کو نوکر بنا کر رکھ دینا چاہتے ہیں؟ جذباتی مطالبے کرنا، تحریریں اور مضمون لکھ دینا تو اور چیز ہے مگر زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔ خصوصاً پاکستانی عورت تو اپنے معاشرے میں بہت زیادہ غالب اور ہمہ مقتدر ہے کہ مرد اپنی ساری کمائی لا کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے اور پھر اپنی چھوٹی موٹی ضرورت کے لیے بھی عورت سے وقتاً فوقتاً مانگتا رہتا ہے۔
اب خود سوچ لیں کہ مسلمان خاتون کے لیے ماں بننے کا اعزاز، پھر تربیتِ اطفال کی ذمہ داری دنیا میں سکون و طمانیت کا باعث ہے اور عاقبت میں عظیم اجر و ثواب کا باعث۔ اس کی جگہ دفتروں میں ملازمت کر کے یا مرد سے اس خدمت کا معاوضہ طلب کر کے چند سکے حاصل کر لینا باعث فخر و اعزاز ہے، یا اس کی مامتا کے منہ پر زبردست طمانچہ؟
اور یہ جو سیکس فری معاشرہ قائم کرنے کی بات ہے، کیا وہ مرد ہونے یا عورت ہونے کا شعور ہی ختم کر دینا چاہتے ہیں؟ یہ شعور یا جبلت تو حیوانوں میں بھی موجود ہے۔ نر جانور مادہ جانور کو خوب جانتا پہچانتا ہے، مادہ جانور اپنی خلقی و جبلی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتی ہے۔ اور اگر اس سے یہ مراد ہے کہ عورت ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کرتا ہے اس لیے ان میں کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہیے تو پھر بھی یہ ایک مہمل اصطلاح ہے۔
- کیا واقعی عورت مرد کی محتاج نہیں ہے؟
- کیا واقعی عورت ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کرتا ہے؟
- اور کیا واقعی مرد بھی وہ کام کر سکتا ہے جو عورت کی ذمہ داری قدرت نے بنادی ہے؟
یا پھر اس سے مراد خواتین ہم جنس پرست، مرد ہم جنس پرست، اور شادی کیے بغیر ساتھ رہنے والے جوڑے ہیں، جو جنس کی ہر ذمہ داری سے آزاد رہنا چاہتے ہیں؟ کم از کم راقمہ کو اس اصطلاح کا مفہوم سمجھ میں نہیں آ سکا۔ یا اس سے مراد مخنث حضرات کا معاشرہ پیدا کرنا مقصود ہے جو صرف ناچ گانا اور اچھل کود ہی جانتا ہو، نہ وہ مردوں کی سی ذمہ داریاں ادا کر سکے، نہ عورتوں کے فرائض انجام دے سکے، اور اس طرح تمدن کو زبردست تباہی سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ غالباً اسی لیے زنا کی آزادی اور اسقاطِ حمل کی آزادی طلب کی جا رہی ہے اور ہم جنس پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
دستاویز کا ایک نادر نکتہ شوہروں کے ہاتھوں بیویوں کی جبری عصمت دری ہے جس کو وہ Marital Rape کا نام دیتے ہیں۔ پھر شوہر کے ہاتھوں بیوی پر جنسی زیادتی سے نبٹنے کے لیے فیملی کورٹس کے ذریعے مناسب قانون سازی کر کے مردوں کو سزا دلوانے کی سفارش کی گئی ہے۔
پھر انہوں نے اسلام کے قانونِ وراثت پر خطِ تنسیخ پھیرنے کا سامان کیا ہے۔ دستاویز میں واضح طور پر ہدایات موجود ہیں کہ قانون سازی اور اصلاحات کے ذریعے جائیداد اور وراثت میں مرد و زن کے مساوی حقوق یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں، یعنی عورت کو لازماً مرد کے مساوی وراثت دی جائے۔
پاکستانی وفد سے غیرت کے قتل کے بارے میں بحث مباحثہ ہوا۔ مگر پاکستانی وفد نے غیرت کے قتل کو جرم تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ مغرب میں بھی تو جذباتیت کے تحت قتل ہوتے ہیں مگر ان کو جرم تسلیم نہیں کیا جاتا۔ بعینہ ہمارے ہاں اس جذبات والے قتل کو غیرت کا قتل قرار دیا جاتا ہے لہٰذا یہ جرم نہیں ہو سکتا۔
کیا عورت ۔۔۔ عورت ہے جسے مرد کے بالمقابل کھڑا کیا جا رہا ہے اور اس کے دل میں مرد کے خلاف زبردست نفرت ٹھونسی جا رہی ہے۔ حالانکہ مرد اس کا باپ ہے، بھائی ہے، شوہر ہے اور بیٹا ہے۔ کیا وہ اپنے ان عزیز ترین رشتوں سے دستبردار ہونے کو تیار ہے؟ کیا وہ خود ہی باپ، بھائی، بیٹے کے کردار ادا کر لے گی؟ اس کی نفسیات اور اس کا جسمانی نظام تو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ایسا ہونا ناممکن ہے، تو پھر یہ ساری اچھل کود کیوں؟
مغرب نے اس بے روک ٹوک جنسی آزادی کے کچھ نتائج تو دیکھ ہی لیے ہیں، گھر برباد ہو گئے، بوڑھے ماں باپ اولڈ ہومز کی زینت بنے۔ بچے ڈے کیئر سنٹرز میں پلنے لگے۔ بحرِ محبت دریاؤں کے کنارے ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ ہوٹل اور پارک آباد ہوئے۔ ہسپتالوں نے ولادت اور موت کا فریضہ سنبھال لیا۔ یہ تو صرف آزادئ نسواں کا کچھ اعجاز ہے۔ اب عورت کو پچاس فیصد نمائندے دے کر اور اسقاطِ حمل و ہم جنس پرستی کا مزید بنیادی حق دے کر اسے طاقتور بنانا مقصود ہے تو پھر یہ ڈراما کیا سین دکھائے گا؟ بقول اقبال ؎
نسوانیتِ زن کا نگہبان ہے فقط مرد
اب عورتیں مرد کو درمیان سے نکال کر چند سکے تو کما لیں گی مگر یہ سکے اس کی عزت، آبرو، ناموس، تمدن، ثقافت، عفت و عصمت اور شرم و حیا جیسی اعلیٰ اقدار کا گلا گھونٹ دیں گے اور عالمِ انسانیت وسیع ترین جنگل کی حیثیت اختیار کر جائے گا۔ مغرب میں تو یہ تمام بربادی فطری انداز میں آئی ہے مگر اب وہ اس تمام خانماں بربادی کو یو این او کے ذریعے ساری دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، یہ کتنا بڑا ظلم اور نا انصافی ہے؟
کانفرنس کا انعقاد
کانفرنس کا ایجنڈا تو سارا پہلے ہی تیار ہو چکا تھا۔ اس موقع پر تو صرف پانچ تا دس منٹ کی نمائشی تقریروں میں اس ایجنڈے کی توثیق کرنا مقصود تھا۔ بہرصورت یہ کانفرنس ۵ سے ۹ جولائی تک منعقد ہوئی۔ اس میں مسلم ممالک شامل ہوئے۔ روزنامہ نوائے وقت ۱۰ جولائی نے اس کے بارے میں لکھا:
’’نیویارک میں عورتوں کے جنسی حقوق کے مسئلے پر اسلامی ممالک اور رومن کیتھولک ممالک ایک ہو گئے۔ جنسی حقوق (جن کا نام بیجنگ کانفرنس میں بدل کر بنیادی انسانی حقوق قرار دیا گیا تھا) میں اسقاطِ حمل اور مرضی سے بچے جننے کا حق بھی شامل ہے۔ ایران، لیبیا، سوڈان اور پاکستان کے علاوہ رومن کیتھولک ملکوں کی طرف سے بھی اس کانفرنس میں شدید تنقید کی گئی۔ محض اس لیے کہ انہوں نے اس دستاویز کی مخالفت کیوں کی؟ غیرت کے قتل کے موضوع پر بھی خوب بحث ہوئی مگر بہرحال اس کو جرم تسلیم کرنے کی بھرپور مخالفت کی گئی۔‘‘ (روزنامہ نوائے وقت ۔ ۱۰ جولائی ۲۰۰۰ء)
چنانچہ یہ کانفرنس شدید مخالفت کے باعث کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر ہی ختم ہو گئی۔ صرف عورتوں کی تعلیم اور بہتر صحت کی سہولتوں پر ہی اتفاق رائے ہو سکا۔ حسنِ اتفاق یہ ہے کہ خود رومن کیتھولک چرچ نے بھی ابتدا ہی سے بیجنگ کانفرنس کے ایجنڈے کی مخالفت کی تھی۔ چنانچہ اس کانفرنس میں بھی انہوں نے جنسی آزادی اور اسقاطِ حمل جیسے فضول ایجنڈے کی کھل کر مخالفت کی۔ علاوہ ازیں جمہوریہ چین نے بھی ان سفارشات کی مخالفت کی۔ چنانچہ کانفرنس سے واپسی پر خواتین کی صوبائی وزیر شاہین عتیق الرحمان نے رپورٹ پیش کی:
’’چین اور کیتھولک عیسائی ممالک نے بھی مسلم ممالک کے موقف کی اس بنیاد پر بھرپور حمایت کی کہ عالمی کانفرنس میں مسلم ممالک کی حمایت سے مغربی این جی اوز کی اسقاطِ حمل اور جنسی آزادی کی سفارشات مسترد کروائی گئیں۔ لابنگ سے پاکستانی عورت کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈا غلط ثابت کیا۔ ہمارے وفد کو ہر سطح پر بھرپور نمائندگی ملی۔ بھارت کے مقابلے میں ہمارا سرکاری وفد اگرچہ مختصر تھا مگر اپنی کارکردگی کی بدولت یہ وفد کانفرنس پر چھایا رہا۔ ہم نے کانفرنس میں بتایا کہ پاکستانی عورت پر تشدد اور دباؤ کے الزامات بالکل غلط ہیں۔ یہ محض پروپیگنڈا کا حصہ ہیں۔ ہماری عورت ترقی کی دوڑ میں شامل ہے۔ اسے تمام بنیادی حقوق اور شہری آزادیاں حاصل ہیں۔
این جی اوز پروگرام کی کاروائی میں حصہ لینے کے بجائے ذاتی گفتگو میں مصروف رہنے کے باعث ناکام ہو گئیں۔‘‘ (روزنامہ نوائے وقت ۔ ۱۶ جون ۲۰۰۰ء)
بہرحال اس پانچ روزہ کانفرنس میں ۱۸۰ ممالک شامل ہوئے۔ پورا وقت طویل بحث مباحثے ہوتے رہے۔ بیشتر مندوبین کو جنسی آزادی، اسقاطِ حمل اور نوخیز نابالغ بچوں کو جنسی تعلیم دینے کے نکتوں پر اتفاق نہ تھا۔ اس طرح منتظمین کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی کہ وہ تمام شقوں پر جلد ہی ممبر ممالک سے دستخط کرا لیں گے۔ چنانچہ اس موقع پر این جی اوز نے اتفاقِ رائے سے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، اور جن امور کو آج متنازعہ فیہ قرار دیا گیا ہے بالآخر وہ دنیا بھر سے ان مطالبات کو منوانے میں جلد کامیاب ہو جائیں گے۔
مقامِ غور و فکر
گزشتہ خواتین کانفرنسوں میں اسلامی حکومت کے نمائندوں نے اپنی مذہبی تعلیمات، عقیدے اور ایمان کے صریحاً منافی احکام کی مزاحمت نہیں کی تھی بلکہ چند تحفظات کا اظہار کر دینا کافی خیال کیا۔ جبکہ موجودہ کانفرنس کا ایجنڈا اس کفریہ نظام کو جبراً رکن ممالک پر مسلط کرنا تھا۔ لہٰذا دینی جماعتوں، علماء اور امت کے اہلِ فکر و نظر اصحاب نے اپنی اپنی حکومتوں کو خوب سمجھایا اور بغیر سوچے سمجھے اس کانفرنس کے ایجنڈے پر دستخط کرنے کے خطرناک عواقب سے ان کو آگاہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی آن پہنچی۔ اس طرح یہ شیطانی اور یہودی منصوبہ وقتی طور پر اپنی موت آپ مر گیا، فللّٰہ الحمد۔
مگر اس کے خلاف طول منصوبہ بندی کرنا بہت ضروری ہے۔ اقوامِ متحدہ کے نمائندے بار بار اس ایجنڈے کو ہمارے سروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ جس طرح اقلیتوں کے مسئلے پر، توہینِ رسالت کے موضوع پر، قتلِ غیرت کے نام پر، دہشت گردی کے خاتمے کے عنوان سے بار بار ہم سے مطالبے کیے جاتے ہیں۔ اور ان موضوعات پر ہونے والی پیشرفت کا سوال بار بار مختلف فورمز پر اٹھایا جاتا ہے۔ بعینہ جنسی آزادی، اسقاطِ حمل اور پچاس فیصد خواتین کی نمائندگی کے مسائل بار بار اٹھائے جاتے رہیں گے۔ لہٰذا ہمیں مسلسل بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔
(۱) اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں غور و فکر کے مختلف فورم بنیں، جہاں محض تقاریر نہ ہوں، ان عالمی اداروں میں پیش آنے والے عالمی چیلنجز کا جواب ہم ٹھوس انداز میں دے سکیں۔ یہ فرض ہم پر امتِ مسلمہ کے فرد کی حیثیت سے بھی عائد ہوتا ہے اور ایک عام مسلمان کی حیثیت سے بھی۔ ٹھوس بنیادوں پر کام کرنے کے سوا ہم ان طوفانوں کا رخ نہیں موڑ سکتے۔ اگر مؤثر مزاحمت نہ ہوئی تو یہ انسانیت دشمن ایجنڈا ’’تمہاری بربادی کے مشورے ہیں یو این او کے ایوانوں میں‘‘ کے مصداق ہماری موت کا پیغام ہو گا، جب مسلمانوں کو جبراً اسلام اور اسلامی تعلیمات سے روک کر عالمی سطح پر نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ عراق و کیوبا جیسی اقتصادی پابندیاں، طاقت کا استعمال جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں گے کہ ؎
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
وہ نیکی، بدی، گناہ، ثواب، حلال حرام کے بجائے نئے عالمی فرمان کے مطابق وہی صواب ماننا پڑے گا جسے امریکہ صحیح کہے گا، اور جسے وہ غلط کہے گا سب اسے غلط ماننے پر مجبور ہوں گے۔
(۲) ہمارے ہاں ہندوانہ رسم و رواج کی وجہ سے بلاشبہ عورت بہت سے مصائب کا شکار ہے، ضرورت ہے کہ اس کی محرومیاں دور کی جائیں اور اسلام نے عورت کو جو حقوق دیے ہیں ان کے بارے میں رائے عامہ بیدار کی جائے۔ عورت کے ساتھ عمومی رویے بہتر بنائے جائیں۔ تعلیم، صحت، وراثت، حقِ ملکیت، حسنِ سلوک، انتخابِ زوج جیسے حقوق جو اسلام نے اسے عطا کیے ہیں فی الواقع عورت کو یہ حقوق دے کر اس کی عزت و آبرو کا احترام کیا جائے۔ اس کے مقام و مرتبہ کو معاشرے میں بحال کیا جائے۔
(۳) اسلام نے عورت کو جو بہترین حقوق دیے ہیں، خود اپنے معاشروں میں اور بین الاقوامی فورمز میں ان کی وضاحت اور خوبصورتی سے پیش کی جائے۔ آج کی مسلمان عورت کو اپنے دین، اخلاقی اقدار اور علم کے ہتھیار سے مسلح ہو کر اپنے اسلاف سے رشتہ جوڑتے ہوئے اعتماد سے قدم اٹھانا ہوں گے، تاکہ آنے والی صدی میں خواتین سے متعلقہ چیلنجز کا علمی اور عملی دونوں سطح پر مؤثر جواب دیا جا سکے۔
(۴) نیو ورلڈ آرڈر جاری کرنے کے بعد سے امریکہ ہر ممکن مسلم ممالک کو الگ الگ دبا رہا ہے۔ اس کو احساس ہے کہ اس کے اس آرڈر کو صرف اسلام ہی چیلنج کر سکتا ہے۔ اس لیے امریکہ اور یہودی مسلمانوں کو مسلسل کمزور کرنے اور تقسیم در تقسیم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ لہٰذا جلد از جلد مسلمانوں کو متحد ہو کر اپنی یونین قائم کرنی چاہیے۔ یا تو سلامتی کونسل میں اپنی اکثریت کی بنا پر دو تین مستقل ووٹ حاصل کریں، وگرنہ پھر اپنا مسلم بلاک الگ تشکیل دیں۔ اپنے کردار اور جہاد کے ذریعے اپنا لوہا منوائیں۔ اور اتحاد کے ذریعے نہ صرف اپنے دین کا تحفظ کریں بلکہ دکھی انسانیت تک اسلام کا جان بخش اور روح پرور پیغام پہنچائیں۔ اسلام کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کا توڑ کریں۔ اپنی نیوز ایجنسی قائم کریں، اپنا مسلم ٹیلی ویژن نیٹ ورک قائم کریں۔ مظلوم بھائیوں کی مدد کے لیے بین الاقوامی مسلم فوج تشکیل دے کر ہر جگہ دشمن کا بھرپور مقابلہ کریں۔ یہی راستہ ہمارے لیے سرخروئی اور کامیابی کا ضامن ہے۔
مقامِ مسرت ہے کہ اس موقع پر پاکستان کا سرکاری وفد اس بات پر ڈٹا رہا کہ وہ اپنی اسلامی روایات کے خلاف کوئی ایجنڈا قبول نہیں کرے گا۔ کیونکہ اسلام میں خواتین کی سیاسی و معاشی ترقی کے لیے نمایاں کردار موجود ہے۔ محترمہ زبیدہ جلال نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ ہم اس مسئلے پر او آئی سی کے تمام رکن ممالک کو بھی اعتماد میں لے رہے ہیں تاکہ اس معاشرے کی روایات ہم پر مسلط نہ کی جا سکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنے اس عزم پر قائم رہتے ہوئے پوری اسلامی دنیا کو مغرب کی بڑھتی ہوئی ثقافتی اور تہذیبی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرے اور یہ وعدے صرف صفحۂ قرطاس کی زینت نہ بنیں بلکہ ان کو عملی جامہ پہنا کر مسلم امت کی حقیقی فلاح و بہبود کا کام سرانجام دیا جائے۔
(بہ شکریہ: ماہنامہ افکارِ معلم لاہور)