ماہنامہ ساحل کراچی نے گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن کی موجودہ عالمی مہم اور پاکستان میں حکومتی اختیارات کی مقامی سطح پر منتقلی کے پروگرام کا جائزہ لیتے ہوئے اس سلسلہ میں دو اہم تجزیاتی رپورٹیں شائع کی ہیں جنہیں ’’ساحل‘‘ کے شکریہ کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ دینی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں سے بطور خاص ہماری گزارش ہے کہ وہ ان رپورٹوں کا گہری سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کریں اور اس اہم مسئلہ پر رائے عامہ کی راہنمائی کی طرف فوری توجہ دیں۔ (ادارہ)
عصرِ حاضر کے مغربی استعمار کی دو نئی اصطلاحات ’’گلوبلائزیشن‘‘ اور ’’لوکلائزیشن‘‘ اس وقت پاکستان کے ہر پڑھے لکھے فرد کا موضوعِ گفتگو ہیں۔ ان اصطلاحات کی ایک خاص تاریخ، خاص پسِ منظر، خاص فلسفہ اور خاص تہذیب ہے۔ اس پس منظر سے واقفیت کے بغیر یہ اصطلاحات بظاہر نہایت بے ضرر، غیر مہلک، تیر بہ ہدف اور نہایت کارآمد نظر آتی ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں لکھنے پڑھنے کی روایت مدتوں پہلے دم توڑ چکی ہے، لہٰذا میدانِ صحافت میں اب دانشور باقی نہیں رہے بلکہ اب صرف ڈھنڈورچی اور طبلچی قسم کے لوگ باقی رہ گئے ہیں۔ جو ہر نئے خیال، نئی لہر، نئے لفظ، نئی اصطلاح کو بے سوچے سمجھے اس بدقسمت قوم کی روٹھی ہوئی قسمت سے وابستہ کر دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ’’مقامیت‘‘ کی اصطلاح کے ضمن میں ہمارے اخبارات جنرل تنویر نقوی کی حمایت سے بھرے پڑے ہیں۔ حمایت کرنے والوں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ضلعی حکومتیں کس قیامت کی خبر لائیں گی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی قومی ریاست کیسے ریزہ ریزہ ہو گی۔
’’ساحل‘‘ ان اصطلاحوں کے حوالے سے خصوصی اشاعت پیش کر رہا ہے تاکہ قارئین کو ان اصطلاحات کا تاریخی پس منظر، اس کا فلسفہ، اس کے مقاصد، اہداف اور منزل کی بابت تفصیل سے معلومات مہیا کر دی جائیں۔ لوکلائزیشن اور گلوبلائزیشن کے عالمی استعماری منصوبے نئے نہیں ہیں، تاریخ کے سفر میں وقتاً فوقتاً ایسے منصوبے ماضی میں بھی ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔
انیسویں صدی میں انگریز نے بالکل اسی طرح پر پہلے ہماری مرکزی ریاست کو کمزور اور بالآخر تباہ کیا تھا۔ اس صدی کے نوابوں اور راجاؤں کی پالیسیوں اور راجوڑوں کو مغل سلطنت کے مقابلے میں کھڑا کیا گیا تھا۔ مرکزی ریاست سے اختیار چھین کر نوابوں کو با اختیار بنانے کی حکمتِ عملی کے ذریعے اصل اختیارات ریاستوں کو منتقل نہیں ہوئے بلکہ انگریزی استعمار کو منتقل ہوئے۔ اس طرح آج پاکستانی ریاست سے اختیارات چھین کر مقامی سطح پر منتقل کرنے سے مقامی حکومتیں مضبوط نہیں ہوں گے بلکہ یہ اختیارات اصل میں عالمی استعمار اور اس کے اداروں کو منتقل ہو جائیں گے۔ ضلعی حکومت ایک کاروباری ادارے کی طرح کام کرے گی جس میں حاکم آجر، اور عوام خریدار ہوں گے۔
لوکلائزیشن کا مطلب یہ ہے کہ مرکزی ریاست تمام خدمات کی فراہمی کے عمل سے دستبردار ہو جائے اور اس کی ذمہ داری ضلعی اور تحصیل کی سطح کی مقامی حکومتوں کو منتقل کر دی جائے۔ مقامی حکومتیں ان خدمات کو منافع کے حصول کے لیے انجام دیں اور حکومت کے بجائے تجارتی ادارہ بن جائیں۔ جکارتہ میں پانی کا نظام ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے خرید لیا ہے جس کے بعد پانی بھی منافع پر بیچا جا رہا ہے اور لوگ مہنگا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ ضلعی حکومت کے نتیجے میں اختیارات مرکزی حکومت سے نچلی سطح پر منتقل ہونے کے بجائے تمام اختیارات ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بین الاقوامی بینکوں کو منتقل ہو جاتے ہیں۔
گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن ایک سکے کے دو رخ ہیں۔ کیونکہ دونوں اعمال کے ذریعے اصل اختیارات مرکزی ریاست سے عالمی استعماری اداروں اور ملکوں کو منتقل کر دیے جاتے ہیں۔
حکومت نے ضلعی حکومتوں کے قیام کے پہلے مرحلے میں ملک کے منتخب اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے۔ ضلعی حکومتیں کیا ہیں؟ اس نظامِ حکومت کا فلسفہ کا ہے؟ اس کی تاریخ کیا ہے؟ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں عالمی استعمار امریکہ اور اس کی حلیف عالمی مالیاتی طاقتوں یعنی آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دیگر مالیاتی اداروں کے فلسفے، اصطلاحات، اور مغربی تہذیب اور اس کے فلسفہ تاریخ کو اچھی طرح سمجھنا ہو گا۔ اسے سمجھے بغیر ہم ضلعی حکومت جیسے بظاہر بے ضرر معاملات کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔
عموماً ہمارے دینی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے ضلعی حکومت کے منصوبے کی منظم اور مضبوط مخالفت ابھی تک نہیں کی گئی، بلکہ اسے اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم کے مغربی فلسفے کے تناظر میں ایک عظیم الشان پیش قدمی سمجھا جا رہا ہے۔ مگر دینی جماعتوں کی جانب سے ضلع کی سطح پر مرد اور خواتین کے لیے مساوی نشستوں کے اعلان کی بھرپور مذمت کی گئی ہے جس کا مقصد Effeminization کے ذریعے خاندانی نظام کو تہس نہس کرنا ہے۔ مغرب کے کسی ملک میں نچلی سطح پر کسی انتخابات میں بھی جنس کی بنیاد پر نشستوں کی تقسیم نہیں ہے، ہر جنس کو اختیار ہے کہ وہ انتخابات میں آزادانہ حصہ لے۔ مگر ہمارے حکمران مغرب سے کئی قدم آگے بڑھ کر ریاستی جبر کی طاقت سے عورت اور مرد و ایک دوسرے کے مد مقابل لا کر مقابلے کی کیفیت پیدا کر کے معاشرے سے اخلاقی اقدار کو رخصت کرنا چاہتے ہیں۔ عورتوں کو گھروں سے جبراً نکال کر ترغیب و تحریص کے تحت اپنے جال میں گرفتار کر کے انہیں مردوں کے شانہ بشانہ لانے کا بنیادی مقصد گاؤں اور تحصیل کی سطح پر آج بھی موجود مضبوط خاندانی نظام کو تہہ و بالا کرنا ہے جس کے نتیجے میں مغربی تہذیب کو غلبہ حاصل ہو ۔۔۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری اور علی محمد رضوی کے مضامین معلومات کے نئے دریچے وا کرتے ہیں، ان مضامین سے صورتِ حال کا ایک ایسا رخ سامنے آئے گا جو ابھی تک خاص و عام لوگوں سے مخفی ہے۔
(ماہنامہ ساحل کراچی)