ضلعی حکومتیں: پاکستانی ریاست کے خلاف خطرناک سازش

ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری

اس مضمون میں تحریکاتِ اسلامی کے کارکنان اور قائدین کی خدمت میں دو گزارشات پیش کی گئی ہیں:

  1. تمام اسلامی جماعتیں متفقہ طور پر بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کریں۔
  2. تمام اسلامی جماعتیں لوکلائزیشن کے پروگرام کو اصولاً رد کر کے مرکزی ریاست کو کمزور بنانے کی اس استعماری چال کو ناکام بنائیں۔

تمام اسلامی جماعتیں نفاذِ شریعت اور اعانت ِجہاد کے دو نکاتی پروگرام پر متفق ہو کر عوامی مہمات کے ذریعے اہلِ دین کو متحرک اور منظم کریں۔

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

۱۹۸۷ء میں جماعتِ اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان نے قومی اور صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ ایک بالکل درست اور نہایت مفید فیصلہ تھا، اس کے تین بہت بڑے فائدے حاصل ہوئے۔

اسلامی سیاسی قوتیں موجودہ مقتدر سیاسی قوتوں سے الگ ہو گئیں۔ آج جب ہم یہ بات کہتے ہیں کہ ہمارا موجودہ ظالم سیاسی اور معاشی نظام میں کوئی حصہ نہیں تو اس بات کو جھٹلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ انقلاب کی کامیابی کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ نئی انقلابی قوتیں عوام کی نگاہ میں موجودہ نظامِ اقتدار میں ملوث نہ ہوں۔ صرف اسی صورت میں نئی انقلابی قوتوں سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک نیا نظامِ اقتدار مرتب کرنے کی اہل ہیں۔ ایرانی انقلاب اور تحریکِ نفاذِ نظامِ مصطفٰیؒ میں یہی بنیادی فرق تھا کہ آیت اللہ خمینی کی ۱۹۶۲ء سے جاری جدوجہد کے نتیجے میں ایرانی علماء شاہ کے نظام سے تقریباً یکسر کٹ گئے تھے۔ جب کہ پی این اے (پاکستان نیشنل الائنس) میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو مقتدر طبقے کا جزوِ لاینفک سمجھے جاتے تھے۔

۱۹۹۷ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلے کے نتیجے میں آج ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں تحریکِ اسلامی ایران ۱۹۷۰ء کے اوائل میں تھی۔ ۱۹۹۷ء کے بعد جماعتِ اسلامی پاکستان، جمعیت علماء پاکستان، سپاہ صحابہؓ اور بہت سی دیوبندی تنظیموں نے ثابت کر دیا کہ اقتدار سے باہر رہ کر اسلامی قوتوں کو مجتمع کر کے حکومت پر مؤثر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ نیو کلیئر پروگرام، جہادِ کشمیر اور افغان جہاد کا تحفظ اس ہی وجہ سے ممکن ہوا کہ اسلامی قوتیں ریاستی اقتدار سے باہر منظم تھیں اور اپنی طاقت متحرک کرنے کے لیے انہیں ریاستی ذرائع کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر اسلامی قوتیں ریاستی اقتدار میں ملوث ہوتیں تو نہ Mass Organization ممکن ہو سکتی اور نہ Mass Mobilization۔

۱۹۹۷ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے ہم نے پہلی مرتبہ جماعتی سطح پر جمہوریت کی حقیقت کا ادراک حاصل کیا۔ ۱۹۳۰ء سے جب جمعیت علماء ہند قائم ہوئی، برصغیر کی تمام اسلامی سیاسی جماعتوں نے ـ(سوائے جماعتِ اسلامی ہند) جمہوری عمل کو Mass Mobilization کا مؤثر ترین ذریعہ تصور کیا۔ ۱۹۹۷ء کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ جمہوری عمل میں شمولیت کے ذریعے رسوائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جمہوری عمل کو رد کر کے ہی وسیع تنظیمی اور وسیع عوامی پذیرائی اسلامی بنیادوں پر ممکن ہو سکتی ہے۔ آج بہت سے علماء اور زعماء اس بات کے قائل ہیں اور سپاہ صحابہؓ اور تحریکِ احرار نے اصولاً جمہوریت کو رد کیا ہے اور جمعیت علماء اسلام میں بھی  متعدد علماء جمہوری عمل کے مضر ہونے کا برملا اظہار فرماتے ہیں۔

استعمار اور اس کے پاکستانی حلیف اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اسلامی قوتیں متحد ہو کر انقلابی سیاسی راہ اختیار کر رہی ہیں۔ اسلامی جماعتوں پر زور ڈالا جا رہا ہے کہ وہ مرکزی حکومت میں شامل ہوں۔ معیشت کو کاغذی سطح پر اسلامیانے کی مذموم سازش میں دینی مدارس اور تبلیغی جماعتوں کو ملوث کیا گیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات اور لوکلائزیشن کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ اسلامی جماعتوں کو جمہوری عمل میں دوبارہ ملوث کیا جائے۔ اگر استعماری اور سیکولر قوتیں اس میں کامیاب ہو گئیں تو اسلامی جماعتوں کو ان کی موجودہ پوزیشن سے اس مقام پر پھینک دیں گی جہاں اسلامی جماعتیں ۱۹۷۸ء میں ضیاء حکومت میں شمولیت کے وقت کھڑی تھیں۔ یہ ہماری ایک بڑی شکست ہو گی اور ہم عوامی حمایت کھو بیٹھیں گے، اور عظیم وسعت پذیر تنظیمی کام اور عظیم عوامی پذیرائی کا کام مشکل سے مشکل تر ہو جائے گا۔

ڈیولوشن Devolution کیا ہے؟

پاکستانی ڈیولوشن منصوبہ، عالمی استعمار کے گلوبلائزیشن اور لوکلائزیشن پروگرام کا حصہ ہے۔ لوکلائزیشن پروگرام کی حقیقت اور پاکستانی ریاست کو اس سے لاحق ہونے والے خطرات اس سلسلہ کے پہلے مضمون (ضلعی حکومتیں از علی محمد رضوی) میں بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں جنرل مشرف کی ڈیولوشن اسکیم کی خصوصیات بیان کی جاتی ہیں:

  • ریاستی اقتدار کو چار سطحوں پر تقسیم کیا جائے گا۔ وفاق، صوبہ، ڈسٹرکٹ اور یونین کونسل۔
  • رائے دہندگان کی عمر ۲۱ سے ۲۸ سال کر دی جائے گی۔
  • ہر ڈسٹرکٹ اسمبلی مالی طور پر خودمختار ہو گی اور اس کے پاس آمدنی حاصل کرنے کے اختیارات ہوں گے۔ ڈسٹرکٹ حکومت مالی طور پر خودکفیل بنائی جائے گی۔
  • ہر ڈسٹرکٹ اسمبلی میں دو غیر مسلم ممبر ہوں گے۔
  • ہر ڈسٹرکٹ اسمبلی اپنی علیحدہ مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دے گی تاکہ عوام حکومتی عوامل میں شامل کیے جا سکیں۔
  • ڈسٹرکٹ اسمبلی کے تحت مندرجہ ذیل شعبے ہوں گے: (۱) صحت (۲) تعلیم (۳) تجارت و صنعت (۴) قانون (۵) رابطہ (۶) زراعت (۷) مالیات (۸) بجٹ اور منصوبہ بندی (۹) ماحولیات (۱۰) جمہوری اداروں کا ارتقاء جمہوریت سازی (۱۱) اطلاعات
  • ڈسٹرکٹ حکومت ایک کاروباری ادارے کی طرح کام کرے گی، اس کے حاکم آجر کی حیثیت اختیار کر جائیں گے اور عوام کو خریدار سمجھا جائے گا۔
  • ہر وہ شخص ڈسٹرکٹ، تحصیل اور یونین کونسل کا ممبر منتخب ہو سکے گا جو (۱) ۲۵ سال سے زائد عمر کا ہو (۲) نادہندہ نہ ہو (۳) کنگال ہو (۴) مجرم یا سزا یافتہ نہ ہو۔

جیسا کہ امیر جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ یہ اسکیم خالصتاً غیر ملکی مشیروں اور این جی اوز کی ترجیحات کی غماز ہے۔ استعمار کی خواہش ہے کہ عوام کی توجہ مِلی اور نظریاتی مسائل سے ہٹ جائے، اور اغراض کی سیاست پورے معاشرتی اور ریاستی نظام کو اپنی گرفت میں لے لے۔ یہ معاشرہ اور ریاست کو سیکولر بنانے کا نہایت کارگر طریقہ ہے۔ اس حکومتی نظام کے نفاذ کے نتیجے میں مقامی آبادیوں کو غرض کی بنیاد پر منظم اور متحرک کیا جائے گا۔ ہر شخص اور گروہ اپنے مادی مفادات کی جستجو کو اولیت دے گا، اور پورا معاشرہ اور پورا سیاسی نظام سرمایہ دارانہ ذہنیت کو اپنا لے گا۔ حاکم آجر ہوں اور محکوم خریدار۔ ظاہر ہے کہ جہاں سیاست کو اس طریقہ سے بازاری بنا دیا جائے وہاں نظریاتی جماعتوں کا کوئی مستقبل نہیں ہو سکتا اور انہیں کوئی عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہو سکتی۔

انڈونیشیا، ترکی اور ہندوستان کے دو صوبوں کرناٹک اور تامل ناڈو میں اس نوعیت کے بلدیاتی، سیاسی اور انتظامی نظام کا تجربہ کیا گیا ہے۔ ہر جگہ اس کا نتیجہ یہ رہا ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں، مغربی بینکوں، اور عالمی سٹہ بازوں کی گرفت ان صوبوں اور شہروں پر نہایت مستحکم ہو گئی ہے:

  • جکارتہ کا پورا شہری ترسیلِ آب کا نظام ایک امریکی یہودی کمپنی کے قبضہ میں ہے۔
  • کرناٹک کی صوبائی حکومت اپنے اخراجات کا ۳۰ فیصد عالمی سٹہ بازاروں (Bond Markets) میں میونسپل بانڈ بیچ کر پورے کرتی ہے۔
  • ترکی کے دو صوبے آئی ایم ایف سے اپنے Structural Adjustment Programmes طے کر رہے ہیں جو مرکزی حکومت کی معاشی حکمتِ عملی سے اصولاً متصادم ہیں۔

اسی نوعیت کی معاشی خودمختاری موجودہ پاکستانی ڈیولوشن پروگرام میں تجویز کی گئی ہے۔ اگر یہ نافذ ہوتی ہے تو ڈسٹرکٹ اسمبلی District Assemblies کے اہل کاروں کا زیادہ وقت ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مغربی بینکوں کی خوشامد کرتے گزرے گا، کیونکہ یہی ادارے وہ وسائل فراہم کر سکتے ہیں جو بلدیاتی اداروں اور ڈسٹرکٹ میونسپل کمیٹیوں کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ اس نوعیت کی انتظامی تبدیلی کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں بتدریج وسائل کی فراہمی بھی کم کر دیں گی۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں این جی اوز کی قوت بے اندازہ طور پر بڑھ جائے گی۔

ڈیولوشن پاکستان توڑنے اور امریکہ کی غلامی قبول کرنے کا پروگرام ہے۔ اس کے نتیجہ میں وفاق کمزور ہو گا کیونکہ دینی اور نظریاتی بنیادوں پر لوگوں کو منظم اور متحرک کرنے کے مواقع معدوم ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ وفاق کے مالی مسائل بھی محدود ہوں گے اور وفاق کے اختیارات بھی کم کیے جائیں گے۔ ایک فعال اور جہادی خارجہ پالیسی کا تو ان حالات میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کے پاس وہ وسائل ہی نہیں ہوں گے جن سے اعانتِ جہاد یا ریاست کا دفاع ممکن ہو۔ اسی کے ساتھ وہ عوامی تائید سے بھی محروم ہو جائے گی جو جہادی خارجہ پالیسی کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام تو اغراض کی سیاست کے مکمل اسیر ہو چکے ہوں گے اور اپنے نمائندوں پر مسلسل یہ زور ڈال رہے ہوں گے کہ ملٹی نیشنل اداروں اور مغربی بینکوں اور ساہوکاروں سے اپنے سودے کریں جن سے بلدیاتی مسائل حل ہوں اور علاقہ میں خوشحالی آئے۔

اگر اسلامی جماعتوں نے آنے والے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تو وہ اپنا دینی تشخص کھو بیٹھیں گی۔ وہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ملکی شمولیت کا اسلامی جواز فراہم کریں گی، ان کے کارکن حقوق اور اغراض کی سیاست کے آلۂ کار بن جائیں گے۔ وہ عوام سے قربانیاں مانگنے کے قابل نہ رہیں گے۔ کیونکہ وہ تو خودغرضی، مطلب پرستی، حرص و حسد کو فروغ دینے والے بن جائیں گے۔ اسلامی کارکن دعوٰی کریں گے کہ ایم کیو ایم، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہم سے زیادہ اس بات کے اہل نہیں کہ عوام کے حقوق کا تحفظ کریں، اور ان جماعتوں کی بہ نسبت اسلامی جماعتیں ملٹی نیشنل کمپنیوں، مغربی بینکوں اور آئی ایم ایف کے ساتھ زیادہ بہتر سودے کر سکتے ہیں۔ یہ اسلام کو نفس پرستی کا ذریعہ بنانے کا عمل ہے۔ اگر ہم نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تو ہم وہ تمام فوائد کھو دیں گے جو ہم نے ۱۹۹۷ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے حاصل کیے تھے۔ اسلامی تحریکات آج سے بیس سال پیچھے دھکیل دی جائیں گی۔

اسلامی جماعتیں کیا کر رہی ہیں؟

اس کی تفصیل یونس قادری کے مضمون غیر سیاسی دینی جماعتیں اور سیاسی جماعتوں والے مضمون میں پیش کی گئی ہے۔ اجمالاً تین باتیں عرض ہیں:

(۱) وقت کی اہم ترین ضرورت اسلامی جماعتوں میں اتحاد ہے۔ یہ اتحاد ایک دو نکاتی پروگرام پر ہو۔ ایک یہ کہ فی الفور نفاذِ شریعت اور دوسرا اعانتِ جہاد۔

(۲) اس اتحاد میں اولاً جمعیت علماء پاکستان، جماعتِ اسلامی، جمعیت علماء اسلام، تحریکِ احرار اور سپاہ صحابہؓ شامل ہوں۔ کوشش کی جائے کہ ایک سال کے اندر دیگر تمام اسلامی جماعتیں بھی اس اتحاد میں شریک ہوں۔

(۳) سی ٹی بی ٹی پر کامیاب ریفرنڈم نے ثابت کر دیا ہے کہ عوام کی اسلامی عصبیت کو بروئے کار لانے کے لیے قومی مہمات نہایت کارگر ہو سکتی ہیں۔ ہمیں اگلی مہم غیر ملکی قرضوں کی تنسیخ کے لیے فی الفور شروع کر دینی چاہیے۔ یہ قرضہ دسمبر ۲۰۰۰ء میں ری شیڈول ہو گا۔ ہمیں ریاست پر زور ڈالنا چاہیے کہ وہ قرضوں کو ری شیڈول نہ کرے بلکہ ان کو Repudate (فسخ) کر دے۔ اس طرح عالمی سرمایہ دارانہ گرفت کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔

(۴) اتحادِ اسلامی کو قیادت کی سطح تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ مساجد و مدارس کو بنیاد بنا کر محلہ کی سطح پر حلال رزق کی فراہمی کی اسکیمیں شروع کی جائیں۔ یہ اسی نوعیت کی ہوں جو دارالارقم (ملائیشیا)، حزب اللہ (لبنان)، اور جماعتِ اسلامی (ہند) مختلف اسلامی خطوں میں چلا رہی ہیں۔ ان اسکیموں کی دو خصوصیات ہیں: (۱) یہ روحانی ارتقاء اور سیاسی جدوجہد سے محترم ہوتی ہیں (۲) یہ سود اور سٹہ کے بازار کا بدل پیش کرتی ہیں۔ ان کا مقصد تحریکات کے کارکنوں کو مالی طور پر خودکفیل بنانا ہے۔ جو لوگ تحریکات میں باضابطہ شامل نہیں ہیں ان کو ان اسکیموں میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ معاشرتی صف بندی کے کام کو روحانی تطہیر کے کام اور سیاسی جدوجہد کے کام سے مربوط کرتی ہیں، اور معاشرتی کام کو سوشل ورک بننے سے روکتی ہیں۔ اغراض کی بنیاد پر عوامی تحریک Mass Mobilization کو رد کرنے کا یہ مؤثر ذریعہ ہے۔

تحریکاتِ اسلامی کو معاشرتی سطح پر ایسے ادارے بنانے چاہئیں جو ریاستی اداروں پر بالادستی حاصل کر سکیں۔ جمہوری اداروں میں شامل ہو کر یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں پورے شرح صدر کے ساتھ جمہوری اور دستوری عمل کو رد کر دینا ہے، کیونکہ جمہوریت اور دستوریت ہی انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

اگر اسلامی جماعتوں نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تو وہ یقیناً ناکام ہوں گے۔ اس کی دو وجوہات ہیں:

  1. ایک یہ کہ جو لوگ اغراض کی بنیاد پر متحرک ہوتے ہیں وہ دینی قوتوں کی طرف فطرتاً توجہ نہیں کرتے، اور نہ اپنی مرضی کو اولیت کی بنا پر اسلامی جماعتوں کی طرف رجوع مند ہو سکتے ہیں۔ مشرف کی ڈیولوشن کی اسکیم میں کوئی ایسی چیز نہیں جو عام قوم پرست، جاگیردار اور سرمایہ دار افراد کو نئے نظام میں شمولیت سے روکتی ہو۔ یہی  لوگ اہلِ غرض کے فطری نمائندے ہیں اور ان ہی غرض مندوں کو بھاری تعداد میں منتخب کیا جائے گا۔
  2. دوسری وجہ یہ ہے کہ برصغیر کی اسلامی جماعتیں حضرت قطب العالم امداد اللہ مہاجر مکی قدس سرہ کے فیض کا تسلسل ہے۔ حضرت حاجی صاحبؒ ہمارے متفق علیہ شیخ الطائفہ ہیں۔ آپؒ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ برصغیر کی تمام اسلامی جماعتیں محفوظ جماعتیں ہیں۔ یہ سیکولر نظام کو مستحکم کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتیں۔ حضرت شیخؒ امیرِ جہاد ۱۸۵۷ء تھے، اور آپؒ نے بھی تحریک برپا فرمائی جو ۱۸۵۷ء سے ۱۹۲۰ء تک انگریز کی تمام دستوری اور جمہوری انتظامات کو رد کرتی رہی اور جہاد کو زندہ رکھنے کے لیے بیش بہا قربانیاں پیش کرتی رہی ہے۔ پاکستان کی اسلامی جماعتوں کا مستقبل بھی صرف اور صرف احیائے جہاد میں ہے۔ اگر ہم نے یہ راہ ترک کر دی تو

؎ ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں


پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(جولائی ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter