قرآن پاک کی سورہ ۳۳ (الاحزاب) میں ایک آیت آتی ہے۔ اس سورہ میں غزوہ احزاب (جو غزوہ خندق کے نام سے مشہور ہے) کے ان سخت حالات کا ذکر ہے جن کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرنے والے مسلمانوں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے بڑی تعریف و ستائش پائی ہے۔ اس تعریف کے مضمون کی یہ آیت ہے:
ترجمہ: ’’ان اہلِ ایمان میں کتنے ہی وہ مردانِ جانباز ہیں جنہوں نے سچ کر دکھایا اس عہد کو جو اللہ سے انہوں نے باندھا تھا۔ پس کوئی ان میں پورا کر چکا ہے اپنا ذمہ اور کوئی ان میں راہ دیکھ رہا ہے اور بدلہ نہیں ہے انہوں نے ایک ذرہ بھر بھی‘‘۔ (آیت ۲۳)
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ، جو گزرنے والے سال ۱۹۹۹ء کی آخری تاریخ ۳۱ دسمبر بمطابق ۲۳ رمضان المبارک ۱۴۲۰ھ کو ہماری اس دنیا سے کنارہ فرما گئے، انہی مردانِ باخدا کی روایت کے امینوں میں سے ایک تھے۔ اور جس وقت اور جس تاریخ میں یہ سانحہ پیش آیا اس وقت نہ صرف برصغیر پاک و ہند میں بلکہ بلامبالغہ پورے عالمِ اسلام میں وہ اپنے ممتاز مرتبے کی تنہا شخصیت رہ گئے تھے۔ اللہ انہیں اپنی بے پایان رحمتوں سے نہال اور مالامال فرمائے اور ان کے اٹھ جانے سے پیدا ہونے والے خلا کے پر ہونے کی کوئی طُرح اپنی قدرتِ کاملہ سے ڈال دے۔
یوں تو عالمِ اسلام کا کوئی قابلِ ذکر حصہ مشکل ہی سے ایسا ہو گا جہاں کے دینی رجحان رکھنے والے پڑھے لکھے مسلمانوں میں مولانا کی وفات کو ملت کا ایک بڑا نقصان نہ سمجھا جائے، مگر اس کا سب سے زیادہ خسارہ قدرتی طور پر انہیں لوگوں کے حصے میں آنے کا خطرہ ہے جن کے لیے مولانا کی ذات سب سے زیادہ فائدے کا باعث رہی تھی، یعنی مولانا کے ہم وطن مسلمانانِ ہند۔ راقمِ سطور کا تعلق بھی نہ صرف اسی سرزمینِ ہند سے ہے بلکہ ۱۹۴۸ء سے ۱۹۷۶ء تک، جس کے بعد آب و دانہ انگلستان لے آیا، مولانا نے اتنے قریب ہو کر رہنے کا موقع دیا ہے کہ جس سے زیادہ موقع ان کے اہل خانہ اور قریبی اعزہ و اقارب کے علاوہ کم ہی لوگوں کو رہا ہو گا۔ اس بنا پر اسے یہ جاننے کا بھی پورا موقع رہا کہ مولانا کی ذات میں مسلمانانِ ہند کے لیے فائدوں کی کیا نوعیت تھی؟ اور ۱۹۴۷ء میں تقسیمِ ہند کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں کا یہ حصہ دین اور دنیا دونوں کے اعتبار سے جس آزمائش میں چلا آ رہا ہے، اس آزمائش اور ابتلاء کے طویل دور میں مولانا کا کیا کردار اس ملتِ ہندیہ کی خدمت کے سلسلے میں رہا؟ صرف اس پہلو سے مولانا کی زندگی کا کچھ تذکرہ بھی یہ دکھانے کو ان شاء اللہ کافی ہو گا کہ مولانا انہی مردانِ باخدا کی مقدس روایات کے امین تھے جن کا ذکر مذکورہ بالا آیتِ قرآنی میں کیا گیا ہے۔
ہندوستان کی تقسیم ابھی ہوئی نہیں تھی، صرف ۳ جون ۱۹۴۷ء والی قرارداد ہی ہوئی تھی، یا اس سے بھی کچھ پہلے، جبکہ کانگریس اور مسلم لیگ میں سمجھوتے کے تمام امکانات تباہ ہو چکے تھے اور بجز تقسیم کے ملک کا کوئی اور مقدر خارج از امکان بن گیا تھا، پنجاب کے جوہرآباد ضلع خوشاب سے ایک پُرزور اور انتہائی مخلصانہ دعوت آئی کہ اب جبکہ ملک تقسیم ہونے جا رہا ہے، آپ اِدھر کو ہجرت کا ارادہ فرما لیں، ہر طرح کے انتظامات آپ کے لیے کر لیے گئے ہیں، آپ کی یہاں ضرورت ہے۔ یہ دعوت دینے والے وہ مرحوم چوہدری نیاز علی خان تھے جنہوں نے پٹھان کوٹ کے قریب اپنی ستر ایکڑ زمین وقف کر کے اس پر وہ عمارتیں مع ایک خوبصورت مسجد کے بنائی تھیں جو دارالاسلام کے نام سے موسوم ہوئیں اور ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۷ء تک جماعتِ اسلامی ہند کے مرکز کے طور پر استعمال ہوتی رہیں۔ تقسیم سے پہلے چوہدری صاحب کا مسکن اس دارالاسلام کے قریب ہی جلال پور نامی گاؤں تھا جہاں پر چوہدری صاحب کا وسیع و عریض فروٹ فارم ہوتا تھا۔
چوہدری نیاز علی خان صاحب کی اس دعوت کے مخاطب مولانا تنہا نہ تھے بلکہ راقم سطور کے والد مرحوم مولانا محمد منظور نعمانی (وفات ۱۹۹۷ء) جن کے ساتھ مولانا کا رشتہ ایک جان دو قالب کا بنتا جا رہا تھا، وہ بھی اس میں شریک بلکہ چوہدری صاحب کی طرف سے ذریعۂ دعوت بھی وہی تھے، اس لیے کہ چوہدری صاحب کو زیادہ واقفیت میرے والد ماجد ہی سے تھی۔ بہرحال اس پُرخلوص دعوت کا جواب، جس پر چوہدری صاحب کی آزمودہ شخصیت کے حوالے سے پورا اعتماد کیا جا سکتا تھا، یہ دیا گیا کہ ہمیں ہندوستانی حصے میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ ہی رہنا اور جینا مرنا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری ضرورت یہاں زیادہ ہے۔
یہاں تذکرہ صرف مولانا علی میاںؒ کا مقصود ہے اس لیے اب میں صرف انہی کے حوالے سے عرض کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی خدمت کے لیے اور ان کے دکھ سکھ میں شریک رہنے کا جو عہد ۱۹۴۷ء میں باندھا تھا اسے پوری ثابت قدمی اور دلجمعی کے ساتھ اپنی زندگی کے آخری سانس تک نبھایا۔
؎ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
تقسیم کے بعد والے ہندوستانی مسلمانوں کو دو طرح کے مسائل کا سامنا تھا:
- ایک ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ۔
- دوسرے ان کے دین کی سلامتی جس کو اس وقت سے خطرہ لاحق ہو چکا تھا جب شدھی سنگھٹن وغیرہ کی تحریکیں کوئی ۲۵ سال پہلے برہمنیت کے خطرناک عزائم کو آشکارا کر گئی تھیں۔
ان دونوں میں سے پہلی قسم کے مسائل میں مسلمانوں کی خدمت گزاری کے لیے جمعیت علماء ہند کی لیڈرشپ اور وہ دوسرے نیشنلسٹ مسلمان بہتر پوزیشن میں تھے جنہوں نے تقسیمِ ہند کے خلاف کانگریس کے شانہ بشانہ لڑائی لڑی تھی، اور حق ہے کہ ان حضرات نے اس معاملے میں کوئی کسر اٹھائے نہیں رکھی۔ وہ بلاکسی تفریق کے ہر کلمہ گو کی مدد کو ہر طرف دوڑے، حتٰی کہ جمعیت علماء ہند کے دیوبندی علماء نے تعزیے اٹھوانے اور عرس کروانے تک میں ان مسلمانوں کے حق میں لڑائی لڑی جو ان باتوں کے قائل تھے۔ مولانا علی میاں صاحب (اور ان کے رفیق خاص میرے والد ماجد) اس زمرے میں نہیں آتے تھے۔ یہ عملاً سیاست کے بجائے مسلمانوں کی دینی خدمت کا زیادہ ذوق رکھتے تھے اور پہلے سے اسی لائن پر کام کرتے آ رہے تھے۔ مولانا نے خاص طور سے ہندوستانی مسلمانوں کی جس دینی خدمت کو اپنی تقریری اور تحریری جدوجہد کا مرکزی نقطہ بنایا وہ ان کے توحیدی مزاج کی حفاظت تھی۔
مولانا خاندانی طور پر حضرت سید احمد شہیدؒ کے وارث تو تھے ہی، اس پر مزید (خود ان کے بیان کے مطابق) ان کے دینی ذوق و مزاج کی تعمیر و تربیت میں حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ کے مکتوبات کو بہت خاص دخل تھا جس میں اکبر کے دینِ الٰہی کا توڑ کرنے کے لیے ایک فقیرِ بے نوا کی بے چینیاں ایک عالم کو بے چین کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ نئے ہندوستان میں یہی فتنہ نئے سرے سے سر اٹھانے یا ایک نئی بساط کار بچھانے جا رہا تھا اور اس نے زبردست حکومتی وسائل کے ساتھ اپنی بساط کار بچھائی۔ مولانا نے اولین دن سے جو اس کو اپنا خاص نشانہ بنایا تو آخر تک بنائے ہی رکھا۔ وہ برہمنیت کے توڑ میں مسلمانوں کو صاف صاف دعوت دیتے تھے کہ ابراہیمیت کو اپنا اسوہ بنائیں اور اسوۂ ابراہیمی کی پیروی میں کوئی سمجھوتہ مشرکانہ دین سے نہ کریں۔ اللہ نے مولانا کو تحریر و تقریر دونوں ہی پر بھرپور قدرت دی تھی اور انہوں نے اپنے مالک کی دی ہوئی اس قدرت کو اس کی سب سے اہم ’’وصیت‘‘ اخلاصِ توحید اور حفاظتِ توحید ہی میں لگایا۔
ان کے بالکل آخری دور کا (غالباً گزشتہ سال کے نومبر یا دسمبر کا) واقعہ ہے کہ یوپی کے سرکاری سکولوں میں بندے ماترم کو رواج دینے کی جو ایک مہم چل رہی تھی اور دیوبند سے اس کے خلاف فتوٰی نکلا کہ مسلمان بچوں کے لیے اس میں شرکت حرام ہے، تب مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر کی حیثیت سے بعض انگریزی اخبارات کے نمائندوں نے مولانا کا نقطۂ نظر اس معاملے میں جاننا چاہا۔ مولانا کا جواب ٹھیٹھ ابراہیمی لہجے میں دوٹوک تھا کہ ہم شرکیہ گیت میں شرکت کی بجائے مر جانا پسند کریں گے۔ اس تاریخ ساز جواب نے کم از کم فوری اور ظاہری طور پر وندے ماترم کی بساط یوپی سکولوں سے لپیٹ دی۔ باقاعدہ اس حکم کی منسوخی کا اعلان ہوا اور وزیرتعلیم بیک بینی و دوگوش برخاست۔ آج کی بھارتی گورنمنٹ جس بھارتیہ جنتا پارٹی کی سربراہی میں چل رہی ہے اس کا مسلمانوں سے صاف صاف کہنا رہا ہے کہ انہیں بھارتی تہذیب کو اپنانا ہو گا مذہب وہ اپنا رکھیں۔ یہ بات کانگریسی لیڈروں کے ایک طبقے کی زبان پر بھی آزادی کے کچھ ہی دنوں بعد ایک غیرجارحانہ انداز میں (یا کہئے دعوت و تلقین کے انداز میں) آ گئی تھی۔ ان میں سب سے نمایاں جواہر لال کے ہم وطن جوہر شوتم داس ٹنڈن تھے، جنہوں نے کانگریس میں اتنی طاقت حاصل کر لی تھی کہ جواہر لال کے امیدوار (اچاریہ کرپلانی) کے مقابلے میں آل انڈیا کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ اپنے انتخاب کے فورًا بعد انہوں نے یہی راگ اٹھایا، تب ہمارے مولانا نے ’’مذہب یا تہذیب‘‘ کے عنوان سے ایک عالمانہ مقالہ لکھ کر اس فاشٹ راگ کو چیلنج کیا۔ وہ ایک قابلِ دید مقالہ ہے، اللہ نے مولانا کو بات کہنے کا وہ سلیقہ دیا تھا کہ سخت سے سخت بات بھی کڑواہٹ سے دور ہوتی تھی، اس لیے سنی جاتی تھی۔
اس طرح کی باتوں کا خاص پس منظر یہ تھا کہ ہندوستانی کے ہندی بولنے والے صوبوں اور خاص کر یوپی میں پرائمری اور سیکنڈری سطح پر نصابِ تعلیم رائج کیا جا رہا تھا جو بچوں کے دل و دماغ پر ہندو تہذیب اور ہندو تاریخ کی چھاپ لگائے۔ اس کے مقابلے کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے جو کوششیں شروع ہوئیں ان میں سب سے زیادہ نمایاں کوشش یوپی دینی تعلیمی کونسل کے قیام کی شکل میں ۱۹۰۹ء میں سامنے آئی۔ حضرت مولانا کو اس کا صدر منتخب کیا گیا اور آخر تک آپ ہی اس عہدے پر رہے۔ اسی کوشش کے ردعمل میں یوپی کے اس وقت کے وزیراعلیٰ (یا اگر میں بھول رہا ہوں تو وزیرتعلیم، جو بعد میں بہرحال وزیراعلیٰ ہی ہوئے) بابوسچدیوانانند نے، جو بہت فاضل شخص مانے جاتے تھے، ایک تقریر میں ایک عالمانہ انداز میں سوال اٹھایا کہ آخر ایران میں اسلام آجانے کے بعد تو وہاں کے لوگوں نے اپنے نامور آباؤاجداد سے رشتہ نہ توڑا، وہ بہرام و افراسیاب کی داستانوں پر ایسے ہی فخر کرتے رہے، تو ہمارے ہندوستانی مسلمانوں کو کیا دِقت ہے کہ وہ کرشن اور ارجن سے بھی اپنا رشتہ قائم رکھیں؟ ہمارے مولانا نے اس کا جو جواب دیا بابوسچدیوانانند نے بھی اس کا نوٹس لیا اور ماہنامہ الفرقان لکھنؤ جہاں مولانا کا مضمون شائع ہوا تھا اس کو اپنا جواب اپنے ہی قلم سے اردو میں لکھ کر بھیجا جو ایک بڑا شائستہ جواب تھا۔
الغرض مولانا کی عالمی سطح پر ان اسلامی خدمات کے پہلو بہ پہلو جن سے باہر لوگ فی الجملہ واقف ہیں، ہندوستانی مسلمانوں کے سلسلے میں مولانا مرحوم کا خاص کارنامہ ان کے توحیدی مذہب اور تہذیب کی ہمہ دم پاسبانی کی جدوجہد ہے، اللہ انہیں اس کا بھرپور اجر عطا فرمائے اور مسلمانانِ ہند کو ان کا ثانی، آمین۔