دعا اور درود منزل پر کیسے پہنچتے ہیں؟

عبد الرشید ارشد

محسنِ انسانیت سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا اور صدقہ تقدیر کو بھی ٹال دیتے ہیں۔ ایک اور موقعہ پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ بندہ وہ ہے جو اس سے مانگے اور جو اپنے کیے پر نادم ہو کر توبہ کرے۔ جیسا کہ ہر نماز کی آخری رکعت کے دوران ایسی مستقل دعا کو جزوِ نماز بنا دیا گیا ہے جو قیامت تک ہر مسلم کے ذمہ فرض ہے۔

موجودہ دور کی سائنسی ایجادات ریڈار، ریڈیو، ٹیلیویژن، وائرلیس اور ٹیلیفون یا کمپیوٹر نے آج ہمارے لیے دعا کے مقامِ قبولیت تک پہنچنے اور اس کے اثرات واپس دعا مانگنے والے تک پہنچانے کے مخفی انتظامات کو سمجھنا بہت آسان کر دیا ہے۔ یہ ساری ایجادات خالق کے تخلیق کردہ انسان کے کاسۂ سر میں رکھے چند اونس وزنی دماغ کی سوچ سے سامنے آئیں کہ ایک شخص ایک مشین کے سامنے بیٹھ کر کوئی بات کرتا ہے تو مطلوبہ مقام پر مطلوبہ شخص اسے سن سکتا ہے اور ان باتوں کا ریکارڈ بھی ممکن ہے اور اس کا جواب بھی سنا جاتا ہے۔ ریڈار ہو، ریڈیو یا ٹیلیویژن ہو، ٹیلیفون یا کمپیوٹر ہو، یا وائرلیس ہو، دن بدن ان کا دائرہ کار وسیع ہو کر کرۂ ارض تک ہی محدود نہیں بلکہ کائنات کی وسعتوں تک پھیل رہا ہے اور اس پر ہم سب گواہ ہیں کہ یہ سب انسانی عقل کا کرشمہ ہے۔ کروڑوں میل دور فضا میں تیرتے سیاروں تک انہی اسباب سے پیغام رسانی ممکن ہوئی ہے۔

انسان کے خالق نے اگر انسان کو اس حد تک صلاحیتوں سے نوازا ہے تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ خود خالق نے اپنی مخلوق سے مسلسل ربط کا کس قدر مؤثر انتظام کیا ہو گا۔ قرآن پاک میں مختلف انداز میں خالق جل شانہ نے فرمایا کہ کائنات کی وسعتیں ہوں یا زمین کی تہیں ہوں، بڑی چیز ہو یا انسانی آنکھ کو نظر نہ آنے والے ذرات، ہر شے میرے علم میں ہے اور میرے ہاں ریکارڈ میں محفوظ بھی ہے۔ میں ہر جگہ تمہارے ساتھ ہوں، میں دیکھتا بھی ہوں اور سنتا بھی ہوں۔ انسان کا خودساختہ نظامِ مواصلات مقناطیسی لہروں کا محتاج ہے اور ان کا محدود دائرہ کار ہے، کچھ مقامات ایسے آتے ہیں جہاں یہ ہمت ہار جاتی ہیں۔

انسان شعاعوں سے بھی مختلف فوائد حاصل کرتا ہے جو قدرت کا عطیہ ہیں، سائنس کی دنیا نے ان کو مختلف نام دیے ہیں۔ یہ ایکس ریز ہیں، گاما ریز ہیں، الفا اور بیٹا ریز ہیں۔ ہر شعاع سے نفع نقصان کی کہانی بھی الگ ہے۔ مثلاً ایکس ریز سے علاج ممکن ہوا تو انسان کے لیے نعمت، اور گاما ریز کی مقدار ذرا بڑھے تو نری ہلاکت۔ روشنی کی شعاعیں ہوں یا مقناطیسی لہریں، یہ انسان کی تخلیق نہیں بلکہ یہ خالق ہی کی تخلیق ہے، جس سے متمتع ہوتی ہے ہر نوع کی مخلوق، کہ خالق نے انہیں مخلوق کے لیے مسخر کر دیا کہ کائنات کا نظام منضبط طریقہ سے چلتا رہے۔ ان شعاعوں اور لہروں سے ماوراء ایک اور نظام بھی ہے جس سے کائنات کنٹرول ہوتی ہے اور جس کے ذریعے یہ سب کچھ وجود میں آیا ہے۔ یہ نور کی شعاعیں ہیں جو ہر دوسری معلوم قوت سے بے حد و حساب قوی ہیں اور لامحدود ہیں۔

واحد کے معنی ایک ہیں اور ایک کو تقسیم کیا جا سکتا ہے یا یہ تقسیم در تقسیم ہو سکتا ہے۔ مگر احد ناقابلِ تقسیم یکتائی ہے۔ خالق کی ودیعت کردہ عقل سے انسان، خالق کی تخلیق کردہ ناقابلِ تقسیم اکائی (ایٹم) کی حقیقت و ماہیت جان سکا۔ اس ناقابلِ تقسیم اکائی کی بے پناہ قوت کو جان سکا اور اسے امن یا تباہی کے لیے استعمال پر قادر ہو سکا۔ مگر ساری محنت کے باوجود وہ یہ دعوٰی کرنے کے قابل نہیں ہے کہ یہ اکائی مکمل طور پر اس کی سمجھ میں آ چکی ہے، یا اس پر اس کا مکمل کنٹرول ہے۔

نور کی یکتائی کیا ہے، اگر انسان سمجھ سکے تو اس کی عملی زندگی کے بے شمار مسائل حل کر کے یہ اسے دھرتی کی معتبر ترین ہستی بنا دے۔ اس کائنات میں اس نور کی یکتائی کا عمل دخل اور طریقۂ کار قبولیتِ دعا کو سمجھنے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ آئیے اس پہلو پر خالق ہی سے راہنمائی لیتے ہیں۔

’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ (کائنات میں) اس نور کی مثال ایسی ہے جیسے طاق میں رکھا ہوا چراغ، یہ چراغ ایک فانوس ہو اور فانوس موتی کی طرح چمکدار تارا، اور وہ چراغ زیتون  کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑک پڑتا ہو، چاہے اسے آگ نہ لگے، (اس طرح) روشنی پہ روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں)، اللہ اپنے نور کی طرف سے جس کی چاہتا ہے راہنمائی کرتا ہے، وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے، وہ ہر چیز سے خوب واقف ہے۔‘‘ (النور ۳۵)

خالق کے مذکورہ فرمان سے جو باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں انہیں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

  1. اللہ (جو احد ہے) آسمانوں اور زمین (کی لامتناہی وسعتوں اور گہرائیوں) کا نور ہے۔
  2. یہ نور ہمہ جہت ہے، اس نور کا رخ متعین نہیں کیا جا سکتا۔
  3. یہ نور انتہائی روشن چراغ کی مانند ہے، (جس کے مرکزے کو آنکھ نہیں دیکھ سکتی، یعنی چکاچوند ہے)۔
  4. چراغ کی مثال سے انسان کو اللہ احد یعنی نور کی یکتائی کا تصور دلانا مقصود ہے۔

اگر انسان دو امور پر عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے اور ہر طرح کے تجسس سے دستبردار ہو جائے کہ اللہ جل شانہ کس شکل میں ہے اور کائنات میں اس کے عرش کا مقام کہاں ہے، اور صرف اس پہلو سے غور و فکر کرے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جس صورت میں ہے اور جہاں ہے وہ خالق ہے اور اس کے فرامین برحق ہیں، تو قرآن میں غور و فکر سے اس کے لیے ہر لمحہ نئی راہیں نکلتی رہیں گی۔ مگر مذکورہ دونوں امور پر غور و فکر اسے گمراہی کے راستے پر تو لے جا سکتا ہے، ہدایت اس کا مقدر نہ ہو گی۔

اللہ احد کے نور کی ناقابلِ تقسیم یکتائی کائنات کی وسعتوں میں جہاں بھی ہے اپنے اندر (مرکز میں) وہ العزیز سب سے زیادہ قوی، الجبار والقھار جبار و قہار اور الرحمن الرحیم انتہائی مہربان و شفیق، الودود سب سے بڑھ کر محبت کرنے والی صفات سے متصف ہے۔ اسی طرح دوسری بے شمار صفات جو اسمائے الٰہی میں بیان کی گئی ہیں اس نور کا خاصہ ہیں۔ نور کی یہ بے پایاں قوت یقیناً اپنے چاروں سمت ہی نہیں ہمہ جہت اپنے نور کی کرنوں کو پھیلاتی ہے۔ یہ نور کی صفت ہے کہ اسے پابند نہیں کیا جا سکتا، اور پھر خالق کا نور! لہٰذا اپنے مرکز سے ہمہ جہت کائنات کی وسعتوں میں، سمندر کی گہرائیوں میں، سیاروں کی سخت چٹانوں اور گہرائیوں میں سے آرپار، جہاں تک خالق کا اقتدار ہے، جس کا ہم ساری زندگی صرف کر کے بھی ادراک نہیں کر سکتے، جاتی ہیں، اور یہ نور کی کرنیں ایسی ہیں کہ ان کا شمار ممکن ہی نہیں ہے۔

جب ہم یہاں تک پہنچ جاتے ہیں تو خالق کا یہ فرمان ہم پر بالکل عیاں ہو جاتا ہے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو میں تمہارے ساتھ ہوں، میں دیکھتا ہوں، میں سنتا ہوں۔ آسمان کی وسعتوں میں، ہر ذرہ اور دھرتی کی تہہ اور سمندروں کی گہرائیوں میں موجود ہر شے سے باخبر ہوں کہ نور کی اس کائنات میں پھیلی کرنوں کے ذریعے وہ ہماری شاہ رگ سے بھی یقیناً قریب ہے۔ اور نور کی یکتائی سے خارج ہمہ وقت ہمہ جہت کرنیں ہی اس یکتائی کے کان، اس کی آنکھیں ہیں، اور انہی کے ذریعے ہر کسی مخلوق سے رابطہ ہے۔

مخلوق کے ساتھ رابطہ کا ایک سبب اور بھی خالق کے فرمان سے سمجھ میں آتا ہے۔ قرآن حکیم میں فرمایا کہ آدم کو مٹی سے مکمل شکل و صورت دینے کے بعد میں نے اس میں اپنی روح کا ایک جزو پھونکا (روح یا زندگی) ونفخت فیہ من روحی۔ گویا مخلوق میں زندگی کی رمق، اس کے نور کا ایک معمولی جز اس میں موجود ہونے کے سبب ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ انسان ہو یا کوئی دوسرا ذی روح، اس میں ان صفات کا ایک معمولی جز موجود ہے جو بدرجہ اتم خالق کے پاس ہیں۔ مثلاً جذبہ محبت و مودت، جذباتِ رحم و کرم، داعیات قہر و غضب وغیرہ، جنہیں ہم فطری یا جبلی تقاضے کہتے ہیں، یہ خالق کا مخلوق کے لیے عطیہ ہے اور رابطہ کا سبب بھی ہیں۔

مخلوق میں نور کا جزو خالق کے نور سے ہر لمحہ منسلک ہے اور یہی خالق اور مخلوق کے درمیان ہر وقت ربط کا ذریعہ ہے۔ یہ بات کل سمجھنا مشکل تھا مگر آج انسان کے تخلیق کردہ وائرلیس، ریڈیو یا انٹرنیٹ نے اسے سمجھنا آسان کر دیا ہے کہ ریڈیو اسٹیشن یا وائرلیس اسٹیشن میں رکھی مشنری سے مقناطیسی لہریں فضا میں جو پیغام نشر کرتی ہیں وہ ہر ریڈیو اور وائرلیس سیٹ پر وصول کیے جاتے ہیں۔ وائرلیس دو طرفہ رابطہ کا معروف ذریعہ ہے۔ مرکزی مقام پر مشینری بہت زیادہ ہوتی ہے اور جہاں پیغام بھیجے جاتے ہیں یا جہاں جہاں سے پیغام وصول کیے جاتے ہیں وہاں بہت ہی ہلکا پھلکا انتظام ہوتا ہے یعنی معمولی مشین۔ اس سے یہ بات با آسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو لازوال و لاجواب نور کی یکتائی ہے، اس کے نور کی کرنیں، مخلوق کے اندر نور کے جز کی کمزور کرنوں تک پیغام کیسے ارسال کرتی ہیں اور پیغام کیسے وصول کرتی ہیں، یا ایک پیغام وصول کر کے دوسرے متعلقہ حصے تک پیغام کیسے بھیجتی ہیں۔ قرآن حکیم سے اس کی مثال دیکھیے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر کو دیکھ کر چیونٹیوں کی ملکہ نے جو کچھ کہا وہ کس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام تک پہنچا۔

جب ہم خالق اور مخلوق کے مابین دوطرفہ کرنوں کے  باہم اتصال یا ہر چیز کے علم کے لیے علیم و خبیر خالق کی کائنات کی وسعتوں پر ہاوی نورانی کرنوں کی کیفیت کا اپنی حد تک کچھ نہ کچھ شعور و ادراک پا لیتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی کہ خالق زندوں کے سلام و پیغام و درود مُردوں تک کیسے پہنچاتے ہیں۔ چونکہ اللہ احد کے نور کی یکتائی کی کرنیں ہر چیز کا احاطہ کیے ہیں، ہر چیز سے انفرادی ربط ہے، اور ہر کرن اپنے مرکز سے بھی مربوط ہے، تو ایک شخص جب قبرستان سے گزرتا ہے، فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق السلام علیکم یا اہل القبور کہتا ہے تو اس سے ملی نورِ الٰہی کی کرن مرکزِنور کو یہی سلام پہنچا دیتی ہے۔ اور پھر مرکزِ نور اپنے انداز میں وہی کچھ متعلقہ کرنوں کے ذریعے متعلق دفن افراد کی زندہ جاوید روحوں تک پہنچا دیتا ہے کہ جسمِ خاکی کو فنا ہے روح فنا نہیں ہوتی۔ 

محسنِ انسانیتؐ پر درود بھیجنے کا حکم خود خالق نے اپنی محکم کتاب میں درج فرما دیا، اور یہ حکم صرف صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین تک حیاتِ سرورِ دوعالم کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر دور کے ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس کے لیے اوقات کا تعین بھی نہیں فرمایا گیا۔ اب کرۂ ارض پر چار سو مسلمان حسبِ توفیق درود بھیجتے ہیں تو خالق ہی کے فرمان کے مطابق ملائکہ بھی نہ صرف یہ کہ نبی اکرمؐ پر درود بھیجتے ہیں بلکہ آپؐ پر درود بھیجنے والوں کے لیے دعا بھی کرتے ہیں۔ ان باتوں پر قرآن و حدیث کی شہادت موجود ہے (سورہ الاحزاب)۔ اگر یہ درود اور دعائیں متعلقین تک نہیں پہنچ سکتیں جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے تو معاذ اللہ حکمِ الٰہی عبث ہے۔

درود و سلام اور دعاؤں کو ربانی نور کی کرنوں ہی کے ذریعے ہر جگہ سے وصول کیا جاتا ہے اور ہر متعلقہ ہستی تک پہنچایا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں اگر خالق نے یہ فرمایا کہ اے نبی! تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے تو اس سے لفظی معنی لے کر یہ فرض کر لینا کہ ہماری دعائیں کسی قبر میں داخل ہی نہیں ہوتیں، علم و عقل کی توہین ہے۔ بلکہ خالق کے فرامین کی روح کو نہ سمجھنے کی تصدیق ہے کہ خالق ہمیں ایسی بات کا حکم دے جو اسی کے کسی دوسرے فرمان کی نفی ہو۔

قرآن پاک میں انبیاء علیہم السلام سے دعائیں منقول ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنی مشرک باپ کے لیے دعا کا ذکر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار دعاؤں کی تاکید فرمائی۔ پھر ہر فرض نماز کی آخری رکعت میں دعا نماز کا جز قرار پائی اور وہ بھی قیامت تک رہنے والے مومنین کے لیے۔ یہ سب بے فائدہ ہو جائے گا اگر ہم قرآن کی کسی آیت کی حقیقی روح کو نظرانداز کر کے ظاہری معنی پر ہی اسے محمول کریں۔ قرآن پاک میں تو نبی اکرمؐ کو محاورتاً یہ فرمایا گیا کہ جس طرح مردہ حواسِ خمسہ سے بظاہر عاری ہو جاتا ہے اور اسے اس حالت میں کچھ سنایا نہیں جا سکتا، اسی طرح تم ان مشرکین کو کیا سنا سکتے ہو۔ مثلاً یہی اسلوب سورۃ لقمان میں اپنایا گیا جہاں فبشرہ بعذاب الیم ۔۔ ظاہر ہے خوشخبری اچھی خبر کے لیے ہے نہ کہ بری خبر کے لیے، یہ خالق کا اندازِ کلام ہے، استعارہ ہے۔

دائمی جدائی دینے والوں تک ہماری دعاؤں کی رسائی، رسولِ برحق صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمارے درود و سلام کی رسائی کی نوعیت و کیفیت سمجھنے میں اب کوئی دشواری نہیں آنی چاہیے کہ یہ سارا کام ربانی نور کی کرنیں سرانجام دیتی ہیں۔ اور یہ ابدی مربوط نظام اس قدر تیز ہے کہ ادھر ذہن میں سوچ آئی، لفظ زبان سے نکلا، ادھر متعلقہ جگہ پر پہنچ کر ان کے نامۂ اعمال میں کریڈٹ ہو گیا جو محشر میں دائیں یا بائیں ہاتھ میں ہو گا۔ اور مالکِ کائنات نے متعلقہ ہستی کو کس طرح آگاہ فرمایا، یا نہیں فرمایا، ہمیں اس پر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے کہ اس میں عاقبت خراب ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ نہ ہم اس تجسس کے لیے مکلف ہیں کہ یہ محشر میں یا قبر میں ہم سے پوچھا جائے گا۔

مذکورہ وضاحت کے بعد اب ہم دعا کی حقیقت پر بات کرتے ہیں کہ جب بندہ دعا کرتا ہے تو وہ خالق تک کیسے پہنچتی ہے اور اس کی قبولیت یا عدمِ قبولیت کی کیفیت کیا ہے۔ دعا کے ضمن میں چند باتیں ذہن نشین رہنی چاہئیں۔

  • دینے والے کے مقابلے میں مانگنے والے کا اپنی حیثیت کا تعین کرنا۔
  • دینے والے کی عظمت و سخاوت کا اعتراف اور مدد و تعاون پر قادر ہونے کا مکمل ادراک۔
  • دینے والے کے ساتھ اپنے تعلق کا شعور اور مانگنے کا انداز۔

روز مرہ زندگی میں ہم اخبارات میں پڑھتے ہیں، سنتے ہیں کہ جب کوئی بحری جہاز مصیبت میں گرفتار ہو، طوفان میں گھر جائے تو بڑے کرب اور دکھ بھری لجاجت کے ساتھ وائرلیس پر بار بار ایک پیغام SOS (ہمیں بچاؤ) نشر کرتا ہے اور گرد و پیش آنے جانے والے بحری جہاز یا قریبی بندرگاہ پر جو بھی اس پیغام کو سنتا ہے مدد کے لیے دوڑ لگا دیتا ہے۔ اسی طرح مشکل میں پھنسا ہوا ہوائی جہاز آخری پیغام کے طور پر وائرلیس پر May Day (مشکل گھڑی) دہراتا ہے جس سے کنٹرول ٹاور کو اس کی مصیبت کا اندازہ ہو جاتا ہے اور امدادی پارٹیاں جہاز کے مسافروں کی مدد کے لیے روانہ ہو جاتی ہیں۔

بعینہ اسی طرح جب کوئی بندہ اپنے گناہ کی معافی یا اپنی حاجات کی تکمیل کے لیے اپنے اندر کی قلیل نور کی کرنوں کو اعلیٰ و ارفع اللہ کے نور کی کرنوں کے ساتھ پیغام رسانی کے لیے استعمال کرتا ہے تو اس رابطے کا انحصار اس بات پر ہے کہ بھیجنے والے کی کرنوں کی کیفیت کیا ہے۔ کیا وہ SOS اور May Day طرز کا پیغام بھیج رہا ہے یا عمومی طرز کا۔ یہ بات نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بخوبی سمجھ آتی ہے کہ یتیم اور مظلوم کی دعا اور عرشِ الٰہی کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہوتی۔ یعنی دونوں طرف کی کرنوں کا اتصال فوری اور مؤثر ہوتا ہے کہ یہ بھیجنے والے کے دل کی گہرائی سے خارج ہوتی ہیں، جسے ہم یک سوئی (Concentration) کہتے ہیں۔ ریڈار یا کسی بھی دوسرے ذریعے سے بھیجے جانے والے پیغامات میں اگر یک سوئی نہ ہو تو دنیوی نقطۂ نظر سے کبھی بھی مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ یہی صورتِ حال بارگاہِ رب العزت میں کی جانے والی دعا کی ہے۔

یکسوئی پیدا کرنے کے لیے لازم ہے کہ مانگنے والے کے دل و دماغ میں اپنی اور جس ہستی سے مانگا جا رہا ہے اس کی حیثیت واضح ہو۔ جب تک مانگنے والے کے دل و دماغ میں اپنے لیے بے بسی اور بے چارگی کا یقین نہ ہو گا، اور دینے والی ہستی کے متعلق بھی یہی محکم یقین نہ ہو گا کہ صرف اور صرف وہی دے سکتا ہے، اس وقت تک مانگنے والے کے نور کی کمزور کرنیں بھٹکتی پھریں گی، منزل تک لے جانے والی کرنوں کے ساتھ ان کا ملاپ ہی نہ ہو پائے گا۔

یکسوئی کے لیے دوسری ضرورت، بے چارگی و بے بسی کی کیفیت سے آگے ایک اور قدم، دینے والے کے ساتھ اطاعت کا تعلق ہے۔ ایسی اطاعت جس میں محبت اور شوق دونوں پائے جائیں۔ محبت اور شوق جس معیار کے ہوں گے، یکسوئی بھی اسی قدر معیاری ہو گی۔ اور پھر یقیناً دو طرفہ کرنوں کا باہم اتصال بھی اسی قدر جلد، مؤثر اور معیاری ہو گا۔

اطاعت محض جذبے کا نام نہیں ہے بلکہ اطاعت کا تعلق اعمال کے ذریعے فراہم کیے جانے والے ثبوت سے ہے۔ اس کا ایک پلڑا معروف پر عمل یعنی عبادات، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں توازن اور حسن قائم رکھنا ہے، تو دوسرا پلڑا صغیرہ کبیرہ گناہوں سے بچنا ہی نہیں گناہ کی طرف لے جانے والے راستوں سے بھی دور رہنا ہے۔ 

نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کا یہ مفہوم کس نے نہ سنا ہو گا کہ پیٹ میں لقمہ حرام ہو، جسم پر کپڑے حرام ہوں، حقوق اللہ اور حقوق العباد پامال ہوں، اور اس کے باوجود بندہ یہ سمجھے کہ میں جب چاہوں جو چاہوں اپنے رب سے لے لوں۔ اس کی مثال تو ایسے ہے جیسے کراچی پہنچنے کا متمنی مسافر غلطی سے یا جان بوجھ کر پشاور جانے والی گاڑی میں سوار ہو کر بڑی عاجزی، یکسوئی اور لجاجت سے بخیریت کراچی پہنچنے کی دعا کرے، وہ پشاور تو بلادعا پہنچ جائے گا مگر کراچی کبھی نہ پہنچے گا۔

دعا کے ضمن میں سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ قطع رحمی کے لیے دعا قبول نہیں ہوتی مگر خیر کے لیے کی گئی کوئی دعا رد نہیں ہوتی۔ البتہ دعا کے اثرات کا ظاہر ہونا قادرِ مطلق، حکیم و رحیم رب کی حکمت پر منحصر ہے۔ خالقِ کائنات اپنی مخلوق کے جملہ معاملات و مسائل سے ہر لمحہ باخبر ہے۔ انفرادی اور اجتماعی ضروریات اس سے اوجھل نہیں ہیں۔ اگر کوئی چیز بندہ کے لیے اسی وقت نفع بخش ہوتی ہے جب وہ اس کا مطالبہ کرتا ہے تو اسے فورًا مل جاتی ہے۔ اگر وہ چیز اس وقت اس کے لیے نافع نہیں ہوتی تو اسے اس وقت تک مؤخر کر دیا جاتا ہے جب تک وہ اس شخص یا جماعت کے لیے نافع ثابت نہ ہو۔ جیسا کہ ہم خود تجربہ رکھتے ہیں، ماضی کی بعض دعاؤں کے اثرات بہت بعد نکلتے ہیں۔ اسی طرح بعض دعائیں ایسی ہیں جنہیں مانگنے والا خیر سمجھ کر مانگ رہا ہے مگر علیم و خبیر مہربان رب اس طلب میں پنہاں خرابیوں کو جانتے ہوئے اسے قبول نہیں فرماتا بلکہ اس کا بہتر بدل اسے دے دیتا ہے۔ اور جن دعاؤں کے متعلق بندہ گمان کرتا ہے کہ قبول نہیں ہوئیں، ان کا اجر محشر تک مؤخر کر دیتا ہے۔

فرمانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ محشر میں ایک شخص جب حساب سے فارغ ہو جائے گا تو اللہ جل شانہ فرشتوں سے فرمائیں گے کہ اس کے کھاتے میں اور جو کچھ ہے لے آؤ۔ بندہ حیران ہو گا کہ حساب تو ہو چکا! اسی دوران فرشتے پہاڑ جتنی نیکیاں سامنے لائیں گے تو بندے کی حیرت میں اور اضافہ ہو گا۔ بندے کو یوں حیران دیکھ کر خالقِ کائنات فرمائیں گے کہ بندے یہ تیری ان دعاؤں کا اجر ہے جنہیں دنیا میں تو سمجھتا تھا کہ وہ قبول نہیں ہوئیں۔ اس پر بے ساختہ بندہ کہہ اٹھے گا کہ کاش دنیا میں میری کوئی دعا قبول ہی نہ ہوئی ہوتی۔ یوں بندے کی دعا اور بندے کا پیش کردہ درود مکمل صحت کے ساتھ کسی تاخیری لمحوں میں نہیں، لحظوں میں مقامِ مطلوب تک پہنچ جاتے ہیں۔


دین و حکمت

(جنوری ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter