بخدمت جناب چیف ایگزیکٹو آف پاکستان، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ گزشتہ سال ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۸ء کو صبح فون پر میری چھوٹی بہن کا خوف سے بھرا یہ پیغام ملا کہ ابا جان کو گھر سے باہر مسجد کے صحن میں گولیاں ماری گئی ہیں۔ گھر کی طرف جاتے ہوئے جہاں میں ایک طرف اللہ تعالیٰ سے اپنے والد کی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا وہاں میرا ذہن یہ بھی سوچ رہا تھا کہ میرے درویش صفت والد سے کسی کو کیا دشمنی ہو سکتی ہے۔ میرے والد نے زندگی بھر نہ تو فرقہ واریت کی بات کی اور نہ کسی سے ذاتی بغض و عناد رکھا۔ بلکہ ہمیشہ حق اور سچ بات کہتے رہے اور اس میں بھی کبھی تشدد سے کام نہ لیا۔ آخر کسی کو پھر ان سے ایسی کیا دشمنی ہو گئی تھی کہ ان کو مسجد کے صحن میں ٹارگٹ بنا کر گولیوں کا نشانہ بنایا۔ لیکن وقت کے ساتھ مجھے ان سب سوالوں کے جوابات ملتے گئے اور اس قتل کے محرکات، اسباب و عوامل عیاں ہو گئے۔
جناب والا! سابقہ دور میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کی آڑ لے کر جس طرح حق بات کہنے والوں کو راستے سے ہٹایا گیا وہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا اور میرے والد کا قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اگر صاف اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں تو صورتحال بالکل واضح ہو جائے گی۔ مختصر عرض کروں کہ تفتیش کے آغاز ہی میں بعض شواہد پر اصل قاتل گرفتار ہوا، اس کی شناخت عینی شاہدین نے کی۔ لیکن چونکہ پس پردہ چھپے ہوئے اصل قاتلوں تک رسائی کو ناممکن بنانا تھا اس لیے مکمل شناخت کے باوجود گرفتار شدہ زیرتحویل قاتل کو ڈرامائی انداز میں چھوڑا گیا اور پھر ہمیں مطمئن کرنے اور خانہ پری کرنے کے لیے اسی چھوڑے گئے قاتل کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جاتے رہے اور آہستہ آہستہ ایک سال سے بھی کم عرصہ میں کیس کو دبا دیا گیا۔ اس پورے عرصہ میں یہ بات سب پر واضح ہے کہ انتظامیہ اور پولیس مکمل طور پر اوپر والوں سے خوفزدہ نظر آتی تھی۔
اگر حالات و واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو معصوم الفطرت، شفیق الطبع اور فرشتہ صفت انسان کے درد انگیز قتل میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کے بھائی شہباز شریف اور سابق وزیر فروغ ذرائع ابلاغ مشاہد حسین ملوث ہیں۔ واضح رہے کہ ملزم کی بھرپور پشت پناہی کی گئی اور ایک سال گزرنے کے باوجود عالمِ اسلام کے مایہ ناز بزرگ، سرکاری حیثیت کی حامل شخصیت، دارالخلافہ کے خطیب، اور پاکستان رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین کے بہیمانہ قتل کو سردخانہ میں ڈال دیا گیا۔ اس سلسلے میں ایک حساس ادارے کا بھی بھرپور کردار نظر آتا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کی کیفیت سے ہی بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ حکومت کسی صورت میں بھی تحقیقات میں پیشرفت نہیں چاہتی بلکہ کیس کو فوری طور پر دبانا چاہتی ہے۔ بعد از مختلف ذرائع سے ہمیں پریشرائز بھی کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ متعدد علماء کو بھی ڈرایا دھمکایا جاتا رہا کہ اس کیس کے بارے میں بات کی تو تمہارا حشر بھی ان جیسا ہو سکتا ہے۔
جناب والا! میرے والد کا جرم صرف حق اور سچ بات کرنا تھا کہ جس کی سزا ان کو سابق حکمرانوں نے دی۔ بہرحال تمام تحفظات کو بالائے طاق رکھ کر میں نے مورخہ ۶ نومبر ۱۹۹۸ء کو ایک پریس کانفرنس کی اور اس میں بالکل واضح الفاظ میں دلائل کے ساتھ اس وقت تک ہونے والی تحقیقات پر پریس بریفنگ دی اور حکومت کے رویے، ہتھکنڈوں اور اس بھیانک سازش اور ظالمانہ قتل کے عوامل اور پہلوؤں سے بھی آگاہ کیا۔ میری جانب سے حکومتِ وقت کو موردِ الزام ٹھہرانے پر حکومت کی جانب سے کوئی وضاحت یا تردید نہ کی گئی۔ مزید اس سلسلے میں پاکستان کے جید علماء نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ بھی شائع کی تھی جسے سابق صوبائی وزیر قاری سعید الرحمٰن صاحب نے مورخہ ۲۹ نومبر ۱۹۹۸ء کو پریس کانفرنس میں پیش کیا لیکن حسبِ سابق ہمارے حکمران اس دفعہ بھی ٹس سے مس نہ ہوئے۔
چونکہ میرے والد کے قتل میں سابق حکمران ملوث ہیں لہٰذا مجھے ان سے انصاف کی توقع نہ تھی اور میں وقت کے انتظار میں رہا۔ اب میں آپ سے انصاف ملنے کی توقع لے کر عرض کر رہا ہوں کہ میرے والد کے ظالمانہ قتل کے ذمہ دار میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور مشاہد حسین ہیں۔ لہٰذا میں آپ سے استدعا کرتا ہوں کہ آپ سنجیدگی کے ساتھ اور خصوصی دلچسپی لے کر میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور مشاہد حسین کو میرے والد کے قتل کے مقدمہ میں شاملِ تفتیش کر کے فوری طور پر تحقیقات کرائیں اور انہیں قرار واقعی انجام تک پہنچائیں۔ اس مقصد کے لیے کسی جید عالمِ دین اور ماہرِ قانون کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے جس میں فوج اور عدلیہ کے نیک اور صالح افراد بھی ہوں تاکہ درویش منش، مخلوقِ خدا کے ہمدرد اور محبِ وطن عالمِ دین کے قتل میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
انصاف کا طالب: عبد الرشید غازی
بن شہیدِ اسلام مولانا عبد اللہ شہیدؒ
مرکزی جامع مسجد شہیدِ اسلام، جی ۶، اسلام آباد