مولانا مسعود اظہر کی پریس کانفرنس

ادارہ

بھارتی طیارہ اغوا کرنے والے ہائی جیکروں کے مطالبے پر رہا ہونے والے مولانا مسعود اظہر نے جمعرات کو کراچی میں دارالعلوم جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے مفتی نظام الدین شامزئی کی قیام گاہ پر ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس پریس کانفرنس کا متن یہ ہے:

’’سب سے پہلے میں مجلسِ تعاونِ اسلامی کے چیئرمین حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے اپنی صحافی برادی کے ساتھ ہم کلام ہونے کا موقع عطا فرمایا۔ ان کے بعد میں اپنی صحافی برادری کے ان تمام حضرات کا شکرگزار ہوں جو اس پریس کانفرنس میں تشریف لائے ہیں یا جنہوں نے اپنے نمائندوں کو یہاں بھیجا ہے۔ میں اپنی گفتگو شروع کرنے سے پہلے ان تمام صحافی بھائیوں اور بزرگوں سے معذرت کرتا ہوں جنہیں گزشتہ دنوں مجھ سے ملاقات کرنے کی کوشش میں کچھ تکلیف اٹھانی پڑی حالانکہ میں نہ تو ذرائع ابلاغ سے چھپ رہا تھا، نہ ہی مجھے کوئی بات چھپانا تھی۔ لیکن آج ہر وہ مسلمان جو دنیا پر اسلام کے غلبے اور مسلمانوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اس پر زمین کو تنگ کرنے کی  کوشش کی جاتی ہے اور اس سے آزادی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق چھینا جاتا ہے۔ حالانکہ میں بھارت میں قانونی طور پر داخل  ہوا تھا اور تقریباً چھ سال بعد مجھے بھارت کے وزیرخارجہ نے خود آ کر طالبان کے سپرد کیا، یعنی بھارت کے حکمرانوں نے مجھے خود رہا کیا، یوں مجھے غیرقانونی حراست کے بعد قانونی آزادی ملی۔ مگر اس کے باوجود بھارت کے منفی پراپیگنڈے نے ایسے حالات پیدا کر دیے جن کی وجہ سے مجھے اپنی صحافی برادری کے سامنے آنے میں دیر لگی۔ امید ہے کہ آپ میری معذرت کو قبول فرمائیں گے اور ان مجبوریوں کے خلاف ضرور آواز اٹھائیں گے جو مجھ پر اپنے محبوب اور عزیز وطن میں واپس آنے کے باوجود مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اب آپ حضرات کے سامنے چند حقائق کا انکشاف کرنا چاہتا ہوں اور میں اس بات کی امید رکھتا ہوں کہ آپ ان ناقابلِ تردید حقائق کو باریکی کے ساتھ سمجھیں گے:

  1. ہائی جیکنگ کے اس معاملے کا سب سے اہم سوال یہ بنایا گیا ہے کہ ہائی جیکر کون تھے؟ اور کہاں گئے؟ معاف کیجئے میرے نزدیک یہ دونوں سوال ثانوی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ ہائی جیکنگ کیوں ہوئی؟ اور اس اہم ترین سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ بھارت جو خود کو ایک جمہوری ملک قرار دیتا ہے اس نے اپنی جیلوں میں کئی افراد کو سالہا سال سے قید کر رکھا ہے اور ان افراد کی رہائی کے تمام قانونی دروازے بند کر دیے ہیں۔ میں اس بارے میں جو کچھ کہہ رہا ہوں پورے وثوق اور چیلنج کے ساتھ کہہ رہا ہوں اور میں عنقریب اس کے دستاویزی ثبوت بھی پریس کے سامنے لاؤں گا۔ یقیناً آپ کو یہ سن کر حیرانی ہو گی کہ جموں کشمیر کی جیلوں میں بند کئی افراد کو وہاں کی عدالتوں نے رہا کر دیا ہے مگر انڈیا انہیں رہا نہیں کرتا۔ یہ سن کر تعجب ہو گا کہ گرفتاری کے پہلے سال مجھے اس لیے ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا کہ میں نے بطور ایک صحافی اپنی رہائی کے لیے ایک وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ کیا بھارت اس بات کا جواب دے سکتا ہے کہ وہ ساٹھ قیدی جنہیں گزشتہ تین ماہ کے عرصے میں جموں کی ٹاڈا کورٹ نے رہا کر دیا ہے اب کس جرم کی پاداش میں بند ہیں؟ کیا بھارت یہ بتا سکتا ہے کہ راجوری اور نوشہرہ کے تھانوں میں بند وہ افراد جنہیں کئی سال پہلے رہا کرنے کا حکم جاری ہو چکا تھا اب کس جرم میں بند ہیں؟ خود مجھے پہلے تو کئی سال تک کورٹ میں نہیں لے جایا گیا، اور جب کورٹ لے جایا گیا تو ٹاڈا کورٹ کے جج نے ۱۶ نومبر ۱۹۹۹ء کو ایک حکم نامے کے ذریعے مجھے تمام الزامات سے بری قرار دے کر رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا مگر انڈین حکام کی طرف سے کہا گیا کہ تم رہائی کا خواب تک نہ دیکھنا۔ یہ عدالتی کاروائی تو محض ایک تماشا ہے چونکہ جیلوں میں بند قیدیوں کے لیے رہائی کے تمام دروازے مسدود کر دیے گئے ہیں اس لیے بھارت کی اس غیرقانونی دہشت گردی کے خلاف بعض ایسے اقدامات ہوتے ہیں جنہیں پوری دنیا دہشت گرد قرار دیتی ہے۔ مگر میں یہ پوچھتا ہوں کہ آخر جیلوں میں بند ان قیدیوں کی رہائی کا اور کیا ذریعے ہیں اور دنیا نے اس سلسلے میں بھارت پر کیا دباؤ ڈالا ہے؟ کیا دنیا یہ چاہتی ہے کہ وہ قیدی ’’ہنسی خوشی‘‘ جیلوں میں سڑتے رہیں اور ہر طرح کا تشدد سہتے رہیں؟
  2. ہائی جیکنگ کے اس معاملے کا ایک اہم پہلو مسئلہ کشمیر ہے۔ بھارت نے کشمیر میں جو دہشت گردی شروع کر رکھی ہے اور جس طرح اس نے کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کا استحصال کیا ہے اس کا کوئی بھی ردعمل کسی بھی وقت کسی بھی جگہ ہو سکتا ہے۔ دنیا کے تمام مہذب ممالک کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو حل کروائیں ورنہ ہائی جیکنگ جیسے معاملات پر واویلا کرنا چھوڑ دیں۔ ہائی جیکروں نے ہوائی جہاز میں کسی عورت کی طرف نگاہِ غلط تک نہیں اٹھائی، جبکہ کشمیر میں تو انڈین فورسز آئے دن وہاں کی عصمت ماب ماؤں بہنوں کی بے حرمتی کرتی رہتی ہیں۔ تھوڑا سا غور کیجئے وہ ظلم زیادہ سنگین ہے یا یہ؟ وہ حرکت زیادہ قابل مذمت ہے یا یہ؟ انڈیا کو چاہیے کہ جموں و کشمیر کی جیلوں میں بند تمام قیدیوں کو فی الفور رہا کر دے اور اپنی تمام فورسز کو کشمیر سے واپس بلا لے اور پاکستان سے مذاکرات کر کے اس مسئلے کو حل کرے جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ میری پاکستان حکومت سے بھی پرزور اپیل ہے کہ وہ اپنے اس حالیہ موقف پر شدت سے قائم رہے کہ جب تک انڈیا کشمیر کے مسئلے کو حل نہیں کرتا اس وقت تک اس سے دال چینی یا آلو ٹماٹر کے موضوع پر کوئی بات نہ کی جائے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور وہاں کے لوگوں کی جان اور عزت پاکستانیوں کو چینی اور آلو سے زیادہ عزیز ہونی چاہیے۔ میں جنرل پرویز مشرف صاحب کے اس بیان کا خیرمقدم کرتا ہوں جس میں انہوں نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کو مسئلہ کشمیر کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔ چونکہ یہ پالیسی ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے اس لیے اس میں ذرہ برابر لچک پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ بھارت اگر خطے میں امن چاہتا ہے اور اپنی عوام کی فلاح و بہبود چاہتا ہے تو اسے مذاکرات کے لیے خود پہل کرنی چاہیے۔
  3. ہائی جیکر کون تھے؟ اس کے بارے میں میری معلومات یہ ہیں کہ یہ تمام پانچوں افراد بھارتی شہری تھے اور وہ جذبہ جہاد سے معمور گمنام مجاہد تھے جنہوں نے بھارت کے مظالم سے بے چین ہو کر یہ قدم اٹھایا۔ چنانچہ میں عالمی اور ملکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے بھارت کو یہ چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اغواشدہ جہاز کی اس پرواز کے تمام ریکارڈ کو سامنے لائے جس پرواز کے دوران یہ جہاز اغوا ہوا ہے۔ اگر بھارت نے یہ ثابت کر دیا کہ اس جہاز پر کوئی بھی ایک پاکستانی باشندہ سوار تھا تو ہم اس کے تمام الزامات کو درست مان لیں گے۔ بھارت میں جھوٹ کی عملداری ہے اور ان کے اعلیٰ حکام بھی جھوٹ بولنے سے گریز نہیں کرتے۔ وہاں تو اگر طاعون (پلیگ) کا مرض پھیل جائے تو یہ کہا جاتا ہے کہ طاعون زدہ چوہے آئی ایس آئی نے بھجوائے تھے۔ بھارت کے تمام اخبارات میں اوسطاً روزانہ پانچ خبریں آئی ایس آئی اور پاکستان کی مبینہ سازشوں کے بارے میں ہوتی ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ اگر یہ سچ ہے تو پھر بھارت کی فوج اور اس کی ایجنسیاں کیا کرتی ہیں؟ میں نہایت وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہائی جیکنگ کے اس معاملے میں پاکستان کا ملوث ہونا تو درکنار یہاں اس کا کسی کو علم بھی نہیں تھا۔ لیکن یہ بھی کہتا ہوں کہ بھارت ایک دہشت گرد ملک ہے جس کے سات صوبوں میں اس وقت جنگ اور تشدد جاری ہے اور دیگر کئی صوبے اندرونی خانہ جنگی کا شکار ہیں۔ چنانچہ اگر ہم لوگ بھارت کو اپنی صفائیاں پیش کرتے رہیں گے تو یہ زیادہ سر پر چڑھتا جائے گا۔ چونکہ بھارت مسلمہ طور پر ایک دہشت گرد ملک ہے اور اس نے وطن عزیز پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اس لیے اس کے کسی الزام کو قابل توجہ نہ سمجھا جائے اور نہ ہی اس کی صفائی میں کچھ کہا جائے۔ پاکستان اس پورے معاملے میں بالکل صاف ہے اور اگر بھارت کے پاس کوئی ثبوت موجود ہے تو وہ اسے پیش کرے‘‘

(مطبوعہ روزنامہ جنگ، کراچی ۔ ۷ جنوری ۲۰۰۰ء)


مولانا مسعود اظہر کی تقریر پر امریکی ردعمل

امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ حال ہی میں بھارتی طیارے کے اغواکاروں کے مطابق پر رہا کیے گئے مولانا اظہر مسعود کے خلاف کاروائی کی جائے۔ بی بی سی کے مطابق امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان جیمز روبن نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مولانا مسعود اظہر نے کراچی میں جو تقریریں اور بیانات دیے ہیں وہ امریکہ کے لیے ناقابل قبول اور قابل مذمت ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ ان بیانات میں مولانا مسعود اظہر نے پاکستانیوں کو امریکیوں اور بھارت کے خلاف اکسایا ہے، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ مولانا مسعود اظہر کے خلاف تحقیقات کرے اور اگر انہوں نے پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے تو ان کے خلاف کاروائی کرے۔ جیمز روبن نے سخت الفاظ میں پاکستان کو متنبہ کیا کہ اگر مولانا مسعود اظہر کے بیانات کی وجہ سے کسی امریکی کو نقصان پہنچا تو اس کا ذمہ دار پاکستان ہو گا۔

بی بی سی کے مطابق امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک طرح سے پاکستان کو وارننگ دی ہے۔ واضح رہے کہ حال ہی میں ایسی ہی وارننگ طالبان کو بھی دی گئی تھی۔ بی بی سی کے مطابق پانچ اہم امریکی سینیٹرز آئندہ ہفتے پاکستان آ رہے ہیں، یہ سینیٹرز پاکستانی حکام سے تمام مسائل خصوصاً ہائی جیکنگ، دہشت گردی، افغانستان کے ساتھ تعلقات اور اسامہ بن لادن پر بات چیت کریں گے۔ بی بی سی کے مطابق یہ وفد چاہتا ہے کہ پاکستان انہیں اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ وہ دہشت گردی میں ملوث نہیں ہے۔ بی بی سی کے مطابق ان سینیٹرز کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام سے جو بات چیت ہو گی اس کی روشنی میں یہ فیصلہ ہو گا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کیسے ہوں گے۔ بی بی سی کے مطابق صدر کلنٹن کے پاکستان جانے کا فیصلہ بھی ان سینیٹروں کے دورے کے بعد ہو گا۔

(رپورٹ: روزنامہ قومی اخبار، کراچی ۔ ۷ جنوری ۲۰۰۰ء)

حالات و واقعات

(جنوری ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter