باسمه سبحانه
السلام علیٰ من اتبع الهدىٰ ۔ صحیح راہ پر قائم رہنے والوں پر سلامتی ہو۔
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ دنیا خیر و شر سے مرکب ہے، خالقِ کائنات نے ایک طرف انسان کا جسم اور مادی وسائل و اسباب دیے، دوسری طرف روح اور اس کی سیرابی کے لیے مذہب اور روحانی اسباب عطا کیے۔ مذہب دنیا میں انسان کے اندر کی حیوانیت پر روحانیت یا انسانیت کو غالب کرنے کے لیے وجود میں آیا تھا۔ آج دنیا میں جتنی انسانیت، ہمدردی، اخلاقِ فاضله، شرافت، خدا ترسی اور رحم و کرم ہے، وہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبروں بشمول حضرت عیسیٰ و حضرت محمد علیهما السلام کی تعلیمات اور مساعی کی بدولت ہے۔ اگر انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی تعلیمات نہ ہوتیں تو دنیا کے انسان سب ہی انسان نما درندے بن چکے ہوتے۔
مذہبی طبقہ نہ صرف پیغمبروں کا وارث اور قائم مقام ہے بلکہ انسانیت، شرافت، اخلاقِ کریمانہ اور روحانیت کا نگہبان ہے۔ یہ دنیا کی بد قسمتی ہے کہ وہ مذہب سے دور ہو کر ہلاکت اور بربادی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ آج کے حکمران و سیاست دان اپنی خود غرضی، حرص و طمع اور اقتدار و طاقت کے نشے میں اپنے پیدا کرنے والے خدا اور مذہب سے ہے نیاز اور لا تعلق ہو چکے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ دنیوی حکمرانوں کے پاس مذہبی طبقہ سے بہت زیادہ طاقت، وسائل اور ذرائع ہیں، لیکن اس سے مذہبی طبقہ کی ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی۔
خاص طور پر عیسائیت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مذہب شفقت اور رحم و کرم کا مذہب ہے، اور اس کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی ایک رخسار پر طمانچہ مارے تو دوسرا رخسار سامنے کر دو۔ عفو و درگزر کو اس مذہب کی بنیادی تعلیمات میں شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ کئی سال سے آپ کے پڑوس میں چند سو میل کے فاصلے پر ایک پوری قوم کی نسل کشی ہو رہی ہے، لاکھوں انسانوں کو جانوروں کی طرح ذبح کیا جا رہا ہے، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں تک پر درندگی کی انتہا کر دی گئی ہے، خاص طور پر نوجوان عورتوں اور بچیوں کے ساتھ ایسی حیوانیت ہو رہی ہے جس نے ہلاکو اور ہٹلر کے مظالم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، مگر آپ سمیت عیسائی دنیا کے مذہبی راہ نما جو روحانیت کے علمبردار اور انسانیت و شرافت، شفقت و اخلاق کے نگہبان سمجھے جاتے ہیں، اس طرح خاموش ہیں جیسے یہ سب کچھ ان کی منشا کے عین مطابق ہو رہا ہے۔
یہ مذہبی راہ نما جو کسی ایشیائی، افریقی یا مسلم ملک میں ایک عیسائی کی گرفتاری پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ پوری انسانیت کا درد و غم صرف ان کے دلوں میں سما گیا ہے، نہ صرف مذہب و اخلاق اور انسانیت و شرافت کی دہائی دی جاتی ہے بلکہ ان ملکوں کی حکومتوں اور قوموں کو للکارا جاتا ہے۔ ابھی گزشتہ سال پاکستان میں سلامت مسیح اور رحمت مسیح کو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں دریدہ دہنی کے جرم میں پاکستان کی عدالت نے سزا سنائی تو آپ سمیت ساری عیسائی دنیا کے مذہبی راہنما چیخ اٹھے۔ ساری دنیا کا پریس ان کی فریاد سے گونج اٹھا اور اس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، لیکن یہاں یورپ کے قلب میں آپ کی نظروں کے سامنے ایک پوری نسل کو بے رحمی سے ذبح کیا جا رہا ہے، کان ناک کاٹے جا رہے ہیں، آنکھیں نکالی جا رہی ہیں اور صنف نازک کی رسوائی کے ہلاکو اور ہٹلر سے بھی بڑھ کر اذیت ناک طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں، مگر ہمارے کان عیسائی دنیا کے کسی مذہبی راہنما کی زبان سے بوسنیا ہرزوگوینا کے مظلوم مسلمانوں کی ہمدردی میں دو بول سننے کے لیے ترس گئے ہیں۔
ہمیں یورپ کے حکمرانوں، سیاست دانوں اور میڈیا کاروں سے کوئی شکوہ نہیں، ان کی انسانیت و شرافت کو عرصہ دراز سے دنیا برابر دیکھ رہی ہے، ہمیں شکایت مذہب اور اس کے راہ نماؤں سے ہے، کیا عیسائی مذہب اتنا کھو کھلا ہو گیا ہے کہ اس کے علمبرداروں کے اندر سے انسانی و اخلاقی حس ختم ہو چکی ہے؟ یا عیسائیت قومیت اور رنگ و نسل کے بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہو کر خدائے واحد کی بنائی ہوئی سب سے اشرف مخلوق کی ذلت و رسوائی سے اندھی بہری بن گئی ہے؟
یہ صحیح ہے کہ یورپ میں عرصہ دراز سے مذہب کو کاروبارِ زندگی سے نکالا جا چکا ہے اور اسے صرف چرچ اور پرائیویٹ زندگی تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اگر میری صاف گوئی پر در گزر سے کام لیں تو یہ صورت حال بھی عیسائیت کے مذہبی راہ نماؤں کی ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ ہے، جب انہوں نے علم و سائنس اور ٹیکنالوجی سے انکار کی راہ اختیار کی اور احتساب کی عدالتیں قائم کر کے بے شمار بے قصور انسانوں کو علمی و سائنسی نظریات کی بنیاد پر بھیانک سزائیں دے کر عیسائیت کو علم و سائنس کا دشمن ثابت کیا جس سے عام انسان مذہب سے متنفر ہو گیا۔
میں پھر معافی چاہوں گا کہ عیسائیت کے مذہبی راہنماؤں نے کل عیسائیت کو علم و سائنس کا دشمن بنا کر نقصان پہنچایا تھا اور آج انسانیت، شرافت، شفقت، رحم دلی اور اخلاقِ کریمانہ سے عاری و تہی دامن بتا کر عیسائی مذہب کو نقصان پہنچانے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ عیسائیت کی تعلیمات و کردار بھی بدل گیا ہو اور اس کی تثلیث کے عناصر باپ، بیٹا اور روح القدس کی بجائے، ظلم و ستم، عیاری و مکاری اور درندگی و حیوانیت قرار پا گئے ہوں۔ کم از کم سربوں کے مجرمانہ کردار اور اس پر عیسائی دنیا کے مذہبی راہ نماؤں کی خاموشی پر تو یہی بات صادق آتی ہے۔
آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی خطے میں چند ہزار یا چند لاکھ انسانوں کے ذبح کرنے سے کوئی مذہب ختم نہیں ہو جاتا، لیکن اس سے مجرموں اور ان کے خاموش پشت پناہوں کے اخلاقی دیوالیہ پن اور روحانی تہی دامنی کا ضرور اظہار ہوتا ہے، اور میں یہ بھی عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ یہ صورت حال عیسائی دنیا کے مذہبی راہ نماؤں کی کھلی اخلاقی شکست کی آئینہ دار ہے۔
یہ ضروری نہیں کہ مذہبی طبقہ کی حق پرستی، انسانیت دوستی اور ظلم کو ظلم کہنے سے یورپ کے مکار سیاست دان اپنے رویہ سے باز آجائیں، یا سرب اپنی حیوانیت چھوڑ دیں، اس لیے کہ خالق کائنات نے حیوانوں کو باز کرنے کا ضابطہ کچھ اور مقرر کیا ہے، مگر آپ اخلاقی و انسانی فریضہ سے ضرور سبکدوش ہو جاتے اور عیسائیت داغدار ہونے سے بچ جاتی۔ کیونکہ صرف دنیا کے ایک ارب مسلمان ہی نہیں پوری تیسری دنیا آپ کے کردار کا جائزہ لے رہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہ مذہب کے کھوکھلے پن کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔
یہ بات دن بدن واضح ہوتی جا رہی ہے کہ بوسنیا ہرزوگوینا میں نہتے مسلمانوں کے قتل عام اور درندگی کے مجرم صرف سرب نہیں بلکہ امریکہ کا پریزیڈنٹ اور برطانیہ کا وزیراعظم بھی ان کے پشت پناہ ہیں، اور عیسائیت کا مذہبی طبقہ بھی اس صورت حال کا برابر کا ذمہ دار ہے جو یسوع مسیح کا جانشین سمجھا جاتا ہے اور مصلحت و مفاد سے بالاتر ہو کر سولی پر بھی سچی بات کہنا اس کی شناخت قرار دیا جاتا ہے۔
میں ایک بار پھر اس جسارت پر معافی کا خواستگار ہوں اور اس صورت حال میں آپ کے ارشادات کا متمنی ہوں کہ ’’مذہب اور روحانیت‘‘ کو اس المناک ترین بحران سے نکالنے کے لیے آپ کیا سوچ رہے ہیں؟
من جانب (مولانا) محمد عیسی منصوری
سیکرٹری جنرل ورلڈ اسلامک فورم
۷۲ ڈیلا فیلڈ ہاؤس، کرسچین سٹریٹ، لندن ای ون