ترجمہ قرآن مجید کی ترتیب
’’قرآن شریف کا طرز عام مصنفین کے طرز پر نہیں ہے بلکہ محاورہ بول چال کا طرز ہے، نہ اس میں اصطلاحی الفاظ کی پابندی (ہے)۔ ناواقف لوگ اس کو عام تصانیف کے طریقہ پر منطبق کرنا چاہتے ہیں اس لیے سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس مضمون کو صاحبِ کشاف نے بھی لکھا ہے، اس لیے میں کہا کرتا ہوں کہ ضروری صَرف و نحو اور کسی قدر ادب پڑھا کر قرآن شریف کا سادہ پڑھا دینا مناسب ہے، کیونکہ کتبِ درسیہ کی تحصیل کے بعد دماغ میں اصطلاحات رچ جاتی ہیں، پھر طالب علم قرآن شریف کو اسی طرز پر منطبق کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح پہلے قرآن شریف کا ترجمہ پڑھ کر پھر فنون ضرور پڑھے کیونکہ بعض مقاماتِ قرآنیہ بغیر فنون کے حل نہیں ہوتے۔‘‘
(کلام الحسن ص ۳۲ از حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ)
مروجہ قوانین داخلِ نصاب کیے جائیں
’’یہ میری بہت پرانی رائے ہے، اور اب تو رائے دینے سے بھی طبیعت افسردہ ہو گئی، اس لیے کہ کوئی عمل نہیں کرتا۔ وہ رائے یہ ہے کہ تعزیراتِ ہند کے قوانین اور ڈاک خانہ اور ریلوے کے قواعد بھی مدارسِ اسلامیہ کے درس میں داخل ہونا چاہئے، یہ بہت پرانی رائے ہے مگر کوئی مانتا اور سنتا ہی نہیں۔‘‘
(افاضات الیومیہ جلد شسشم ص ۴۳۵ از حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ)
مدارس کے طرزِ تعلیم میں ترمیم کی جائے
’’اہلِ مدارس طرزِ تعلیم میں کچھ ترمیم کریں۔ جیسے بعض متون بغیر شرح کے پڑھائی جاتی ہیں، اسی طرح جلالین سے پہلے قرآن مجید بھی بغیر کسی خاص تفسیر کے زبانی حل کے ساتھ پڑھایا جایا کرے۔ یا تو پورا قرآن پہلے پڑھا دیا جائے، یا ایسا کریں کہ مثلاً ربع پاره اول خالی قرآن کریم میں پڑھا دیا جائے، پھر اسی قدر جلالین پڑھا دی جائے، اور مدرس اپنی سہولت کے لیے خواہ جلالین اپنے پاس رکھیں یا اور کوئی مبسوط تفسیر، تو طلبہ کو پڑھنے میں، اسی طرح یاد کرنے کی اور مطالعہ کر کے حل کرنے کی عادت پڑ جائے گی۔‘‘
(اصلاحِ انقلاب ص ۴۷ از حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ)