مصنف: سردار شیر عالم خان ایڈووکیٹ
ترجمه: چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ
صفحات: ۴۸
ملنے کا پتہ: الشریعہ اکیڈمی، مرکزی جامع مسجد، گوجرانوالہ
قیمت: دس روپے
پیپلز پارٹی کے دوسرے دورِ حکومت کے دوران میں ۱۹۸۸ء میں بے نظیر صاحبہ وزیر اعظم کے مشورہ پر صدر مملکت نے دستور کے آرٹیکل ۴۵ کے تحت بے شمار قیدیوں کو موت، عمر قید اور دیگر سزاؤں کی معافی، تبدیلی اور تخفیف کے احکامات جاری کیے۔ ان احکامات کو لاہور ہائی کورٹ میں اس بنا پر چیلنج کیا گیا کہ یہ دستور کے آرٹیکل ۲۔الف (مشمولہ قرارداد مقاصد) کے منافی ہونے کی وجہ سے باطل ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس موقف کو تسلیم کرتے ہوئے دستور کے آرٹیکل ۴۵ کو غیر موثر قرار دیا۔ حتمی تصفیے کے لیے معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوا تو اس نے اس نقطہ نظر کو مسترد کر دیا اور یہ قرار دیا کہ قرارداد مقاصد کو دستور میں کوئی فضیلت حاصل نہیں اور آرٹیکل ۲۔الف دستور کے دیگر آرٹیکلز کے مساوی درجہ میں ہے۔
سردار شیر عالم خان ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ (حاکم خان کیس، پی ایل ڈی ۱۹۹۲، سپریم کورٹ ۶۲۲) کا علمی اور تحقیقی جائزہ لیا، چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ نے اس کا اردو ترجمہ کیا اور الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ نے اسے ’’قرارداد مقاصد بنام سپریم کورٹ آف پاکستان‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کر دیا۔
پاکستان میں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں پر سنجیدہ اور علمی تنقید کی روایت موجود نہیں، اس لیے سپریم کورٹ کے فیصلے پر یہ سنجیدہ اور علمی تنقید حیرت کی نظر سے دیکھی جائے گی۔ اس تنقید کے چند پہلو ملاحظہ فرمائیے:
’’حاکم خان کیس کے اثرات کا مزید جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سپریم کورٹ نے سہولت کی راہ اختیار کی ہے۔ اس نے امرِ متنازعہ کو، جو بنیادی دستوری اہمیت کا حامل ہے، غیر طے شدہ تعطل کی شکل میں چھوڑ دیا ہے اور معاملے کو پارلیمنٹ کے لیے باقی رکھ دیا ہے۔ اس نے ایسا اس نیک تمنا کے ساتھ کیا ہے کہ کسی موقعہ پر قانون اور انصاف کی غرض کے لیے پارلیمنٹ شہری کی مدد کے لیے آئے گی۔ مگر اس راہ کا بھاری پتھر یہ ہے کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کی سفارشات کی پابند نہیں ہے۔‘‘
’’معقولیت یہی ہے کہ اعلیٰ عدالت کی ذمہ داریاں بھی ان کے غیرمعمولی اختیار اور منصب کی مطابقت میں ہوں۔ یہ بھی ناگزیر ہے کہ حاکم خان کیس میں اٹھائے گئے نکات جیسے امور کو طے کرنے کے بارے میں عدالت بیدار ہو۔ اس بارے میں جارج میسن کے ریمارکس جو انہوں نے امریکی دستوری کنونشن میں جون ۱۸۸۷ء کو کہے تھے یاد آتے ہیں: ’’جج قوانین کو سچے اصولوں اور تمام تر نتائج کے ماتحت دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں‘‘(۹)۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جج صاحبان کو ہمیشہ قانون کی پشت پر موجود حقیقی اصول اور ان کے تمام تر نتائج کا تجسس کرنا ہوگا۔ انہیں یہ احساس ہونا چاہیے کہ حاکم خان کیس میں طے کردہ فارمولا ایسے نتائج کا پیش خیمہ ہے جن کی گنجائش صرف ایسی اضطراری صورت میں ممکن ہے جب کہ کوئی دوسرا راستہ ہی باقی نہ ہو۔ عدالت کو ایسی صورت گری میں شریک نہیں ہونا چاہیے جو مستقل الجھاؤ، تعطل، اور قانونی اشتباہ بن کر رہ جائے۔ ایسی صورت میں دلدل اور بھی کٹھن ہو جاتی ہے جب صورت واقعہ یہ ہے کہ آرٹیکل ۲۔الف ناقابل ترمیم ہے۔‘‘
’’سپریم کورٹ کے فیصلے کی اہم بنیاد یہ مفروضہ ہے کہ آرٹیکل ۲۔الف وزن اور حیثیت میں دیگر دستوری دفعات کے برابر ہے۔ یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ اس تعبیر کے نتائج لغو اور ہر لحاظ سے ناقابلِ قبول ہیں۔ اب میں مثبت پہلو سے بات شروع کرتا ہوں۔ تعبیر کے مسلّمہ اصولوں کے معیار پر سخت جائزہ کے بعد بھی آرٹیکل ۲۔الف کو دستورِ پاکستان کی انتہائی بنیادی اور فائق ترین دفعہ ماننا پڑتا ہے۔‘‘
’’اوپر کی بحث سے یہ واضح ہے کہ آرٹیکل ۲۔الف ایک ایسا قدم ہے جسے واپس نہیں لیا جا سکتا کیوں کہ یہ اقدام پاکستان کے قیام کی بنیاد کا آئینہ دار ہے۔ اس میں ایسے اصول اور اقدار درج ہیں جن کے بغیر پاکستان کے نظریہ کا تصور ہی ممکن نہ ہے۔ یہ پاکستان کے لیے شخصی آزادی کے مقابلے پر کہیں زیادہ لازمی ہیں۔ اس نقطہ نظر سے آرٹیکل ۲۔الف ناقابلِ ترمیم ہے۔‘‘
’’اس بارے میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ہر لحاظ سے درست ہے۔ اس نے معاملے کی تہ تک پہنچ کر کمال بصیرت، اختصار اور جامعیت سے کام لیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ جسے جسٹس شیخ ریاض احمد اور جسٹس ملک محمد قیوم نے قلمبند فرمایا، اس میں لکھا ہے: ’’ہم آرٹیکل ۲۔الف کو دیکھیں تو یہ ظاہر ہے کہ مقننہ نے خود قانونِ الٰہی کو برتر رکھتے ہوئے انسان کے بنائے ہوئے قانون کو اس کے ماتحت رکھا ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا کوئی جج قانونِ الٰہی کی پیروی سے انکار کر سکتا ہے جب کہ وہ اپنے حلف کے تحت اس کے تحفظ کا پابند ہے۔ آرٹیکل ۲۔الف موثر اور قابلِ نفاذ ہے تو اقتدارِ اعلیٰ عوام یا پارلیمنٹ کا نہیں بلکہ اللہ کا ہے۔ کیا ایسی صورت میں آرٹیکل ۲۔الف کی نفی کی کوئی صورت اختیار کی جاسکتی ہے؟ یہ امر قابلِ لحاظ ہے کہ آرٹیکل ۲۷۰۔الف دستور کی ہر دفعہ کو اس کے قابلِ نفاذ ہونے کے پہلو سے برابر اور باہم قائم قرار دیتا ہے، مگر اپنے اپنے وزن اور اہمیت کے تحت۔‘‘ ہائی کورٹ نے ایک لحاظ سے دستور کی ہر دفعہ کو اس معنی میں برابر قرار دیا ہے کہ یہ دستور کا حصہ ہے اور قابلِ نفاذ ہے۔ مگر ایک فرق بڑا واضح ہے کہ اگرچہ تمام آرٹیکلز موثر، باہم قائم ہیں، مگر اپنے اپنے وزن کے ساتھ۔ لہٰذا آرٹیکل ۲۔الف دستور کا جزو بنائے جانے کے بعد دوسرے آرٹیکلز کے مقابلے پر زیادہ وزن اور اہمیت کے ساتھ موثر اور قابلِ نفاذ ہے۔‘‘
’’قانونی دفعات کا وزن اور حیثیت ان کے متن اور نفسِ مضمون سے ہو سکتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ اس کے لیے لفظی صراحت سے ان کی برتری کا اظہار ہوتا ہو۔ ان دو پہلوؤں کو پیش نظر رکھنے کا ایک ہی نتیجہ ہے کہ آرٹیکل ۲۔الف اپنی غیر معمولی نوعیت کی بنا پر دیگر دستوری دفعات پر بالادست حیثیت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں کسی دفعہ کی کوئی تعبیر دستور کے بنیادی مقصد کو تقویت دینے اور موثر بنانے کی ہو سکتی ہے، نہ کہ اسے ختم کرنے کی۔ پاکستان میں دستور کا بنیادی مقصد اسلامی احکامات اور نظریہ کا نفاذ ہے۔ اس بارے میں حاکم خان کیس میں مسٹر جسٹس اے ایس سلام نے اپنے فیصلہ میں لکھا: ’’دستور ایک مربوط کل ہے، اس کے تمام آرٹیکلز کی تعبیر ایسے متوازن انداز میں کی جانی چاہیے کہ اس کی روح اور مقصد کو تقویت ملے۔‘‘ اس طرح جسٹس سلام کے مطابق دستور کا مقصد اور اس کی روح سب سے زیادہ اہم چیز ہے۔‘‘
’’ ان حالات میں اگر آرٹیکل ۴۵ آرٹیکل ۲۔الف سے متصادم ہے تو آرٹیکل ۴۵ کے تحت صدر کا سزاؤں کی معافی کا اقدام اس کے حلف کے بھی منافی ہو گا۔ مزید برآں قانون ساز اداروں کے تمام ارکان اسلامی نظریہ کے تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں لہٰذا یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ حلف کے منافی کسی اقدام کی اجازت دینا ان کا منشا ہو سکتا ہے۔ اس طرح آرٹیکل ۲۔الف اور حلف ایک مشترکہ عمل کے ذریعہ قانون سازی اور انتظامی دائرہ کو کنٹرول کریں گے۔‘‘
’’کسی قوم کا دستور اس کی آرزوؤں اور نظریات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ جو اس کے تاریخی، ثقافتی، سماجی اور اقتصادی اقدار کو عام زندگی میں اداروں کی صورت میں منظم کرتا ہے۔ جدید دور میں پاکستان اولین مملکت ہے جو اس واضح اعلان کے ساتھ قائم ہوئی کہ اس میں اسلامی احکامات نافذ کیے جائیں گے۔ اس طرح قیامِ پاکستان ایک منفرد واقعہ ہے اور یہ فطری امر ہے کہ دستور میں اس کا بھر پور اظہار ہو۔ آرٹیکل ۲۔الف ہی واحد دستوری دفعہ ہے جو اس کا مظہر ہے۔ آرٹیکل ۲۔الف بہت سی امتیازی خصوصیات کا حامل ہے جو کسی دوسرے ملک کے دستور میں موجود نہیں۔ اس میں پہلی خاص بات یہ اعلان و استقرار ہے کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے۔ اس طرح عوامی حاکمیت کے جدید مسلّمہ اصول کی نفی کر دی گئی ہے اور یہ تصور دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ حاکمیت مملکتِ پاکستان کو تفویض کی جس کا استعمال عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعہ ہوگا اور وہ اسے ایک مقدس امانت کے طور پر اللہ تعالیٰ ہی کی متعینہ حدود کے اندر استعمال کر سکیں گے۔ اس طرح حاکمانہ اختیار کی واضح طور پر تحدید کر دی گئی ہے۔‘‘
’’آرٹیکل ۲۔الف حاکمیت کے بارے میں مکمل اور جامع ہے۔ کیونکہ یہ حاکمیت کے سرچشمہ، اس کی کیفیت، حدود اور شرائط بیان کرتا ہے۔ اس آرٹیکل کی جامعیت بذات خود اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ عملی نفاذ کے لیے وضع کی گئی ہے۔ اس طرح یہ محض استقراری نوعیت کی حامل نہیں ہو سکتی۔ مزید برآں دستور کے مجموعی اور بااحتیاط مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آرٹیکل ۲۔الف وہ واحد دستوری دفعہ ہے جو حاکمیت سے متعلقہ ہے۔ دیگر تمام دستوری دفعات اختیارات، حقوق اور فرائض سے متعلق ہیں۔ اس طرح یہ امر بالکل صاف اور سادہ ہے کہ تمام حقوق، اختیارات اور فرائض تصورِ حاکمیت ہی سے پھوٹے ہیں۔ چنانچہ اختیارات، حقوق اور فرائض بہرصورت حاکمیت کے ماتحت اور ذیل میں آئیں گے۔ آرٹیکل ۲۔الف کی زبان بھی اس بارے میں قطعی ہے کہ یہ محض خیالی نہیں بلکہ موثر طور پر نافذ کیے جانے کے ارادے سے وضع کیا گیا ہے۔‘‘
’’ہم اوپر بعض دستوری دفعات کے ناقابلِ ترمیم ہونے اور ہائڈنز کیس کے اطلاق کی بحث میں یہ واضح کر چکے ہیں کہ بعض دفعات کے اندر بغیر صراحت کے بھی ان کی برتر حیثیت واضح ہوتی ہے۔ اس استدلال کو مزید تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ دستور میں درج بنیادی حقوق کو دیگر تمام قانونی دفعات پر بالادستی حاصل ہے حالانکہ ایسا کہیں لکھا ہوا نہیں۔ اسی طرح آرٹیکل ۲۰۳۔ڈی، ۲۰۳۔الف کی اسلامی دفعات کو برتری حاصل ہے۔ آرٹیکل ۱۴۳ کی رو سے ہر وفاقی قانون صوبائی قوانین پر برتر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آرٹیکل ۸، ۱۴۳ اور ۲۰۳۔ڈی کے ذیل میں نہ آنے والی دستوری دفعات میں تصادم کی صورت میں کیا ہو گا؟ ایسی صورت میں امریکی دستور کے آرٹیکل ۶ میں یہ درج ہے کہ دستوری دفعات دیگر تمام قوانین پر غالب ہوں گی۔ مگر پاکستان کے دستور میں ایسی کوئی دفعہ درج نہ ہے۔ بہرحال دستور مملکت کا ایک نامیاتی قانون ہے جو تمام دوسرے قوانین کے لیے سرچشمہ ہے، لہٰذا اسے دیگر قوانین پر برتری حاصل رہے گی۔ مگر یہ بات اہم ہے کہ یہ برتری و بالادستی محض سیاق و سباق سے اخذ کی جاتی ہے۔ یہ استدلال آرٹیکل ۲۔الف پر صادق آتا ہے۔ آرنیکل ۲۔الف دیگر تمام قوانین بشمول دستوری دفعات کے لیے سرچشمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ آرٹیکل ۲۔الف دیگر قوانین کے لیے میزانِ تصدیق ہے۔ کیوں کہ اگر یہ تعبیر اختیار نہ کی جائے تو نتیجہ تعبیری ابتری، الجھاؤ اور لغویت کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہے۔‘‘
’’یہ دلچسپ بات ہے کہ پہلے ایک موقعہ پر سپریم کورٹ حاکم خان کیس سے بالکل مختلف فیصلہ دے چکی ہے۔ بی زیڈ کیکاؤس کیس (۲۹) میں سپریم کورٹ نے قرار دیا: ’’اسلام کے اصول سربستہ راز ہیں اور نہ ہی پیچیدہ اور ناقابلِ عمل۔ اسلامی قوانین ہر دور ہر مقام پر قابلِ نفاذ و عمل ہیں بشرطیکہ ان کی صحیح روح، فہم اور حالات کا پورا ادراک ہو۔‘‘ یہ واضح ہے کہ حاکم خان اور کیکاؤس کیس میں فیصلوں میں بُعد المشرقین ہے۔ سپریم کورٹ ملّی سوچ اور ضمیر کا آئینہ ہے۔ یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ من موج، تکون اور تضاد کا شکار نہیں ہو گی۔‘‘
’’یہ صورت حال الجھاؤ سے پُر، حیران کن، مضحکہ خیز اور انتہائی فضول ہونے کی بنا پر مشکل ہی سے اطمینان بخش کہی جا سکتی ہے۔ میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ مسئلے کی بنیاد جدید حالات میں اسلام کے غالب حیثیت کے بارے میں سکوت اور بعض صورتوں میں بین السطور خدشات، شبہات اور ذہنی تحفظات کا رویہ ہے۔ یہاں تک کہ یہ احساس بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر اسلامی شریعت کلی طور پر نافذ کر دی گئی تو یہ مصیبت نہ بھی سہی انتشار کا باعث تو بہرحال ہو گی۔ جب تک ان شبہات اور اندیشوں کو دلیل کی قوت سے قطع نہیں کیا جائے گا، موجودہ صورت حال باقی رہے گی۔ اس بارہ میں موجودہ موضوع کی پابندیوں کی بنا پر اسلام کے بارے میں تفصیلی اظہار ممکن نہیں۔ اسلام ایک وسیع موضوع ہے۔‘‘
’’جملہ مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ قراردادِ مقاصد میں پاکستان کا نظریہ بیان ہوا ہے جو کہ قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے اور ملّی عہد کی عکاس ہے جس کی رو سے پاکستان میں اسلامی قانون کا اجرا اور اسلامی سوسائٹی کا قیام لازمی ہے۔ اس کے دستور میں موثر جزو کے طور پر آرٹیکل ۲۔الف کے تحت شامل ہونے کے بعد خاص طور پر اس دستور میں شمولیت کے پس منظر کے لحاظ سے آرٹیکل ۲۔الف دستور کی دیگر تمام دفعات سے بالادست ہے۔ یہ ان کو کنٹرول کرنے والی ہے، اور بطور تصدیقِ عامہ کے اصول کے اس کی اس حیثیت سے انکار ممکن ہی نہیں۔ اس طرح آرٹیکل ۲۔الف کو بلند ترین مقام اور حیثیت حاصل ہے۔‘‘
’’اوپر کے مفصل تجزیہ کی روشنی میں آرٹیکل ۲۔الف کے موثر نفاذ سے اگر اسلامائزیشن کا عمل عدالتوں کے ذریعہ جاری رہتا ہے تو کسی اضطراب کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس صورت میں آسمان نہیں کرے گا۔ اسلامی شریعت انتہائی مستحکم، منظم اور لچک دار نظام پر مشتمل ہے۔ اسے آہنی جیکٹ خیال نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ ایسا نظام ہے جس میں مقررہ حدود میں اعلیٰ اصولوں اور اقدار کے ماتحت حالاتِ زمانہ کو تعمیر و منضبط کیا جاتا ہے۔ ہم یہ بھی ظاہر کر چکے ہیں کہ قرآن و سنت کی روشنی میں اجتہاد میں عقل و استدلال کی زبردست اہمیت ہے۔ اگر اس کی اہمیت کو سمجھ لیا جائے تو تمام شکوک و شبہات اور اندیشے ختم ہو جائیں گے۔‘‘
سپریم کورٹ کے فیصلہ پر یہ تبصرہ اس قابل ہے کہ اسے بار بار اور بہ تمام و کمال پڑھا جائے۔
(بشکریہ ماہنامہ نوائے قانون، اسلام آباد)