مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی مدیر ’’الفرقان‘‘ لکھنؤ کا مکتوب گرامی
احیائے اسلام کی عالمی تنظیم ’’حزب التحریر‘‘ کے بارے میں

مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی

لندن ۲۴ جولائی ۹۵ء

محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب (مدیر اعلیٰ الشریعہ گوجرانوالہ پاکستان)

السلام عليكم و رحمتہ اللہ

ایک ماہ کے قریب ہوا ’’حقوقِ انسانی‘‘ کے سلسلے میں آپ کا سرکلر الشریعہ کے چند شماروں کے ساتھ موصول ہوا تھا جس سے آپ کی برطانیہ میں آمد کا پتہ چلا۔ اس پر میں نے اپنی کتاب ’’طلاقِ ثلاثہ‘‘ کی ایک کاپی آپ کی خدمت میں لندن والے پتے پر ارسال کی تھی۔ سنا ہے کہ وہ آپ کو مل گئی ہے، مگر ساتھ ہی مولانا عیسیٰ منصوری نے یہ بھی بتایا کہ آپ کا مستقر اب نوٹنگھم ہو گیا ہے یعنی ملاقات کی امید اور بھی کم ہو گئی ہے۔

میں آغاز نومبر ۹۴ء سے امسال اپریل تک ہندوستان میں رہا۔ واپس آکر ڈاک میں الشریعہ کے کچھ شمارے بھی ملے۔ انہی میں سے ایک میں آپ کا ’’کلمہ حق‘‘ حزب التحریر کے بارے میں چھپا تھا۔ اس میں کچھ دوسرے علمائے کرام کے ساتھ آپ کی شیخ عمر بکری کے ساتھ جس نشست اور گفتگو کا ذکر ہے، اس کا بطور خبر تذکرہ میں گزشتہ سال ہی یہاں جنگ میں پڑھ چکا تھا جو میرے لیے بہت حیرت کا باعث ہوا تھا۔ بایں معنی کہ یہ صاحب جس انداز سے اس ملک میں خلافت کی تحریک چلا رہے ہیں، کیا اس کی مَضرت کی طرف آپ حضرات کا بالکل ہی دھیان نہیں گیا جو ان کو اعتماد کا ایسا زوردار سرٹیفکیٹ آپ نے عطا کر دیا! آپ کی اس خبر کے چند ہی دن بعد ان صاحب کا ایک مفصل انٹرویو جنگ نے شائع کیا تو میرا خیال تھا کہ اب آپ کی توجہ ان کی تحریک کی مضرت کی طرف ضرور مبذول ہو گئی ہو گی، مگر کلمہ حق پڑھ کر پتہ چلا کہ میرا اندازہ بالکل غلط تھا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی تقاضا ہوا کہ اس سلسلے میں آپ کو بحیثیت مدیر الشریعہ ایک خط لکھ کر درخواست کروں کہ اگر کوئی حرج نہ ہو تو اسے الشریعہ میں ایک قاری کی رائے کے طور پر دے دیں۔

مگر اس کی نوبت نہ آسکی تھی کہ ابھی کوئی ڈیڑھ ہفتہ ہوا عمر بکری صاحب کے ساتھ میری خود ایک نشست ہو گئی اور اس نے اس تقاضے کو فریضے کے درجے میں پہنچا دیا۔ اب میں اسی نشست کے حوالے سے آپ سے کچھ عرض کرتے ہوئے درخواست کرتا ہوں کہ اسے الشریعہ میں دے دینے پر ضرور غور فرمائیں۔

غالباً‌ ۲۵ جون کی بات ہے۔ لندن سے باہر ایک دوست کی دعوت پر ان کے یہاں کے جلسے میں شرکت کے لیے جانا ہوا۔ وہاں حزب التحریر کا ایک اشتہار تقسیم ہوا جس میں ان کی تحریکِ خلافت کی طرف دعوت تھی۔ میں نے بھی ایک عدد لے لیا۔ اس کی ایک کاپی آپ کے لیے بھی منسلک کر رہا ہوں۔ اس کو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ اب تک اس تحریک کی مضرت کا جو اندازہ تھا وہ بہت کم تھا۔ یہ خالص دینی نقطۂ نظر سے بھی فتنہ ہے، جبکہ اب تک صرف یہ خیال تھا کہ یہ یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف ہے۔ میرے علم کے مطابق آپ انگریزی نہیں جانتے۔ یہ اگر صحیح ہے تو کسی انگریزی دان سے اس کو اردو میں سن لیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کا میری اس بات سے کوئی اختلاف نہ رہے گا کہ بے شک یہ دینی لحاظ سے ایک فتنہ ہے، بایں معنی کہ یہ لوگ حدیث اور قرآن کو اپنی ضرورت کے مطابق نهایت غلط طور سے استعمال کرنے میں کامل طور پر بے باک اور بے خوف ہیں۔ 

میں اس اشتہار کو پڑھ کر متفکر ہوا کہ کیا کیا جا سکتا ہے؟ اگلے ہی جمعہ کو اپنی مسجد پر ان لوگوں کا ایک اشتہار ملا جس میں بکری صاحب کے درسِ قرآن کے پروگرام کا اعلان تھا اور اس میں یہ وضاحت بھی درج تھی کہ مفسرینِ اہل سنت و الجماعت کے اصولوں کے مطابق۔ قدرتی طور پر فکر اور بڑھی۔ چنانچہ بکری صاحب سے مل کر گفتگو کرنے کا ارادہ کیا اور اگلے ہی ہفتے یہ ملاقات ہو گئی۔ میں نے یہ اشتہار پیش کر کے ان سے تصدیق چاہی کہ یہ انہی کا ہے، انہوں نے تصدیق کی۔ میں نے اس تمہید کے بعد کہ یہ تحریک فلاں وجہ سے اس ملک میں اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے قطعاً‌ خلاف ہے اور سوچنا چاہئے کہ جس قوم نے عثمانی خلافت کو تباہ کیا اور جس کا ہاتھ آج بھی ہر مسلم ملک کے اندر اسلام کی سیاسی سربلندی کی روک تھام میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ کیونکر نہایت بے فکری سے اس تحریک کو کھلے بندوں کام کرنے کا اپنے ملک میں موقع دے رہی ہے؟ اس سلسلے میں ان کی توجہ اشتہار کے ان حصوں کی طرف دلائی گئی جن میں خلیفہ کا کام یہ بتایا گیا ہے کہ وہ جنگ اور جہاد کے ذریعے دنیا میں اسلام کے پیغام کو پھیلائے گا۔ موصوف نے فرمایا کہ اس مضمون کا اشتہار تو ہم صرف مسلمانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔  مطلب یہ ہوا کہ اس ’’احتیاط‘‘ کی بنا پر تحریک کے اس جنگجوانہ پہلو سے یہاں کی قوم اور حکومت بالکل بے خبر ہے اور بے خبر رہے گی۔ اللہ اللہ، سادگی کی یا مخاطب کو سادہ لوح سمجھنے کی بھی حد ہوتی ہے۔

الغرض اس تمہیدی گزارش کے بعد بکری صاحب کی توجہ اس حدیث مندرجہ کی طرف دلائی گئی کہ 

’’جو شخص اس حالت میں مرے گا کہ بیعت کا قِلادہ اس کی گردن میں نہ ہوگا، تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔‘‘

عرض کیا گیا کہ یہ آدھی حدیث ہے، جو بے شک اس مطلب کے لیے مفید ہے کہ خلافت وجود میں لانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ جاہلیت کی موت نہ مرنا پڑے، لیکن پوری حدیث پڑھئے تو اس کا کوئی تعلق اس مطلب سے نہیں نکلتا۔ بلکہ یہ اس صورت حال سے متعلق ہو جاتی ہے جبکہ آدمی خلیفۂ وقت کی بیعت سے دست کش ہو کر مرے۔ اور یہ اس مقصد کی اکیلی حدیث نہیں ہے، متعدد حدیثیں اس مضمون کی پائی جاتی ہیں جن کا مقصد ہر ممکن حد تک مسلمانوں کا سیاسی استحکام اور خانہ جنگی سے ان کی روک تھام ہے۔ مشکوٰۃ شریف میں پائی جانے والی ایسی سب حدیثوں کی فوٹو کاپی میں نے اپنے ساتھ لی ہوئی تھی جو ان کے سامنے رکھ دی۔ مگر میں آپ کو کیا بتاؤں کہ کس ہٹ دھرمی سے اس شخص نے اس فوٹو کاپی کا مقابلہ کیا! 

اسی طرح وہ حدیث کہ ’’اذا بویع الخليفتان فاقتلوا احدهما‘‘ (ایک خلیفہ کے مقابلے میں دوسرا آدمی خلافت کا دعویٰ کر کے کھڑا ہو جائے تو اس کو قتل کر دو۔) بھلا اس کا بھی خلافت کو وجود میں لانے کی جدوجہد سے کیا تعلق؟ آپ یقین فرمائیں گے کہ جب اول الذکر حدیث کے استعمال پر میرا اعتراض نہ تھما تو موصوف نے یہ دوسری پیش کر دی۔ یہ بھی زیرِ بحث اشتہار میں موجود ہے۔ 

میرے خیال میں ان کی اس روش سے ان کی اہل سنیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اور بھی جو حدیثیں آپ کو منسلکہ اشتہار  میں ملیں گی، وہ سب ایسی ہی قطعی غیر متعلق قبیل سے ہوں گی۔ 

کاش اس پر بھی بس ہو جاتی۔ اشتہار کا اختتام سورہ حج کی آیت نمبر ۴۰ و ۴۱ کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ اس کا ترجمہ آپ خود ہی اصل آیت سے ملا لیں، خاص طور سے ۴۱ نمبر کا ترجمہ جس میں صلوٰۃ، زکوة، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سب کی تلخیص ’’استقامت علی الدین‘‘ کے الفاظ میں کر دی گئی ہے۔ آیت کے الفاظ ہیں :

الذين ان مكناهم فى الارض اقاموا الصلوٰۃ و اتوا الزكوٰۃ و امروا بالمعروف و نهوا عن المنكر … الخ۔
’’(یہ) وہ لوگ (ہیں) کہ اگر ہم ان کو ملک میں قدرت دیں تو وہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ دیں، بھلے کا حکم دیں اور برے سے منع کریں۔‘‘

اس آیت کا جو ترجمہ انگریزی میں دیا گیا ہے، اس میں نہ نماز ہے نہ زکوٰۃ نہ امر بالمعروف نہ نہی عن المنکر، بلکہ اس سب کی جگہ یہ الفاظ ہیں: IN THEIR DEEN REMAIN CONSTANT (اگر ہم ان کو ملک میں اقتدار نصیب کریں تو وہ دین پر مضبوطی سے قائم رہیں)۔ آپ یقین کریں گے کہ جب میں نے اس شخص سے اس ترجمے کا جواز پوچھا تو اور بہت سی آئیں بائیں شائیں کے علاوہ آخری بات یہ تھی کہ صلوہ کے معنی کیا ہیں؟ دعا! ’’صلوہ علی النبی‘‘ دعا ہی تو ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

تو یہ ہیں عمر بکری صاحب اپنے (منسلکہ) اشتہار اور اس گفتگو کی روشنی میں! کہ نہ صرف یورپ کے اس پروپیگنڈے کو جیتا جاگتا ثبوت مہیا کر رہے ہیں کہ اسلام کا احیا ایک خوفناک اور خونخوار طاقت کا احیا ہے، بلکہ ساتھ میں مسلمانوں کے دین کے لیے بھی وہ علامہ مشرقی والے فتنے سے کم نہیں ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ آپ اس عریضے کے ساتھ منسلکہ اشتہار کا ترجمہ بھی شائع کریں۔

والسلام

خیر اندیش 

(عتیق الرحمٰن) دستخط


مکاتیب

(ستمبر ۱۹۹۵ء)

تلاش

Flag Counter