علماء مغربی فلسفہ کی ماہیت کو سمجھیں اور انسانی معاشرہ کی راہنمائی کریں

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے علماء کرام اور مسلم دانشوروں پر زور دیا ہے کہ وہ اسلام کی دعوت اور پیغام کو دنیا کی دوسری اقوام تک پہنچانے کے لیے مربوط اور منظم پروگرام ترتیب دیں اور اسلامی تعلیمات کو آج کی زبان میں لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔ وہ ۳۱ اگست ۱۹۹۴ء کو آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز میں ورلڈ اسلامک فورم کے وفد سے بات چیت کر رہے تھے جو مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد عیسٰی منصوری اور مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی پر مشتمل تھا۔

اس موقع پر مولانا ندوی نے کہا کہ علماء حق نے ہر دور میں وقت کے فتنہ اور ضرورت کو پہچانا ہے اور اس کے مطابق لوگوں کی راہنمائی کی ہے۔ ایک دور میں جب مسلم معاشرہ میں یونانی فلسفہ کے فروغ سے اعتقادی فتنوں نے سر اٹھایا تھا تو اس وقت کے اکابر علماء نے یونانی فلسفہ پر عبور حاصل کر کے اس کی زبان میں اسلامی عقائد کی وضاحت کی تھی اور مسلمانوں کو گمراہ ہونے سے بچایا تھا۔ جبکہ آج مغرب کے مادہ پرستانہ فلسفہ نے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں اسلام کے عقائد و احکام کے بارے میں بے یقینی اور شکوک کے بیج بو دیے ہیں، علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ مغربی فلسفہ کی ماہیت کو سمجھیں، یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور مادہ پرستانہ فلسفہ کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے اس کی زبان میں اسلامی عقائد و احکام کی وضاحت کریں تاکہ تشکیک اور الحاد کے فتنہ کا صحیح طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔

مولانا ندوی نے کہا کہ مغربی تہذیب اپنے عروج کی انتہا کو پہنچ کر اب زوال کا شکار ہونے والی ہے اور مغربی معاشرہ میں دن بدن وسیع ہونے والی بے چینی اور اضطراب نے اس تہذیب پر خود مغرب کے لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے اور وہ کسی نئے نظام اور پیغام کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اسلام کے سوا دنیا کے کسی مذہب میں یہ سکت نہیں ہے کہ وہ فطرت کے تقاضوں کے مطابق انسانی معاشرہ کی راہنمائی کر سکے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ علماء کرام اور مسلم دانشور اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور اسلام کے فطری احکام اور تعلیمات کو سادہ اور فطری انداز میں لوگوں کے سامنے لائیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر مسلم معاشرہ میں ان لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو اسلام سے نفرت رکھتے ہیں اور اس کے بارے میں معاندانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، ان کے علاوہ باقی لوگوں تک اسلام کا پیغام صحیح انداز میں پہنچانے کا اہتمام کیا جائے تو ان میں سے بہت سے افراد اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے، مگر اصل کوتاہی ہماری طرف سے ہے اور ہم دعوت اور تبلیغ کے تقاضے پورے نہیں کر رہے۔

مولانا ندوی نے ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ نظریاتی اور فکری محاذ پر صحیح سمت کام کا ذوق بیدار ہو رہا ہے۔

عالم اسلام اور مغرب

(اکتوبر ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter