(۶ اگست ۱۹۹۴ء کو اسلامک کلچر سنٹر ریجنٹ پارک لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے دوسرے سالانہ تعلیمی سیمینار سے مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے استاذِ حدیث فضیلتُ الشیخ محمد سعید احمد عنایت اللہ کا خطاب۔)
جس طرح کفر اللہ کی نقمت اور ناراضگی کی علامت اور کائنات میں سب سے مبغوض شے ہے، کیونکہ ’’ولا یرضٰی لعبادہ الکفر‘‘ (حق تعالٰی اپنے بندوں کے کفر کو پسند نہیں کرتے) کا اعلان ہے، اسی طرح اسلام خالقِ کائنات کی سب سے بڑی نعمت اور پسندیدہ چیز ہے۔ ’’وان تشکروا یرضہ لکم‘‘ (اگر تم شکر کرو تو تم سے خوش ہے) کا اصول اسی نعمت کی عظمت کو واضح کر رہا ہے۔
حضراتِ کرام! اسلام ایسی نعمت ہے جس کو چھپانا اور اس کے محاسن کو بندوں تک نہ پہنچانا اس کی سب سے بڑی بے قدری ہے کیونکہ ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس‘‘ میں اس خیر کو عام کرنا ہی اس امت کا نصب العین اور اولین فریضہ بتایا گیا ہے۔ اس نصب العین کے حصول اور اس نعمتِ کاملہ شاملہ کو تمام انسانیت تک پہنچانے کے لیے مؤثر ترین طریق کار اور نت نئی راہوں کی تلاش اور تمام وسائلِ نشر کو بروئے کار لانا اہلِ علم و فکر کی طرف سے جہادِ عظیم ہے۔ ’’وجاھدھم بہ جھادًا کبیرا‘‘ میں اسی واجب کی ادائیگی کا حکم ہے اور ’’ادع الٰی سبیل ربک بالحکمۃ‘‘ میں اس کے مؤثر ترین طریق کار کو بالاجمال بیان کیا گیا ہے۔ اسی جہادِ عظیم کی بدولت تو انسان کو اس کائنات میں خلعت خلافتِ ربانی عطا کی گئی تھی۔ پھر اس نعمت کو عام کرنا صرف ہمارے لیے شرف کا باعث نہیں بلکہ پوری انسانیت کی سعادت اس سے وابستگی میں مضمر ہے۔ اسلام حق تعالٰی کی رضامندی اور نصرت کا سبب ہی نہیں بلکہ وہ اپنے معقول ترین نظامِ عقائد، نظامِ عبادت، نظامِ معاملات و اخلاقیات، اور ان کے ظاہری و باطنی محاسن کے اعتبار سے پُرکشش اور جذاب بھی ہے۔ اس لیے اس کو دینِ کامل اور تمام نعمتِ الٰہی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ وہ اس قدر غنی ہے کہ اکیلے تمام انسانیت کی جملہ ضروریات کو پورا کرتا ہے اور واحد کفیل ہے۔ ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی‘‘ میں اسی کمال و جمال کی طرف اشارہ ہے۔
حضرات کرام! غور فرمائیں کہ برتری کی جملہ صفات پر مشتمل دین کوئی کم انعام ہے؟ بلکہ اس کی طرف منسوب ہونے پر ہم جس قدر فخر کریں کم ہے۔ یہی احساسِ برتری حضراتِ صحابہ کرامؓ میں پیدا گیا اور پیغمبر علیہ السلام کے تزکیہ اور تطہیر نے سب سے پہلے ان سے احساسِ کمتری کو ختم کر کے احساسِ برتری کو ان میں پیدا کیا، پھر انہوں نے اعلان کیا کہ ’’نحن قوم اعزنا اللّٰہ بالاسلام‘‘ اور یہ اعلان کیا کہ ’’بعثنا اللّٰہ لنخرج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ رب العباد‘‘۔
مگر اعدائے اسلام اور حاقدینِ ملتِ اسلامیہ نے امت کے شرف و کرامت کو لوٹنے اور عباد الرحمٰن کو اس نعمتِ دین سے محروم کرنے کی مذموم سعی میں بھی کوئی کسر روا نہ رکھی اور بقول قرآن اس اضلال کو ہدف بنایا۔ ’’ودوا لو تکفرون کما کفروا فتکونون سواء‘‘ کہ یہ کفار مسلمانوں کو دوبارہ کفر کی پستیوں میں لوٹا دیں اور ذلت میں برابر ہو جائیں، اس غرض کے حصول کی خاطر ان میں دین کی وجہ سے احساسِ برتری نہ رہے اور دین کی نسبت پر فخر کی بجائے اس کو باعثِ پستی خیال کریں۔ ان میں اصولِ دین اور مبادی اسلام کے بارے میں تشکیک و تذبذب کو پیدا کیا، اور اس کے لیے ان کو ہماری صفوں سے کئی ایجنٹ اور بھی مل گئے جنہوں نے ذاتِ باری تعالٰی، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کو ہدفِ تنقید بنایا۔ اس کے علاوہ اعدائے دین و ملت نے ہماری نسلوں کے اخلاق کے فساد کے لیے تمام وسائل کو صرف کر دیا۔ نظامِ مغرب نے تو مظاہرِ حیات میں ایسا مشغول کر دیا کہ اہمیت کے باوجود واجباتِ دینیہ کی ادائیگی کی کہاں فرصت رہی؟
مگر دوسری طرف حامیانِ ملتِ اسلامیہ اور دعاۃ حق نے ان تمام شکوک و شبہات کے رد اور دین کی حقانیت کی وضاحت کے لیے انتھک کوششیں کیں، جس کے اثرات جب نوجوان نسلوں پر مرتب ہونا شروع ہوئے اور مسلمانوں کی کثیر تعداد نے جہادی تحریکوں میں بھی شمولیت اختیار کر لی، تو اعدائے دین نے نیا حربہ اختیار کیا اور حامیانِ حق کے لیے ایسے القابات اختیار کیے جو آج کے معاشرے میں ناپسندیدہ افراد اور حامل رد افکار ہوں۔ انہیں رجعت پسند، بنیاد پرست، انتہا پسند، دہشت گرد جیسے خطابات دیے اور ان القابات کی حسبِ منشا تفسیر و تشریح کی تاکہ نئی نسلوں کو اصل دین کے رشتہ سے توڑ سکیں۔
اس پر مزید افسوس یہ ہے کہ دیارِ کفر میں نہیں، دیارِ اسلام میں ہی ان کو طبقہ حاکمہ یا طبقہ عالیہ میں سے ایسے افراد اور قوی ہاتھ مل گئے جنہوں نے بلادِ اسلامیہ میں بھی اہلِ دین اور اہلِ جہاد کے لیے نفرتوں کے بیج بوئے اور ان کی زندگی اپنی ہی سرزمین پر تنگ کر دی، کہ جو کام کھلے دشمن نہ کر سکے ان کے ان خفیہ ہاتھوں نے سر انجام دینا شروع کر دیا۔
حضرات کرام! اب اعدائے اسلام اور دشمن کے ان خفیہ ہاتھوں ہر دو کے خلاف جدوجہد اور ان کی مساعی کو ناکام بنانا امت کے اہلِ فکر، اہلِ درد اور اربابِ علم و دانش کا جہادِ عظیم ہے۔ نئی نسلوں کو تشکیک و تذبذب کی دلدل سے نکال کر اسلام کی طرف نسبت میں احساسِ برتری پیدا کرنا اور دینِ کامل میں مکمل طور پر قناعت پیدا کرنا آج کے دور کے داعی کے نام کھلا چیلنج ہے۔ جس کے لیے محض فتوٰی بازی، حدتِ اسلوب، اور شدتِ لسان ہرگز کارگر نہ ہو گی۔ خود صاحبِؐ اسوۂ حسنہ کو بتا دیا گیا تھا کہ شدت و حدت تو ہرگز دعوت کے کام میں کام نہ دے گی ’’لو کنت فظًا غلیظ القلب لانفضوا من حولک‘‘۔ بلکہ راہِ حق سے بھٹکی افکار کی منتشر انسانیت کو حق کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ارشاد باری ’’ادع الٰی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ‘‘ نے اسلوبِ حکیمانہ اور حلاوتِ لسان کو داعی پر واجب فرمایا جس سے کوئی مستثنٰی نہیں۔
حضراتِ کرام! دینِ اسلام کے محاسن، ایمان کی حلاوت اور کشش میں کچھ فرق نہیں پڑا، صرف وہ سوز و گداز مطلوب ہے جس کی طرف ’’لعلک باخع نفسک ان لا یکونوا مومنین‘‘ کے پاک ارشاد کا اشارہ ہے۔ لہٰذا اسلام کے لیے کام کرنے والوں سے فکر و تدبر کے ساتھ مسلسل جدوجہد، جملہ وسائل اور ذرائع کا بے دریغ استعمال مطلوب ہے۔ جن کی زندگی میں کہیں بخل نہیں، بس نہیں، راحت نہیں، وہ تو اپنی تمام تر صلاحیتوں، تمام مادی اشیاء اور اموال و جان کا حق تعالٰی شانہ کے ساتھ سودا کر چکے ہیں ’’ان اللہ اشترٰی من المومنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ‘‘ والی آیت میں اسی مبارک عقد کا ذکر ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ ہم وہ امت ہیں جس کو ’’اعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ‘‘ کے خطاب سے مخاطب کیا گیا ہے تاکہ اپنی جملہ صلاحیتوں کو مجتمع کر کے نعمتِ الٰہی کو پھیلانے اور اعدائے دین کے عزائم کو خاک میں ملانے پر صرف کر دیں۔
برادرانِ ملتِ اسلامیہ! کل کی ندامت و حسرت سے بچنے کے لیے اسلام اور امت کی خاطر اپنی ہر قوت کو صرف کرنا ہی عین بقا کا راستہ ہے، اور دین کو ضائع کر کے کچھ تھوڑا بہت بچا لینا عین ہلاکت کا راستہ ہے۔ ’’ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ‘‘ کے شان نزول کو دیکھ لیں، اس نے اسی حقیقت کو منکشف فرمایا ہے۔ لہٰذا ہماری گزارش ہے کہ اس نعمتِ عامہ اور امانتِ ربانی کی حفاظت اور آئندہ نسلوں کی سپردواری کے فریضہ کی ادائیگی کے لیے:
- اولاً اس کام کو ایک مختصر طبقہ تک محدود نہ کر دیں، نہ یہ کسی مخصوص جماعت یا حکومت کی ذمہ داری ہے، بلکہ اہلِ اسلام کے مختلف طبقات کی عموماً اور علمِ دین کے حاملین کی خصوصاً۔
- ثانیاً ہر طبقہ دوسرے کو معاون سمجھے۔ اور دعوتِ دین کا کام کرنے والے مختلف شعبوں کے افراد ایک دوسرے سے حقد و حسد یا مخالفت کی بجائے ان کی تحسین اور حوصلہ افزائی کریں۔ یہ بات محض رسمی نہ ہو بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم سب کی جدوجہد اور کوششیں مل کر بھی دین کا کماحقہٗ حق ادا نہیں کر سکتیں، چہ جائیکہ ہم اکیلے۔ تعاون اور تحسین کے ان جذبات کے ساتھ مساجد کے خطبا، مدارس کے مدرسین، تبلیغ و دعوت کا کام کرنے والے، دعا اور خانقاہوں کے مشائخ، اپنے اپنے کام کو اس انہماک سے کریں کہ جیسے ان کا محاسبہ صرف اسی کام کے بارے میں ہو گا۔ مگر دوسرے شعبہ میں کام کرنے والے کو ہدفِ تنقید نہ بنائیں بلکہ تحسین و حوصلہ افزائی فرمائیں۔
- ثالثاً اہلِ علم کا ایک طبقہ فکری محاذ پر وقف ہو کر رہ جائے۔ جو ایک طرف تو اسلام کے جملہ نظام کے محاسن کو بیان کر کے نئی نسل کو تو اس کی جامعیت کا قائل کرے، اور دوسری طرف اعدائے اسلام کی پیدا کردہ تشکیک، تذبذب اور کسی بھی نظام میں تنقید و تنقیص کا مسکت اور تسلی بخش رد پیش کرے۔ نیز اس دور میں مجموعی طور پر امتِ اسلامیہ کو درپیش مسائل و مشاکل کے قرآن و سنت کی روشنی اور اسلافِ صالحین کی سیرت سے ان کے حلول سلجھائے۔
حضراتِ کرام! یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ اعدائے دین اور تمام ایجنٹ اور دشمن کے خفیہ ہاتھ اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کے لیے متحد ہو کر انتھک کوششیں کریں اور اس کی خاطر اپنے تمام وسائل کو بے دریغ استعمال کریں، اس کی خاطر ہر قربانی کریں۔ اور ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے یہ تماشا دیکھتے رہ جائیں، جس کے نتیجہ میں سوائے حسرت اور ندامت کے ہمارے ہاتھ کچھ نہ آئے۔ حالانکہ اللہ کی نصرت اور تائید ہمارے ساتھ ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ’’ان تنصروا اللّٰہ ینصرکم‘‘ اور وعدہ برحق ہے ’’وانتم الاعلون۔ واللّٰہ معکم‘‘ اور عزت، شرافت و کرامت تو صرف اللہ، اس کے رسول اور اہلِ ایمان کا حق ہے ’’وللّٰہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین‘‘۔