اقوامِ متحدہ کی قاہرہ کانفرنس اور عالمِ اسلام
لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کے زیراہتمام لندن میں منعقدہ فکری نشست میں آبادی کے کنٹرول کے مسئلہ پر اقوامِ متحدہ کی قاہرہ کانفرنس کے ایجنڈے کو تمام آسمانی مذاہب کی بنیادی تعلیمات اور انسانی اقدار کے منافی قرار دیتے ہوئے اس سلسلہ میں جامعہ ازہر اور وٹیکن سٹی کے موقف کے موقف کی پرزور حمایت کی گئی ہے اور ایک قرارداد کے ذریعے دنیا بھر کی مسلم حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ عالمِ اسلام کو کنڈوم کلچر اور جنسی انارکی کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے مشترکہ طور پر ٹھوس اور جرأت مندانہ موقف اختیار کیا جائے اور قاہرہ کانفرنس کے ایجنڈے کو مسترد کرنے کا اعلان کیا جائے۔

یہ نشست اسلامک سنٹر سیلون روڈ اپٹن پارک لندن میں ۳ ستمبر ۱۹۹۴ء کو جمعیت علماء برطانیہ کے راہنما مولانا قاری عبد الرشید رحمانی کی زیرصدارت منعقد ہوئی جس میں مختلف جماعتوں کے راہنماؤں نے خطاب کیا۔

مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے بھی اس نشست سے خطاب کرنا تھا لیکن قاہرہ کانفرنس کے بارے میں رابطہ عالمِ اسلامی کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کے لیے انہیں برطانیہ کا دورہ مختصر کر کے اچانک سعودی عرب روانہ ہونا پڑا، البتہ شرکاء کے نام ایک پیغام میں مولانا ندوی نے کہا کہ ملتِ اسلامیہ کو اس وقت یورپ کی خوفناک تہذیبی یلغار کا سامنا ہے اور یہ معرکہ ان صلیبی معرکوں سے زیادہ سخت اور خطرناک ہے جن میں یورپی حکومتیں عالمِ اسلام کا مقابلہ کرنے اور اسے زیر کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال انتہائی نازک ہے اور مغربی کلچر ملتِ اسلامیہ کے تہذیبی دائروں کو توڑنے اور مذہبی اقدار کو مٹانے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے یہودی اور عیسائی دانشور اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود متحد ہو گئے ہیں۔ اس لیے عالمِ اسلام کی دینی قوتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو یکجا کر کے پوری سنجیدگی کے ساتھ اس فتنۂ عظمٰی کا مقابلہ کریں۔

حزب التحریر برطانیہ کے امیر الشیخ عمر بکری محمد نے کہا کہ دراصل مغربی قوتوں کو ملتِ اسلامیہ کی افرادی قوت کا خوف لاحق ہے اور وہ مغرب و مشرق میں آبادی کا توازن قائم کرنے کے لیے آبادی پر کنٹرول کے نام پر اس قسم کی حرکات کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی افرادی قوت کو بڑھانے کا حکم دیا ہے، اس لیے آبادی کو محدود کرنے کا تصور رسول اکرمؐ کی تعلیمات کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کی فکری اور اقتصادی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے عالمِ اسلام میں سیاسی بیداری کی مہم چلانے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک ہم مکمل آزادی کے ساتھ اسلام کی مکمل عملداری کا اہتمام نہیں کرتے مغرب کی سازشوں کا اسی طرح شکار ہوتے رہیں گے۔

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ سکولوں میں جنسی تعلیم، مانع حمل اشیاء کے کھلم کھلا فروغ، اور بدکاری کی حوصلہ افزائی جیسے اقدامات کی روک تھام صرف اسلام اور مسلمانوں کا نہیں بلکہ انسانی اقدار کا مسئلہ ہے اور تمام مذاہب اس قسم کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’فری سیکس‘‘ کے فلسفہ نے مغربی معاشرہ کا جو حشر کیا ہے اور جس طرح اس سوسائٹی کو انسانی قدروں اور رشتوں سے محروم کیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی ذی شعور انسان قاہرہ کانفرنس کے ایجنڈے کی حمایت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مغرب خود تو آسمانی تعلیمات سے دستبردار ہو چکا ہے اور اب ہمیں بھی آسمانی تعلیمات سے دستبردار کرانا چاہتا ہے۔ لیکن عالمِ اسلام میں اس سلسلہ میں ہونے والے ردعمل نے واضح کر دیا ہے کہ مسلمان بے عمل یا بدعمل تو ہو سکتا ہے لیکن اپنے دین سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔

فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے کہا کہ اقوامِ متحدہ مغربی ملکوں کی آلۂ کار ہے جو عالمِ اسلام پر امریکہ اور اس کے حواریوں کا تسلط برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اسی لیے اس کے قیام کے وقت مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے اسے کفن چوروں کی انجمن قرار دے دیا تھا اور گزشتہ نصف صدی کی تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے بارے میں علامہ اقبالؒ کا ارشاد بالکل درست تھا۔ انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کو عورتوں کے حقوق کا غم کھائے جا رہا ہے لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ کیا بوسنیا میں مظالم کا شکار ہونے والی ہزاروں عورتیں ان کے نزدیک حقوق کی حقدار نہیں تھیں، اور ان کے لیے اقوامِ متحدہ نے کیا کردار کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ دراصل مغرب ابھی تک استعمار کا کردار ادا کر رہا ہے اور مسلمان ملکوں کو ظاہری آزادی کا فریب دے کر اقتصادی پالیسیوں اور اقوامِ متحدہ کے ذریعہ اپنا شکنجہ عالمِ اسلام پر مضبوط سے مضبوط تر کرتا جا رہا ہے۔

مجلسِ اقبالؒ لندن کے صدر جناب محمد شریف بقا نے کہا کہ مغربی ممالک نہ مسلم ممالک کو معاشی اور سائنسی طور پر خودکفیل دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ مسلمانوں میں سیاسی اتحاد ہی کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اور مغربی حکومتوں کی تمام تر پالیسیوں کا محور یہ ہے کہ عالمِ اسلام ہمیشہ کے لیے ان کا دستِ نگر اور محتاج رہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمِ اسلام کا اتحاد اور اسلامی اقدار کی بالادستی ہی ان تمام مسائل کا حل ہے جس کے ذریعے ہم مغرب کے چیلنج کا صحیح طور پر سامنا کر سکتے ہیں۔

بزرگ عالم دین مولانا ابوبکر سعید نے کہا کہ قاہرہ کانفرنس کا ایجنڈا ہماری دینی غیرت کے لیے چیلنج ہے اور ہمیں چاہیے کہ پوری طرح متحدہ ہو کر اس کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ قاہرہ کانفرنس میں پیش کی جانے والی سفارشات بے حیائی اور بدکاری کو فروغ دینے کی تجاویز ہیں جنہیں مسلم معاشرہ میں کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔

صدر نشست مولانا قاری عبد الرشید رحمانی نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کو فروغ دیا جائے اور ’’فری سوسائٹی‘‘ کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے نئی نسل کی راہنمائی کی جائے۔



علماء قاہرہ کانفرنس کے فیصلوں پر نظر رکھیں۔ مولانا منصوری

ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے کہا ہے کہ عالمِ اسلام کے دینی حلقوں کو بہبودِ آبادی کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی قاہرہ کانفرنس کی کارروائیوں اور قراردادوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اسقاطِ حمل، شادی کے بغیر جنسی تعلقات، ہم جنسی اور سکولوں میں جنسی تعلیم کے حوالہ سے کانفرنس کی قابلِ اعتراض تجاویز پر پاکستان اور بعض دیگر مسلم ممالک کا طرزعمل بہتر ہے۔ لیکن اس پر اکتفا کر کے تمام امور سے بے فکر ہو جانے کا کوئی جواز نہیں ہے، کیونکہ مغرب کی تہذیبی اور ثقافتی یلغار کا طریق واردات ہمیشہ یہی رہا ہے کہ ’’تین قدم آگے بڑھو اور ردعمل زیادہ مخالف ہو تو ایک قدم پیچھے ہٹ جاؤ‘‘۔ اس طرح اسے ہر حملہ میں دو قدم آگے بڑھانے کا موقع مل جاتا ہے اور ردعمل کا اظہار کرنے والے بھی مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اسے ایک قدم پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اس لیے عالمِ اسلام کے دینی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کانفرنس کی کارروائیوں اور قراردادوں پر گہری نظر رکھیں اور اس سلسلہ میں ملتِ اسلامیہ کی بروقت راہنمائی کریں۔

مشاہدات و تاثرات

(اکتوبر ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter