قرآن و سنت سپریم لاء ہے - ہائیکورٹ کے فل بنچ کا فیصلہ (۲)

ادارہ

(ربطِ مضمون کے لیے ملاحظہ ہو شمارہ جولائی ۱۹۹۴ء)

(۱۱) یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ دیباچہ کا ایسا طرزِ بیان نہیں ہوتا۔ یہاں فرق یہ ہے کہ دیباچہ میں قانون کے واضع کا منشا بیان کیا جاتا ہے اور ایوان کے سامنے قانون کی تمام شقوں پر غور کے بعد پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح دیباچہ اگر قانون کے منشا کو پورا نہ کرتا ہو تو ترمیم کیا جا سکتا ہے۔ میری نے لکھا ہے کہ ’’دیباچہ اور عنوان میں ترامیم کی اجازت اس صورت میں ہوتی ہے جب کہ قانون میں کی گئی ترامیم نے اس کی ضرورت پیدا کر دی ہو۔‘‘ اس کے برعکس قرارداد کا منشا عوام کے نمائندوں پر یہ مینڈیٹ واضح کرنا اور ان کو اس کا پابند بنانا ہے۔ بدقسمتی سے یہ امر کبھی عدالتوں کے نوٹس میں نہ لایا گیا۔ انہوں نے اسے دیباچہ کے طور پر ہی تعبیر کیا اور تعبیر میں بھی انگریزی روایت اختیار کی۔

(۱۲) اس دیباچہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ہر دستور کا جزو بنایا گیا۔ عاصمہ جیلانی کیس میں اسے نظریاتی اساس قرار دیا گیا۔ فیصلہ میں سے چیف جسٹس حمود الرحمان (۳) کی چند سطور درج ذیل ہیں:

’’ہمیں بنیادی اقدار کی تلاش میں مغرب کے ماہرینِ قانون کی طرف دیکھنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ ہمارا اصل الاصول یہ ہے کہ تمام کائنات پر قانونی اقتدارِ اعلٰی بلاشرکتِ غیرے اللہ تعالٰی کا ہے اور اس کا تفویض کردہ اختیار اس کی ہدایات کے ماتحت مقدس امانت ہے۔ یہ اصل الاصول ناقابلِ تغیر و استثنٰی ہے۔ اسے قرارداد مقاصد میں دستور ساز اسمبلی نے پوری صراحت کے ساتھ درج کیا ہے۔ یہ قرارداد اسمبلی نے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور کی‘‘ ۔۔۔۔ ’’اقتدارِ اعلٰی کے بارے میں تصور یہ ہے کہ یہ ناقابلِ تغیر اور تقسیم ہے۔ اس طرح تمام تر نظامِ سیاسی ایک مقتدر کی جانب سے امانت کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔‘‘

(۱۳) اس بارہ میں بے نظیر بھٹو کیس میں (۷) فیصلہ سے چند سطور اور:

’’فاضل جج نے چاروں دساتیر کے دیباچوں پر انحصار کیا جو کہ پاکستان کے نظریہ کی فصیح اور مستند توثیق ہے۔ لہٰذا اس میں کسی کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کے نظریہ کی اساس مسلم قومیت پر ہے اور اس میں اسلامی نظریہ شامل ہے جسے دستور میں اسلامی احکامات سے موسوم کیا گیا ہے اور یہ مسلم قوم کا اہم ترین محرک تھا‘‘ ۔۔۔ ’’میرے نزدیک یہ دو قومی نظریہ کی توثیق ہے۔ اسلامی نظریہ، نظریۂ پاکستان کے ساتھ اس طرح پیوستہ ہے کہ اسے اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ دو قومی نظریہ کی بنیاد ہے۔ اس طرح ’’پاکستان کی سالمیت‘‘ میں پاکستان کا نظریہ ہی نہیں اسلامی نظریہ بھی شامل ہے۔ سالمیتِ پاکستان پر کوئی حملہ پاکستان کے اقتدارِ اعلٰی پر حملہ متصور ہو گا، اور اسی طرح پاکستان کے اقتدارِ اعلٰی پر حملہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہو گا۔‘‘

(۱۴) اسلامی احکامات سے متصادم قوانین کو منسوخی کے خلاف دستور میں تحفظ دیا گیا تھا۔ جسے (۸) ۷ فروری ۱۹۷۹ء کو ہائیکورٹس میں شریعت بنچوں کے قیام سے ختم کر دیا گیا، اور بعد میں ۱۹۸۰ء میں (۹) کے ذریعے ان بنچوں کے بجائے وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ہر دو عدالتوں کو اسلامی احکامات سے متصادم قوانین کو مقررہ تاریخ کے بعد غیر مؤثر قرار دینے کا اختیار ملا۔ البتہ بعض قوانین کو اس دائرہ سماعت سے استثنٰی دی گئی تھی۔ یہ عدالت اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور بہت سے قوانین کو منسوخ کر چکی ہے۔ چنانچہ یہ دلیل، کہ آرٹیکل ۳۰(۲) اور ۲۲۷(۲) قوانین کو منسوخی سے تحفظ دیتے ہیں اور عدالتیں انہیں باطل قرار نہیں دے سکتیں، بے وزن ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ دونوں آرٹیکل منسوخ نہیں کیے گئے۔

(۵) یہ واضح ہے کہ اگر تحفظ دیے گئے قوانین کے بارے میں مزید آئینی اقدام سے یہ تحفظ ختم کر دیا جاتا تو یہ بھی عدالتی دائرہ میں آجاتے۔ یہی اقدام دراصل ۲ مارچ ۱۹۸۵ء کو (۱۰) آرٹیکل ۲۔اے کے دستور میں شمولیت کی صورت میں اٹھایا گیا۔ آرٹیکل ۲۔اے اس طرح ہے:

’’قراردادِ مقاصد میں درج اصول، جنہیں گوشوارہ میں دوبارہ لکھا گیا ہے، کو آرٹیکل ہذا کے ذریعہ دستور کا مؤثر جزو بنایا جاتا ہے۔‘‘

(۱۶) یہ آرٹیکل بعد میں آٹھویں ترمیم کا جزو بنا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قراردادِ مقاصد دستور کا محض دیباچہ نہیں رہی، یہ دستور میں داخل کر دی گئی ہے اور اسے اس کا مؤثر حصہ بنا دیا گیا ہے۔ بالکل ان الفاظ میں جو کہ ضیاء الرحمان کیس میں اس غرض کے لیے تجویز کیے گئے تھے۔ اس صورتحال میں اگر کوئی عدالت قراردادِ مقاصد کے دستور پر کنٹرول کا انکار کرتی ہے تو وہ ضیاء الرحمان کیس میں سپریم کورٹ کے مینڈیٹ اور دستور کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ بہرحال ہائیکورٹس کے مختلف بنچوں میں اس بارے میں کافی اختلاف رائے ہے، سپریم کورٹ نے ان میں سے کسی کیس میں اپنا آخری فیصلہ نہیں دیا۔ اس طرح غیر یقینی  صورتحال باقی ہے جسے دور کرنا ضروری ہے۔

(۱۷) ہمیں علم ہے کہ کچھ جج صاحبان نے یہ نقطۂ نظر اختیار کیا ہے کہ آرٹیکل ۲۔اے از خود مؤثر اور حاوی نہ ہے۔ دستور میں اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل (آرٹیکل ۲۲۷(۲)) اور فیڈرل شریعت کورٹ (آرٹیکل ۲۰۳۔بی) قائم کی  گئی ہیں۔ اس طرح آرٹیکل ۲۔اے کے تحت یہ کام نہیں ہو سکتا۔ ان کے نزدیک وجہ یہ ہے کہ دستور کا ایک آرٹیکل دوسرے سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔

(۱۸) مذکورہ بالا وجوہات کا جائزہ لینے سے پہلے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ دستور کو ایک ایسی دستاویز خیال کیا جاتا ہے جس کے تحت حکومت چلائی اور کنٹرول کی جاتی ہے۔ اس میں بالعموم وہ بنیادی اصول درج کیے جاتے ہیں جن کے تحت حکومت بنتی اور کام کرتی ہے۔ حکومت کی کوئی ایک مستقل شکل نہیں ہوتی بلکہ اس کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ بہت بعد میں یہ معمول بن گیا ہے کہ دستور میں بنیادی حقوق اور مملکت کی پالیسی اصولوں کے بارے میں اعلان شامل کیا جاتا ہے۔ تمام تحریری دساتیر میں ایک چیز مشترک ہے کہ اسے اساسی اور نامیاتی یا بالاتر قانون کے طور پر دیگر قوانین پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایسی غیر دستوری دفعات، جو دستور میں شامل کر دی جائیں، کو بھی دستوری دفعات کا سا تقدس اور دیگر قوانین پر بالادستی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس طور ان دفعات کے ساتھ تصادم کی بنا پر دیگر دفعات یا قوانین کو جزوی یا کلی طور پر کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس بارہ میں ضیاء الرحمان کیس (۲) کا حوالہ پوری طرح منطبق ہوتا ہے۔

(۱۹) مزید برآں دستور بالعموم ہر دفعہ کے اطلاق کے لیے علیحدہ علیحدہ مشینری فراہم نہیں کرتا۔ یہ عام طور پر ایک ہی جامع دفعہ فراہم کرتا ہے جو ہر سقم سے پاک ہوتی ہے۔ دستور کا آرٹیکل ۱۹۹ اس کی بہترین مثال ہے۔ اس کے علاوہ ہر عدالت کا یہ فرض ہے کہ وہ دستور کے ہر لفظ اور دفعہ کو مقننین کے منشا کے مطابق معانی پہنائے اور دستور کے کسی لفظ یا دفعہ کو فاضل یا فالتو نہ بننے دے۔ آئیے اس سیاق میں مقننہ کا قراردادِ مقاصد کی پشت پر منشا معلوم کریں۔ یہ کہا جا چکا ہے کہ یہ قوم کے ساتھ قائد اعظم کے کیے گئے وعدہ کی تکمیل کے لیے تھی۔ قائد ِملت نے اس بات کی واشگاف صراحت دستور ساز اسمبلی کے سامنے اپنی تقریر میں کر دی تھی جس کا متعلقہ حصہ اوپر درج کیا جا چکا ہے۔ قرارداد کے اپنے الفاظ اس امر پر واضح ہیں کہ یہ لوگوں کی طرف سے اپنے نمائندوں کے لیے مینڈیٹ ہے۔

(۲۰) عدالتوں نے دستور میں اس پر ’’دیباچہ‘‘ کے عنوان کی وجہ سے اس کی حقیقی حیثیت کو قبول نہیں کیا۔ اسی طرح آرٹیکل۳۰(۲) اور ۲۲۷(۲) میں درج قیود بھی اس کی اس حیثیت کو مجروح کرنے کا باعث ہوئیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے قیام اور آرٹیکل ۲۔اے وضع کرنے سے قرارداد کی مؤثر حیثیت پر دونوں عذرات ختم ہو گئے ہیں۔ اس طرح اب آرٹیکل ۳۔اے اور ۲۔اے کو اپنے اپنے دائرہ کار میں مؤثر بنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

(۲۱) قرارداد کی حیثیت کے بارے میں اولین عذر یہ ہے کہ یہ ازخود روبعمل اور مؤثر نہیں۔ (مطلب یہ ہے کہ اس میں یہ نہیں لکھا گیا کہ دستور کا کوئی دیگر آرٹیکل اس سے متصادم ہو تو وہ غیر مؤثر ہو گا)۔ اس عذر کو جانچنے کے لیے دستور کے حصہ اول پر ایک نظر ڈال لینا مناسب ہے، کیوں کہ قرارداد مقاصد اسی حصہ میں شامل ہے۔ اسے دستور میں آرٹیکل ۲۔اے کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ آرٹیکل نمبر ۱ میں مملکت کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ درج ہے۔ فرض کیجئے حکومت کی کوئی ایجنسی یا محکمہ یا حکومت مملکت کے نام میں سے لفظ اسلامی ترک کر دے تو کیا کوئی شہری اس کو چیلنج کر سکتا ہے، اور ایسے چیلنج کے لیے کون سا فورم ہو گا؟ مملکت کے علاقوں کی تفصیل دستور کے آرٹیکل ۱(۲) میں درج ہے۔ اللہ معاف فرمائے اگر کوئی حکومت مملکت کے علاقوں میں سے کچھ کو منتقل کرنے کا ارادہ کر لے تو کیا کوئی محب وطن شہری اس ستم کو روکنے کے لیے ادعا کر سکے گا؟ آرٹیکل ۴ بھی دستور کے اسی حصہ میں شامل ہے اور ازخود روبعمل نہیں، مگر عدالتوں، خاص طور پر سپریم کورٹ نے بہت سے راہنما فیصلے صادر کیے ہیں، کیا اس نے ایسے فیصلوں میں اپنے اختیار سے تجاوز کیا ہے؟ اس سلسلہ میں منظور الٰہی (۱۱) اور ملک غلام مصطفٰی کھر (۱۲) کے مقدمات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔

(۲۲) دستور کے اسی حصہ میں آرٹیکل ۶ موجود ہے۔ یہ بھی ازخود روبعمل اور مؤثر نہ ہے۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دفعہ بھی محض علامتی اور زیبائشی ہے اور ہر کوئی بلاخوف سزا، غداری اور بغاوت کے ارتکاب میں آزاد ہے؟ یہ قابلِ غور ہے کہ نیاز احمد کیس (۱۳) میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ اسلام کو آرٹیکل ۲ میں پاکستان کا سرکاری مذہب لکھا گیا ہے۔ اس کا منشا یہ ہے کہ اسلام مملکت کی ظاہری شناخت ہے۔ اگر ایسا ہے تو دستور کے آرٹیکل ۱ تا ۶ محض استقراری اور علامتی کیوں نہیں؟ بڑے احترام کے ساتھ عرض کیا جاتا ہے کہ درست نقطۂ نظر یہ ہے کہ دستور کے ہر لفظ کو اس کے سادہ اور فطری معنی دینا ہوں گے اور دستور کا کوئی لفظ فاضل اور فالتو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے برعکس کبھی کسی عدالت نے کسی لادینی دستور کی اس حیثیت کو علامتی یا نمائشی قرار نہیں دیا خواہ عملی طور پر ایسا ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ عدالتوں نے ایسے دساتیر کے تحت مذہبی مدات پر اخراجات کی اجازت سے انکار کرتے ہوئے حکومتوں کو لادینیت پر پابند کیا ہے۔ اس پر امریکی اور بھارتی حوالے دیے جا سکتے ہیں۔

(۲۳) بلاشبہ یہ امر طے شدہ ہے کہ دستور کے آرٹیکل ۸ کی رو سے کوئی قانون جو بنیادی حقوق سے متصادم ہو گا وہ تصادم کی حد تک کالعدم ہو گا، جیسا کہ جسٹس مامون قاضی نے حبیب بنک کیس (۱۴) میں قرار دیا۔ ذیلی آرٹیکل (۲) حکومت کو ایسا قانون وضع کرنے کی ممانعت کرتا ہے وگرنہ وہ بھی کالعدم ہو گا۔ ہمارے نزدیک مزید قانون کے بغیر مؤثر ہونے کی یہی صورت ہے جسے ازخود روبعمل کہا جائے گا۔ دراصل موجودہ سیاق میں یہ اصطلاح کا غلط استعمال ہے۔ ازخود مؤثر اور روبعمل دفعہ وہ ہوتی ہے جس کے باطن میں اس کے مؤثر ہونے کے لیے مکمل مشینری موجود ہو، مگر یہاں یہ صورت نہیں۔ آرٹیکل ۸ صرف استقراری صورت نتیجہ فراہم کرتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ اعلٰی عدالتوں نے بے شمار مقدمات میں مداخلت کی ہے جن میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے زیادہ تقاضا نہیں کیا گیا۔ انگریزی نظام قانون میں مینڈیمس، سرشوراری یا امتناع کے اصول استوار ہیں جن کو ہمارے ہاں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ اس بارہ میں، میں کسی فیصلہ کے حوالے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ ہمارے ہاں یہ اعلٰی عدالتوں کا روز کا معمول ہے۔

(۲۴) یہاں عبوری دستور ۱۹۷۲ء کے آرٹیکل ۱۴۱ اور ۱۴۲ اور اس سے پہلے کے دساتیر کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جن میں لا تعداد آرٹیکل ایسے ہیں جو آرٹیکل ۸ کی طرح ازخود روبعمل نہ ہونے کے باوجود عدالتوں نے ان کو مؤثر طور پر نافذ کیا ہے۔ یہ آرٹیکلز علاقائی اور مضمون کی نوعیت کے ہیں۔ فرض کریں، صوبائی، وفاقی مجالسِ قانون، اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتی ہیں تو ان کے بنائے ہوئے قانون باطل ہوں گے۔ اعلٰی عدالتوں نے باصرار یہ اعلان کیا کہ اس نوعیت کا دستوری تجاوز ثابت کیا گیا تو اسے کالعدم قرار دینے کا انہیں اختیار حاصل ہے۔ اس بارہ میں حوالہ جات نمبر (۱۵)، (۱۶)، اور (۱۷) ملاحظہ ہوں۔

(۲۵) دستور ۱۹۷۳ء کے آرٹیکل ۱۹۹ کے تحت مظلوم کو دادرسی فراہم کی گئی ہے۔ مذکورہ آرٹیکل کی کلاز (۱) (اے) (i) حسبِ ذیل ہے:

’’(۱) دستور کے ماتحت ہائیکورٹ اگر مطمئن ہو اور قانون نے کوئی اور دادرسی فراہم نہ کی ہو تو متاثرہ شخص کی درخواست پر اس امر کا حکم صادر کر سکتی ہے کہ

(i) عدالت کے علاقائی دائرہ اختیار میں کسی شخص کو، جو وفاقی امور سے متعلقہ فرائض انجام دے رہا ہو، یا صوبہ یا بلدیاتی ادارہ کو کسی کام کے انجام دینے سے باز رہے، جسے انجام دینے کی قانون اسے اجازت نہ دیتا ہو، یا کسی کام ۔۔۔۔‘‘

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس آرٹیکل کے تحت آرٹیکل ۱ تا ۶ یا ایسے ہی کسی دیگر آرٹیکل کے ضمن میں کوئی حکم صادر کیا جا سکتا ہے؟ جواب بہرصورت اثبات میں ہو گا کیوں کہ جب بھی کسی کیس میں ان کے اطلاق کی صورت پیش کی گئی ہو تو عدالتوں نے کبھی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ طارق ٹرانسپورٹ کمپنی کیس (۱۸) میں یہ قرار دیا گیا کہ ہائیکورٹ کے رٹ، احکامات اور ہدایات انگریزی اصول ہائے قانون کی حدود میں محدود نہیں بلکہ یہ قانون کے تحت کام کرنے والے کسی بھی شخص کو کسی کام سے ممانعت اور اسے مثبت طور پر انجام دینے کی ہدایت جاری کرنے تک وسیع ہیں۔۔۔

(۲۶) اب ہم دوسری وجہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا آرٹیکل ۲۔اے اسلامی نظریاتی کونسل کے فرائض پر تجاوز کر سکتا ہے؟ یہ امر محلِ نظر ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل محض ایک مشاورتی ادارہ ہے، یہ فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں۔ یہ پارلیمنٹ، صوبائی مجالسِ قانون، صدر اور گورنروں کو مشورہ اور رپورٹ پیش کر سکتی ہے، وہ ان رپورٹس پر غور کر سکتے ہیں مگر ان کے پابند نہیں۔ مزید برآں آرٹیکل ۲۲۷(۲) اور ۳۰(۲) کے تحت عدالتوں کو مداخلت سے روک دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور صوبائی مجالسِ قانون ہر طرح کی قانون سازی میں آزاد ہیں خواہ وہ کتنے ہی غیر اسلامی کیوں نہ ہوں۔

(۲۷) قانون سازی کی اس بے لگام آزادی پر پہلا چیک وفاقی شرعی عدالت کے قیام سے قائم ہوا جسے قانون کو اسلام کے منافی قرار دے دینے ہی نہیں بلکہ اسے اپنی پسند کی تاریخ سے غیر مؤثر کر دینے کا بھی اختیار ہے۔ کچھ قوانین کو بہرحال وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا۔ ان قوانین کے بارے میں اختیارِ سماعت وفاقی شرعی عدالت یا عام عدالتوں کو تفویض کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں مقننہ یہ خیال کر سکتی ہے کہ بڑے بڑے قوانین اسلامائز ہو چکے ہیں، اس لیے ضابطہ کار وضع کیے جائیں تاکہ لوگ عدالتی اعلانات سے آگے بڑھ کر دادرسی بھی حاصل کر سکیں۔ یہ وہ مقاصد ہیں جن کے حصول کے لیے آرٹیکل ۲۔اے کو دستور میں داخل کیا گیا ہے۔ اس طرح آرٹیکل ۲۔اے کا منشا وفاقی شرعی عدالت یا اسلامی نظریاتی کونسل کے دائرہ سےبہت مختلف ہے ۔۔۔ یہ نہ تو تکرار ہے نہ دوہر overlapping ہے۔

(۲۸) اگر ہم آرٹیکل ۲۔اے کو دیکھیں تو یہ واضح ہے کہ مقننہ نے قانونِ الٰہی کو غالب حیثیت دی ہے اور انسان کے وضع کردہ قانون کو اس کے ماتحت بنایا ہے۔ اس صورت میں کوئی جج اس قانونِ الٰہی کی پیروی سے کیسے انکار کر سکتا ہے جب کہ وہ اپنے حلف کے تحت دستور کے تحفظ اور دفاع کا ذمہ دار ہے؟ اگر آرٹیکل ۲۔اے مؤثر اور نافذ ہے تو اقتدارِ اعلٰی کا سرچشمہ پارلیمنٹ یا عوام کے بجائے اللہ تعالٰی کی ذات ہے۔ کیا اس صورت میں آرٹیکل ۲۔اے کی خلاف ورزی یا اس سے فرار کی راہ اختیار کی جا سکتی ہے؟ یہاں ہمیں آرٹیکل ۲۷۰۔اے کا بہرصورت لحاظ رکھنا پڑے گا۔ یہ آرٹیکل دستور کے ہر آرٹیکل کو اس کے وجود اور نفاذ کی حد تک مساوی قرار دیتا ہے، البتہ ایک شرط بڑی واضح ہے کہ ہر آرٹیکل اپنے مخصوص وزن اور اہمیت کے لحاظ سے مؤثر ہو گا۔ اس طرح آرٹیکل ۲۶۸(۶) کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتا۔

(۲۹) ۱۹۷۳ء کے دستور کو بحال کرنے کے لیے صدارتی حکم نمبر ۱۴ سال ۱۹۸۵ء جاری کیا گیا۔ اسی حکم کے ذریعہ قراردادِ مقاصد کو دستور میں داخل اور اسے اس کا مؤثر اور قابلِ نفاذ حصہ بنایا گیا۔ حقیقتاً یہ ایک انقلابی قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس اقدام کا منشا اسلامیانِ پاکستان کی تشنہ تکمیل آرزوؤں کی تکمیل ہے، ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلام کے مطابق بنانا ہے ۔۔۔ ضیاء الرحمان کیس میں قراردادِ مقاصد کے مؤثر ہونے میں جن کوتاہیوں اور خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی ان سب کو آرٹیکل ۲۔اے کے ذریعہ دور کر دیا گیا ہے۔ اس طرح اب یہ دستور کا محض دیباچہ نہیں رہی، یہ مملکت کے نظریہ، عقیدہ اور منزل سے متصادم تمام امور کو چیک کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔ قراردادِ مقاصد کی اہمیت پر مزید زور دینے کے لیے سردار علی بنام محمد علی کیس (۱۹) کا حوالہ نہایت مفید ہے۔ اس میں پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس محمد افضل ظلہ نے اس پہلو سے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے عاصمہ جیلانی کیس میں استعمال شدہ تراکیب کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کے مندرجات کی اہمیت کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا رہے گا۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں انتہائی اعلٰی، اہم نظریاتی اور آئینی اصول درج کیے گئے ہیں، جیسے بطور مثال اللہ تعالٰی کی حاکمیتِ اعلٰی کو مذکورہ کیس میں ٹھوس معانی پہنائے گئے اور ان کا بھرپور اطلاق کیا گیا۔ فاضل چیف جسٹس نے یہ بھی قرار دیا کہ اس قرارداد کو تمام رسمی، آئینی اور قانونی دستاویزات پر فوری طور پر عائد کرنا ہو گا۔ انہوں نے اس بات پر مزید زور دیا کہ عدالتیں اپنے دائرہ کار میں روزمرہ کے تحت اس قرارداد پر عمل پیرا ہوتی رہیں گی۔

(۳۰) پاکستان میں فوجداری نظام کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کے سلسلے میں ایک زبردست پیش رفت شریعت ایپلٹ بنچ میں پاکستان کے چیف جسٹس محمد افضل ظلہ کے فیصلہ (۲۰) سے ہوئی۔ اس کیس میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ۲۹۹ تا ۳۳۸ کو اسلامی احکامت کے منافی قرار دیا گیا تھا جیسا کہ یہ اسلام کے نظامِ فوجداری کے بنیادی اصولوں کے انصرام میں ناکام رہیں۔ یہاں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کا یہ اقتباس مناسب ہے:

’’تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ۲۹۹ تا ۳۳۸، جو انسانی جسم سے متعلقہ جرائم کے بارے میں ہیں، اسلامی احکامات کے منافی ہیں، چونکہ وہ:

(۱ے) قتل اور جروح عمد میں قرآن و سنت کے احکاماتِ قصاص کو منضبط نہیں کرتے،

(بی) شبہ عمد اور خطا کی بنا پر قتل اور جرح میں قرآن و سنت کے احکامِ دیت صفحہ قانون پر نہیں لاتے،

(سی) فریقین کے مابین معاوضہ پر سمجھوتہ کی بنیاد پر صلح کی گنجائش نہیں دیتے،

(ڈی) جرح اور قتل کے مقدمات میں بالترتیب مجروح یا مقتول کے ورثا کی طرف سے قصوروار کی معافی کی صورت میں عدالت صرف بطور تعزیر قید کی سزا، جو عمر قید سے بہرحال کم ہو، کو مدون نہیں کرتے،

(ای) نابالغ اور فاتر العقل کو قتل کی صورت میں سزائے موت سے مستثنٰی نہیں کرتے،

(ایف) قتل و جرح کو قرآن و سنت کی تشریحات کی روشنی میں فراہم کردہ سزاؤں کے ساتھ منضبط کرنے سے قاصر ہیں۔‘‘

(۳۱) اس سلسلہ میں سندھ ہائیکورٹ کے برادر جج جسٹس وجیہ الدین نے اپنے فیصلے (۲۱) میں صراحت کی کہ قرارداد مقاصد میں درج اصول دستور کے دیباچہ میں درج محض نیک خواہشات نہیں ہیں بلکہ وہ دستور کے مؤثر حصہ میں داخل ہیں اور ہر طرح قابلِ نفاذ ہیں۔ قرارداد مقاصد کو اصل الاصول کہا جا سکتا ہے اور یہ پاکستان کے سیاسی وجود کے لیے ضمیر کے درجے میں ہے جو کہ اسلامی معاشرہ کی تعمیر کے لیے مستحکم ڈھانچہ فراہم کرتی ہے۔ اگر مملکت کا کوئی ادارہ قرارداد مقاصد کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اسے ’’اللہ کی مقرر کردہ حدود‘‘ اور قرآن و سنت میں درج ’’مقتضیاتِ اسلام‘‘ کے معیار پر پرکھتے ہوئے (بلااختیار غیر) قانونی قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی عدالتیں ایسے دفعاتِ قانون و دستور کو اللہ تعالٰی کے اعلٰی ترین قانون سے عدمِ مطابقت کی بنا پر نظرانداز اور پائمال کرنے کی پابند ہیں۔

(۳۲) گل حسن کیس میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ۲۹۹ تا ۳۳۸ اور ۵۴ اور ۱۰۹ کو اسلامی احکامات کے منافی ہی نہیں قرار دیا گیا بلکہ ضابطہ فوجداری کی دفعات ۴۰۱، ۴۰۲، ۴۰۲(اے،بی)، ۴۵۳، ۳۸۱، ۳۳۷ تا ۳۳۹(اے) کا شریعت ایپلٹ بنچ نے جائزہ لیا اور انہیں قرآن و سنت کے احکامات کے منافی قرار دیا گیا (حالانکہ ضوابطی قوانین کو جائزہ سے تحفظ دیا گیا تھا)۔ مذکورہ فیصلہ کو ۲۳ مارچ ۱۹۹۰ء سے مؤثر قرار دیا گیا۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل نے ایک نظرثانی کی درخواست پیش کی جس پر سماعت کے دوران موصوف کی اس یقین دہانی پر کہ عدالت کے فیصلہ کی تعمیل میں قصاص دیت آرڈیننس ۵ ستمبر ۱۹۹۰ء کو جاری کر دیا جائے گا جو ۱۲ ربیع الاول ۱۴۱۱ھ کو مؤثر ہو گا۔ اس طرح مذکورہ نظرثانی غیر مؤثر ہوئی۔ شریعت ایپلٹ بنچ کے سربراہ، پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس محمد افضل ظلہ نے قرار دیا کہ اگر موعودہ آرڈیننس ۱۲ ربیع الاول سے جاری کیا گیا اور وہ پارلیمنٹ کی طرف سے عدمِ توجہی کی نذر ہو جاتا ہے تو تعزیرات و ضابطہ کی دفعات، جن کو منافی اسلام قرار دیا گیا ہے، غیر مؤثر ہو جائیں گی۔ اور خلا کی اس صورت میں قتل و جرح کے بارے میں قصاص و دیت کا اسلامی قانونِ عامہ یعنی قرآن و سنت میں درج اسلامی احکامات قانون کا درجہ پا جائیں گے۔ اور عدالتیں قتل و جرح سے متعلقہ مقدمات کی سماعت میں اسلامی قانونِ عامہ (۲۲) قرآن و سنت میں قصاص و دیت کے احکامات کی پیروی کریں گے اور اس بارے میں زائل شدہ آرڈیننس سے راہنمائی لے سکیں گے۔

(۳۳) بعد ازاں قصاص دیت آرڈیننس جاری کیا گیا مگر وہ قومی اسمبلی کے سامنے پیش نہ کیا گیا، اس طرح یہ زائل ہو گیا۔ اب یہ امر پوری طرح طے شدہ ہے کہ عدالتوں کو رہنمائی کے لیے مذکورہ آرڈیننس کی دفعات کا لحاظ رکھنا ہو گا کیوں کہ آرڈیننس کی موجودہ حیثیت اسلامی قانونِ عامہ کی ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ  مذکورہ اسلامی قانونِ عامہ کا اطلاق بجا طور پر اسلامی میراث کے ساتھ ہماری پیوستگی کا لحاظ رکھ کر کیا گیا ہے۔

(۳۴) اس بارہ میں مزید پیش رفت کے طور پر حبیب وہاب الخیری بنام وفاق پاکستان کیس (۲۳) میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ سے ہوئی۔ اس میں قرار دیا گیا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعات ۴۰۱، ۴۰۲ اور ۴۰۲(اے) اسلامی احکامات کے منافی ہیں۔ اور پاکستان کے سیاسی سیاق میں اولی الامر سے مراد سربراہِ مملکت، صدر یا صدر کا کوئی نمائندہ جیسے گورنر ہو گا، جسے تعزیر کے تحت سزا یافتگان کو مفادِ عامہ میں معافی کا اختیار دیا گیا ہو، ایسے کسی شخص کو حدود، قصاص اور دیت کے مقدمات میں معافی دینے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی قرار دیا گیا تھا کہ اسلامی مملکت کے سربراہ کو قصاص اور دیت کے تحت دی گئی موت یا دیگر سزاؤں کی تبدیلی یا تخفیف کا بھی کوئی اختیار حاصل نہیں، کیونکہ ایسا اختیار صرف مظلوم کے ورثا یا جرح کے کیس میں مجروح کو حاصل ہے۔ ضابطہ فوجداری کی دفعات ۴۰۱، ۴۰۲، ۴۰۲(اے) حسب ذیل ہیں:

’’۴۰۱:

(۱) جب کوئی شخص کسی جرم میں سزایاب ہوا ہو تو صوبائی حکومت مجاز ہے کہ کسی وقت، غیرمشروط یا ایسی شرائط جن کو مجرم قبول کر لے، اس کی سزا معطل کر دے۔ یا جو سزا اس کے لیے تجویز کی گئی ہو، کلاً یا جزواً معاف کر دے۔

(۲) اگر کوئی شرط جس کی بنا پر سزا معطل یا معاف کی گئی ہو، صوبائی حکومت کی رائے میں پوری نہ کی گئی ہو، تو حکومت سزا کی معطلی یا معافی کو منسوخ کر سکتی ہے اور کوئی پولیس افسر اسے بلاوارنٹ گرفتار کر سکتا ہے تاکہ وہ باقی ماندہ سزا بھگتے۔

(۳) شرط جس پر دفعہ ہذا کے تحت سزا معطل یا معاف کی جائے، ایسی ہو سکتی ہے جسے رعایت پانے والا قبول کرے یا نہ کرے۔

(۴) احکام مندرجہ ضمن بالا فوجداری عدالت کے کسی ایسے حکم پر، جو اس مجموعہ کے تحت صادر کیا گیا ہو، یا کسی اور قانون کے تحت جس کی رو سے کسی کی آزادی سلب کی جا سکے، یا اس پر یا اس کی جائیداد پر کوئی ذمہ داری عائد کی جا سکے، لاگو ہوں گے۔

(۵) دفعہ ہذا کا کوئی مضمون صدر مملکت یا مرکزی حکومت کے معافی دینے، سزا کی مہلت دینے، موقوف کرنے، اور کم کرنے کے کسی اختیار میں خلل انداز نہ ہو گا، جب کہ ایسا اختیار انہیں تفویض کیا گیا ہو۔

(۶) صوبائی حکومت مجاز ہے کہ بذریعہ عام قواعد یا خاص احکام ہدایت کرے کہ کس طرح سزا معطل ہو گی یا کن شرائط پر درخواستیں پیش کی جائیں گی اور ان پر کارروائی کی جائے گی۔

۴۰۲:

(۱) صوبائی حکومت مجاز ہے کہ سزا یافتہ شخص کی مرضی کے بغیر مندرجہ ذیل میں سے کسی سزا کے عوض دوسری سزا، جو بعد میں لکھی گئی ہے، تبدیل کر دے: موت، قید سخت جو اس میعاد سے زیادہ نہ ہو جو اس پر قانوناً عائد ہو سکتی تھی، قید محض تا حدِ میعاد مذکورہ، جرمانہ۔

(۲) اس دفعہ کا کوئی مضمون تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ۵۴ اور ۵۵ پر اثرانداز نہ ہو گا۔

۴۰۲(اے):

جو اختیارات بروئے دفعات ۴۰۱ اور ۴۰۲ حکومت کو عطا ہوئے ہیں، سزائے موت کی صورت میں وہ صدر مملکت بھی استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘

(۳۵) اس سلسلہ میں ایک انتہائی قوی استدلال اور بھی ہے۔ سپریم کورٹ نے قطعیت سے طے کیا ہوا ہے کہ یہ قیاس کیا جائے گا کہ فطری انصاف کے اصول (اللہ کے قوانین) ہر قانون میں شامل کیے گئے ہیں اور ان سے متصادم ہر کارروائی باطل اور کالعدم ہو گی۔ اس نقطۂ نظر کے لحاظ سے یہ کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ ہم قانونِ الٰہی کو بالاتر قانون نہ سمجھیں اور ان سے متصادم اقدام باطل نہ ہو۔ مزید برآں سپریم کورٹ نے ایک حالیہ کیس میں قومی مفاد کو دستور کے تحت ایک اقدام کو ترجیح دی ہے۔ تمام دستوری مقتضیات کی موجودگی میں اگر ہم قانونِ الٰہی کو سپریم لا کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتے تو کیا اس کا یہ منشا نہ ہو گا کہ قانونِ الٰہی قومی مفاد میں نہیں۔ (ملاحظہ ہو وفاق پاکستان بنام محمد سیف اللہ خان، حوالہ ۲۴)۔

(۳۶) اوپر کی بحث کی روشنی میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آرٹیکل ۲۔اے مؤثر اور روبعمل ہے اور کوئی عدالت اسے نافذ کرنے سے انکار نہیں کر سکتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت دستور کے باب ۳۔اے کے تحت دیے گئے دائرہ کار میں سماعت کرے گی، اور ہائیکورٹس دیگر تمام قوانین کے بارے میں سماعت کی مجاز ہوں گی۔ وہ ان کو اسلامی احکامات، جس طرح کہ وہ قرآن حکیم اور سنتِ رسولؐ میں درج ہیں، سے متصادم قرار دیتے ہوئے حالاتِ مقدمہ کے تحت دادرسی فراہم کریں گی۔

(۳۷) بنچ کے سامنے طے طلب اہم سوال یہ ہے کہ سزاؤں اور معافی کی تاریخوں سے قطع نظر، آرٹیکل ۲۔اے کا لحاظ رکھتے ہوئے، کیا صدر مملکت کو معافی کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟ ہمارا جواب عدالتی فیصلوں اور قرآن پاک اور سنتِ رسولؐ میں درج اصول ہائے قصاص و دیت (جس طرح کہ وہ آرڈیننس میں درج ہیں) کی روشنی میں نفی میں ہے۔ صدر پاکستان کو حدود، قصاص اور دیت آرڈیننس کے تحت دی گئی موت (اور دیگر سزاؤں) کی تبدیلی اور تخفیف کا کوئی اختیار حاصل نہ ہے۔ اس طرح ہماری یہ قطعی رائے ہے کہ ایسے مقدمات میں معافی کا اختیار مقتول کے ورثا کو (جرح کی صورت میں مظلوم) کو حاصل ہے۔ لہٰذا صدر کو وہ مقدمات جن میں سزائے موت دی گئی معافی، تبدیلی یا تخفیف کا اختیار حاصل نہیں تھا۔ البتہ تعزیر کے طور پر جو سزائیں دی گئی ہیں ان کا معاملہ مختلف ہے اور ان میں صدر مملکت کو معافی کا اختیار حاصل ہے۔ البتہ یہ اختیار اس شرط کے ساتھ مشروط ہو گا کہ معافی مفادِ عامہ میں ہو۔

(۳۸) حکمِ متنازعہ کے پیرا (بی) میں قتل کے جرم کے علاوہ مستورات کو فوجی یا دیگر عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزاؤں میں کوئی استثنٰی نہیں ہو گا۔ یہی صورتحال پیرا (سی) سے متعلق ہو گی۔ البتہ پیرا (ڈی) کے بارے میں ہم یہ قرار دیتے ہیں کہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے سزایاب جنہیں قصاص و دیت یا حدود کے تحت سزا نہیں دی گئی، حکمِ متنازعہ کے تحت معاف کی جا سکتی تھیں، لہٰذا ہم یہ قرار دیتے ہیں کہ صدر کو اس کا اختیار حاصل تھا۔ نتیجہ کے طور پر موجودہ رٹ درخواست منظور کی جاتی ہے اور قرار دیا جاتا ہے کہ مسئول علیہم کو دی گئی موت کی سزائیں صدر کی طرف سے عمر قید میں تبدیل نہیں کی جا سکتی تھیں۔

دستخط: ریاض احمد، جج

دستخط: راجہ افراسیاب خان، جج

دستخط: ملک محمد قیوم، جج

راجہ افراسیاب خان:

(۱) مجھے برادر جج شیخ ریاض احمد کے مجوزہ فیصلہ کو پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ موصوف کے فیصلہ میں وجوہات اور حوالہ جات موجود ہیں۔ متنازعہ امور کی پبلک اہمیت کے پیشِ نظر میں مختصر سا نوٹ علیحدہ طور پر بھی لکھنا پسند کرتا ہوں۔

(۲) درخواست گذاران کے وکلاء نے موجودہ درخواست میں مورخہ ۸/۱۲/۱۹۸۸ کے صدر کے اس حکم کو چیلنج کیا ہے جو صدر نے وزیراعظم کے مشورہ پر جاری کیا۔ مذکورہ حکم کی رو سے صدر نے ۶/۱۲/۱۹۸۸ سے قبل فوجی اور دوسری عدالتوں سے دی جانے والی موت کی سزاؤں کو عمر قید میں تبدیل کیا تھا۔ صدر نے فوجی عدالتوں کی طرف سے مارشل لاء ریگولیشن نمبر ۳۱ کے تحت غیر حاضری میں دی گئی سزاؤں کو بھی معاف کیا تھا۔ البتہ یہ ہدایت جاری کی گئی کہ ایسے اشخاص کے مقدمات کی باقاعدہ سماعت عام عدالتوں میں کی جائے گی۔ ساٹھ سال سے زائد عمر کے سزایافتگان، جو گذشتہ پانچ سال سے قید میں ہیں، کی سزائیں معاف ہوں گی۔ مسلح افواج کے افراد کے علاوہ جو ڈرگز، سمگلنگ، بدعنوانی، خیانت، بنک فراڈ، رہزنی، ڈکیتی، قتل، زنا یا غیر فطری فعل کے جرائم کے سوا جرائم میں فوجی عدالتوں سے سزایافتگان معاف کر دیے جائیں، اور مسلح افواج کے افراد کے مقدمات پر افواج کے مجاز حکام نظرثانی کریں گے۔ صدر نے فوجی یا دیگر عدالتوں سے سزا پانے والوں کو بلاامتیاز تین ماہ کی معافی دی۔ اسی طرح یہ بھی ہدایت کی گئی کہ سماعت مقدمہ کے دوران جیل کا عرصہ سزا میں سے منہما کر دیا جائے گا۔

(۳) درخواست گزاران کی طرف سے بنیادی استدلال یہ اختیار کیا گیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل ۲۔اے کی روشنی میں پاکستان کی مختلف مجاز عدالتوں کی طرف سے دی گئی موت کی سزاؤں کی تبدیلی یا معافی کا سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں رکھتا۔ یہ استدلال کیا گیا کہ معافی کا اختیار اسلامی احکامات کے تحت مقتول کے ورثا کو حاصل ہے اور صدر دستور کے آرٹیکل ۴۵ کے تحت یہ اختیار استعمال نہیں کر سکتا۔ یہ کہا گیا کہ قرارداد مقاصد دستور ساز اسمبلی کی طرف سے ۱۲/۳/۱۹۴۹ کو منظور کی گئی اور ۱۹۷۳ کے دستور کا جزو لاینفک بنائی گئی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ قرارداد مقاصد جو ابتدا میں ۱۹۵۶، ۱۹۶۲ اور ۱۹۷۲ کے دساتیر میں دیباچہ کے طور پر شامل کی گئی تھی، ۱۹۸۵ میں ۱۹۷۳ کے دستور میں اس کے مؤثر جزو کے طور پر داخل کی گئی۔ اس غرض کے لیے آرٹیکل ۲۔اے ایزاد کیا گیا۔ مختصرًا آرٹیکل ۲۔اے کا منشا یہ ہے کہ تمام تر کائنات کا حقیقی حاکم و مقتدر علٰی اللہ تعالٰی ہی بلاشرکتِ غیرے ہے اور لوگوں پر حکمرانی کا اختیار ایک امانت ہے۔ ان اختیارات کا استعمال عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعہ کیا جائے گا۔ یہ کہا گیا کہ جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور سماجی عدل کے اصول، جس طرح کہ اسلامی احکامات نے ان کو متشکل کیا ہے، کی لفظاً اور معناً پوری پابندی کی جائے گی۔ مسلمانوں کو ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اسلامی احکامات کا پابند بنایا جائے گا۔ اقلتیوں کو ان کے عقائد پر عمل اور ثقافت کی ترقی کے لیے اپنے مذاہب کی تعلیمات کے مطابق پوری سہولت دی جائے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ بنیادی حقوق بشمول حیثیت، مواقع اور قانون کے سامنے برابر، سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف، فکر، اظہار، اور عقیدہ اور جماعت سازی کی آزادی کی ضمانت دی جائے گی۔ عدلیہ خودمختار اور آزاد ہو گی۔ پسماندہ علاقوں اور لوگوں کی ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔ اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا، جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب (۲۵)میں تحریر فرمایا:

’’قرارداد مقاصد نے اس امر کی تصدیق کی کہ تمام تر کائنات پر مطلق اختیار صرف اور صرف اللہ تعالٰی کا ہے۔ اس ذاتِ برتر نے جو اختیار مملکتِ پاکستان کو عوام الناس کے ذریعہ تفویض کیا ہے، ایک مقدس امانت تھا۔ یہ قرارداد وفاقی مملکت جس میں منتخب نمائندوں کی حکمرانی کا اشارہ دیتی ہے اور اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے، اور یہ جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی عدل کے اصولوں کی، جس طرح اسلام نے ان کو پیش کیا ہے، علم بردار ہے۔ ‘‘

آرٹیکل ۲۔اے سے بلا شک و شبہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تشکیل کی بنیاد اللہ تعالٰی کے احکامات ہیں۔ جس طرح کہ یہ احکام قرآن حکیم میں درج ہیں۔ ان احکامات کی پیروی میں پاکستانی عوام ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی فلاح مضمر ہے۔ دوسرے لفظوں میں محروم طبقات جو کہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں، کو سماجی، اقتصادی اور سیاسی طور پر اٹھایا جائے گا تاکہ انہیں پاکستان کی اقتصادیات میں مستحکم کیا جائے۔ میرے نزدیک قرارداد مقاصد میں ان مقدس اصولوں کی صراحت کر دی گئی جو کہ ناقابل تغیر اور استثنٰی ہیں۔ اس طرح میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ یہ آرٹیکل دستور کی دیگر دفعات سے بلند تر درجہ کا حامل ہے۔ اس لحاظ سے عدالتیں قرآن و سنت کے اصولوں کے تحفظ کی پابند ہیں۔ اس نقطۂ نظر کو قیامِ پاکستان کے معاً بعد اعلٰی عدالتوں کے سامنے مناسب مقدمات میں متواتر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ عاصمہ جیلانی کیس (۳) میں یہ استدلال کیا گیا تھا کہ قرارداد مقاصد پاکستان کے لیے اصل الاصول فراہم کرتی ہے۔ اس طرح یہ نہ صرف عبوری دستور بلکہ آئندہ دستور پر بھی بالادست ہے۔ اس استدلال کو سپریم کورٹ نے حسبِ ذیل قرار کے ساتھ مسترد کر دیا تھا۔

’’ہمیں بنیادی اقتدار کی تلاش میں مغرب کے ماہرینِ قانون کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا اصل الاصول یہ ہے کہ تمام کائنات پر قانونی اقتدارِ اعلٰی بلاشرکتِ غیرے اللہ تعالٰی کا ہے، اور اس کا تفویض کردہ اختیار اس کی ہدایات کے ماتحت مقدس امانت ہے۔ یہ اصل الاصول ہے جسے قرارداد مقاصد میں پوری صراحت کے ساتھ ثبت کیا گیا ہے۔ یہ اساسی اصول ناقابل تغیر و استثنٰی ہیں۔ یہ قرارداد ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور ہوئی ۔۔۔‘‘

’’اگر اسے دستور میں داخل نہ کیا گیا یا یہ دستور کا جزو نہ ہو تو یہ دستور کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ اگرچہ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جسے قبولیتِ عامہ حاصل ہے اور اسے کبھی منسوخ کیا گیا ہے اور نہ ہی اس سے کبھی برأت کا اظہار کیا گیا، اس کے باوجود اسے کسی دستوری دفعہ کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہ دستور میں داخل نہ کر دی جائے یا اسے دستور کا حصہ بنا دیا جائے۔‘‘

درج بالا فیصلہ سے یہ عیاں ہے کہ سپریم کورٹ نے قراردادِ مقاصد کی اہمیت واضح کی ہے لیکن یہ بھی واضح کر دیا کہ کوئی دستاویز بالاتر قانون تسلیم نہیں کی جا سکتی جب تک کہ وہ دستور کا مؤثر حصہ نہ بنا دی جائے۔ پس مقننہ نے اس مشکل کو دور کرنے کے لیے قرارداد مقاصد کو دستور ۱۹۷۳ کا مؤثر حصہ بناتے ہوئے صدارتی حکم نمبر ۱۴ مورخہ ۲ مارچ ۱۹۸۵ جاری کیا گیا۔ دستور میں اس تبدیلی کا نوٹس سردار علی وغیرہ بنام محمد علی وغیرہ (۱۹) کیس میں لیا گیا اور یہ قرار دیا گیا  کہ عدالتوں کو قرارداد مقاصد کی تنفیذ کا اختیار آرٹیکل ۲۔اے کے تحت حاصل ہو گا۔

اس طرح فاضل کونسل کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا قرآن و سنت کی روشنی میں بہرطور پر جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اسلامی قوانین کے نفاذ میں ایک اہم پیش رفت نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کے نفاذ مورخہ ۱۸/۶/۱۹۹۱ سے ہوئی ہے۔ ایکٹ مذکورہ کی دفعہ نمبر ۳ میں لکھا ہے کہ اسلامی احکامات جس طرح کہ وہ قرآن و سنت میں درج ہیں پاکستان کا سپریم لا ہوں گے۔ اسی طرح ۲۴/۸/۱۹۹۱ کو تعزیراتِ پاکستان اور ضابطہ فوجداری کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کے لیے قانون فوجداری (ترمیم ثانی) آرڈیننس ۱۹۹۰ جاری کیا گیا۔ مذکورہ آرڈیننس کی دفعہ ۳۰۹ اور ۳۱۰ میں قصاص کی صورت میں راضی نامہ کا ضابطہ فراہم کیا گیا۔ دونوں دفعات کا متن زیرغور استدلال کی صراحت کے لیے درج کیا جاتا ہے۔

’’۳۰۹: ولی کا قتلِ عمد میں قصاص زائل کرنا:

(۱) قتلِ عمد کی صورت میں عاقل، بالغ ولی کسی وقت بھی اور بغیر معاوضہ کے اپنا حقِ قصاص زائل کر سکتا ہے۔ ‘‘

’’۳۱۰: قتلِ عمد میں قصاص کا راضی نامہ (صلح):

(۱) قتلِ عمد کی صورت میں عاقل، بالغ ولی کسی وقت بھی عوض صلح وصول کر کے اپنے حق قصاص پر راضی نامہ کر سکتا ہے۔‘‘

مختصرًا اوپر کی مذکورہ دفعات میں راضی نامہ اور معاوضہ وصول کر کے سزایافتگان کے ساتھ سمجھوتہ کی صورت فراہم کی گئی ہے۔ میرے نزدیک یہ دفعات دستور کے صدارتی اختیارات کے برعکس مؤثر ہوں گی۔ اس طرح اسلامی احکامات آرٹیکل ۲۔اے کے تحت روبعمل ہوں گے۔ میں برادر جج جسٹس شیخ ریاض احمد کے مجوزہ فیصلہ کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں۔

حکم بمطابق فیصلہ

حوالہ جات


(1) Lettor No 8/15/88 Ptns Islamabad
(2) Ziau Rahman Case PLD 1972 SC 49
(3) Asma Jilani Case PLD SC 139
(4) Hussein Naqi Case PLD 1973 LAH 164
(5) Parliamentary Practice 531
(6) Benazir Bhuto Case PLD 1988 SC 416 AT 522
(7) President's Order No 3 of 1979
(8) President's Order No 1 of 1980
(9) President's Order No 14 of 1985
(10) Benazir Bhuto Case PLD 1988 SC 416
(11) Manzur Elahi Case PLD 1975 SC 66
(12) Malk Ghulam Mustafa Khar Case PLD SC 26
(13) Niaz aHmed Case PLD 1977 KAR 604
(14) Habib Bank Case PLD 1989 Karachi 371
(15) PLD 1975 SC 506 F.B Ali VS State
(16) PLD 1966 SC 854 East Pakistan Vs Siraj-ul-Haq
(17) PLD 1963 SC 486 Fazal-ul-Qadir Choudry vs Abdul Haq
(18) PLD 1958 SC 437
(19) PLD 1988 SC 287 Sardar Ali Case
(20) PLD 1989 SC 633 Gul Hasan Case
(21) 1990 CLC 428
(22) PLD FSC 236 Wahab Al-Khairy Case
(23) PLD 1989 SC 166
(24) Constitution Law and Pakistan Affairs 7

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(اکتوبر ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter