سیرتِ نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی انسانی تاریخ کی وہ منفرد اور ممتاز ترین شخصیت ہے جس کے حالات زندگی، عادات و اطوار، ارشادات و فرمودات، اور اخلاق حسنہ اس قدر تفصیل کے ساتھ تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں کہ آنحضرتؐ کی زندگی ایک کھلی کتاب کے طور پر نسل انسانی کے سامنے ہے اور آپؐ کی معاشرتی و خاندانی حتیٰ کہ شخصی اور پرائیویٹ زندگی کا بھی کوئی پہلو تاریخ کی نگاہوں سے اوجھل نہیں رہا۔ اسے محض اتفاق قرار نہیں دیا جا سکتا کہ انسانی تاریخ اپنے دامن میں جناب رسول اللہؐ کے سوا کسی اور شخصیت کے احوال و اقوال کو اس اہتمام کے ساتھ محفوظ نہیں رکھ سکی۔ بلکہ یہ قدرتِ خداوندی کا اظہار اور اللہ تعالیٰ کے تکوینی فیصلے کا آئینہ دار ہے کہ جب اللہ رب العزت نے اپنے پاکیزہ کلام قرآن کریم میں جناب محمد رسول اللہؐ کی زندگی کو پوری نسل انسانی کے لیے اسوہ اور نمونہ قرار دیا تو اس اسوۂ حسنہ او رنمونۂ کامل کا اپنی تمام جزئیات و تفصیلات کے ساتھ تاریخ کے صفحات پر محفوظ رہنا اس حکم خداوندی کا منطقی تقاضہ ہے۔ اور یہ منطقی تقاضہ ایک معجزہ کے طور پر تاریخ انسانی کا ناقابل فراموش باب بن چکا ہے۔

انسانی فطرت ہے کہ ایک انسان زندگی کے کسی بھی شعبہ میں قدم رکھنے اور آگے بڑھنے سے پہلے اپنے سے بہتر شخص کے عمل و کردار کو بطور نمونہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جو شخص کسی بھی حوالے سے اس کی نظروں میں بہتر اور خوب قرار پاتا ہے اس کی پیروی کو وہ اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ’’آئیڈیل کی تلاش‘‘ کا تصور اسی انسانی فطرت کا اظہار ہے اور اللہ رب العزت نے نسل انسانی کی ہدایت و راہنمائی کے نظام میں اس کی فطرت کے اس پہلو کا لحاظ رکھا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کی سب سے پہلی سورہ الفاتحہ میں انسان کو ہدایت کے لیے جو دعا سکھائی گئی ہے وہ یہی ہے کہ

’’اے اللہ! ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تیرا انعام ہوا ، نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جو تیرے غضب کا شکار ہوئے۔‘‘

یہ انعام یافتہ لوگ جن کے نقش قدم پر چلنے کی سورہ فاتحہ میں تلقین کی گئی ہے بلاشبہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے سچے پیروکاروں کا مقدس گروہ ہے جو اپنے کردار و اخلاق کے اعتبار سے نسل انسانی کا سب سے ممتاز طبقہ ہے۔ اور نسل انسانی نے اپنے اپنے دور میں اس طبقہ کے ہر فرد سے راہنمائی اور ہدایت حاصل کی ہے۔ لیکن ان نیک اور پارسا شخصیات کی زندگیاں اپنی اپنی جگہ ہدایت کا منبع ہونے کے باوجود آج کے انسان کے لیے تاریخ کے صفحات پر اس انداز سے محفوظ نہیں ہیں کہ وہ ان سے اپنی زندگی کے مسائل و مشکلات میں راہنمائی حاصل کر سکے۔ سوائے جناب محمد رسول اللہؐ کی حیات مبارکہ کے کہ آج کا انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں راہنمائی حاصل کرنا چاہے تو اسے آنحضرتؐ کے حالاتِ زندگی یا اقوال و ارشادات میں راہنمائی کی کوئی نہ کوئی بنیاد ضرور مل جائے گی۔ یہ محض عقیدت کا اظہار نہیں بلکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جسے آزمائش کی کسی بھی کسوٹی پر آج بھی پرکھا جا سکتا ہے۔

آج نسل انسانی جس ذہنی انتشار، دلی بے اطمینانی اور معاشرتی انارکی کا شکار ہے اس نے ان تمام نظریات، افکار، فلسفوں اور نظاموں کے بھرم توڑ کر رکھ دیے ہیں جن کے تانے بانے خود انسان ہزاروں برس سے اپنے اردگرد بنتا آرہا ہے، اور جن کے سہارے انسانی معاشرہ کو امن و سکون کی منزل سے ہمکنار کرنے کا کوئی بھی خواب تعمیر کا دامن نہیں تھام سکا۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بے راہ روی کے تپتے ہوئے ریگستان میں بھٹکنے والی انسانی کی راہنمائی اس سرچشمۂ ہدایت کی طرف کی جائے جو سب سے زیادہ محفوظ، شفاف، شفا بخش اور خوش ذائقہ ہے۔ اور بلاشبہ وہ جناب رسول اللہؐ کا اسوہ حسنہ ہے جس کی پیروی کے بغیر نسل انسانی امن و سکون کی حقیقی منزل سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سراپا مجموعۂ صفاتِ حمیدہ ہے۔ آپؐ کی حیات مبارکہ کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو اربابِ بصیرت اور اہلِ فکر و دانش سے خراج عقیدت وصول نہ کر چکا ہو۔ لیکن آنحضرتؐ کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو جس نے دوست و دشمن سب کو اس بارگاہ خیر و حسن میں سرنیاز خم کرنے پر مجبور کر دیا، آپؐ کے اخلاق کریمانہ ہیں جسے

  • قران کریم نے ’’خلق عظیم‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
  • ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کان خلقہ القرآن کہہ کر اسے قرآن پاک کی عملی تعبیر و تفسیر قرار دیا ہے۔
  • جناب رسالت مآب ایک حدیث میں خود اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق کہ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ایک اور روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ ’’مجھے اچھے کام مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔ اور یہ امر واقعہ ہے کہ آنحضرتؐ نے اچھے کاموں یعنی مکارم اخلاق کو جن بلندیوں سے ہمکنار کیا ان کی مثال پیش کرنے سے تاریخ آج تک قاصر ہے۔ آپؐ نے اپنے پیروکاروں کو بھی اچھی عادات اور بہتر معاملات کی تلقین فرمائی ہے۔ اور اخلاق کریمانہ انہی دو امور سے عبارت ہے۔
  • ایک حدیث میں ارشاد نبویؐ ہے مجھے تم سب میں سب سے زیادہ اچھا وہ شخص لگتا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور سب سے برا میرے نزدیک وہ ہے جو برے اخلاق کا حامل ہے۔
  • ایک اور حدیث کے مطابق آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ صاحب ایمان شخص اچھے اخلاق کی بدولت ان لوگوں جیسا مقام حاصل کر لیتا ہے جو رات بھر نفل پڑھنے اور دن کو روزہ رکھنے کے عادی ہیں۔
  • ایک حدیث میں یوں ارشاد فرمایا کہ زیادہ کامل ایمان ان لوگوں کا ہے جو اچھے اخلاق والے ہیں۔
  • ایک صحابیؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! انسان کو سب سے بہتر چیز کون سی عطا ہوئی ہے؟ فرمایا، اچھے اخلاق۔
  • حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی اکرمؐ نے آخری ملاقات میں جو وصیت کی اس میں فرمایا کہ تم لوگوں کے ساتھ اپنے اخلاق بہتر بناؤ۔
  • ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جناب رسالت مآبؐ اپنے بارے میں یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ! تو نے جس طرح میری جسمانی بناوٹ کو بہتر بنایا ہے اس طرح میری عادات و اخلاق کو بھی بہتر کر دے۔
  • حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جس نے جھوٹ ترک کر دیا اس کا ٹھکانہ جنت کے آغاز میں ہوگا، جس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا ترک کیا اس کا ٹھکانہ جنت کے درمیان ہوگا، اور جس نے اپنی ساری عادات و اخلاق کو بہتر بنا لیا اسے جنت کے سب سے اوپر والے حصہ میں جگہ ملے گی۔

اخلاق و عادات کے حوالہ سے جناب رسول اللہؐ نے صرف اپنی زندگی اور عمل کا نمونہ ہی پیش نہیں کیا بلکہ اپنی تعلیمات و ہدایات میں اچھے اور برے اخلاق کے درمیان ایک حد فاصل قائم کر دی ہے۔ آپؐ نے اخلاق حسنہ کا ایک ایسا معیار مقرر کر دیا ہے جو ڈیڑھ ہزار سال کے لگ بھگ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس باب میں حرف آخر ہے۔ آپؐ نے اچھے اخلاق کی تفصیل بیان فرمائی ہے، اچھی عادات کا ذکر کیا ہے، ان میں سے ہر ایک کے فوائد سے لوگوں کو آگاہ کیا ہے، اور پھر خود ان پر عمل کر کے اس کا نمونہ پیش کیا ہے۔ اسی طرح جناب نبی کریمؐ نے برے اخلاق اور بد عادات کا تذکرہ فرمایا ہے، ان کے نتائج سے لوگوں کو خبردار کیا ہے، اور خود اس سے بچ کر بری عادات سے گریز کی عملی تربیت دی ہے۔

یہ انسانی معاشرہ پر درسگاہِ نبویؐ کا سب سے بڑا احسان ہے کہ اسے اخلاق کریمانہ کی تعلیم اور اس پر عملدرآمد کا پورا پیکیج ایک ہی جگہ حسین توازن کے ساتھ مل رہا ہے۔ اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ ان کی تربیت یافتہ جماعت (صحابہ کرامؓ) کی اجتماعی زندگی بھی کھلی کتاب کی صورت میں لوگوں کے سامنے ہے جو اجتماعی اخلاق و آداب اور عادات و اطوار میں قیامت تک انسانی معاشرہ کی راہنمائی کرتی رہے گی۔

سیرت و تاریخ

(اکتوبر ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter