توہینِ رسالتؐ کی سزا کا قانون اور قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

معزز اراکین خصوصی کمیٹی! سلام مسنون!

روزنامہ جنگ لاہور ۲۳ اپریل ۱۹۹۴ء میں شائع ہونے والی ایک خبر سے معلوم ہوا کہ قومی اسمبلی آف پاکستان نے گستاخِ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کے حوالہ سے (۱) وزیر داخلہ جناب نصیر اللہ بابر (۲) وزیر قانون جناب اقبال حیدر (۳) وزیر امور بہبود آبادی جناب جے سالک (۴) مولانا محمد اعظم طارق ایم این اے (۵) مولانا شہید احمد ایم این اے (۶) مولانا عبد الرحیم ایم این اے (۷) جناب مظفر احمد ہاشمی ایم این اے (۸) فادر روفن جولیس ایم این اے اور (۹) جناب طارق سی قیصر ایم این اے پر مشتمل خصوصی کمیٹی قائم کی ہے جو اس قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے سفارشات کرے گی۔

اس سلسلہ میں اس سے قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل، وفاقی حکومت، اسلامی نظریاتی کونسل، ہیومن رائٹس کمیشن اور وفاقی لا کمیشن کے حوالہ سے مختلف خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں اور ان سب کو سامنے رکھتے ہوئے چند ضروری معروضات پیشِ خدمت کرنا ضروری سمجھتا ہوں:

  • جہاں تک گستاخِ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کو تبدیل کرنے کا مسئلہ ہے، اس قسم کی کوئی ترمیم اسلامیانِ پاکستان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو گی کیونکہ یہ شرعی سزا ہے اور اس میں تبدیلی یا تخفیف شرعی احکام میں تحریف کے مترادف ہو گی۔ مزید برآں ہولی بائبل کی مندرجہ ذیل آیات کی رو سے بھی مذہبی پیشوا اور کتابِ مقدس کی توہین کی سزا موت ہے، اس لیے مسیحی کمیونٹی کے لیے اس سزا پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے (استثنا ۱۷ : ۱۲ و ۱۳ ، ہوسیع ۷ : ۱۶ ، پطرس ۲ : ۱۰ تا ۱۲ ، ۲۔سموئیل ۶ : ۶ تا ۸ ، ۱۔سموئیل ۵ : ۱ تا ۱۲)
  • البتہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو اس قانون میں شامل کرنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا بلکہ اس کا خیرمقدم کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کسی بھی سچے پیغمبر کی شان میں گستاخی ہمارے نزدیک یکساں جرم ہے۔
  • اسی طرح اگر اس قانون کے غلط استعمال کی روک تھام کے لیے کسی بھی مقدمہ میں ایف آئی آر کے اندراج سے قبل مجسٹریٹ کی انکوائری کی شرط عائد کی جائے تب بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اس کا خیرمقدم کیا جائے گا۔

اس موقع پر معزز ارکان خصوصی کمیٹی اور ان کی وساطت سے قومی اسمبلی کے معزز ایوان کی خدمت میں یہ تجویز پیش کرنا چاہوں گا کہ رتہ دوہتڑ توہینِ رسالتؐ کیس اور منظور مسیح قتل کیس، جو اس وقت عالمی شہرت حاصل کر چکے ہیں، ان دونوں کیسوں کی انکوائری بھی ’’خصوصی کمیٹی‘‘ کرے اور اس سلسلہ میں ایک جامع رپورٹ سامنے لائی جائے جو ان دو کیسوں کے بارے میں عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف کیے جانے والے منفی پراپیگنڈا کا ازالہ کر سکے۔ مجھے یقین ہے کہ ان دو کیسوں کے بارے میں خصوصی کمیٹی کی رپورٹ نہ صرف عالمی سطح پر صحیح صورتحال کو سامنے لانے کا ذریعہ بنے گی بلکہ اندرون ملک بھی کشیدگی اور کشمکش میں کمی کا باعث ہو گی۔ امید ہے کہ معزز ارکان خصوصی کمیٹی ان معروضات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں گے اور جواب سے آگاہ فرمائیں گے۔

نوٹ: اس عرضداشت کی کاپیاں قومی اسمبلی اور سینٹ کے دیگر اہم افراد کو بھی بھجوائی جا رہی ہیں۔

والسلام، ابوعمار زاہد الراشدی

چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم

خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ



حالات و واقعات

مکاتیب

(مئی ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter