حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ اقدس ہی سے اہلِ اسلام میں گستاخِ رسولؐ کے لیے سزائے موت مقرر ہے۔ فقہ و حدیث کی کتابوں میں اس قانون کی وضاحت کے علاوہ علماء کرام نے اس موضوع پر مستقل کتب بھی رقم فرمائی ہیں جن میں علامہ ابن تیمیہؒ کی ’’الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول‘‘، علامہ تقی الدین السبکیؒ کی ’’السیف المسلول علیٰ من سب الرسول‘‘ اور علامہ ابن عابدین شامیؒ کی ’’تنبیہہ الولاۃ والحکام علیٰ احکام شاتم خیر الانام اواحد اصحابہ الکرام‘‘ اہلِ علم میں معروف و متداول ہیں۔ اس لیے شاتمِ رسولؐ کے لیے سزائے موت کے اثبات کے لیے ہمیں قرآن و حدیث کی روشنی میں مضمون مرتب کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ البتہ کچھ عرصہ سے مسیحی حضرات کی طرف سے اس سزا کے خلاف مسلسل احتجاج و ہنگامہ جاری ہے، اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ شاتمِ رسول کے لیے سزائے موت کا اثبات بائبل مقدس سے کر کے مسیحی حضرات کے سامنے رکھا جائے تاکہ وہ اپنا بلاوجہ احتجاج و ہنگامہ بند کریں۔
انجیل میں مسیحیوں کو حکومتی قوانین اور فیصلوں کی مخالفت سے باز رکھنے کے لیے بڑے سخت الفاظ میں وعید مرقوم ہے:
’’ہر شخص اعلیٰ حکومتوں کا تابعدار رہے کیونکہ کوئی حکومت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں خدا کی طرف سے مقرر ہیں، پس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے وہ خدا کے انتظام کا مخالف ہے اور جو مخالف ہیں وہ سزا پائیں گے۔‘‘ (رومیوں ۱۳ : ۱ و ۲۔پطرس ۲ : ۱)
مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ پاکستانی مسیحی انجیل جلیل کی تعلیمات کو بھول کر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵سی کے خلاف بولتے نہیں تھکتے، بلکہ اکثر اوقات قانون شکنی کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ مسیحی حضرات نے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵سی یعنی ’’گستاخِ رسولؐ کے لیے سزائے موت‘‘ کو ختم کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے (دیکھیے مسیحی پندرہ روزہ شاداب لاہور، نومبر ۱۹۹۳ء)۔ حالانکہ بائبل مقدس سے نہ صرف شاتمِ رسولؐ کے لیے بلکہ رسول کے علاوہ دوسری مقدس ہستیوں کے گستاخ کے لیے بھی موت کی سزا ثابت ہے، ایسے میں مسیحیوں کا اس قانون کی مخالفت کرنا بائبل کی مخالفت کے مترادف ہے۔
کاہن و قاضی کے گستاخ کی سزا موت
بائبل کی کتاب استثنا میں ہے:
’’اگر کوئی شخص گستاخی سے پیش آئے کہ اس کاہن کی بات جو خداوند تیرے خدا کے حضور خدمت کے لیے کھڑا رہتا ہے یا اس قاضی کا کہا نہ سنے تو وہ شخص مار ڈالا جائے اور تو اسرائیل میں سے ایسی برائی کو دور کر دینا اور سب لوگ سن کر ڈر جائیں گے اور پھر گستاخی سے پیش نہیں آئیں گے۔‘‘ (استثنا ۱۷ : ۱۲ و ۱۳)
اگر حاکم و قاضی و کاہن کی شان میں گستاخی کی سزا موت ہے تو نبی، جو کہ لاکھوں کاہنوں اور قاضیوں سے افضل ترین ہوتا ہے، کی شان میں گستاخی کرنے والا کیونکر بچ سکتا ہے۔ اور گستاخانِ رسالتؐ کی پشت پناہی کرنے والے امرا سے متعلق بائبل میں ہے:
’’ان کے امرا اپنی زبان کی گستاخی کے سبب سے تہ تیغ ہوں گے۔‘‘ (ہوسیع ۷ : ۱۶)
’’حکومت کو ناچیز جانتے ہیں وہ گستاخ اور خود رای ہیں اور عزت داروں پر لعن طعن کرنے سے نہیں ڈرتے ۔۔۔ یہ لوگ بے عقل جانوروں کی مانند ہیں جو پکڑے جانے اور ہلاک ہونے کے لیے حیوان مطلق پیدا ہوئے ہیں۔‘‘ (۲۔پطرس ۲ : ۱۰ تا ۱۲ ، یو ایل ۲ : ۲)
توریت کے گستاخ کی سزا موت
پوری قوم بنی اسرائیل کے پاس توریت کا صرف ایک ہی نسخہ تھا۔ توریت ہر سات برس بعد عوام کو صرف ایک بار عید خیام کے روز پڑھ کر سنائی جاتی تھی (استثناء ۳۱ : ۹ تا ۱۱)۔ اس کے علاوہ توریت کا وہی واحد نسخہ ہمیشہ ایک لکڑی کے صندوق میں رکھا رہتا تھا۔ اس صندوق کو عہد کا صندوق کہا جاتا تھا (خروج ۲۵ : ۱۰ تا ۲۲)۔ کوئی شخص اگر بھول کر اس صندوق کو ہاتھ لگاتا تو اسے صندوق کی شان میں گستاخی سمجھ کر ہاتھ لگانے والے کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ صندوق میں محض جھانک لینے کی گستاخی پر بیت شمس کے پچاس ۔۔۔ ستر آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ایک دفعہ مذکورہ بالا صندوق کو بیل گاڑی پر لاد کر لے جایا جا رہا تھا، بیل گاڑی کو عزہ ہانک رہا تھا کہ اچانک بیلوں نے ٹھوکر کھائی تو غیر ارادی طور پر عزہ کا ہاتھ مذکورہ صندوق کو لگ گیا، پھر کیا تھا، اسے عزہ کی طرف سے صندوق کی شان میں گستاخی قرار دے کر مار دیا گیا (۲۔ سموئیل ۶ : ۶ تا ۸)۔ صندوق مذکورہ کی مزید ہلاکت خیزیاں جاننے کے لیے ملاحظہ ہو ۱۔سموئیل ۵ : ۱ تا ۱۲۔
والدین کے گستاخ کی سزا موت
بائبل کے مطابق تو والدین کے گستاخ کی سزا بھی موت ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:
’’جو باپ یا ماں کو برا کہے وہ ضرور جان سے مارا جائے۔‘‘ (انجیل متی ۱۵ : ۴)
میں مسیحی حضرات سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ لوگ انبیائے بائبل کو اپنے باپ سے بھی کمتر سمجھتے ہیں؟ حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ اس شخص کا ایمان ہرگز قابلِ قبول نہیں جو والدین سے بھی زیادہ اپنے نبی کو عزیز نہ رکھتا ہو۔ جیسا کہ یسوع مسیح نے فرمایا تھا:
’’جو کوئی باپ یا ماں کو مجھ سے عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں۔‘‘ (متی ۱۰ : ۳۷ اور لوقا ۱ : ۲۶ و ۳۳)
صحیح بخاری میں سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سید الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’اس کی قسم جس کے قبضہ میری جان ہے، تم میں سے اس وقت تک کوئی بھی پورا ایمان دار نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے بیٹے اور اس کے باپ سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں‘‘ (مشارق الانوار مطبوعہ لکھنؤ ۱۲۸۶ھ بمطابق ۱۸۷۰ء حدیث ۱۵۳۹)
مسیحی بھائیو! اگر ماں باپ کے گستاخ کی سزا قتل ہے تو پھر اس عظیم الشان نبیؐ کی شانِ مبارک میں گستاخی کرنے والے کو کیوں قتل نہ کیا جائے؟
گستاخِ رسول کی سزا موت
حضرت داؤد علیہ السلام کا نبی اللہ ہونا انجیل سے ثابت ہے (عبرانیوں ۱۱ : ۳۲)۔ معون کے رہنے والے نابال نامی ایک شخص نے حضرت داؤدؑ کے متعلق گستاخانہ الفاظ ادا کیے کہ ’’داؤد کون ہے اور یسی کا بیٹا کون ہے؟‘‘ اس کی خبر جب داؤد نبیؑ کو ہوئی تو زبانِ نبوت سے شاتِم رسول کے لیے قتل کے احکامات یوں صادر ہوئے:
’’تب داؤد نے اپنے لوگوں سے کہا اپنی تلوار باندھ لو، سو ہر ایک نے اپنی تلوار باندھی اور داؤد نے بھی اپنی تلوار حمائل کی۔ سو قریباً چار سو جوان داؤد کے پیچھے چلے۔‘‘ (۱۔سموئیل ۲۴۵ : ۲ تا ۱۳)
کسی طرح گستاخِ رسول نابال کی بیوی ابیجیل کو خبر ہو گئی کہ اس کا شوہر گستاخِ رسول ثابت ہوا ہے اور زبانِ نبوت سے اس کے لیے سزائے موت کا حکم صادر ہوا ہے تو اس عورت نے بہت ہی منت سماجی کر کے حضرت داؤد کو نابال کے قتل سے روک لیا۔ لیکن خدا نے نابال کو دس دن کے اندر اندر مار دیا کیونکہ خدا کو ایک شاتمِ رسول کی زندگی ہرگز گوارہ نہیں (۱۔سموئیل ۲۵ : ۲ تا ۳۸)۔
قارئین کرام ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ بائبل مقدس کے مطابق ماں باپ کا گستاخ واجب القتل ہے (خروج ۲۱ : ۱۶، متی ۱۵ : ۴ ، مرقس ۷ : ۱۰)۔ حاکم اور قاضی اور کاہن کا گستاخ بھی تہ تیغ ہونا چاہیے (استثنا ۱۷ : ۱۲ و ۱۳ ، ہوسیع ۷ : ۲۱۶ ، پطرس ۲ : ۱ تا ۱۲ ، یو ایل ۲ : ۲۰)۔ اور اللہ کے رسول کے گستاخ کی سزا بھی قتل ہے (۱۔سموئیل ۲۵ : ۲ تا ۳۸) جبکہ رسول عربیؐ کی شان پر کروڑوں سلاطین، قاضی و کاہن اور والدین قربان کیے جا سکتے ہیں۔
’’کلامِ حق‘‘ کا کلامِ حق
اس ضمن میں معروف مسیحی جریدہ ’’کلامِ حق‘‘ کا یہ بیان مسیحی حضرات کی انصاف اور دیانت کی طرف راہنمائی کرتا ہے:
’’ہم مسیحی قوم تعزیراتِ پاکستان دفعہ ۲۹۵سی یعنی گستاخِ رسولؐ کے مخالف نہیں۔ ہم صرف یہ درخواست کرتے ہیں کہ جو مسیحی اس الزام کے تحت پابندِ سلاسل ہیں یا آئندہ ہوں گے، ان کے لیے ایک خصوصی عدالتی کمیشن بنایا جائے جس کا سربراہ ہائی کورٹ کا جج ہو۔ مسلمان اور مسیحی قوم یا صوبائی نمائندے، مقامی انتظامیہ اور دونوں پارٹیاں مل کر غیر جانبدارانہ تحقیقات کریں اور اگر ملزم واقع مجرم ہو تو اس کو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ بصورتِ دیگر رہا کیا جائے۔‘‘ (ماہنامہ کلامِ حق گوجرانوالہ ۔ صفحہ ۱۳ ۔ مارچ ۱۹۹۴ء)