ورلڈ اسلامک فورم کی فکری نشستیں اور علماء کنونشن

ادارہ

لندن میں فورم کی فکری نشست

لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے اجلاس میں مقررین نے کہا ہے کہ کوئی بھی قوم میڈیا پر دسترس کے بغیر اپنے تشخص کی حفاظت نہیں کر سکے گی اور میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا جواب دینے کے لیے علمی و فکری طور پر صلاحیت کی ضرورت ہے۔ آل گیٹ ایسٹ میں منعقدہ اجلاس میں بڑی تعداد میں علماء، دانشور، صحافی اور ادبا و شعرا نے شرکت کی۔ اسلامک کمپیوٹنگ سنٹر کے ڈائریکٹر مفتی برکت اللہ اور تحریکِ ادبِ اسلامی کے کنوینر عادل فاروقی نے ویسٹ واچ اسٹڈی گروپ کی رپورٹ پیش کی۔

مفتی برکت اللہ نے کہا کہ ہمیں ذرائع ابلاغ میں قیامت خیز تبدیلی و ارتقا کا چیلنج درپیش ہے۔ میڈیا ایک دو دھاری تلوار ہے، میڈیا پر دسترس کے بغیر کوئی قوم اپنے تشخص اور مفادات کی حفاظت نہیں کر سکتی۔ آج عالمی میڈیا پر صہیونی اس طرح قابض ہیں کہ تیسری دنیا کی اقوام تو کجا خود مغربی اقوام اور ان کے سیاستدان ان سے ہر وقت خائف رہتے ہیں۔

عادل فاروقی نے کہا کہ ذرائع ابلاغ کے حملوں کا جواب بذریعہ مراسلے، مضامین، تقاریر اور الیکٹرونک میڈیا کے دینے کے لیے تمام مساعی کو باہم مربوط کر کے گہری حکمت عملی وضع کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فورم کی طرف سے لوکل اخبارات میں کام شروع کر دیا ہے۔

ختم نبوت سینٹر کے سربراہ عبد الرحمٰن یعقوب باوا نے کہا کہ قادیانیوں کے سربراہ مرزا طاہر احمد نے سیٹلائٹ پر اپنا دورانیہ بڑھا کر ایشیا کے لیے روزانہ دو گھنٹے اور یورپ کے لیے تین گھنٹے کر دیا ہے۔ اب اسلام کے نام پر گمراہ کرنے کی دعوت دنیا کے ۵۲ ممالک میں براہ راست دی جا رہی ہے۔ فورم اس کا جواب دینے کے لیے فوری طور پر اقدام کرے اور پروگرام مرتب کرے۔

انڈین مسلم فیڈریشن کے رہنما انور شریف نے سن رائز ریڈیو کی شانِ رسالت میں دریدہ دہنی کے خلاف قرارداد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک سن رائز ریڈیو نے نہ کوئی تلافی کی ہے نہ معذرت کی ہے، ہمیں احتجاج کے لیے مؤثر طریقہ اپنانا چاہیے۔

ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے کہا کہ میڈیا کے ذریعے سے پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا جواب دینے کے لیے علمی و فکری طور پر اہلیت و صلاحیت پیدا کی جائے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست ہو یا صحافت، احتجاجی بن کر رہ گئی ہے۔ یہاں آپ جس کسی لائبریری میں چلے جائیں، رشدی جیسے پچاسوں دریدہ دہنوں کی کتابیں اور مضامین نظر آ جائیں گے۔ ہم کب تک ان کے تعاقب اور جواب دینے میں اپنی توانائیاں ضائع کرتے رہیں گے۔ ہمیں عملی طور پر اس کی وجوہات اور اس کے پس پردہ عوامل کا جائزہ لینا ہو گا۔ یورپ کے علمی و فکری حملہ کا جواب یہ نہیں ہے کہ ہم صفائی پیش کرنے یا جواب دینے بیٹھ جائیں، بلکہ (آج کے حالات کے تناظر میں) ہمیں اسلام کے مثبت اور فلاحی پہلو پیش کرنے ہوں گے اور ہر شعبہ میں تحقیقی کام کرنے والے ماہرین تیار کرنے ہوں گے۔ اگر ہم سیرت کے روشن اور افادی پہلو پیش کر سکیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہاں مغرب میں اسلام کو صحیح سمجھا جانے لگے گا۔

برالٹن اسلامک سنٹر کے ڈائریکٹر عبد الجلیل ساجد نے قرآن کے تراجم کے بارے میں مفصل اور تحقیقی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ۱۵۲۶ء سے اب تک کم و بیش دو ہزار کے قریب انگریزی زبان میں قرآن کے تراجم ہو چکے ہیں، جن کی اپنی اپنی خوبیاں تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزی یا کسی یورپی زبان میں قرآن پاک کے صحیح ترجمہ کو سمونے کی اہلیت ہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن کے پیش کردہ اصطلاحات و تصورات کے صحیح مفہوم ادا کرنے والے الفاظ کی تلاش کار دشوار ہے۔ بہرحال آج کل جو تراجم رائج اور شیڈول ہیں، ان کی بنیادی خامی یہ ہے کہ یا تو ان کی زبان مشکل، پرانی اور غیرمانوس ہے، اور اگر زبان کلاسیکی اور سہل و آسان ہے تو قرآنی مفہوم ادا کرنے سے قاصر ہے۔

مولانا عتیق الرحمٰن (سابق مدیر ہفت روزہ ندائے ملت لکھنؤ و ماہنامہ الفرقان) نے کہا کہ گزشتہ دنوں بھارت میں تین طلاقوں کے فقہی مسئلہ پر ہم نے ایک دوسرے کے بارے میں جو غیر شائستہ زبان استعمال کی اس سے سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ کیا یہی اسلام کی تعلیم و اخلاق ہے؟ مولانا نے کہا کہ ہمیں عہد کر لینا چاہیے کہ ہم کسی مسلم جماعت و طبقہ کے خلاف کسی حال میں سوقیانہ طرز اختیار نہیں کریں گے اور ہم یہ کام غیر مشروط طور پر کریں گے۔ یہ رویہ ہماری طرف سے شروع ہو جانا چاہیے۔ آپ اس کے مبارک اثرات دیکھیں گے کہ تھوڑے ہی عرصے میں سامنے والا بھی اس طرز کے اپنانے پر مجبور ہو گا۔

اس کے بعد مشہور شاعر سلطان الحسن فاروقی اور عادل فاروقی نے اپنا تازہ کلام پیش کیا۔ ممتاز ادیب و شاعر افتخار اعظمی (میڈن ہیڈ) نے، جو اپنی اچانک علالت کے سبب تشریف نہ لا سکے تھے، فون پر نظمیں سنائیں، جسے مولانا منصوری نے پڑھ کر سنایا۔ 

اجلاس میں خاص طور سے نظام الدین اتحاد المسلمین پاکستان کے کنوینر حافظ شریف، ورلڈ اسلامک کونسل کے سربراہ لیسٹر سے پروفیسر عبد الکریم مکی والا، ممتاز ماہر تعلیم مولانا اقبال اعظمی (لیسٹر)، ماسٹر افتخار احمد (لندن)، مولانا عبد الرحمٰن (لیسٹر)، جامعہ اسلامیہ لندن کے مہتمم مولانا مفتی مصطفٰی، ڈاکٹر خالد اسلامی اکادمی ہیرو کے پریزیڈنٹ عبد اللہ قریشی، فورم کے خزانچی الحاج غلام قادر، الحاج عمر بھائی، عبد اللہ، کشمیری رہنما محمد اثیم اور الحق پبلشرز کے ڈائریکٹر محمد صدیق ناز نے بھی شرکت کی۔ مولانا منصوری کی دعا پر اجلاس اختتام پذیر ہوا۔

(بہ شکریہ ’’جنگ‘‘ لندن ۔ ۲۰ فروری ۱۹۹۴ء)

گوجرانوالہ میں فکری نشست

مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست ۲۰ اپریل ۱۹۹۴ء کو بعد نماز عشاء مولانا زاہد الراشدی کی زیرصدارت منعقد ہوئی جس میں ماہنامہ المذاہب لاہور کے ایڈیٹر جناب محمد اسلم رانا نے اپنے حالیہ دورۂ بھارت کے تاثرات بیان کیے اور بھارتی مسلمانوں کی مظلومانہ حالت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ بڑھتی ہوئی ہندو انتہاپسندی کے تباہ کن اثرات سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ عالمِ اسلام اس مسئلہ پر سنجیدگی سے توجہ دے اور بھارتی مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو کے تحفظ کے لیے ٹھوس حکمتِ عملی اختیار کی جائے۔

مجلسِ تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد یوسف عثمانی نے اپنے دورہ امریکہ کے حوالہ سے امریکی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے دینی حالات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ان ممالک میں مسلمانوں کی نئی نسل کے ایمان کو بچانے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان بچوں کی دینی تعلیم کے لیے خاطر خواہ انتظام نہیں ہے جس کی وجہ سے نئی پود اسلام کے بنیادی عقائد اور احکام سے بھی بے خبر ہے۔ انہوں نے بڑے دینی اداروں سے اپیل کی کہ وہ اس صورتحال کی طرف توجہ دیں اور مغربی ممالک میں دینی تعلیم کا مناسب اہتمام کیا جائے۔

لاہور اور ہری پور میں علماء کنونشن

ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام ۱۸ اپریل ۱۹۹۴ء کو جامع مسجد شیرانوالہ گیٹ ہری پور ہزارہ میں امریکی عزائم کے خلاف علماء کنونشن منعقد ہوا جس کی صدارت مولانا حکیم عبد الرشید انور نے کی اور مولانا قاری محمد بشیر، مولانا قاضی محمد طاہر الہاشمی، مولانا گل رحمان، جناب مطیع الرحمٰن اور دیگر حضرات نے خطاب کیا۔ جبکہ ہری پور اور اردگرد کے علماء کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔

۲۲ اپریل بروز جمعۃ المبارک بعد نماز عصر جامع مسجد (مولانا محمد ابراہیمؒ والی) انارکلی لاہور میں امریکی عزائم کے خلاف علماء کنونشن منعقد ہوا جس کی صدارت ماہنامہ الرشید کے مدیر جناب حافظ عبد الرشید ارشد نے کی اور اس سے ریٹائرڈ کموڈر جناب طارق امجد، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا میاں عبد الرحمٰن، جناب محمد اسلم رانا اور دیگر مقررین نے خطاب کیا اور لاہور کے مختلف حصوں سے علمائے کرام نے شرکت کی۔

ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے ان کنونشنوں سے خطاب کرتے ہوئے عالمِ اسلام اور پاکستان کے بارے میں امریکہ کے منفی عزائم کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا اور علماء پر زور دیا کہ وہ ان عزائم کے حوالہ سے رائے عامہ کی راہنمائی کریں اور قومی خودمختاری اور مذہبی آزادی کے تحفظ کے لیے قوم کی جرأتمندانہ قیادت کے لیے آئیں۔

اخبار و آثار

(مئی ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter