بدعت کے شبہ سے بھی بچنا چاہیے

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

قرآن و سنت کے محکم دلائل سے سنت اور بدعت کی حقیقت اور اس کا حکم واضح ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کم فہم کا شبہ باقی رہے یا عوام الناس، جو اس قسم کے مسائل میں دلائل کا موازنہ کر کے صحیح رائے قائم کرنے سے قاصر ہوں، تو ان کے لیے صحیح راہِ عمل یہی ہے کہ وہ ایسے مشکوک اور مشتبہ کام کے پاس ہی نہ جائیں۔ اور اگر کسی چیز کے بدعت، سنت یا مستحب اور مباح ہونے میں شبہ ہو تو اس سے بچنا ہی ان کے لیے راہِ عمل ہے۔ اور باتفاق علماء ان کے لیے یہی طریقہ صحیح رہنمائی کے لیے بالکل کافی ہے۔ چنانچہ حضرت وابصہؓ بن معبدؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

’’گناہ وہ ہے جو تیرے نفس میں کھٹکے اور تیرے دل میں تردد واقع ہو، اگرچہ لوگ (اور نام کے مفتی) تجھے فتوٰی بھی دے دیں۔‘‘ (رواہ احمد والدارمی، مشکوٰۃ ج ۱ ص ۲۴۲)

اور حضرت عطیہ السعدیؓ فرماتے ہیں کہ

’’جناب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ پرہیزگاروں کے رتبہ کو نہیں پہنچ سکتا تاوقتیکہ وہ چیزیں نہ چھوڑ دے جن میں کوئی حرج نہیں، اس لیے  کہ وہ ذریعہ بنتی ہیں ایسی چیزوں کا جن میں حرج ہے۔‘‘ (رواہ الترمذی و ابن ماجہ، مشکوٰۃ ج ۱ ص ۲۴۲)

حضرت معاذؓ بن جبل کو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو ارشاد فرمایا:

’’تم بغیر علم کے کوئی حکم اور فیصلہ ہرگز صادر نہ کرنا، اور اگر تم پر کسی چیز میں اشکال گزرے تو توقف کرنا حتٰی کہ تم اس کو اچھی طرح روشن پا لو، یا میری طرف خط لکھنا۔‘‘ (ابن ماجہ ص ۶)

حضرت نعمانؓ بن بشیرؓ (المتوفیٰ ۶۴ھ) روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی۔ ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں مشتبہ ہیں، ان کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ سو جو شخص ان مشتبہات سے بچا تو اس نے اپنا دین اور عزت بچا لی، اور جو مشتبہات میں جا پڑا تو (گویا) وہ حرام میں جا پڑا، جیسے چراگاہ کے اردگرد جانوروں کو چرانے والا قریب ہے کہ چراگاہ میں جا پڑے۔‘‘ (بخاری ج ۱ ص ۱۳، ابن ماجہ ۲۹۶)

ان روایات سے آفتابِ نیم روز کی طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جن امور میں شبہ واقع ہو ان میں اپنے دین اور عزت کو صرف اسی صورت میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے کہ ایسے کاموں میں انسان دخل ہی نہ دے اور ان پر عمل پیرا ہو کر ہرگز اپنی ابدی زندگی کو برباد نہ کرے اور خلقِ خدا کو گمراہ ہونے سے بچائے۔ خصوصاً ایسے کام جو کفر اور شرک و بدعت کا ذریعہ بنتے ہوں۔ اور یہ معاملہ صرف یہیں بس نہیں ہو جاتا بلکہ جناب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تردد اور اشتبا والے کاموں سے بچنے کا صریح حکم ارشاد فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت حسنؓ بن علیؓ (المتوفٰی ۵۰ھ) روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

’’وہ چیز چھوڑ دے جو تجھے تردد اور شبہ میں ڈالے، اور ایسی چیز اختیار کر جو تیرے لیے باعث تردد نہ ہو، کیونکہ خیر باعثِ اطمینان اور شر باعثِ شک ہے۔‘‘ (مستدرک ج ۲ ص ۱۲، قال الحاکمؒ والذہبیؒ صحیح)

یہ صریح اور صحیح حدیث بھی اس امر کو روشن کر دیتی ہے کہ جس چیز میں تردد اور شبہ ہو تو ایسی چیز کو چھوڑنا ہی ضروری ہے۔ کیونکہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روشن سنتیں زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارے پاس موجود ہیں، جن میں کسی قسم کا ادنٰی سے ادنٰی شک اور شبہ بھی نہیں ہے، اور وہی روشن سنتیں طمانیتِ قلب کا کافی سامان مہیا کر دیتی ہیں اور ان کی خلاف ورزی شک اور شبہ کے تاریک گڑھے میں ڈال دیتی ہے۔ 

احادیث میں اس کی تصریح آتی ہے کہ ’’کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یحب التیامن‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سرمہ لگانے، کپڑا پہننے، وضو کرنے میں، حتٰی کہ ہر کام میں داہنے پہلو سے شروع کرنے کو ترجیح دیتے تھے، لیکن حضرت عبد اللہؓ بن مسعود فرماتے ہیں کہ

’’تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شیطان کے لیے کچھ حصہ نہ ٹھہرائے بایں طور کہ نماز سے فارغ ہوتے وقت داہنی طرف سے ہی پھرنے کو اپنے اوپر لازم سمجھ لے، اس واسطے کہ میں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بسا اوقات بائیں طرف بھی مڑتے دیکھا ہے۔‘‘ (متفق علیہ، مشکوٰۃ ج ۱ ص ۷۸)

اس حدیث کی تفسیر اور تشریح میں مشہور محقق علامہ محمد طاہر الحنفیؒ (المتوفٰی ۹۸۶ھ) فرماتے ہیں:

’’جس کسی نے کسی مندوب اور مستحب چیز پر اصرار کیا اور اس کو عزیمت بنا لیا اور رخصت پر عمل نہ کیا تو گویا اس کو شیطان نے گمراہی کے راستہ پر ڈال دیا۔ کیا حال ہو گا اس شخص کا جو کسی بدعت اور بری چیز پر اصرار کرتا ہے۔‘‘ (مجمع البحار ج ؟ ص ۲۴۴)

اور یہی الفاظ علامہ طیبی الحنفیؒ (المتوفٰی ۷۴۳ھ) نے شرح مشکوٰۃ میں اور حضرت ملا علی قاریؒ نے مرقات ج ۲ ص ۱۴ میں تحریر فرمائے ہیں، جو اس امر کی واضح ترین دلیل ہے کہ بدعت اور منکر پر اصرار کرنا تو کجا رہا، اگر کوئی شخص امر مندوب اور مستحب پر یا رخصت پر بھی اصرار کرے گا تو وہ بھی شیطان کا پیروکار ہو گا اور اس کے اس فعل میں شیطان کا حصہ ہو گا۔ علامہ برکلی الحنفیؒ (المتوفٰی ۷۴۳ھ) لکھتے ہیں کہ

’’تم جان لو کہ بدعت کا کام کرنا ترکِ سنت سے زیادہ مضر ہے۔ دلیل یہ ہے کہ حضرات فقہاء کرامؒ نے فرمایا ہے کہ جب کوئی حکم سنت اور بدعت کے درمیان دائر ہو تو اس کا ترک کرنا ہی ضروری ہو گا۔‘‘ (طریقہ محمدیہ)

اور فتاوٰی عالمگیری میں ہے کہ

’’جو چیز سنت اور بدعت کے درمیان دائر ہو وہ چھوڑی جائے گی۔‘‘ (عالمگیری مصری، ج ۱ ص ۱۷۹)

علامہ شامیؒ لکھتے ہیں کہ

’’جب حکم سنت اور بدعت کے درمیان دائر ہو تو سنت کا ترک کرنا فعلِ بدعت پر مقدم ہو گا۔‘‘ (شامی ج ۱ ص ۶۰۰)

قاضی ابراہیم صاحب الحنفیؒ فرماتے ہیں:

’’جس کام کے بدعت اور سنت ہونے میں شبہ ہو اس کو چھوڑ دے، کیونکہ بدعت کا چھوڑنا ضروری ہے اور سنت کا ادا کرنا ضروری نہیں۔‘‘ (نفائس الازہار ترجمہ مجالس الابرار ص ۱۲۹)

شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ لکھتے ہیں:

’’دہرچہ دراں شبہ بود توقف دراں لازم۔‘‘ (مکتوبات حضرت شیخ برحاشیہ اخبار الاخیار ص ۱۰۰)

بلکہ علامہ ابن نجیم الحنفیؒ لکھتے ہیں کہ

’’جو چیز بدعت اور واجب اصطلاحی کے درمیان دائر ہو تو لازم ہے کہ اس کو سنت کی طرح ترک کر دیا جائے۔‘‘ (بحر الرائق ج ۲ ص ۱۶۵)

یہ عبارات اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ جب کوئی چیز ایسی ہو کہ اس میں سنت کے پہلو کے ادا کرنے سے بدعت لازم آتی ہو تو سنت کے پہلو سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس کو مطلقاً ترک کرنا ضروری ہو گا۔ اس لیے کہ اس کے ساتھ بدعت کا پہلو بھی تو شامل ہے۔ سنت تو خیر پھر سنت ہے، اگر کوئی چیز بدعت اور حضرات فقہاء کرام کے اصطلاحی واجب کے درمیان بھی دائر ہو تو اس کو بھی ترک کرنا لازم اور ضروری ہے کیونکہ اس سے فی الجملہ بدعت کی ترویج اور اشاعت کا اندیشہ ہے۔ اور بدعت اتنی قبیح ترین چیز ہے کہ شریعتِ مطہرہ اس کے وجود نامسعود تک کو گوارا نہیں کرتی، چہ جائیکہ اس کی نشرواشاعت کے ذرائع اور وسائل بہم پہنچائے۔ یہی وجہ ہے کہ بدعت کو ختم کرنے کے لیے مستحب، سنت اور حتٰی کہ واجب تک کی قربانی بھی گوارا کر لی جائے گی مگر بدعت کو ہرگز ہرگز فروغ نہ دیا جائے گا۔

اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص دانستہ یا نادانستہ بدعت میں آلودہ ہونا چاہے تو اس کی مرضی، ہمارے لیے سنت کافی ہے اور ہمیں ان محدثات اور مزخرفات میں الجھنے کی مطلقاً ضرورت نہیں ہے۔ کہنے والے نے کیا ہی خوب کہا ہے ۔۔۔ ؎

و خیر امور الدین ما کان سنۃ
و شر الامور المحدثات البدائع

قارئین! اگر آپ کو صحیح معنی میں اللہ تعالیٰ سے لگاؤ اور جناب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عشق اور محبت ہے تو اس کا واحد طریق صرف یہ ہے کہ سنت کی اتباع کریں اور حضرات صحابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے نقشِ قدم پر چلیں۔ وہی عقائد و اعمال اختیار کریں جو انہوں نے اختیار کیے اور ان تمام عقائد اور اعمال سے احتراز کریں جن سے انہوں نے احتراز کیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے قول (جو درحقیقت مرفوع حدیث کے حکم میں ہے) کے مطابق مسجدوں میں بھی اجتماع ہو اور ایمان سے بھی محرومی ہو۔

’’حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ وہ مسجدوں میں اکٹھے تو ہوں گے لیکن ان میں ایک بھی مومن نہ ہو گا۔‘‘ (مستدرک ج ۴ ص ۴۴۳، قال الحاکمؒ والذہبیؒ صحیح)

یہ وہی حضرت ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے تثویب جیسی بدعت کی وجہ سے ایک مسجد ہی ترک کر دی تھی۔ الغرض اخلاص اور اتباعِ سنت کے ساتھ معمولی عبادت بھی مفید ہے، اور شرک اور بدعت کو دل میں جگہ دینے سے بڑی بڑی عبادت بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں منظور نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص، عمل اور اتباعِ سنت کی توفیق عطا فرمائے، صرف اسی کی بارگاہ سے سب کچھ مل سکتا ہے۔

دین و حکمت

(جون ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter