بائبل بے خطا اور بے عیب نہیں

کیپٹن اسلم محمود

۳ اپریل ۱۹۹۱ء کو اٹک کے جناب کیپٹن اسلم محمود نے ہمیں زیر نظر خط کی فوٹو کاپی بغرضِ اشاعت ارسال فرمائی اور لکھا کہ

’’انگلستان کی کیمبرج یونیورسٹی کے سڈنی سسکس (Sidney Sussex) کالج کے شعبہ دینیات کے سربراہ پال ہاکنز (Rev. Paul Hawkins) ہمارے کرم فرما ہیں، اور دینی شعبہ میں اگر تحقیق کے درمیان کوئی مشکل مقام آ جائے تو میں ان کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ مورخہ ۳۰ مئی کو انہوں نے میرے خط کے جواب میں ایک خط تحریر فرمایا جس کی فوٹو کاپی آپ کی خدمت میں ارسال کر رہا ہوں۔‘‘

ہم اس خط کی اشاعت میں اس قدر تاخیر پر جناب کیپٹن اسلم محمود صاحب اور اپنے قارئین سے معذرت خواہ ہیں۔ بہرحال، اصل خط کا عکس مع اردو ترجمہ کے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ ترجمہ ادارہ کی طرف سے کیا گیا ہے جبکہ انجیل یوحنا کے متنازعہ پیراگراف سے متعلقہ حواشی کیپٹن اسلم محمود صاحب ہی کے ایک مضمون (’’انجیلِ مقدس میں ایک مسلمہ تحریف‘‘ شائع شدہ ماہنامہ المذاہب لاہور دسمبر ۱۹۸۹ء) سے ملخص کیے گئے ہیں۔

(مدیر)


’’ڈیئر کیپٹن محمود!

آپ کے خط مورخہ ۲۸ نومبر ۱۹۸۹ء کا شکریہ۔ آپ کو معلوم ہوا ہو گا میں مذکورہ بالا پتے پر منتقل ہو چکا ہوں، لیکن آخر کار آپ کا خط مجھ تک پہنچ گیا۔ 

میں نے یوحنا ۷ : ۵۳ تا ۸ : ۱۱ سے متعلق آپ کے سوال میں بہت دلچسپی لی ہے۔ کوئی  شخص حقیقتاً ان سوالات کے جواب سے آگاہ نہیں، لیکن غالباً یہ کہانی اس آزادانہ روایت کا ایک حصہ ہے جو اناجیل سے علیحدہ چند دہائیوں سے رائج الوقت تھی، جسے بعد میں یوحنا کی انجیل میں شامل کر دیا گیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ یسوع کے متعلق کچھ ایسی کہانیں تھیں جن کی اشاعت کلیساؤں کے ذریعے سے بار بار ہوئی، لیکن ان کو اناجیل میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہ کہانی (یعنی یوحنا ۷ : ۵۳ تا ۸ : ۱۱) اسی سلسلے کی ایک مثال ہے۔ یہ انجیل کے لاطینی اور یونانی نسخوں میں شامل ہے، اس لیے، باوجودیکہ یہ پہلی انجیل کا حصہ نہیں، اسے بہت جلد یوحنا کی انجیل میں شامل کر لیا گیا ہو گا۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کا ذمہ دار کون تھا۔

بائبل کے صحائف کے بے عیب الہامی اور بے خطا ہونے سے متعلق آپ کے سوال کے بارے میں میں یہ کہوں گا کہ بائبل الہامی ہے لیکن بے خطا اور بے عیب یقیناً نہیں۔ یہ بالکل واضح بات ہے۔ نکتے کی بات، مجھے یقین ہے، یہ ہے کہ خدا انسانوں کے ذریعے سے کلام کرتا ہے اور انسان غلطیاں کرتے ہیں۔ لیکن خدا نے ابلاغ کا یہی طریقہ منتخب فرمایا ہے کہ وہ اپنے کلام اور انسانوں کے ذریعے سے ایسا کرے۔ اس لیے ہم کسی بھی صحیفے کو مطلقاً بے خطا نہیں مان سکتے۔ البتہ مجھے یقین ہے کہ یہ صحیفے الہامی ہیں اور ان کے ذریعے سے ہم خدا کو اپنے ساتھ کلام کرتا ہوا سن سکتے ہیں۔ میرے انداز نظر کے مطابق کم از کم یہی طریقہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ وضاحتیں آپ کے لیے دلچسپ ہوں گی اگرچہ بلاشبہ یہ ایک فرد کی آرا ہیں۔

مجھے امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے اور میرا یہ خط بحفاظت آپ تک پہنچ جائے گا۔‘‘




اس پیرا گراف کے متعلق مزید آرا حسب ذیل ہیں:

بائبل و کلف کمنٹری میں اس موقع پر لکھا ہے:

’’نسخوں کی سند اس پیراگراف (بشمولیت ۵۳) کے حقیقی ہونے کے زبردست خلاف ہے۔ زبان بمشکل یوحنا کی ہے، تاہم کہانی سچی ضرور ہے۔ ابتدا میں چوتھی انجیل کے متن میں جگہ پا گئی۔‘‘

پادری سکافیلڈ اپنی ریفرنس بائبل میں لکھتے ہیں:

’’یہ آیات کچھ نہایت قدیم نسخوں میں نہیں ملتی ہیں۔ آگسٹین نے بتایا ہے کہ اس واقعہ کو مقدس کہانی کی کئی کاپیوں سے اس منافقانہ ڈر سے خارج کر دیا گیا تھا کہ اس سے بد اخلاقی کا سبق ملتا ہے۔‘‘

امریکن بائبل سوسائٹی، نیویارک کی شائع کردہ بائبل (جون ۱۹۷۸ء) میں اس پیراگراف پر یہ نوٹ لکھا ہے:

’’انتہائی قدیم اور معتبر ترین قلمی نسخوں میں یوحنا ۷ : ۵۳ تا ۸ : ۱۱ آیات موجود نہیں۔‘‘

آکسفورڈ بائبل (طبع ۱۹۸۱ء) میں ان آیات کو متن سے بالکل خارج کر دیا گیا ہے۔

مذاہب عالم

(جون ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter