عَنْ اَبِیْ مِجْلَزٍ قَالَ صَلّٰی بِنَا عَمَّارٌ صَلَاۃً فَاَوْجَزَ فِیْھَا فَاَنْکَرْنَا ذٰلِکَ فَقَالَ اَلَمْ اُتِمَّ الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ قَالُوْا بَلٰی قَالَ اَمَآ اِنِّیْ قَدْ دَعَوْتُ فِیْھَا بِدُعَآءٍ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْعُوْا بِہٖ ۔۔۔ الخ (مسند احمد طبع بیروت، جلد ۴ صفحہ ۲۶۴)
ابو مجلز حضرت عمار بن یاسرؓ کے شاگرد ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمارؓ نے ہمیں مختصر سی نماز پڑھائی۔ چونکہ یہ عام معمول سے ذرا زیادہ ہی ہلکی تھی تو شاگردوں نے عرض کیا کہ حضور آپ نے اتنی مختصر نماز پڑھائی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم اسے اوپرا کیوں سمجھتے ہو؟ کیا میں نے رکوع و سجود پورا پورا ادا نہیں کیا؟ نماز کے شرکاء نے کہا کہ ہاں رکوع و سجود تو پورا پورا ادا کیا ہے، اس میں تو کوئی کمی نہیں آئی۔ پھر حضرت عمارؓ نے کہا کہ میں نے ان دو مختصر رکعتوں میں وہ دعا کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں کیا کرتے تھے، اور وہ دعا یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَیْبَ وَ قُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ اَحْیِنِیْ مَا عَلِمْتَ الْحَیٰوۃَ خَیْرًا لِّیْ وَتَوَفَّنِیْ اِذَا کَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرًا لِّیْ اَسْئَلُکَ خَشْیَتَکَ فِی الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ وَکَلِمَۃَ الْحَقِّ فِی الْغَضَبِ وَالرِّضَا وَالْقَصْدَ فِی الْفَقْرِ وَالْغِنٰی وَلَذَّۃَ النَّظْرِ اِلٰی وَجْھِکَ وَالشَّوْقَ اِلٰی لِقَآئِکَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ ضَرَّآءٍ مُّضِرَّۃٍ وَّ مِنْ فِتْنَۃٍ مُّضِلَّۃِ اَللّٰھُمَّ زَیِّنَا بِزِیْنَۃِ الْاِیْمَانِ وَاجْعَلْنَا ھَدَاۃً مُّھْتَدِیْنَ۔
’’اے اللہ! تو غیبوں کا جاننے والا ہے، اور مخلوق پر تیری قدرت ہے۔ مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ زندگی میرے لیے بہتر ہو اور مجھے اس وقت وفات دے جب کہ وفات میرے لیے بہتر ہو۔ اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ ظاہر و باطن میں میرے اندر خشیت پیدا کر دے، اور میں تجھ سے کلمہ حق کہنے کی توفیق بھی طلب کرتا ہوں، خواہ غصے کی حالت میں ہو یا خوشی کی۔ اے اللہ! میں تجھ سے تنگ دستی اور آسودگی دونوں حالتوں میں میانہ روی کی درخواست کرتا ہوں (کہ کہیں اسراف و تبذیر میں نہ پڑ جاؤں)۔ اے اللہ! مجھے اپنی ذات کی طرف دیکھنے کا لطف عطا فرما اور اپنی ملاقات کا شوق عطا فرما۔ میں نقصان دہ پریشانیوں اور تکلیفوں سے تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ! میں گمراہ کرنے والے فتنوں سے تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ! ہمیں ایمان کی زینت کے ساتھ مزین فرما دے اور ہمیں ہدایت دینے والے اور ہدایت یافتہ بنا دے۔‘‘
یہ دعا حضور علیہ السلام اکثر نوافل میں پڑھا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر بہت سی دعائیں بھی آپ سے منقول ہیں۔ فرائض ادا کرتے وقت بالخصوص جماعت کے ساتھ ادائیگی میں اختصار کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، کیونکہ جماعت میں بعض بوڑھے، کمزور، ضعیف، حاجت مند لوگ بھی ہوتے ہیں جو زیادہ دیر تک قیام نہیں کر سکتے، لہٰذا ان کی رعایت بھی ضروری ہے۔ البتہ نوافل میں کوئی شخص جتنا چاہے طوالت اختیار کرے، یہ اس کی اپنی ہمت اور ذوق و شوق پر موقوف ہے۔