حال ہی میں اسلام آباد میں خواتین کی تیس تنظیموں کے نمائندگان (لیگل فورم) نے ان قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے جو خواتین کے حقوق کو (ان کے خیال میں) متاثر کرتے ہیں۔ ان کے مطالبات کا ہدف اسلامی قوانین (بشمول حدود قوانین اور ازدواجی معاملات سے متعلق قوانین) ہیں اور انہوں نے ان کی تنسیخ کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ خواتین کی یہ تنظیمیں مسلمان خواتین کی تنظیمیں ہیں اور وہ ان قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں جو خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ماڈرن اور مغرب زدہ خواتین (جو صرف نام کی مسلمان ہوتی ہیں) کا اصل مقصد خواتین کے حقوق کا تحفظ اور حصول نہیں بلکہ خود اسلام کی مخالفت ہے اور یہ مطالبات دراصل غیر مسلموں (عیسائیوں، یہودیوں، ہندوؤں اور قادیانیوں) کے مطالبات ہیں اور ان ماڈرن خواتین کی سرگرمیوں کو یہی غیر مسلم کنٹرول کر رہے ہیں۔
ہمارے اس شبہ کو اس امر سے تقویت ملتی ہے کہ ان مطالبات میں ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ توہینِ رسالت کا قانون منسوخ کیا جائے، حالانکہ توہینِ رسالت کے قانون کا خواتین کے حقوق سے دور کا تعلق بھی نہیں اور یہ مطالبہ صرف غیر مسلموں کا مطالبہ ہے، جسے ماڈرن اور مغرب زدہ خواتین کا نمائندہ فورم پیش کر رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی مرد اور کوئی عورت اس وقت تک مسلمان نہیں کہلا سکتی جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے والدین، بیوی یا خاوند یہاں تک کہ اپنی ذات سے بھی زیادہ محبت نہ کرے۔ اس صورت میں توہینِ رسالت کے قانون کی حمایت ہمارے ایمان کا جزوِ اصلی ہے۔
ہمارے ملک میں توہینِ عدالت کا قانون پوری قوت سے موجود ہے، جس میں ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا، یہاں تک کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں اس امر پر متفق ہیں کہ توہینِ عدالت کے ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا حق حاصل نہیں۔ اس کے باوجود کسی غیر مسلم اور کسی ماڈرن خاتون نے توہینِ عدالت کے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ نہیں کیا، جبکہ توہینِ رسالت کے قانون میں ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہوتا ہے، اس کے باوجود اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
توہینِ رسالت (بار بار توہینِ رسالت کے الفاظ کا استعمال رسالت کے مقدس مقام کے بارے میں ہمارے جذبات کو مجروح کرتا ہے اور یہ الفاظ ہمیں شدت سے چبھ رہے ہیں لیکن ہم حقیقت حال کی وضاحت کی خاطر انہیں مجبورًا استعمال کر رہے ہیں) کا قانون امن عامہ کو قائم رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ اگر یہ قانون نہیں ہو گا اور ہر شخص کو رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے گی تو شمع رسالت کے پروانوں کو توہینِ رسالت کے ارتکاب کرنے والوں کی خبر لینے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ ابھی ایک دن قبل ہی یہ صورت پیش آ چکی ہے کہ توہینِ رسالت کے مرتکب افراد پر بعض لوگوں نے فائرنگ کی اور ایک کو ہلاک اور دوسرے کو زخمی کر دیا گیا۔
اگر حکومت نے اس قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرنے والوں کی پذیرائی کی یا اس کی سزا میں کوئی رعایت برتی تو پورے ملک میں نقصِ امن کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ اس وقت حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ نقضِ امن کی یہ صورت تحریک کی شکل اختیار کر لے تو اس سے عہدہ برآ ہو سکے۔ لہٰذا حکومت کو دوٹوک اعلان کرنا چاہیے کہ وہ ایسا مطالبہ کرنے والوں کی حمایت نہیں کرتی اور نہ ہی اس قانون میں کسی قسم کی کوئی ایسی ترمیم زیرغور ہے جو اس میں نرمی پیدا کرتی ہو۔
مسلمانوں کے عقیدے کی رو سے کسی بھی نبی کی توہین شدید سزا کی مستوجب ہے۔ اس وقت حکومتِ پاکستان اس قانون کے بارے میں معذرت خواہانہ اور مدافعانہ پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہے۔ اگر حکومت دیگر انبیاء کے بارے میں بھی اس قسم کا قانون وضع کر دے (یعنی حضرت موسٰیؑ، حضرت ہارونؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت عیسٰیؑ اور دیگر انبیاء کرام کی توہین کرنے والے کے لیے وہی سزا مقرر کر دے جو قبل ازیں توہینِ رسالت کے لیے تجویز کی گئی ہے) تو عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے اعتراض کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی۔ یہی دونوں اس مہم میں پیش پیش ہیں، ان کا اعتراض رفع ہونے پر اس مذموم مہم میں کوئی جان نہیں رہے گی اور حکومت کی درد سری ختم ہو جائے گی۔
(بشکریہ ماہنامہ نوائے قانون، اسلام آباد، مارچ ۱۹۹۴ء)