آزادیٔ صحافت کے عالمی دن کے موقع پر گوجرانوالہ میں مجلسِ مذاکراہ

ادارہ

آزادیٔ صحافت کے عالمی دن کے موقع پر ۳ مئی ۱۹۹۴ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام ایک مجلس ِمذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت علامہ محمد احمد لدھیانوی نے کی اور علماء کرام اور دانشوروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جبکہ گفتگو میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی، گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے شعبہ اردو کے استاذ پروفیسر غلام رسول عدیم، روزنامہ نوائے وقت کے گوجرانوالہ بیورو کے رکن جناب محمد شفیق، اور ممتاز صنعتکار الحاج ظفر علی ڈار نے حصہ لیا۔

پروفیسر غلام رسول عدیم نے اسلامی صحافت کے موجودہ کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دینی جرائد کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت ہے، اور اگر دینی رسالے طباعت اور ترتیب کے ساتھ ساتھ زبان و اسلوب کے لحاظ سے بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں تو وہ معاشرہ میں اسلامی اقدار کی ترویج میں زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دینی جرائد کے مدیران اور کارکنان کو صحافت کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنی چاہیے اور باہمی مشاورت و مفاہمت کو بھی فروغ دینا چاہیے۔ اسی طرح دینی جرائد کو دینی ترجیحات میں عالمِ اسلام کے مسائل و مشکلات اور قومی معاملات کو اولیت دینی چاہیے۔ انہوں نے اردو صحافت کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی اور سر سید احمد خان، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان اور حمید نظامی (رحمہم اللہ تعالیٰ) کے صحافتی کردار کا تذکرہ کیا۔

مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ آزادیٔ صحافت کا مغربی تصور اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح صحافت کو بھی اخلاقی اقدار کا پابند بناتا ہے اور آزادی کے گرد حدود کا ایک واضح دائرہ کھینچتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمۂ حق بلند کرنے، ظلم کے خلاف جہاد اور اجتماعی معاملات میں اپنی رائے کو آزادانہ طور پر پیش کرنے کا تعلق ہے، اسلام نے ویسٹرن سولائزیشن سے صدیوں پہلے خلافتِ راشدہ کے دور میں اس کا واضح عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا تھا، اور آج بھی اسلامی دنیا کے لیے آزادیٔ رائے کے حوالے سے وہی دور مشعلِ راہ ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اسلام نے اشاعت و تبلیغ پر کچھ واضح قدغنیں بھی عائد کی ہیں۔ مثلاً قرآن کریم نے کہا ہے کہ معاشرہ میں فحاشی کی اشاعت کرنے والے عذابِ الیم کے مستحق ہیں، اسی طرح قرآن کریم نے شخصی اور گھریلو احوال کے تجسس سے روکا ہے، اور اس طرح کی پابندیوں کا اطلاق دیگر شعبوں کی طرح صحافت پر بھی ہوتا ہے۔

جناب محمد شفیق نے کہا کہ دینی صحافت میں کام کرنے والے اہلِ قلم کو الگ تشخص کے ساتھ ساتھ صحافت کے قومی دھارے میں بھی شریک ہونا چاہیے اور قومی اخبارات و جرائد میں لکھنے کا رجحان پیدا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ قومی صحافت کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس میں ایسے اصحابِ قلم کی ضرورت ہے جن کا دینی علم پختہ ہو اور جو دینی امور پر اعتماد کے ساتھ لکھ سکتے ہوں۔

الحاج ظفر علی ڈار صاحب نے کہا کہ ہم اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہوتے جا رہے ہیں، اس کے اثرات صحافت پر بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اخلاقی اور دینی لحاظ سے آج سے بیس سال قبل جو صورت حال تھی آج وہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دینی اور اخلاقی پابندیوں کو قبول کیے بغیر زندگی کے کسی بھی شعبہ میں اصلاح نہیں کر سکتے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے دین کی طرف واپسی کریں اور اس کی عائد کردہ پابندیوں کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں۔

صدر مجلس علامہ محمد احمد لدھیانوی نے کہا کہ قرآن کریم نے خبر کی قبولیت کے لیے تحقیق کو بنیاد قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ تمہارے پاس کوئی فاسق شخص خبر لائے تو اس خبر کو پھیلانے سے پہلے تحقیق کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غیر مصدقہ خبر پوری قوم کے لیے باعث وبال بن جائے۔ قرآن کریم کے بیان کردہ اس اصول کو آج کی صحافتی زندگی میں زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافت کی تعلیم و تربیت میں قرآن و سنت کے بنیادی احکام اور ابلاغِ عامہ کے بارے میں اسلامی اصولوں کو شامل کرنا آج کا ایک اہم تقاضہ ہے، کیونکہ اسلامی تعلیمات و احکام سے آگاہی حاصل کر کے ہی ایک صحافی اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں اسلامی اصولوں کے دائرہ کو ملحوظ رکھ سکتا ہے۔ 


اخبار و آثار

آراء و افکار

(جون ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter