تدبر و حکمتِ عملی کی ضرورت

مولانا محمد رابع حسنی ندوی

موجودہ صدی کے وسط سے مسلمانوں کو اپنے دین اور اپنے ملی پیغام کی طرف توجہ دلانے کی جو کوششیں ہوئیں اور ان کو ان کا عزت و عظمت کا ماضی یاد دلانے کے لیے جو لکھا اور کہا گیا، اس کے یہ اثرات پڑے کہ مسلمانوں میں بیداری اور مِلی احساس و شعور کی ایک لہر اٹھی جو جگہ جگہ محسوس کی گئی، اور اس سے مستقبل میں اچھی توقعات قائم کی جانے لگیں۔ حتٰی کہ بعض کہنے والے کہنے لگے کہ اگلی صدی اسلام کی صدی ہو گی۔

چنانچہ جب ہجری تاریخ سے نئی صدی شروع ہوئی تو بڑا غلغلہ اٹھا کہ یہ صدی اسلام کی صدی ہے اور دنیا کی قیادت اب دیر سویر مسلمان کریں گے، یہ دیکھو فلاں جگہ بڑی دینی و ملی بیداری ہو رہی ہے، فلاں جگہ اتنے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں، فلاں جگہ ایسی ایسی دینی تحریکیں چلنا شروع ہو گئی ہیں۔

عیسوی تقویم کو بنیاد بنانے والوں نے کہا کہ اکیسویں صدی آ رہی ہے، یہ اسلام کے عروج و غلبہ کی صدی ہو گی، یورپ ٹوٹ رہا ہے، اب دنیا کی قیادت مسلمان قومیں لیں گی، کسی نے ترکی کی طرف دیکھا، کسی نے پاکستان سے امید قائم کی، کسی نے مصر کی طرف، کسی نے لیبیا کی طرف، کسی نے سعودی عرب کی طرف اور کسی نے ایران کی طرف دیکھا، اور یہ دیکھنا ظاہری آثار و حالات کے لحاظ سے غلط بھی نہ تھا کیونکہ ان سب جگہوں پر بعض بعض قیادتوں نے بہت امید پیدا کر دی تھی۔

اس سلسلہ میں مسلمان صحافت نے بھی شور مچایا اور مسلمان تحریکوں نے بھی حصہ لیا، لیکن دیکھنے میں یہ آیا کہ مسلمانوں کا اس وقت مزاج کام کرنے سے زیادہ نام کرنے کا بن گیا ہے، وہ کام سے زیادہ کام کا تذکرہ، جدوجہد سے زیادہ جدوجہد کا اعلان، اور پروگرام پر عمل کرنے سے قبل اس کا بے تحاشا اعلان اپنا وطیرہ بنائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے مخالف کو اس کا مقابلہ کرنے سے قبل ہوشیار کر دیتے ہیں، اس کو شکست دینے کا اپنا طریقہ اور انداز کار بتا دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ کمزوری ایک بڑی کمزوری کہی جا سکتی ہے، لیکن یہ ایک نفسیاتی کیفیت بھی ہے کہ آدمی اپنی ترقی، توقع اور کامیابی کا چرچا کرتا ہے اور اپنی پریشانی کا تذکرہ بھی زور سے کرتا ہے۔

لیکن راہبرانِ ملت جو فہم و فراست میں بڑھے ہوئے ہیں، اس نفسیاتی کیفیت کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور تذکرہ و چرچے کی اس خواہش کو دوسری طرف موڑ سکتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ان حالات کا چرچا کیا جائے جن میں انہوں نے دنیا کو اخلاق و انسانیت کا درس دیا اور قوموں اور نسلوں کو حیوانی زندگی سے نکال کر انسانی زندگی میں داخل کیا:

  • انہوں نے مصیبت زدہ دنیا کو مصیبت سے نکالا،
  • غلاموں کو ان کی حقیر پوزیشن سے نکال کر دوستانہ و مساویانہ پوزیشن میں پہنچایا،
  • عورت کو ساز و سامان کی حیثیت سے نکال کر کامل انسانی حقوق کی مستحق اور رفیقہ حیات کا درجہ دیا،
  • بچیوں کو عار و ذلت کا سبب سمجھ کر زندہ دفن کر دینے سے بچا کر نعمت اور باعثِ اجر و ترقی سمجھنے کا ذریعہ بنایا،
  • انسان تو انسان ہے ہر ذی روح کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا سبق دیا،
  • مساواتِ انسانی کا ایسا سبق دیا کہ دیکھنے والے دیکھ کر ششدر رہ گئے اور اس دین کی خوبی اور اس ملت کی عظمت کو مان گئے، چنانچہ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے اور پوری پوری قومیں مسلمان ہو گئیں۔
  • بھلا غور کیجئے کہ کہاں ایسی مثالیں ملیں گی کہ مسلمان فوجوں نے ایک علاقہ کو فتح کیا، علاقے والوں نے مسلمانوں کے خلیفہ سے شکایت کی کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان اچانک حملہ نہیں کرتے، پہلے اپنی بات پیش کرتے ہیں، اس کے نہ ماننے کے بعد کہہ کر حملہ کر کرتے ہیں، اس فوج نے ایسا نہیں کیا۔ اس شکایت پر خلیفہ نے حکم دیا کہ مسلمان فوجیں مقبوضہ ملک چھوڑ دیں، واپس آجائیں اور پہلے دعوت اور پیغام پیش کریں اور صلح کے ذریعے معاملہ کو انجام دینے کی کوشش کریں، اس میں ناکامی کے بعد حملہ کریں۔ چنانچہ مسلمان فوجوں نے مقبوضہ ملک چھوڑ دیا اور اسلام کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورا ملک اتنا متاثر ہوا کہ خود سے مسلمان ہو گیا۔
  • بھلا بتائیے کہ کس نے یہ تعلیم دی کہ تمہارے لیے ہر ذی حیات کے ساتھ سلوک کرنے میں اجر ہے، اور ایک پیاسے کتے کو پانی پلا دینے پر جنت چلے جانے کی بشارت دی اور ایک بلی کو کمرے میں بند کر کے مارنے پر آخرت کے عذاب کی خبر دی۔
  • بھلا بتائیے کہ یہ کس کے ہاں ملتا ہے کہ انتقال کے وقت نزع کی حالت میں یہ کہے کہ اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور اپنے غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔
  • بھلا بتائیے کہ یہ کہاں ملتا ہے کہ مصر کے مسلمان حاکم کے لڑکے نے ایک مصری سے گھوڑدوڑ کے مقابلہ میں پیچھے آ جانے پر ایک کوڑا مار دیا۔ مصری نے خلیفۃ المسلمین سے شکایت کی۔ خلیفۃ المسلمین نے مصری حاکم کے لڑکے کو مع باپ کے طلب کیا اور مصری کے ہاتھ سے دونوں پر کوڑا چلوایا، اور حاکم سے کہا کہ تم لوگوں نے کیا انسانوں کو غلام بنا لیا ہے حالانکہ خدا نے ان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ ذرا غور کیجئے، وہ اس زمانہ کی بات ہے جب دنیا کے متمدن ملکوں میں ،تہذیب و تمدن کے گہواروں میں غلاموں اور قیدیوں کو دعوتوں میں مہمانوں کی تفریح کے لیے جلایا جاتا تھا، اخلاق و انسانیت پر عمل کا اتنا بڑا فرق ہے۔
  • بھلا بتائیے یہ کہاں ملتا ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ایک مہم میں مسلمانوں کے لشکر کا سربراہ اپنے سابق غلام کے نوجوان لڑکے کو بنا دیا، لشکر جانے سے قبل آپ کی وفات ہو گئی، آپ کے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے لشکر روانہ کرنا چاہا تو لوگوں نے کہا کہ اس لشکر میں بڑے بڑے عرب کے سردار ہیں، اگر اس نوجوان کے بجائے کسی بڑے سردار کو قائد بنا دیا جائے تو زیادہ مضبوط بات ہو گی۔ خلیفۃ المسلمین نے کہا کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اسی کو قائم رکھا جائے گا اور یہی نوجوان اور سابق غلام کے صاحبزادے ہی قیادت کریں گے۔ چنانچہ سب نے اطاعت کی اور انہی کی قیادت میں کام کیا اور کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا۔

یہ واقعات اور ان کی اتباع میں مسلمانوں کی تاریخ میں سیکڑوں اور ہزاروں واقعات کیوں نہیں ہمارے اپنے چرچے اور تذکروں کا موضوع بنتے کہ غیر مسلم حضرات کے علم میں آئیں؟ جن کو جان کر وہ کہیں کہ مسلمان ویسا نہیں ہوتا جیسا ہم نے غلطی سے اب تک سمجھ رکھا تھا اور جیسا چند بے راہ مسلمانوں کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان چوری کر لیتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام نے چوری کی اجازت دی ہے، کوئی مسلمان کسی پر ظلم کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کو ظلم کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

لیکن افسوس ہے کہ مسلمانوں کا پریس، ان کے جلسے، ان کے مظاہرے، یہ تو ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمان اپنے حریفوں کو اس طرح زک دیں گے، اس طرح شکست دیں گے، لیکن اپنے مخالفوں اور حریفوں کے ذہنوں کو بدلنے کی نہ کرنے کے برابر کوشش کرتے ہیں۔ ان کے مخالفوں اور حریفوں نے مسلم دشمن پروپیگنڈے ہی کو سنا اور جانا ہے کہ مسلمان اپنے مخالف کو ظالمانہ طریقہ سے ختم کر دیتا ہے، اس کو صرف دادِ عیش دینے اور من مانی کرنے اور اخلاقی قوانین توڑنے سے ہی دلچسپی ہے، وہ اچھا شہری نہیں ہوتا، اچھا پڑوسی نہیں ہوتا، اچھا ساتھی نہیں ہوتا، وہ ناقابلِ اعتبار ہے، ناقابلِ برداشت ہے۔ بھلا بتائیے ان خیالات کے ساتھ مسلمانوں کے دشمن اور حریف مسلمانوں کے معاملہ میں کیا رویہ رکھیں گے؟

آج ساری دنیا میں مسلمانوں پر مصیبت آئی ہوئی ہے، ہر جگہ مسلمانوں کو اپنی مذہبی آزادی اور باعزت اسلامی زندگی کے لیے سخت جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے، اور ان کی اس جدوجہد کو ہر جگہ پوری طاقت سے دبایا جا رہا ہے بلکہ بہت ظالمانہ طریقہ سے کچلا جا رہا ہے۔ یورپ ہو یا ایشیا یا امریکہ، ہر جگہ اسلام کے نام لینے والے مصیبت میں مبتلا کیے جا رہے ہیں، جیسے کہ کوئی خونخوار طاقت ابھرنے لگی ہو اور اس کو کچلنے کے لیے سب کے سب لگ جائیں۔ ضرورت ہے کہ اس مصیبت کے جتنے حصے کو ہم دعوت و وضاحت کے جائز و مؤثر طریقوں کے ذریعہ دور کر سکیں، اس سے دور کریں، اور جو وضاحت اور صحیح واقفیت کے بعد ہو اس کا پوری طاقت اور ہمت سے مقابلہ کریں۔

اس کے لیے اپنے عمل کو اور تعلق مع اللہ کو بھی درست کرنا ہو گا، اور مسلمانوں کے ایمان و اخلاق کو اسلام کی صحیح تعلیمات کے مطابق بنانے کے لیے دعوت و تربیت کے کام کو اصول و طریقہ کے مطابق سنجیدہ اور ٹھوس طریقہ سے کرنا ہو گا اور اس پر خاصا وقت صرف کرنا ہو گا۔ شور و پروپیگنڈے کو ضرورت کے مطابق رکھنا ہو گا، اس میں ہم کو جتنی کامیابی ہو گی، اتنی ہی اللہ کی طرف سے نصرت حاصل ہو گی اور کامیابی ملے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ‘‘ کہ سربلند تم ہی رہو گے اگر تم ایمان والے ہو۔ ہمیں ایمان کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے تب ہی ہم کو سربلندی ملے گی۔

(بشکریہ ’’تعمیرِ حیات‘‘ لکھنؤ)

عالم اسلام اور مغرب

(جون ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter