مصائب و مشکلات کے روحانی اسباب

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

ساری دنیا عموماً اور پاکستان خصوصاً آج جن مصائب میں مبتلا ہے، اس کا عظیم سبب بد اعتقادی اور بے عملی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذین عملوا لعلھم یرجعون۔ (الروم ۵)

 ’’پھیل پڑی ہے خرابی خشکی میں اور دریا میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ اللہ تعالیٰ چکھائے ان کو کچھ مزا ان کے کاموں کا تاکہ وہ رجوع کر لیں‘‘۔

 اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ امر واضح کر دیا ہے کہ خشکی و سمندر، بر و بحر میں جو فتنے اور فسادات برپا ہیں وہ انسانوں کے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے ہیں۔ پورا مزہ اور بدلہ تو مرنے کے بعد ہی ملے گا مگر انسانوں کی شرارتوں کا کچھ بدلہ اللہ تعالیٰ ان کو ان مصائب اور تکالیف کی وجہ سے دیتا ہے جو خود ان کی کمائی کا نتیجہ ہے۔ مگر ہمیشہ سے اکثریت ایسے لوگوں کی رہی ہے اور اب بھی ہے کہ ان حوادثات سے عبرت حاصل نہیں کرتی اور ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ گردشیں آئیں، دور بدلا، زمانہ بدلا، مگر بے عمل مسلمان نہ بدلا۔ بقول مفتی محمد نعیم صاحب لدھیانویؒ ؎

زمیں بدلی زماں بدلا
مکیں بدلے مکاں بدلا
نہ تو بدلا نہ میں بدلا
تو پھر بدلا تو کیا بدلا؟

اور جوں جوں مسلمانوں میں گناہ، فریب، مکر، دغا، چوری، زنا، حرام خوری، ڈکیتی، حیلہ سازی اور دیگر جرائم بڑھتے رہیں گے، مصائب بھی بڑھتے رہیں گے۔ کیونکہ ان کے اسباب ہمارے ہاتھوں کے کرتب ہیں۔ مشرقی پاکستان ہم سے کیوں جدا ہوا؟ آج پوری قوم، کیا مرد کیا زن اور کیا بوڑھے اور کیا جوان، مختلف قسم کے جسمانی دردوں میں کیوں مبتلا ہے؟ اور باہر کے اختلافات کا تو کہنا ہی کیا ہے، اسمبلی ہال تک میں آپس میں چپقلش کے روحانی اسباب درج ذیل حدیث شریف سے بخوبی سمجھ آجائیں گے۔

مشہور تابعی حضرت عطاءؒ بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہؓ بن عمرؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک نوجوان آیا اور اس نے پگڑی کے شملہ کے لٹکانے کے بارے میں حضرت عبد اللہؓ سے سوال کیا۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ میں تجھے انشاء اللہ العزیز علم کے مطابق خبر دوں گا۔ فرمایا کہ ہم دس آدمی جن میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت حذیفہ، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف اور ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہم تھے، مسجد نبوی  میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے، اتنے میں ایک نوجوان انصاری آیا اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، پھر بیٹھ گیا اور آپ سے یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ! مومنوں میں کون سا مومن افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا، جس کے اخلاق اچھے ہوں۔ اس نوجوان نے سوال کیا کہ کون سا مومن عقلمند اور دانا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ مومن دانا ہے جو موت کو کثرت سے یاد کرے اور موت آنے سے پہلے اس کے لیے خوب تیاری کرے۔ وہ نوجوان پھر خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس نوجوان کی طرف متوجہ ہوئے اور حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے، جن کی اکثریت مہاجرین کی تھی، فرمایا، اے مہاجرین! پانچ چیزیں ہیں، ان کے تم پر وارد ہونے اور تمہارے ان میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ تمہیں ان سے سابقہ نہ پڑے۔

(۱) لم تظہر الفاحشۃ فی قوم قط حتی یعملوا بہا الاظہر فیھم الطاعون و الا وجاع التی لم تکن مضت فی اسلافھم۔

’’کبھی کسی قوم میں بے حیائی نہیں پھیلی یہاں تک کہ وہ اس کی مرتکب ہو مگر اس میں طاعون اور ایسے درد ظاہر ہوں گے جو پہلے لوگوں میں نہ تھے۔‘‘

بوڑھے مرد اور عورتیں تو کیا آج نوجوان نسل اور بالکل نئی پود اور بچے بھی جسمانی طور پر ایسے ایسے دردوں میں مبتلا ہیں کہ نہ تو ڈاکٹروں کے ٹیکے اور کیپسول کارآمد ہوتے ہیں اور نہ حکیموں کی گولیاں اور سفوف۔ ظاہری اسباب تو سبھی ہی بیان کرتے ہیں کہ خوراکیں اصلی نہیں، کھاد کا اثر اور اشیا میں ملاوٹ کا ثمرہ ہے۔ بے شک یہ ظاہری اسباب ہیں اور شریعت ان کا انکار نہیں کرتی، مگر ان دردوں کا روحانی سبب، جس سے لوگ اغماض کرتے ہیں، زنا، بے پردگی اور دیگر ہر قسم کی بے حیائی ہے جو ٹی وی، وی سی آر اور ہر جدید طریقے سے پھیلائی جاتی ہے اور اکثریت کے رگ و ریشے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔

(۲) ولم ینقصوا المکیال والمیزان الا اخذوا بالسنین وشدۃ المونۃ وجور السلطان علیھم۔

’’اور وہ ماپ اور تول میں کمی نہیں کرے گی مگر چیزوں کی گرانی اور سخت مشقت اور بادشاہ کے ظلم کا شکار ہو گی۔‘‘

اشیا میں ملاوٹ کی بیماری کے علاوہ ماپ اور تول میں کمی ناقابل تردید حقیقت ہے اور اس کے نتیجہ میں اشیا کی گرانی اور حکومت کی طرف سے آئے دن بجلی، سوئی گیس، جہازوں، ریلوں اور بسوں کے کرایوں میں اضافہ اور نئے نئے ٹیکس لگانے کا معنوی اور روحانی سبب قوم کا پیمانوں اور تول میں کمی کرنا ہے۔ ظاہری سبب تو یہی بتاتے ہیں کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں یہ بھاؤ ہے مگر افسوس کہ روحانی سبب سے بالکل آنکھیں بند کرتے ہیں۔

(۳) ولم یمنعوا الزکوٰۃ الا منعوا القطر من السماء ولولا البھا ثم لم یمطروا۔

’’اور وہ قوم زکوٰۃ نہیں دے گی مگر آسمان سے بارش اس پر روک دی جائے گی، اگر چوپائے نہ ہوں تو اس پر بارش نہ برسائی جائے۔‘‘

آج مسلمان کہلانے والی قوم کی دولت جس طرح شیطانی کاموں میں صرف ہوتی ہے، اس کی نسبت سے زکوٰۃ وغیرہ نیک کاموں پر اس کا عشر عشیر بھی صرف نہیں ہوتا، اور بارش نہ ہونے کی وجہ سے بعض علاقے پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی بے زبان مخلوق چوپائے اور جانور نہ ہوں تو بارش سے کلیتاً لوگ محروم رہیں۔ مگر حیوانات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انسانوں پر بھی رحمت فرماتا ہے۔ محکمہ موسمیات تو مون سون کی ہواؤں سے کڑی جوڑتا ہے مگر اصل سبب زکوٰۃ جیسے فریضہ سے گریز ہے اور بعض نام نہاد مسلمان سنی کہلا کر بھی زکوٰۃ اور عشر سے بچنے کے لیے رافضی بن جاتے ہیں۔

(۴) ولم ینقضوا عہد اللہ وعہد رسولہ الا سلط اللہ علیھم عدلھم من غیرھم واخذ بعض ما کان فی ایدیھم۔

’’اور وہ قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے ہوئے وعدہ کو نہیں توڑے گی مگر اللہ تعالیٰ اس قوم پر ان کے مخالف دشمنوں کو مسلط کر دے گا جو اس سے بعض حصہ لے لیں گے جو اس کے قبضہ میں ہو گا۔‘‘

مشرقی بنگال پاکستان کا حصہ تھا اور تقریباً ۳۰ سال تک پاکستان رہا، مگر جب پاکستانی حکمرانوں نے ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘‘ کو بھلا دیا، خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیے ہوئے وعدہ کو پس پشت ڈالا اور قوم کو دھوکہ دیا تو اللہ تعالیٰ نے ہندوؤں، سکھوں اور روسیوں کو ان پر مسلط کیا۔ مشرقی پاکستان بھی گیا اور قوم کی عزت بھی گئی اور رسوائی سے ہم کنار ہوئی۔

(۵) وما لم یحکم اثمتھم بکتاب اللہ الا القی اللہ باسھم بینھم۔

’’اور جب برسراقتدار طبقہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی آپس میں لڑائی ڈال دے گا۔‘‘

پاکستان کا برسراقتدار طبقہ، کیا حزب اقتدار اور کیا حزب اختلاف، قرآن اور سنت کی حکمرانی سے گریزاں ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کی ساری قوت اور توانائی ہی اپنے وجود کو قائم رکھنے اور دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے وقف ہے۔ اسمبلیوں میں بھی جھگڑے سے باز نہیں آتے۔ سیاسی اختلاف تو سبب ظاہری ہے، اصلی اور روحانی سبب قرآن و سنت سے روگردانی ہے جس کا وبال حکمران طبقہ اولاً بالذات اور عوام ثانیاً بالتبع بھگت رہے ہیں، اور نرے الفاظ سے قوم کو تھپکی دی جاتی ہے ؎

تفاوت ہی کچھ ایسی ہے یہاں لفظ و معانی میں
طلب کچھ اور ہے، مضمونِ دعا کچھ اور کہتا ہے

(مستدرک ج ۴ ص ۵۴۰ و ص ۵۴۱ ۔ قال الحاکمؒ والذہبیؒ صحیح)

دین و حکمت

(جولائی ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter