حاکم خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر علمی و فنی تنقید پر مشتمل مقالے کا اردو ترجمہ الشریعہ اکیڈمی کتابی شکل میں شائع کر چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے زیرتنقید فیصلہ میں یہ قرار دیا تھا کہ جب دستور کا کوئی آرٹیکل ’’قرارداد مقاصد‘‘ سے متصادم ہو گا تو عدالت چارہ گری نہیں کر سکتی۔ فیصلہ کے ناقد معروف قانون دان سردار شیر عالم خان ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نے مقالہ میں فنی دلائل اور حوالوں سے ثابت کیا کہ اعلیٰ عدالتوں کا فرض منصبی ہے کہ وہ قرارداد میں درج اصولوں کی بالادستی قائم کرتے ہوئے دادرسی کریں۔ لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کا فیصلہ اسی نقطہ نظر کا آئینہ دار ہے۔ یہ بنچ جسٹس ریاض احمد شیخ، جسٹس راجہ افراسیاب خان اور جسٹس ملک محمد قیوم پر مشتمل تھا۔ اس طرح ہائیکورٹ کا فیصلہ مطالعاتی افادیت کا حامل ہے۔ اس کا اردو ترجمہ جناب چودھری محمد یوسف اور جناب عرفان مقبول بٹ ایڈووکیٹس نے مرتب کیا ہے جو کہ نذر قارئین ہے۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر یہ صفحات عام بحث کے لیے حاضر ہیں۔
نوٹ: اصل فیصلہ پی ایل ڈی ۱۹۹۲ء لاہور صفحہ ۹۹ پر شائع ہوا۔ بنیادی فیصلہ جسٹس ریاض احمد شیخ نے لکھا، جب کہ راجہ افراسیاب نے فیصلہ سے اتفاق کرتے ہوئے اضافی نوٹ تحریر کیا۔
شیخ ریاض احمد، راجہ افراسیاب خان، ملک محمد قیوم، جج صاحبان
مسماۃ سکینہ بی بی بنام وفاق پاکستان
رٹ درخواست نمبر ۲۶ سال ۱۹۸۹ء منفصلہ ۱۴ جنوری ۱۹۹۲ء
فیصلہ
جسٹس شیخ ریاض احمد جج
(۱) ۱۹۸۸ء میں بے نظیر بھٹو کے وزارتِ عظمٰی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر پاکستان نے وزیراعظم کی ہدایت پر ۸ دسمبر ۱۹۸۸ء کو بظاہر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل ۴۵ کے تحت (اپنے حکم کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے) لکھا:
’’(اے) ۶ دسمبر ۱۹۸۸ء تک فوجی یا دیگر عدالتوں کی سنائی گئی موت کی سزاؤں کو عمر قید میں بدلنے کے لیے،
(بی) ایسی خواتین جو قتل کے علاوہ کسی دیگر جرم میں فوجی یا کسی دیگر عدالت کی دی گئی قید بھگت رہی ہیں، کو معافی دینے کے لیے،
(سی) مارشل لا کے تحت غیر حاضری میں دی گئی سزاؤں کو معاف کرنے (اور عام عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کی ہدایت) کے لیے،
(ڈی) ایسے اشخاص جن کی عمر ساٹھ سال سے زائد ہے اور وہ فوجی یا دیگر عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزاؤں میں سے پانچ سال یا زائد قید بھگت چکے ہوں، ان کی سزاؤں کو معاف کرنے کے لیے،
(ای) ایسے تمام اشخاص (ماسوا مسلح افواج کے) جنہیں فوجی عدالتوں سے منشیات، سمگلنگ، رشوت ستانی، خیانت، بنک فراڈ، رہزنی، ڈکیتی، قتل، زنا، غیر فطری فعل کے علاوہ جرائم میں سزائیں ہوئی ہوں، ان کو معاف کرنے کے لیے، اور مسلح افراد کے مقدمات پر افواج کے مجاز حکام کی نظرثانی کے لیے،
(ایف) ہر قسم کے سزایافتگان (بشمول مسلح افواج کے افراد) کو تین ماہ کی معافی دینے کے لیے،
(جی) ایسے افراد جن کو فوجی عدالتوں کی سزاؤں میں معافی نہیں دی گئی، ان کو معافی دینے کے لیے،
(ایچ) فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کی کل سزا میں سے دورانِ سماعت حراست کا عرصہ کاٹی گئی سزا کے طور پر شمار کرنے کی ہدایت جاری کرنے کے لیے۔‘‘
(۲) اگرچہ متنازعہ حکم اختیارات کے استعمال کے بارے میں خاموش ہے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل ۴۵ کے سوا کوئی ایسی قانونی دفعہ نہیں جس کے تحت متنازعہ حکم جاری کیا جا سکتا ہو۔ متنازعہ حکم کا پیراگراف (اے) فوجی یا دیگر عدالتوں کی طرف سے ۶ دسمبر ۱۹۸۸ء سے پہلے دی گئی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے سے متعلق ہے، اس کلاز کو متعدد رٹ درخواستوں کے ذریعے چیلنج کیا گیا تھا اور اس قسم کے عمومی حکم پر مستغیث فریقوں کی طرف سے عذرات اٹھائے گئے۔ ایسی رٹ درخواستوں کو عدالتِ ہٰذا نے سماعت کے لیے منظور کیا اور حکم سے مستفید ہونے والے سزایافتگان کے ورثا کو نوٹس جاری کیے۔ کئی ایک مقدمات، جن میں سیشن (بشمول ایڈیشنل سیشن) ججوں کی طرف سے موت کی سزاؤں کی توثیق کے لیے ریفرینس زیرغور تھے، کے بارے میں کہا گیا کہ متنازعہ حکم کا ایسے مقدمات پر اطلاق نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ مذکورہ سزائیں کسی طور پر قطعی نہیں ہیں۔ البتہ فوری سماعت کی خصوصی عدالتوں کی طرف سے سنائی گئی موت کی سزاؤں کی صورت مختلف ہے، کیوں کہ ایسی سزائیں عمل درآمد میں اس عدالت کے دو ججوں کی توثیق سے مشروط نہیں۔
(۳) دستور کے آرٹیکل ۲ الف کی روشنی میں آرٹیکل ۴۵ کی تعبیر اور اس کے احاطہ کار کے اہم سوال پر غور کے لیے چیف جسٹس صاحب نے موجودہ فل بنچ تشکیل دیا۔ ہر دو فریقین کے دلائل کو تفصیلاً سننے کے بعد ہم درج ذیل فیصلہ صادر کرتے ہیں۔
(۴) حکمِ متنازعہ کے بارے میں اولین کا استدلال یہ ہے کہ صدر مملکت کی جانب سے حکم اس کے مضمرات پر مناسب غور کے بغیر جاری کیا گیا ہے اور یہ حکم مکمل طور پر مبہم ہے۔ اس بارہ میں واقعاتی صورت حال کے تعین کے لیے ہم نے فاضل اٹارنی جنرل پاکستان کو صدر کے حکم، اور وزیر اعظم اور صدر کی خط و کتابت کی اصل فائل پیش کرنے کی ہدایت کی۔ اٹارنی جنرل نے حکمِ مذکورہ کی اصل فائل پیش کی اور اس کی قانونی حیثیت پر کلام کرتے ہوئے یہ کہا کہ اس حکم کی قانونی حیثیت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا اور فی الواقع صدر پاکستان نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی ہدایت کی متابعت میں حکم جاری کیا ہے، اس طرح مزید بحث غیر ضروری ہے۔
(۵) سزایافتگان کی طرف سے اس استدلال پر زور دیا گیا کہ دستور کے آرٹیکل ۴۵ کی رو سے صدر کے اختیارات کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سربراہ مملکت کے طور پر صدر کو یہ اختیارات عطا کیے گئے ہیں، لہٰذا ان اختیارات کے استعمال پر عذر نہیں کیا جا سکتا۔ مختصرًا کہا گیا کہ یہ عدالت حکمِ متنازعہ کی تعدیل کی مجاز نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ صدر کا یہ اختیار مطلق ہے۔ اس بارہ میں بھارتی اور پاکستان کی سپریم کورٹس اور ہائی کورٹس کے بہت سے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔ بہرحال زیرغور سوال محض حجت بازی اور ذہنی مشق نہیں بلکہ انتہائی اہم اور سنجیدہ سوال پر مشتمل ہے، جو کہ یہ ہے کہ آرٹیکل ۲۲۷ کو آرٹیکل ۲ الف کے ہمراہ دیکھا جائے تو اسلام میں فوجداری نظامِ عدل کے بارے میں احکامات کا صدر کے اختیارات پر کیا اثر ہے؟ غور طلب امر یہ ہے کہ جن مقدمات میں سزائے موت حد یا قصاص کے طور پر عائد ہوئی، کیا صدر پاکستان اپنے طور پر ان سزاؤں کو بدل دینے کا مجاز ہے؟ جب کہ اسلام کے نظامِ فوجداری میں صرف متوفی کا ولی قصاص کا حق زائل کر سکتا ہے، مملکت کے سربراہ کو اس بارہ میں کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔
(۶) اس نزاع کو طے کرنے کے لیے ہمیں دستور کے آرٹیکل ۲۲۷، آرٹیکل ۲ اے، اور حصہ ۷ باب ۳ اے کو قصاص و دیت آرڈیننس کے ہمراہ اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلوں کو مجموعی طور پر دیکھنا پڑے گا۔ آرٹیکل ۲۲۷ کے تحت مروجہ قوانین کو اسلامی احکامات، جس طرح کہ وہ قرآن و سنت میں درج ہیں، کے مطابق بنایا جائے گا اور اسلامی احکامات سے متصادم قانون وضع نہیں کیا جا سکتا۔ آرٹیکل ۲۲۸ کی رو سے اسلامی نظریاتی کونسل تشکیل کی گئی۔ آرٹیکل ۲۲۹ کے تحت پارلیمنٹ کی طرف سے کسی قانون کے اسلامی احکامات کے مطابق و منافی ہونے کے بارے میں ریفرینس بھیجا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل ۲۳۰ کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے فرائض کی صراحت کی گئی ہے۔ صدارتی حکم نمبر ۸۰/۱ کے ذریعے سے وفاقی شریعت کورٹ کے قیام کے لیے دستور ۱۹۷۳ء میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا۔ اس طرح وفاقی شرعی عدالت قائم ہوئی جسے یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی قانون کے بارے میں طے کرے کہ وہ اسلامی احکامات، جس طرح کہ وہ قرآن و سنت میں درج ہیں، سے متصادم ہے یا نہیں۔ اگر وفاقی شرعی عدالت یہ قرار دے کہ کوئی قانون اسلامی احکامات کے منافی ہے تو وہ اپنے فیصلے میں اس بارے میں وجوہات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ قانون کے اسلامی احکام سے تصادم کی حد واضح کرتے ہوئے فیصلہ کے موثر ہونے کی تاریخ مقرر کرے گی۔ آرٹیکل ۲۰۳ اے میں یہ لکھا گیا کہ ایسے فیصلے کے بعد قانون سازی کے وفاقی دائرہ میں صدر، اور صوبائی دائرہ میں متعلقہ گورنر قانون کو اسلام کے مطابق بنانے کے لیے اقدامات کریں گے۔
(۷) یہ بات اہم ہے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد چھ ماہ کے اندر پاکستان کی اولین دستور ساز اسمبلی نے مارچ ۱۹۴۹ء میں ایک قرارداد منظور کی جسے قراردادِ مقاصد کا نام دیا گیا۔ بعد میں یہ قرارداد دساتیر ۱۹۵۶، ۱۹۶۲، ۱۹۷۲، ۱۹۷۳ کا دیباچہ بنی۔ ضیاء الرحمان (۱) کیس میں سپریم کورٹ کے روبرو یہ استدلال پیش کیا گیا کہ قرارداد مقاصد پاکستان کی نظریاتی اساس ہے اور یہ دستور سے بالاتر دستاویز ہے۔ مگر اس استدلال کو مسترد کر دیا گیا اور یہ قرار دیا گیا کہ اختیارات کا سرچشمہ دستور کے قابل عمل حصے ہیں اور جب تک قرارداد مقاصد کو دستور کے موثر حصے میں داخل نہ کیا جائے یہ موثر نہیں ہو گی۔ پاکستان کی دستوری تاریخ میں قرارداد کو مختلف مراحل میں مملکت یا حکومت کی جانب سے اقدامات کو جائز بنانے کے لیے روبعمل لایا جاتا رہا۔ قرارداد کو عاصمہ جیلانی کیس (۲) میں قانونی نظام کا بنیادی پتھر، نظریہ کی ترجمان، مملکت اور قوم کی آخری منزل قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود حسین نقی کیس (۳) میں اس کو دستور سے بالاتر دستاویز تسلیم نہیں کیا گیا اور اسے ناقابل نفاذ اور دیباچائی نوعیت کی حامل قرار دیا گیا۔ ضیاء الرحمان کیس میں چیف جسٹس حمود الرحمان نے اپنے فیصلہ میں لکھا:
’’میرے نقطہ نظر میں یہ کتنی ہی قابل احترام دستاویز کیوں نہ ہو مگر جب تک اسے دستور کا روبعمل حصہ نہ بنایا جائے یہ دستور کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ عدالتیں دستور کی تخلیق ہونے کی بنا پر ازخود دستور کے کسی آرٹیکل کو ایسی کسی دستاویز سے متصادم قرار نہیں دے سکتیں۔ اس طرح ہم اپنے نظام کے تحت بھی ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد، جسے قبولیتِ عامہ حاصل رہی اور یہ کبھی منسوخ کی گئی اور نہ ہی اس سے کبھی براءت کا اظہار کیا گیا، مگر اس کے باوجود اسے دستوری دفعہ کی حیثیت حاصل نہیں ہو گی جب تک کہ یہ دستور کا روبعمل حصہ نہ بنا دیا جائے۔ اگر یہ محض دستور کے دیباچہ کے طور پر ہی رہے تو یہ ہر دوسرے دیباچے کا کام کرے گی، یعنی قانون وضع کرنے والے کے منشا کے بارے میں کوئی اشتباہ پیدا ہو تو یہ منشا کا تعین کرے گی مگر یہ اسے کنٹرول نہیں کر سکتی۔‘‘
(۸) پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کا منشا اسلامی مملکت کا قیام تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس وطن کے حصول کی تمام تر جدوجہد اسلام کے نام پر جاری و ساری ہوئی۔ ایک ہی نعرہ جس نے لوگوں کو اس تحریک کی حمایت پر جمع کر دیا تھا وہ تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘۔ قائد اعظم علیہ الرحمہ نے اس حقیقت کو قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں واشگاف الفاظ میں واضح کر دیا تھا۔ انہوں نے کراچی بار ایسوسی ایشن کے روبرو ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو صراحت کرتے ہوئے بعض لوگوں کے اس گمراہ کن پروپیگنڈہ کو ناقابلِ فہم قرار دیا جس کے ذریعے سے وہ یہ غلط فہمی پھیلاتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر مرتب نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید فرمایا:
’’اسلامی نظریہ مثالی ہے۔ اس نے جمہوریت، مساوات، عدل اور حریت کے اصول جس طرح ہمیں سکھائے ہیں وہ اپنی اعلیٰ ترین شکل میں ہیں۔ اسلام ہر ایک کے ساتھ انصاف کا علمبردار ہے۔ آئیے مستقبل میں ان اقدار کو پاکستان کے دستور کی بنیاد بنائیں۔ اسلام محض رسمی عبادات کا مذہب نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہر مسلمان کی زندگی کو منضبط کرتا ہے، حتٰی کہ سیاست اور معیشت اور اسی طرح کے دیگر شعبہ ہائے زندگی کو بھی۔ یہ ہر ایک کے لیے احترام، سلامتی، مساوات اور عدل کے اعلیٰ اصولوں پر مبنی ہے۔۔۔‘‘
’’اسلام میں فرد اور فرد میں کوئی امتیاز نہیں۔ مساوات، آزادی اور اخوت کے اصول اسلام کی بنیاد ہیں۔‘‘
قائد اعظم نے مزید کہا کہ رسول اللہؐ نے تیرہ سو سال قبل جمہوریت کی تاسیس فرما دی تھی۔
(۹) قائد ملت (خان لیاقت علی خان) کی وہ تقریر جو انہوں نے دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمائی، نہایت واضح ہے۔ اس کی چند سطور یہاں درج کرنا افادیت سے خالی نہیں:
’’جناب والا! میں اس موقعہ کو مملکت کی زندگی میں حصولِ آزادی کے بعد سب سے اہم موقعہ خیال کرتا ہوں کیوں کہ ہم نے آزادی حاصل کر کے اپنے عقائد کے مطابق تعمیرِ وطن کا صرف موقعہ حاصل کیا ہے۔ میں ایوان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ بابائے قوم قائد اعظمؒ نے بے شمار مواقع پر اس امر کی صراحت کی ہے اور اس بارہ میں ان کے خیالات کی قوم نے بھرپور تائید کی ہے۔ پاکستان کی تاسیس کا مقصد محض یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمان اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق استوار کر کے دنیا پر عملاً ثابت کر دیں کہ اسلام دنیا کو درپیش بہت سے مسائل کا مداوا کر سکتا ہے۔‘‘
’’ہم پاکستانیوں کو مسلمان ہونے پر شرم محسوس نہیں ہوتی بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ ہم اپنے عقائد اور اقدار پر استقامت سے دنیا کی فلاح میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس طرح، جناب! آپ دیکھیں گے کہ قرارداد کا دیباچہ غیر مبہم طور پر اس امرِ واقعہ کو تسلیم کرتا ہے کہ تمام اقتدار و اختیار لازماً اللہ تعالیٰ کے تابع ہو گا۔‘‘
’’لیکن ہم اسلامیانِ پاکستان یہ عزم رکھتے ہیں کہ تمام اختیارات اسلامی اصولوں اور احکامات کے مطابق استعمال کیے جائیں گے تاکہ ان کا بے جا اور غلط استعمال نہ ہو سکے۔ تمام تر اختیار و اقتدار مقدس امانت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سپرد فرمائی ہے تاکہ اسے انسان کی فلاح کے لیے استعمال کیا جائے اور اسے بندۂ ہوا و ہوس بننے سے روکا جا سکے۔‘‘
یہاں یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ قرارداد مقاصد ۱۹۴۹ء میں دیباچہ کے طور پر نہ پیش ہوئی اور نہ اس طور منظور ہوئی بلکہ اس کا تو اپنا دیباچہ ہے۔ درحقیقت یہ دستور کی ترتیب سے بہت سال پہلے پیش اور منظور ہوئی۔ یہ اصول ہے کہ دیباچہ ہمیشہ قانون کی تمام شقوں اور شیڈولز کی منظوری کے بعد پیش ہوتا ہے (۴)۔ ہاؤس آف لارڈز کے ضابطہ کار کے صفحہ نمبر ۴۷۸ میں یہی لکھا ہے۔ دستور ساز اسمبلی کے مباحث سے پتہ چلتا ہے کہ قرارداد پر طویل مباحث ہوئے اور غیر مسلم ارکان نے اس پر خاصی تنقید کی۔
(۱۰) یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ قرارداد کی ترتیب سے پہلے اسلامی دستور کی تدوین کے لیے تمام مکاتبِ فکر کے فاضل ترین علماء پر مشتمل ایک ٹیم نے بنیادی راہنما اصول مرتب کیے۔ اس مرحلہ کے بعد قرارداد ان اصولوں کی روشنی میں تیار ہوئی۔ قرارداد کے دیباچے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگوں کی طرف سے دستور سازی کا مینڈیٹ ہے۔ اس میں بنیادی اصول درج کر دیے گئے ہیں، تفصیل یوں ہے:
’’ہرگاہ کل کائنات پر اقتدار و حاکمیت کا مالک مطلق اللہ تعالیٰ بلا شرکتِ غیرے ہے۔ اور یہ اختیار امانت ہے جسے ذاتِ برتر کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کیا جائے گا۔ اور پاکستان کے عوام کا یہ منشا ہے کہ ایسا نظام ترتیب دیا جائے جس کی رو سے اسلام کے اصول ہائے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور اجتماعی عدل کا پورا اتباع کیا جائے گا، اور جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات اور مقتضیات کے مطابق ترتیب دیں۔‘‘