ڈاڑھی کی شرعی حیثیت
مصنف: حفظ الرحمٰن الاعظمی الندوی۔ ناشر: دارالکتاب الاسلامی، یو پی، انڈیا۔ صفحات: ۷۲ قیمت درج نہیں۔
ڈاڑھی ایک ایسا اسلامی شعار ہے جسے فرمانِ نبویؐ کے مطابق فطرتِ انسانی اور سنتِ انبیاءؑ قرار دیا گیا ہے اور اس کا منڈوانا حرام اور ہنود و مجوس کا شعار ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں اسی پر بحث کی گئی ہے اور احادیثِ صحیحہ، تعاملِ سلف صالحین، مسالک فقہاء اربعہ اور فتاوٰی علمائے اہلِ حدیث کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ ڈاڑھی کم از کم ایک قبضہ تک مسنون ہے، کٹوا کر اس سے چھوٹی کر لینا ناجائز و مکروہ ہے۔ نیز یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ایک قبضہ سے زائد ڈاڑھی کا کاٹنا جائز اور درست ہے۔
رواداری اور دینی غیرت
مصنف: ڈاکٹر محمد صدیق شاہ بخاری۔ ناشر: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ننکانہ صاحب، ضلع شیخوپورہ۔ صفحات: ۸۸ قیمت درج نہیں۔
رواداری دینِ اسلام کا ایک اہم جزو ہے جس کی خصوصی تعلیم دی گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دینی غیرت و حمیت بھی ایمانی سلامتی کی بنیاد ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی جگہ حدود و قیود ہیں اور انہیں حدود میں رہ کر دونوں پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا وجودِ اطہر امتِ مسلمہ کے لیے نمونۂ کامل ہے اور اس نمونہ میں ہمیں دونوں پر عمل کے روشن ثبوت ملتے ہیں۔
- اگر ایک طرف وہ مہمان یہودی کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں، جو رواداری کا جزو ہے، تو دوسری طرف نمازِ فجر میں ایک مہینہ تک شہدائے بیر معونہ کے قاتلوں کے لیے بددعائیں کرتے نظر آتے ہیں، جو ایمانی و ملی غیرت کا تقاضا تھا۔
- ایک طرف اگر وہ سر پر کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کی تیمارداری کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف خوفناک سازشوں اور بدعہدیوں کے مرتکب یہودِ مدینہ کو ملک بدر کرتے نظر آتے ہیں۔
- اگر ایک طرف رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کی نمازِ جنازہ پڑھاتے اور اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف کعب بن اشرف جیسے گستاخِ رسول یہودی سردار کے قتل کے احکامات جاری کرتے نظر آتے ہیں۔
غرض یہ کہ مروت و غیرت کے دو الگ الگ دائرے ہیں اور دونوں دائروں میں ہمارے لیے اسوۂ حسنہ موجود ہے۔ دونوں کو ملا دینا حماقت اور دونوں کی تفریق ختم کر دینا جہالت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عصرِ حاضر کے صلحِ کل اور وسیع تر اتحاد کے علمبردار مذہبی و سیاسی راہنما رواداری و مروت کے نام پر غیرت و حمیت کا جس طرح جنازہ نکال رہے ہیں وہ ایک شرمناک حادثہ ہے۔
زیرتبصرہ کتاب میں اس موضوع پر بحث کی گئی ہے اور دلائل کے ساتھ مروت و غیرت کا فرق سمجھایا گیا ہے اور اس پر بے شمار قرآنی و حدیثی شواہد پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں سے پیغمبر اسلامؐ کا یہ فرمان خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ
’’جو شخص کسی بدعتی کی عزت کرے گا تو اس نے اسلام کو ڈھانے میں مدد دی۔‘‘
مسلم راہنماؤں کی اندھی مروت اور بہری رواداری کے برعکس غیر مسلموں کے طرزعمل پر شکوہ کرتے ہوئے مصنف رقمطراز ہیں کہ
’’مشہور گلوکار کیٹ سٹیونز (Cat Stevens) نے اسلام قبول کیا تو امریکی ریڈیو اسٹیشنوں نے اس کے پروگرام بند کر دیے۔ سلمان رشدی کے خلاف انٹرنیشنل گوریلے کے نام سے پاکستان میں فلم بنی تو برطانیہ میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔‘‘
کاش ہمارے راہنماؤں کی آنکھیں کھل سکیں۔ مصنف نے پاکستان میں اقلیتوں کی سرگرمیوں کا اور ان کے ذرائع ابلاغ کا بھی تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ کتاب موضوع و مواد کے اعتبار سے قابل قدر اور قابل مطالعہ ہے۔
خزینۂ رحمت
مصنف: مولانا عبد اللطیف مسعود۔ ناشر: انجمن اشاعتِ اسلام، جامع مسجد خضرٰی، نزد مشن گراؤنڈ ہائی اسکول، ڈسکہ۔ صفحات: ۱۹۲ قیمت : ۳۰ روپے۔
فرمانِ نبویؐ ہے کہ ’’الدعاء مخ العبادۃ‘‘ دعا عبادت کا مغز ہے۔ دوسرے موقعہ پر فرمایا کہ ’’الدعاء ھو العبادۃ‘‘ دعا عین عبادت ہے۔ جبکہ منکرینِ حدیث نے دعا کی اہمیت و ضرورت سے انکار کیا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے دعا کی قبولیت کی شرائط، طریقِ دعا، آدابِ دعا، مقاماتِ قبولیت، فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنے کا ثبوت، اور حضور علیہ السلام کے اذکار و وظائف پر قابلِ قدر اور اچھی بحث کی ہے۔ البتہ مسئلہ توسل میں انہوں نے جمہور اہلسنت والجماعت کے خلاف موقف اختیار کیا ہے۔ وہ صرف نیک اعمال کے وسیلہ کے قائل ہیں، صالح رجال کے وسیلہ کے قائل نہیں، حالانکہ یہ جمہور کا مسلک ہے۔ اس وضاحت کے ساتھ کتاب کی باقی ابحاث قابلِ مطالعہ ہیں۔
عقیقہ اور ولیمہ اسلام کی نظر میں
مرتب: مولانا قاری محمد اجمل خان۔ ناشر: مکتبہ اشاعتِ اسلام، عبد الکریم روڈ، قلعہ گوجر سنگھ، لاہور۔ صفحات ۸۸ قیمت درج نہیں۔
عقیقہ اور ولیمہ دو اسلامی شعار ہیں جو بچہ کی ولادت اور شادی کی خوشی میں ادا کیے جاتے ہیں۔ ان دونوں شرعی رسوم میں آج کل بے شمار عوامی رسوم داخل ہو گئی ہیں۔ مولانا محمد اجمل خان کی یہ کتاب اسی موضوع پر ان کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو کچھ عرصہ قبل ماہنامہ بینات اور ماہنامہ البلاغ کراچی میں بالاقساط شائع ہو چکے ہیں۔
اس کی دو فصلیں ہیں: پہلی فصل میں عقیقہ کی وجہ تسمیہ، اس کی مشروعیت کے فلسفہ، احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں اس کی اہمیت و فوائد، اس کے شرعی طریقہ، اس کے فقہی احکام، اور اس میں شامل ہو جانے والی غلط رسومات پر بحث کی گئی ہے۔ اور دوسری فصل میں احادیث کی روشنی میں ولیمہ کی اہمیت و فلسفہ، اس کے فقہی احکام، اور اس میں شامل عوامی رسومات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب مفید اور قابلِ مطالعہ ہے۔
شاہ جیؒ کے علمی و تقریری جواہر پارے
مرتب: اعجاز احمد خان سنگھانوی۔ ناشر: کتب خانہ انور شاہ، کورنگی، ٹاؤن شپ، کراچی۔ صفحات: ۳۶۸ قیمت درج نہیں۔
عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ایک ایسا موضوع و عنوان ہے جس کو جتنا بھی پڑھتے اور لکھتے جائیں تشنگی ختم نہیں ہوتی۔ اس موضوع پر بے شمار کتب منظر عام پر آ چکنے کے باوجود نظر و فکر کو مزید کی تلاش رہتی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب بھی اسی موضوع پر لکھی گئی ہے جس میں امیرِ شریعتؒ کے فنِ خطابت کی تقریری جھلکیاں بھی ہیں اور فنِ ظرافت کی مجلسی بذلہ سنجیاں بھی۔ سواطع الالہام کے اوراق سے شاعرانہ کلام بھی اور پسِ دیوارِ زنداں کے حالات و واقعات بھی۔ اساتذہ و شیوخ کا ذکر بھی ہے اور ہم عصروں کا نذرانۂ عقیدت بھی۔ ان کا نسب نامہ حریت بھی ہے اور مرزا قادیانی کے نظریاتِ باطلہ کا رد بھی۔ غرض یہ کہ کتاب ہر اعتبار سے قابلِ تعریف اور قابلِ مطالعہ ہے۔
جذبِ دل
مجموعہ کلام: پروفیسر اسرار احمد سہاروی۔ ناشر: فروغِ ادب اکادمی، گوجرانوالہ۔ صفحات: ۲۲۴ قیمت: ۵۰ روپے۔
شاعری فلاح و صلاح کا ذریعہ بھی ہو سکتی ہے اور گمراہی و بے راہ روی کا باعث بھی۔ اس کے ذریعے سے قوموں کے اخلاق و کردار بگاڑے بھی جا سکتے ہیں اور سنوارے بھی۔ اس لیے شاعری برائے شاعری کوئی مقصد نہیں۔ عصرِ حاضر میں یہ فن حسن و عشق کی حدود میں بند ہو کر اپنی اہمیت و افادیت تقریباً کھو چکا ہے، تاہم اس دور میں اس فن کو فکری و روحانی اصلاح کے لیے استعمال کرنے والے شعراء کا وجود غنیمت ہے۔
پروفیسر اسرار احمد سہاروی کا زیرتبصرہ کلام بھی اس اعتبار سے قابل تعریف ہے کہ اس میں فلاح و صلاح کا پہلو نمایاں ہے۔ بعض متنازعہ شخصیات سے ان کی وابستگی و عقیدت باعثِ اختلاف ہونے کے باوجود ان کا طرز و ذوقِ شاعری بہرحال قابلِ تحسین ہے۔ ان کے حمدیہ کلام میں ان کے یہ اشعار پورے کلام کی جان ہیں:
؎
عالم پہ ہیں محیط ان کی نوازشیں
ہر ابتدائے درد کی وہ انتہا بھی ہیں
؎
خیرہ چشمی نے ہمیں کر دیا رسوا اسرار
حق ادا ہو نہ سکا ہم سے جبیں سائی کا
؎
یہ جان لو کہ تمہاری تلاش ہے ان کو
اسی وجہ سے وہ رہتے ہیں شاہ رگ کے قریں
نعتیہ کلام میں درج ذیل اشعار ان کے عشقِ رسولؐ کی مکمل عکاسی کرتے ہیں:
میں رہا گم کردہ راہ حقیقت مدتوں
خوبی قسمت سے ان کے آستاں تک آ گیا
؎
منزل شناس ہو نہیں سکتا سفیر شوق
جب تک تمہارا نقش قدم رہنما نہ ہو
؎
جستجو میں کہیں منزل کا تصور بھی نہ تھا
راہ بنتی گئی دیوانے جہاں سے گزرے
امتِ مسلمہ کی بے حسی پر شاعر کا شکائتی کلام ان کے درد و الم کی غمازی کرتا ہے:
آنکھیں کھلیں تو ہم کو بھی حاصل ہو کچھ نمود
کیا پائیں گے رہے جو یونہی محو خواب میں
دخترِ مشرق کی اخلاقی پستی پر شاعر کا ناصحانہ کلام ان کے دینی و اخلاقی ذوق کی نشاندہی کرتا ہے:
تو امانت دار زہرہ ہے تجھ کو جائز نہیں ہے عریانی
شوق میں اپنی خودنمائی کی، قدر و قیمت نہ اپنی پہچانی
نقوشِ ایثار
مولف: ثناء اللہ ساجد شجاع آبادی۔ ناشر: گوشہ علم و ادب، شجاع آباد۔ صفحات: ۳۵۲ قیمت ۱۰۰ روپے۔
زیر تبصرہ کتاب میں مولانا ایثار القاسمی شہید کی تقریباً ستائیس سالہ زندگی کے نشیب و فراز اور حالات و واقعات پر بحث کی گئی ہے کہ سمندری کے علاقہ میں جنم لینے والے اس نوجوان شہید نے ٹاؤن شپ لاہور سے خطابت کا آغاز کیا، اوکاڑہ میں رفض و بدعت کے ایوانوں پر لرزہ طاری کیا، سپاہ صحابہؓ سے وابستگی اختیار کر کے گڑھ مہاراجہ کی خواب غفلت میں مبتلا روحوں کو بیدار کیا، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، جھنگوی شہیدؒ کی شہادت کے بعد جھنگ کے مضطرب اور بے چین سنی کو سہارا دیا، ۱۹۹۰ کے انتخابات میں ایم این اے اور ایم پی اے منتخب ہوا، اور چند ماہ بعد ایم پی اے کی نشست سے دستبرداری کے بعد ضمنی انتخاب کے دوران شہید کر دیا گیا۔ مختصر زندگی میں شہرت کی بے شمار منزلیں طے کرنے والے عزم و استقلال کے اس پیکر مجسم کے حالات زندگی پر دلچسپ اور عمدہ کتاب ہے جس میں ان کی تقاریر کے اقتباسات، ان کے انٹرویوز، بحیثیت ایم این اے ان کی فلاحی خدمات، قومی اسمبلی سے خطاب کا متن، غیر ملکی دوروں کی رپورٹ، اخبارات و جرائد کے تبصرے اور شعراء کرام کا منظوم خراج عقیدت و تحسین سب کچھ شامل ہے۔ نیز پاکستان کے چند بد طینت اہلِ تشیع کی کفریہ عبارات بھی نقل کی گئی ہیں، کتاب ہر لحاظ سے قابلِ مطالعہ ہے۔