ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ سیکولر مغربی لابیاں پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے کے لیے مسیحی اقلیت کو ورغلا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور یہ خود مسیحی کمیونٹی کی مذہبی تعلیمات اور مفادات کے منافی ہے۔ وہ گزشتہ روز ختم نبوت سنٹر لندن میں ’’توہینِ رسالتؐ کی سزا کے قانون‘‘ کے حوالے سے ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ گستاخِ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا قانون، جداگانہ الیکشن اور اس نوعیت کے دیگر مذہبی قوانین دراصل مغربی سیکولر لابیوں کے اس ہدف کے خلاف ہیں جو انہوں نے پاکستان کو لا دینی ریاست بنانے کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ لیکن سیکولر حلقے اپنی بات خود کہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور مسیحی اقلیت کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
- حالانکہ گستاخِ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا حکم صرف اسلامی شریعت کا نہیں بلکہ بائبل نے بھی توہینِ رسالتؐ کی یہی سزا بیان کی ہے۔
- اسی طرح جداگانہ الیکشن خود مسیحی اقلیت کے سیاسی مفاد میں ہے، کیونکہ مخلوط انتخابات میں مسیحی کمیونٹی ان نشستوں کا بیس فیصد بھی حاصل نہیں کر سکتی جو اسے اس وقت پاکستان کی اسمبلیوں میں حاصل ہیں۔
اس لیے ہم نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ ان مسائل کو مسیحی مسلم تنازعہ کا رنگ نہ دیا جائے اور اس مقصد کے لیے مسیحی راہنماؤں سے مذاکرات و مفاہمت کی غرض سے متعدد بار پیشرفت کی گئی ہے مگر مسیحی راہنما مغرب کی سیکولر لابیوں کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔
منظور مسیح قتل کیس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مغربی ذرائع ابلاغ اس سلسلہ میں یکطرفہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ اس کیس کی ایف آئی آر میں خود مسیحی کمیونٹی نے جن افراد کو نامزد کیا تھا وہ گرفتار ہیں اور قانونی تفتیش کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ جبکہ ان کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ انہیں بلاوجہ اس کیس میں ملوث کیا گیا ہے اور ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ منظور مسیح اور اس کے دو ساتھیوں کے خلاف تھانہ کوٹ لدھا ضلع گوجرانوالہ میں درج توہینِ رسولؐ کے مقدمہ کی مسلمانوں کی طرف سے پیروی کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ منظور مسیح قتل کیس کے بارے میں پاکستان کے وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی کا موقف یہ ہے کہ یہ بھارتی انٹیلی جنس ’’را‘‘ کی کارروائی ہے۔ اور سرگودھا پولیس نے دو شیعہ علماء کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزموں کا یہ اعتراف پریس کے لیے جاری کیا ہے کہ منظور مسیح کا قتل بھی انہی کی کارروائی ہے، اس لیے ان تین متضاد موقفوں کے ہوتے ہوئے کسی کو متعین طور پر اس کا ذمہ دار قرار دینا بہت مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی نے توہینِ رسالتؐ کی سزا کے قانون پر نظرثانی کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کی ہے جس میں اسمبلی کے ارکان میں سے علماء، مسیحی راہنما، اور وزراء شامل ہیں۔ ہم نے پیشکش کی ہے کہ توہینِ رسالت کے مقدمات اور منظور مسیح قتل کیس کی انکوائری بھی یہی کمیٹی کر لے، لیکن مسیحی راہنماؤں نے اس پیشکش کو بھی قبول نہیں کیا۔ مولانا راشدی نے کہا کہ وہ لندن میں مسیحی راہنماؤں کے ساتھ مل کر کسی بھی فورم پر مل بیٹھنے اور ان مسائل پر کھلے دل کے ساتھ گفت و شنید کے لیے تیار ہیں اور ان کی ذاتی خواہش یہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی راہنما آپس میں الجھنے کے بجائے متحد ہو کر ان قوتوں کا سامنا کریں جو اجتماعی زندگی سے مذہب کو قطعی طور پر بے دخل کرنے اور مذہبی اقدار و روایات کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے مسلسل مصروفِ عمل ہیں۔
(بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔ جون ۱۹۹۴ء)