مغربی میڈیا اور عالمِ اسلام
لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کی مجلسِ مذاکرہ

ادارہ

ابلاغِ عامہ کے عالمی ذرائع پر اس وقت مغرب کی بالادستی ہے اور اس کی پشت پر یہودی دماغ جس مہارت اور چابک دستی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کی پہچان کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کی وجہ سے جدید ترین ذرائع ابلاغ اور الیکٹرانک میڈیا تک رسائی آج عالمِ اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ اور دنیائے اسلام میں ہر جگہ مسلم دانشور اس سلسلہ میں سوچ بچار میں مصروف ہیں۔ اسی پس منظر میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام ۲۸ مئی ۱۹۹۴ء کو لندن میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں میڈیا کے تکنیکی اور نظریاتی شعبوں سے تعلق رکھنے والے ڈیڑھ درجن کے قریب ماہرین نے شرکت کی۔ مذاکرہ کی اس مجلس کا اہتمام رابطہ عالمِ اسلامی کے لندن آفس کے ہال میں کیا گیا جس کی صدارت ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کی اور معروف دانشور پروفیسر اکبر ایس احمد (آف کیمبرج یونیورسٹی) بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ جب کہ فورم کے راہنماؤں مولانا محمد عیسٰی منصوری، پروفیسر عبد الجلیل ساجد، مفتی برکت اللہ، الحاج عبد الرحمٰن باوا، فیاض عادل فاروقی اور عمر جی بھائی کے علاوہ امپیکٹ انٹرنیشنل کے سید نیاز احمد، چاند ٹی وی کے محمد جمیل، ویڈیو وژن انٹرنیشنل کے سلیم مرزا، اسلامک اسٹینڈرڈ انٹرنیشنل کے جناب آصف محمد، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر حفیظ الرحمٰن، جناب محمد انور کھوکھر، جناب محمد مہیب الیاسی، جناب جمشید علی اور محترمہ فاطمہ یوسف نے بحث میں حصہ لیا۔

ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عالمی ذرائع ابلاغ آج دنیا کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کی جو تصویر پیش کر رہے ہیں اس کے منفی نتائج سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں ہے اور اسلام کا ہم پر یہ قرض ہے کہ جدید ترین ذرائع ابلاغ کو اختیار کرتے ہوئے اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کی تاریخ کو صحیح شکل میں سامنے لانے کا اہتمام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کی جنگ اب یورپ میں لڑی جا رہی ہے اور یہ مادی نہیں بلکہ علمی و فکری جنگ ہے جس کے نتائج پوری دنیا پر پڑیں گے، اس لیے مسلم دانشوروں کو سنجیدگی کے ساتھ اس چیلنج کا سامنا کرنا چاہیے۔

اسلامک سنٹر برالٹن کے ڈائریکٹر پروفیسر عبد الجلیل ساجد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج انسانیت کو درپیش مسائل کے حوالے سے اسلام کو مثبت انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے اور اسلام کی خدمت کے جذبہ سے کام کرنے والے افراد اور اداروں کے درمیان رابطہ و مشاورت کا اہتمام بہت زیادہ ضروری ہے۔

مہمانِ خصوصی پروفیسر اکبر ایس احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے علماء کو آگے آنا چاہیے اور عالمی سطح پر ہونے والے بحث و مباحثہ میں انہیں ضرور شریک ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے اس نشست کے اہتمام پر انہیں بہت خوشی ہوئی اور جب بھی علماء عالمی اور اجتماعی مسائل پر بات کرتے ہیں تو انہیں بے حد مسرت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کو علم، تہذیب، آزادی اور برابری کے مذہب کے طور پر پیش کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے معاشرہ کا تنقیدی نقطہ نظر سے جائزہ لینا ہو گا اور اسلام کو پہلے اپنے معاشرہ پر نافذ کرنا ہو گا۔ آج اسلام اور پاکستان کو ایک بد اخلاق، بیمار اور بد تہذیب نظام کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو جبر و قہر کے نمائندہ کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے۔ راسخ العقیدہ مسلمانوں کو بنیاد پرست اور فنڈو کہہ کر پکارا جا رہا ہے۔ اس صورت حال کا مقابلہ جذبات کے ساتھ نہیں بلکہ عقل و حکمت کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ خالی جذبات کے ساتھ ہم سفر کا کوئی مرحلہ طے نہیں کر پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہماری نئی نسل کا ایک بڑا حصہ اسلام کے ساتھ عقیدت اور وابستگی رکھتا ہے لیکن وہ اسلام کے حوالے سے آج کے مسائل کا حل چاہتا ہے اور اس سلسلہ میں کوئی معقول پیش رفت نہ دیکھ کر پریشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر یہودی، عیسائی یا ہندو اسلام کا دشمن نہیں ہے، ان میں ایسے افراد بھی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں لکھ رہے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو اسلام کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی دعوت اور پیغام کو آج کی زبان میں جدید میڈیا کے ذریعے سے پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے حوالہ سے عالمِ اسلام کو آج جس مسئلہ کا سامنا ہے اس کا حل مسلم حکومتوں یا میڈیا والوں کے ذمہ نہیں، علماء اور دانشوروں کے ذمہ ہے اور وہی اس چیلنج کا صحیح طور پر سامنا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے حضرات کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا اور ان میں باہمی رابطہ و مفاہمت کا اہتمام ضروری ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے میڈیا سے متعلق مسائل پر بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا جائے جس میں مسلم دانشوروں اور علماء کے ساتھ ساتھ غیر مسلم ماہرین کو بھی دعوت دی جائے۔ اسی طرح ضروری ہے کہ مختلف مذاہب کے دانشوروں کے درمیان مباحثہ و مذاکرہ کا اہتمام کیا جائے تاکہ اسلام کی خوبیوں اور فوائد کو تقابل کے ساتھ سامنے لایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں میں اتحاد و یک جہتی اور باہمی مفاہمت و اعتماد کی فضا کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے طرزعمل کو ترک کرنا ہو گا۔

جناب محمد انور کھوکھر، جناب محمد جمیل، جناب سلیم مرزا اور جناب آصف محمد نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے اس سلسلہ میں اب تک کی جانے والی انفرادی کوششوں کا جائزہ لیا اور اپنے تجربات کے حوالے سے سیٹلائیٹ میڈیا کے استعمال کے لیے متعدد عملی تجاویز پیش کیں۔ جبکہ محترمہ فاطمہ یوسف نے کہا کہ مغربی میڈیا خواتین کے حقوق کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو پراپیگنڈہ کر رہا ہے اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں مستقل مذاکرہ کا اہتمام ہونا چاہیے۔

صدر مذاکرہ مولانا زاہد الراشدی نے اپنے اختتامی خطاب میں میڈیا کے ماہرین اور دانشوروں کے بھرپور اجتماع پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ اپنی اپنی جگہ اضطراب اور بے چینی کی آنچ میں جلنے والے دلوں کو ایک جگہ جمع کر کے ورلڈ اسلامک فورم نے اپنے سفر کا ایک مرحلہ طے کر لیا ہے اور اب ان دانشوروں کی تجاویز و آرا کی روشنی میں عملی کام کے لیے آگے بڑھنا آسان ہو گیا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی مسلم میڈیا کانفرنس کے سلسلہ میں پروفیسر اکبر ایس احمد کی تجویز کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے اس کے بارے میں مثبت فیصلہ کا جلد اعلان کر دیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔




ورلڈ میڈیا میں مسلم ٹی وی چینل کا قیام

لندن میں ’’وڈیو وژن انٹرنیشنل‘‘ کے نام سے ایک نیا نشریاتی ادارہ قائم ہوا ہے جو سیٹلائیٹ ٹی وی چینل حاصل کر کے عالمِ اسلام کے بارے میں خصوصی پروگرام نشر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ وڈیو وژن انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر جنرل محمد سلیم مرزا بمبئی سے تعلق رکھتے ہیں اور سیٹلائیٹ میڈیا میں انہیں خصوصی تکنیکی مہارت اور تجربہ حاصل ہے۔ انہوں نے اپنے پروگرام کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ وڈیو وژن انٹرنیشنل ایک لمیٹڈ فرم کے طور پر لندن میں رجسٹرڈ ہو گئی ہے اور یہ ایک آزاد اور خودمختار نشریاتی ادارہ ہو گا جو اسلامی تعلیمات اور مسلم کلچر سے دنیا کو متعارف کرانے کے لیے مثبت اور معلوماتی پروگرام پیش کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ ورلڈ میڈیا کے پروگراموں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو خلا اور کنفیوژن پایا جاتا ہے اسے دور کرنے کی ضرورت ہے اور وڈیو وژن انٹرنیشنل اس سلسلہ میں ورلڈ اسلامک فورم کے تعاون سے تفصیلی پروگرام مرتب کر رہا ہے جس میں دیگر تعلیمی، ثقافتی، تفریحی اور معلوماتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ ’’ورلڈ مسلم نیوز‘‘ کے نام سے عالمِ اسلام کے حالات، سرگرمیوں اور خبروں سے دنیا کو باخبر رکھنے کا مستقل پروگرام بھی شامل ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ وڈیو وژن انٹرنیشنل اردو، عربی اور انگلش تین زبانوں میں پروگرام نشر کرے گا اور ہماری پوری کوشش ہو گی کہ ابتدائی تیاری اور گراؤنڈ ورک مکمل کر کے جلد از جلد نشریات کا آغاز کر دیا جائے۔

اخبار و آثار

(جولائی ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter