مسلمان بھائی سے ہمدردی کا صلہ

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

متن حدیث

عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسم من نفس عن مؤمن کربۃ من کرب الدنیا نفس اللّٰہ عنہ کربۃ من کرب یوم القیامۃ ومن ستر مسلما سترہ اللّٰہ فی الدنیا والاٰخرۃ و من یسرعن معسر یسرہ اللّٰہ فی الدنیا والاٰخرۃ واللّٰہ فی عون العبد ما کان العبد فی عون اخیہ و من سلک طریقا یلتمس فیہ علما اسھل اللّٰہ بہ طریقا الی الجنۃ وما اجتمع قوم فی بیت من بیوت اللّٰہ یتلون کتاب اللّٰہ ویتدار سونہ بینھم الا نزلت علیھم السکینۃ وغشیتھم الرحمۃ وحفتہم الملٰئکۃ وذکرھم اللّٰہ عز و جل فیمن عندہ ومن ابطأ بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ۔ (مسند احمد طبع بیروت جلد ۲ ص ۲۵۲)

ترجمہ و تشریح

یہ بڑی مشہور حدیث ہے جو اکثر سنی اور سنائی جاتی ہے۔ اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہت سی باتیں بیان فرمائی ہیں جو حقیقت میں بے مثال جواہر پارے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص دنیا میں کسی مومن کی تکلیف کو دور کرے گا، قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کر دے گا۔ کوئی شخص بیمار ہو جائے، کسی کو کوئی حادثہ پیش آجائے یا کوئی دیگر دنیوی تکلیف میں مبتلا ہو، اور دوسرا مسلمان اس تکلیف کو ہٹانے میں مصیبت زدہ کی اعانت کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایسے شخص کی پریشانیوں، تکالیف اور مصائب کو دور فرما دے گا۔ 

آپؐ نے دوسری بات یہ فرمائی کہ جس شخص نے کسی مسلمان بھائی کی ستر پوشی کی، اس کے عیوب کو ظاہر کرنے کے بجائے پردے میں رکھا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں ایسے شخص کی پردہ پوشی فرمائے گا اور اسے رسوا ہونے سے بچائے گا۔

آپؐ کا تیسرا جوہر پارہ یہ ہے کہ جس شخص نے کسی تنگ دست پر آسانی کی، مثلاً کسی مقروض کو مہلت دے دی اس پر سختی نہیں کی، تو فرمایا اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی پیدا فرمائے گا اور اسے کسی پریشانی میں مبتلا نہیں ہونا پڑے گا۔

چوتھی بات یہ فرمائی کہ جو شخص کسی مسلمان بندے کی مدد میں ہوتا ہے یعنی ضرورت کے وقت اس کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی مشکل کے وقت مدد فرماتا ہے۔

آپ نے پانچویں نمبر پر فرمایا، جو شخص حصولِ علم کے لیے راستے پر چلا یعنی اس مقصد کے لیے سفر اختیار کیا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان فرما دیتا ہے۔ اس علم سے مراد دین کا علم ہے۔ پھر جب ایسا شخص علم حاصل کر کے اس پر عمل پیرا ہوتا ہے اور اسے دوسروں تک پہنچاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے اور وہ آسانی کے ساتھ جنت میں پہنچ جاتا ہے۔

آپؐ کا چھٹا جوہر پارہ یہ ہے کہ جب کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے ایک گھر یعنی مسجد میں جمع ہوں اور وہاں اللہ کی کتاب کی تلاوت کریں اور آپس میں پڑھیں پڑھائیں تو خدا تعالیٰ کی جانب سے ان پر تسلی نازل ہوتی ہے اور اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ کے فرشتے ان کو ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر اس مخلوق کے سامنے کرتا ہے جو اس کے پاس ہے۔ اس مخلوق سے مراد اللہ کے فرشتے ہیں جن کے سامنے اللہ تعالیٰ مسجد میں جمع ہونے والے لوگوں کی تعریف بیان کرتا ہے کہ یہ اللہ کے کلام کو پڑھنے پڑھانے والے لوگ ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے عمل کی قبولیت پر فرشتوں کو گواہ بنا لیتا ہے اور ان کو اجر عظیم سے نوازتا ہے۔

آپؐ نے ساتویں بات یہ فرمائی، جس شخص کا عمل اس کو پیچھے کی طرف ہٹائے گا اس کا حسب نسب اس کو آگے نہیں بڑھائے گا، یعنی آگے کی طرف نہیں لے جا سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ درجات کی بلندی کا دارومدار اعمال پر ہے نہ کہ نسب پر، جس شخص کے اعمال ایسے ہیں جو اس کو ذلت و رسوائی کی طرف دھکیل رہے ہیں تو اس کا خاندان خواہ کتنا بھی اونچا ہو، اس کو عزت نہیں دلا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اٹل قانون ہے کہ اگر اعمال اچھے نہیں تو نہ نسب کام آئے گا اور نہ خالی کسی اچھے آدمی کی طرف نسبت کام دے گی۔ لہٰذا ہر شخص کو اپنے اعمال کی درستگی اور فکر کی پاکیزگی کی طرف دھیان دینا چاہیے کہ اس کے بغیر نجات ممکن نہیں۔ جو لوگ محض نسب پر قناعت کر کے بیٹھ جاتے ہیں وہ کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(جولائی ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter